Social Issues
دعوت و خدمت کا ایک روشن ستارہ

دعوت‘ خدمت خلق ‘ اصلاح کی ذمہ داری امت اسلامیہ کے ہر باشعور فرد پر ڈالی گئی ۔ مسلمانوں نے ان فرائض لو بھولادیا ہے۔ ان پُر آشوب حالات میں اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے دین کی سربلندی اور خدمت کے لئے چند ایسے لوگوں کو چن لیتا ہے جو سب کے لئے مشعل راہ بن جاتے ہیں ۔
میں ایک ایسے داعی حق اور عظیم خدمت گزار کی زندگی کے روشن پہلوؤں پر مختصر مضمون لکھنے اور پیش کرنے کو اپنے لئے بعث و سعادت سمجھتا ہوں ۔ میری مراد شیخ ڈاکٹر عبدالرحمن السمیط ؒسے ہے۔آپ کی پیدائش 1947 کویت میں ہوئی۔شیخ ڈاکٹر عبدالرحمنؒ نے 1972 میں بغداد یونیورسٹی سے MBBS تکمیل کیا پھر 1974 میں Liver Pool یونیورسٹی سے
disease & digestive system Internal پر ماسٹریٹ کی بعد میں M.C Gill University Canada سے کارڈیالوجی میں اعلیٰ ڈپلوما حاصل کیا۔ تعلیم کے فراغت کے چند سالوں تک میڈیکل پراکٹس میں لگے رہے ۔انھیں دعوت ‘ خدمت خلق اور اصلاحی سرگرمیوں سے بڑی دلچسپی تھی۔وہ دعوتی کام کے سلسلے میں مختلف افریقی ممالک کا دورہ کیا۔آپ نے برآعظم افریقہ کے مختلف ممالک اور مسلم کمیونٹی کا بڑا عمیق تحقیقاتی مطالعہ کیا ۔3 ملین مربع کیلو میٹر پر محیط قارۃ الافریقہ کے تقریباً ہر ملک میں مسلمانوں کی آبادی ہے ۔ کہیں اکثریت اور کہیں بہت چھوٹی سی اقلیت میں ہیں۔ اس بر آعظم میں آج تقریباً 35 کروڑ مسلمان آباد ہیں ۔ مطالعہ میں بعض تشویشناک باتیں سامنے آئیں۔استعماری طاقتوں کے قبضے کے دور سے ہی عیسائی مشنری صدیوں سے یہاں مسلسل کام کرنے کی وجہہ سے مسلمانوں کی بڑی تعداد اسلام سے برگزشتہ ہوچکی تھی۔ نام وہی مسلمانوں جیسے لیکن ہاتھ میں بائبل اور ہر ہفتہ چرچ کو پابندی سے جایا کرتے ۔ پوچھنے پر افریقی قبائلی مسلمان بتلاتے تھے کہ یہ ہی ہمارا مذہب ہے ۔
عبدالرحمن السمیط ؒ نے 1984 میں زندگی کا ایک بڑا اہم فیصلہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو دعوت دین اور خدمت المسلمین کے لئے وقف کرنے کا تہہ کرلیا۔ وہ 35سال کی عمر میں اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ ناجیر کے ایک چھوٹے سے قصبے کو منتقل ہوگئے۔ دیہاتی طرز کا مٹی سے بنا ہوا چھوٹا سا گھانس پھونس کا مکان حاصل کرلیا۔ جہاں 24 گھنٹوں میں بجلی بمشکل 4 گھنٹے سپلائی ہوا کرتی تھی۔
افریقی غریب ممالک میں جہاں نہ کوئی سڑک ‘ نہ ریل ‘ نہ بس اور نہ کوئی سواری کا تصور۔ ناجیر کے مسلم قبائل تک پہنچنے کے لئے سینے تک ڈوب کر دریائیں عبور کرنا پڑتا تھا ۔ شیخ ڈاکٹر عبدالرحمن السمیط ؒنے دنیا کے اس پچھڑے ہوئے پسماندہ علاقے کو چنا جہاں کے تصور اور خطرات سے پُر حالات سن کر رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔
افریقی مقامی ‘ قبائلی مسلمانوں کی اس وقت کی صحیح صورت حال جان کر اور انسانی زندگی دیکھ کر انہیں حیرت اور شرمندگی بھی ہوا کرتی تھی۔ اکثر اپنے آپ سے سوال کرتے تھے کہ دعوت و تحریک کے ذمہ داروں اور کارکنوں نے دنیا کے اس اہم بر آعظم کو آخر کیوں کر بھلادیا ہے۔ آپ مرحوم داعیان الی اللہ کے سامنے کبھی کبھار تفصیلات بتلایا کرتے تھے ۔
’’اکثر مسلم قبائل میں نام تو مسلمان کے ہوتے تھے وہ مکہ اور محمد رسولؐ کے نام سے واقف تو تھے لیکن وہ یہ بتلانے سے قاصر رہتے تھے کہ مکہ کہاں ہے ۔ محمدؐ کی حیثیت ہمارے عقیدے کےمطابق کیا ہے ؟۔ وہ کوئی ایک دیو مالائی قصہ کی طرح محمدؐ کو بڑی شخصیت کے طور پر تسلیم کرتے۔ قبیلے کے سردار کے پاس بائبل ہوتی اور وہ ہر اتوار کو چرچ جاتے۔ عیسائی مشنریز یہاں تک بھی پہنچ کر مسلمانوں کو اسلام سے برگزشتہ کرنے میں بڑی زبردست کامیابی حاصل کی تھی۔ وہ جب بھی ذکر کرتے تو آب دیدہ ہوجایا کرتے تھے ‘ کہتے تھے کہ ہم نے خود ہمارے ملت کے بڑے حصے کے ساتھ بڑی نا انصافی کی ہے۔ انھیں اسلامی تعلیمات سے قریب کرنے میں ہماری بڑی مجرمانہ غفلت رہی ہے ۔
شیخ ڈاکٹر عبدالرحمن السمیط ؒ نے دعوت اور خدمت کے کاموں کے دوران ہر قسم کی تکالیف برداشت کیں۔ کئی مرتبہ انھیں مختلف افریقی ممالک میں گرفتار کرلیا جاتا‘ اکثر ایر پورٹس پران کے جانے پر پابندی تھی‘ کئی کئی ماہ قید و بند کی صحبت جھیلنی پڑی‘ کئی مرتبہ ان پر تبشری طاقتوں کی جانب سے قاتلانہ حملے ہوئے اللہ نے انھیں کئی جان لیوا حملوں میں بال بال بچالیا تھا ۔
وَإِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ لاَ يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا إِنَّ اللّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ (سورۃ العمران 3‘ آیت نمبر 120)
ترجمہ: اور اگر تم صبر اور تقویٰ اختیار کرو گے تو ان کی سازش تمہیں ذرا بھی نقصان نہیں پہنچائے گی ، کیونکہ جو کچھ وہ کرتے ہیں خدا ان کو گھیرے میں لے لیتا ہے۔
کئی مرتبہ کوبرا( سانپ) کے ڈسنے سے جسم میں زہر سرایت کرجاتا ۔جس سے مرحوم موت و زیست کی حالت میں ہوتے اور اللہ تعالیٰ انھیں کئی مرتبہ اس سے صحت بخشی ‘ ایسا بھی کئی مرتبہ ہوا کہ زہریلی مکھیوں اور دیگر زہریلے حشرات الارض کے کاٹنے سے شدید مرض میں مبتلا ہوجایا کرتے تھے۔
شیخ نے اپنی 29سالہ دعوتی و خدمت خلق کی زندگی میں 40 ممالک میں ایک مضبوط و عظیم نٹ ورک
African Muslim Agency کے نام سے تشکیل دیا ۔ ایرٹریا‘ اتھوپیا‘ زنبیا‘ انگولا ‘ زمبابوے ‘ بورکینو فاسو ‘ ناجیر‘ مالے ساؤتھ افریقہ ‘ کیمرون وغیرہ جیسے 40 ممالک میں جنگل جنگل دعوت و خدمت کے کام کا جال بچھادیا تھا ۔ آپ درجنوں اداروں کے موسیس اور مشیر خاص تھے ۔ ان کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کی خصوصی نصرت شا مل حال تھی۔ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں انھیں ختم کرنا چاہتی تھی ۔ زندگی میں ایک موقع ایسا بھی آیا تھا کہ کویت نے انھیں بار بار وارننگ دینے کے باوجود وہ اپنی سرگرمیوں سے بعض نہیں آرہے تھے۔ آخر میں ان کی کویتی شہریت Nationality کو ختم کردیا گیا تھا ۔ شاہی خاندان اور عوام میں زبردست غصے کی لہر کو دیکھتے ہوئے کئی سال بعد ان کی کویتی شہریت کو دوبارہ بحال کردیاگیا تھا ۔
آپ کے کارناموں کا ذکر کرنے کے لئے کئی بڑی بڑی جلدیں درکار ہیں ۔ اس معیار اور سطح کے کام کی خصوصی توفیق انھیں اللہ نے دی تھی ۔ شیخ ڈاکٹر عبدالرحمن السمیط ؒکے کارناموں کی اختصار کے ساتھ چند کارنامے و سرگرمیاں مندرجہ درج ہیں۔
1. | Construction of Orphanages | 9,500 |
2. | Educational Scholarships | 95,000 |
3. | Constructions of Mosque | 5,700 |
4. | Establishment of Training Centers for Womens | 200 |
5. | Establishment of Schools | 860 |
6. | Establishment of Universities | 4 |
7. | Islamic Centers | 102 |
8. | Free Distribution of Quran e Kareem, (5 Crore 10 Lakhs copies) | 51 Million |
9. | (1 Crore , 10 Lakhs) African Peoples converted to Islam at his hand | 11 Million |
ان کی خدمات اسلامی کے عوض انھیں کنگ فیصل ایوارڈ بھی دیا گیا تھا ۔ ویسے ان کا کام کسی ایوارڈ اور انعام کا محتاج نہیں تھا۔ اپنی شخصیت میں وہ ایک تحریک ‘ ایک جماعت تھے ۔
شیخ ؒ نے آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے دعوت ‘ اصلاح ‘ خدمت خلق کا عظیم کام چھوڑا ہے اگر اسے بہتر طریقہ سے سنبھالا جائے تو یہ بھی بہت بڑا کام ہوگا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمانوں کو چاہیئے کہ شیخ ؒ کو اپنا ایک رول ماڈل بنائیں اور زندگی کو اللہ کی رضا کے لئے وقف کردیں ۔
لوگ غیر اقوام نصرانیوں کے کوئی بابا ‘ کوئی مدر ‘ کوئی بردار ‘ نن اورسوامی واچاریہ کے کاموں کی مثالیں دیتے ہیں۔ دنیا کا بڑا سے بڑا مذہبی رہنما ان کی خدمات کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔شیخ ؒ کسی دوسری قوم کی جہالت ‘ غربت دور کرنے انھیں تعلیم کے ذریعے کفر و گمراہی سے نکال کر راہ راست پر لانے کے لئے جو کامیاب کوشش کی جو مثال چھوڑی وہ قابل تقلید ہے دنیا کے عظیم نعمتوں میں ایک نعمت دعوت اور خدمت کی توفیق کو قرار دیا کرتے تھے۔ آپ کے اصل ایجنڈے کے ترجیحات میں Food, Shelter, Clothing, Education اسلامی تعلیم تربیت اور دعوت الا اللہ شامل تھا ۔
آج ہمارے درمیان جو دعوتی حلقے یا مسلم والنٹری آرگنائزیشنس MVO’s‘ رضا کار فلاحی و رفاہی ادارے چھوٹے بڑے پیمانے پر اپنے اپنے طور پر کام کر رہے ہیں انھیں اکمل و اجمل Holistic Approach اختیار کرنا چاہیئے ۔ زندگی کے ہر اہم میدان میں مسلمانوں کو آگے بڑھانے میں مدد کریں تا کہ ہدایت و امید کی کرنیں ان کی زندگی میں پھوٹ پڑے ۔ ان کی انفرادی و اجتماعی ترقی اور دنیا و آخرت کی فلاح کے لئے جدوجہد کرنا ہمارا فریضہ ہے۔
شیخ ؒنےسلامتی ‘ حسنات‘ خیر ‘ بر و برکات کے ایسے پروجیکٹ اپنے پیچھے چھوڑے ہیں جسے دیکھ کر ایمان تازہ ہوجاتا ہے ۔ شیخ کا انتقال اگسٹ 2013 میں کویت میں ہوا۔ آپ کے کے انتقال کی خبر سنتے ہی افریقہ میں کوئی ایسا مسلمان نہیں تھا جس کی آنکھوں سے آنسو نہ بہے ہوں۔ دعاؤں کے لئے لاکھوں ہاتھ اٹھے ‘ مسجدوں میں مغفرت اور قبولیت کے لئے رقت آمیز دعائیں کیں گئیں۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الخلد میں نبین‘ صدیقین ‘ شہدا کی صحبت میں جگہ عنایت فرما۔ اور ہمیں ان کے نقش ِ قدم پر مضبوط نظم کے ساتھ عصری بنیادوں پر پروجکٹس قائم کرنے اور چلانے کی توفیق عنایت فرما۔ ما علینا الاالبلاغ
Social Issues
غزہ کے مقتل سے اجتماعی اخلاق کی روشن کرنیں !

بسمہ تعالیٰ
غزہ کے مقتل سے اجتماعی اخلاق کی روشن کرنیں !
از: ناظم الدین فاروقی
NPA DOC No : 0169
Dated: 29-10-2023
اقوام متحدہ کی جانب سے اسرائیل ‘ حماس جنگ بندی قرارداد منظور کرنے کے باوجود اسرائیل اور امریکہ اس بات پر مصر ہیں کہ حماس کے خاتمے کے نام پر غزہ کا ہی صفایا کردیا جائے۔ ابھی بھی اسرائیلی افواج جس کی کمانڈ امریکی جنرل نے سنبھالی ہے ۔ مسجد اقصیٰ میں نمازوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے ۔ جمعہ کی نماز کی بھی اجازت نہیں دی گئی ۔ جب اسرائیلیوں کو کھلے مسجد کے احاطے میں جمع ہونے کی اجازت دے دی گئی ہے ‘ اس سے مسلمانانِ عالم میں مزید تشویش کی لہر دوڑ گئی ۔
بار بار غزہ کے اندر کئی کیلو میٹر تک گھس کر زمینی حملے کئے جارہے ہیں ۔ قطر اور ترکی اپنی ثالثی کی سفارتی حتی المقدور کوشش میں جٹ گئے ہیں ۔ انٹرنٹ ‘ فون سرویس سب کچھ غزہ کا منقطع کردیا گیا ہے ‘ اسی دوران القسام بریگیڈ نے پھر سے اسرائیل کے مختلف شہروں پر ڈرون حملوں کو تیز کردیا جس سے اسرائیل کا کئی سو بلین کا نقصان ہورہا ہے ۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ جنگ کو طوالت دے کر القسام بریگیڈ کے پاس موجود تمام اسلحہ کو بروئے کار لا کر جمع شدہ اسلحہ کا اسٹاک ختم کروادیں اور پھر چند کیمیکل بمس کے ذریعہ قیامت برپأ کردی جائے اور خالی شدہ شہر کو بآسانی قبضہ میں لے لیں ۔ جب سیول سپلائیز کی اجازت مانگی جارہی ہے تو اسرائیل کا کہنا ہے کہ غزہ میں ایندھن ‘ غذا ‘ پانی بہت کچھ ہے وہ ختم نہیں ہوا۔ جمعہ کی رات سے اسرائیل نے بلا کسی تحقیق کے غزہ کے تمام ہی علاقوں پر بے تحاشہ بمباری شروع کردی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ساری دنیا کہ تمام بین الاقوامی پلیٹ فارمس اور ادارے مکمل طور پر اسرائیل و امریکہ کو جنگ بندی کے لئے راضی کروانے میں ناکام نظر آتے ہیں ۔
اکنامسٹ لندن نے اپنے 27؍ اکٹوبر 23 کے شمارے میں Lexington نے لکھا کہ جو بائیڈن کے لئے اسرائیل کی حمایت سخت ترین امتحان سے گزر رہی ہے ‘جو بائیڈن نے رمضان مئی ؍2021 میں غزہ و اسرائیل کی جنگ میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی تھی جس کا خمیازہ اب انھیں اسرائیل کی اندھی تائید کی شکل میں پیش کرنا پڑرہا ہے۔معصوم عوام کے قتل عام کا لائسنس اسرائیل کو دے دیا گیا ہے ‘کیمیکل ہتھیار کے استعمال کا یہ تجربہ پہلے ہی شام کے حلب و حمأAlepo جیسے علاقوں میں کیا جاچکا ہے ۔ اس وقت بھی دنیا خاموش تماشائی بنی دیکھتی رہی ۔ اب اگر غزہ میں ان کیمیکل ہتھیاروں کا استعمال ہوگا تو بھی اس بات کا قوی امکان ہے کہ دو‘ تین دن میڈیا میں ہنگامہ کے بعد سب کچھ اضطراب آمیز سکون میں بدل جائے گا اور پھر ایک مرتبہ فلسطین و بیت المقدس کی آزادی کا مسئلہ سرد خانے میں ڈال دیا جائے گا۔
امریکہ اور اسرائیل فلسطین کی آزادی کے مسئلہ کو پڑوسی عرب ممالک کے ترقیاتی پروجکٹ کا بڑے پیمانے پر پروپگنڈہ کرتے ہوئے معصوم نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے مظلوم و معتوب فلسطینی عوام کی آواز کو کچلنا چاہتے ہیں ۔ جس طرح روینڈا ‘ بوسنیا ‘ عراق ‘ افغانستان ‘ شام ‘ یمن ‘ لیبیا میں بے گناہ معصوم اقوام کے مسلسل قتل عام کا کوئی جواز نہیں تھا ٹھیک اسی طرح آج غزہ میں بھی نسل کشی در نسل کشی کا وقفے وقفے سے چکرا چلایا جارہا ہے ۔ 1994 میں یاسرعرفات اور وزیر آعظم اسرائیل اسحق راہن‘ بل کلنٹن کے درمیاں ہونے والے اوسلو معاہدے کے بعد سے اب تک 30 سال کا عرصہ گزر گیا ۔ اس دوران کوئی رات اور دن ایسا نہیں گزرا جس میں فلسطینیوں کی گرفتاری ‘ قتل یا ان کے مکانات اور علاقوں سے انھیں بے دخل نہیں کیا گیا ہو ۔ گزشتہ 21 دنوں میں سے مغربی پٹی میں فلسطینیوں کے گھروں کو شعلہ پوش کرتے ہوئے ‘ مستوطنین Settlers و پولیس کے حملوں میں 100 سے زیادہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں ۔
بڑی طاقتوں کی ظلم و بربریت پر دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے ۔ ایک حصہ ظالم کے تائید اور ہاتھ مضبوط کرنے میں لگا ہوا ہے دوسرامظلومین کی آواز بن کر امریکہ و اسرائیل کے بربریت کی شدید مذمت و مخالفت کر رہا ہے ۔ امریکہ کی انسانی ہمدردی اور انسانی حقوق کے قواعد و قانونی تشریحات دنیا سے بالکل مختلف ہے ۔
سیکوریٹی کونسل میں روس اور چین کے ویٹو کرنے کے باوجود امریکہ و اسرائیل جنگ حسب معمول جاری رکھے ہوئے ہیں اوروقتی طور پر جنگ بندی کا معاملہ طوالت میں پڑ گیا ہے۔ اقوام متحدہ میں 120 ممالک نے جنگ بندی کی قرارداد منظور کی لیکن اسرائیل و امریکہ اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔مسلم ممالک کا آپسی عدم اتفاق عربوں کی مایوس کن سرد مہری میں صرف مٹھی بھر مسلم ممالک ڈٹ کر حماس کی تائید میں کھڑے ہیں۔
Miko Peled ایک مشہور انسانی حقوق کے جہد کار اور نامور یہودی مصنف ہیں ‘ ان کے والد اسرائیلی فوجی جنرل تھے ۔ یہودیوں کے مظالم پر دو اہم کتابیں Injustice اور General’s Son تصنیف کی ہیں ۔ انھوں نے میڈیا میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوج دنیا کی بہترین تربیت یافتہ عصری ٹکنالوجی سے لیس اسلحہ کے ساتھ انتہا ئی منظم دہشت گرد ریجمنٹ ہے ۔ ان کا مقصد و نصب العین سوائے دہشت گردی کے سوائے اور کچھ بھی نہیں ہے ‘ مسٹرمیکو نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ 2008 کی 21 دن کی جنگ کے پہلے دن صبح ٹھیک 11 بجے دن جب کہ اسکول کی پہلی شفٹ ختم ہو کر 12 بجے دوسری شفٹ شروع ہوئی تھی اسرائیل نے کارپیٹ بمبنگ کرتے ہوئے 100 ٹن بم برسادیئے ‘ دوسرے عوام کے ساتھ ان کا سلوک اس طرح کا وحشیانہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے لبرزم کا مکھوٹہ پہنے ہوئے ہیں ۔
پہلی مرتبہ بڑے پیمانے میں یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ اسرائیلی یہودیوں کی بڑی تعداد جس میں حاخامات ( یہودی مذہبی پیشوا) بھی شامل ہیں ۔ فلسطینیوں کو مکمل آزادی دینے کی عالمی سطح پر چلائی جانے والی مہیمات میں کھل کر حصہ لے رہے ہیں ‘ ایک مذہبی پیشوا نے کھلے عام اسلام بھی قبول کرلیا ہےخود اسرائیل کے اندر پہلی مرتبہ فلسطین کی تائید میں کئی شہروں میں بڑے مظاہرات دیکھے گئے۔
غزہ جیسے گنجان آبادی والے شہر پر جہاں کلسٹر و فاسفورس بموں کی ہر لمحہ بارش ہورہی ہے ۔ 15 ہزار مکانات نست و نابود ہوچکے ہیں ‘ جہاں موت کے فرشتوں کا ہجوم ہر گلی ‘ کوچے اور ملبے معصوم لختِ جگر کے لہو اور معصوم بچوں ‘ والدین کے آنسوؤں سے لبریز ہیں ۔ کفنانے ‘ نمازِ جنازہ اور دفنانے کے لئے تڑپتے معذور ‘ زخمی لواحقین منتظر ہیں‘ میتوں کو غسل دینا تو دور کی بات ہے کفنانے کے لئے کفن دستیاب نہیں ہے ‘ ملبے میں دبے ہزاروں لاشوں کو نکالنا نا ممکن ہوگیا ہے‘ اس جنگی صورت حال میں غزہ کے معاشرے کی اعلیٰ اخلاقی قدروں ‘ تہذیب و تمدن کو دیکھ کر دنیا حیرت زدہ ہے کہ 3 ملین کی آبادی کے بچوں ‘ بڑوں ‘ امیر ‘ غریب ‘ مریض و ڈاکٹر کو آخر کس نے اخلاق حسنہ و اخلاق کریمہ سے مزین کیا ہے ۔
’’الغد‘‘ عربی ٹی وی چیانل کے نامہ نگار کے تفصیلی انکشافات نے دنیا کو پھر ایک مرتبہ حیرت میں ڈال دیا۔ رپورٹر نے جو تفصیلات پیش کیں اختصار کے ساتھ یہاں درج کیا جاتا ہے ۔اغوا ٔ کردہ دو عمر رسیدہ ضعیف یہودی خواتین کی قید میں جس طرح خدمت اور حسن سلوک حماس کے کارکنوں نے کی تھی ان کا پریس کے سامنے برملا اظہار کرتے ہوئے ان کے اخلاق کی تعریف کی اور شکریہ ادا کیا اس پر اسرائیل اور انتہا پسند یہودی چراغ پا ہوگئے اور دشمنانِ اسلام پر سانپ لوٹ گیا۔
7 لاکھ سے زیادہ مرد و خواتین ‘ جوان بچیاں اور معصوم بچے بالکل بے گھر ہوچکے ہیں ۔جہاں سر چھپانے کے لئے ریلیف کیمپس میں ایک رات بھی نہیں گزارتے اسرائیلی جٹ بمبار پناہ گزیں کیمپ پر جیسے اسلامی یونیورسٹی میں30 سے زیادہ مساجد اور 200 سے زیادہ مدارس پر بمبنگ کرکے خون کی ندیاں بہا کر ابدی نیند سلا دیتے ہیں۔18؍ اکٹوبر 23 کوہمدانی عیسائی ہاسپٹل پر جہاں ڈاکٹروں ‘ پیرا میڈیکل اسٹاف جو خدمات طبی پر مامور تھے اور اس کے علاوہ مریضوں اور اُن کے رشتہ دار جو اس ہاسپٹل کے سائے میں پناہ لئے ہوئے تھے بمبنگ کرکے ایک ہزار سے زیادہ معصوم ‘ بے گناہ عوام کو ایک لمحہ میں موت کے آغوش میں ڈھکیل دیا۔اس بدترین نسل کشی پر دنیا میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑاٹھی اس پر پھر ظالم ‘ وحشی اسرائیل و امریکہ کا جھوٹ پر جھوٹ کہنا ہے کہ القسام بریگیڈ کے راکٹوں کے غلط رُخ پر داغنے سے یہ ہلاکتیں ہوئیں ۔ اس کی پول تو کئی بڑے میڈیا ہاؤز نے کھول دی ۔ نیو یارک ٹائمز نے بھی اس جھوٹے مفروضے کو ردّ کرتے ہوئے اسرائیلی بمبارنمنٹ کا دلیل کے ساتھ جواز پیش کیا ۔بمباری میں کئی زچہ ہلاک ہوئے اور اُن کے سیکڑوں بچے معجزاتی طور پر بچ گئے ان نومولود شیر خوار بچوں کے علاوہ موذی مرض سے متاثرہ شریک ہسپتال مریضوں کے لواحقین کی اموات کی وجہہ سے ان کی دیکھ بھال ایک بہت بڑا چیلنج تھی ‘ بجلی اور ایندھن کی مسدودی سے کئی ہسپتال نے کام کرنا بند کردیا تھا لیکن بڑی حُسن و خوبی سے خودعوام ان کی بہتر نگہداشت کر رہے ہیں۔
سونے کے لئے غزہ کے تباہ حال بے گھر شہریوں کو 15 تا 18 گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے ۔ بھوکے ‘ پیاسے نیند کے لئے شدید بے قرار لوگ قطار بنا کر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں ۔ کئی تو سڑکوں پر بیٹھے بیٹھے اپنی نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں ۔ لیکن کوئی بھی سونے والے افراد کو نیند پورا ہونے تک ہر گز نیند سے بیدار نہیں کرتا۔
مصیبت زدہ لوگوں کے لئے کوئی علیحدہ بیت الخلا نہیں بنائے جاتے ‘غزہ کے تمام شہری اپنے گھر چوبیس گھنٹے کھلے رکھتے ہیں جہاں مرد و خواتین ‘ بچے کسی بھی گھر میں جاکر اپنی حاجت پوری کرتے اس طرح متاثرین کے لئےاہتمام ہر محلے اور بستی میں عام ہے‘ شیر خوار بچوں کے لئے دودھ گرم کرنے سے لے کر دودھ پلانے ‘ کپڑے بدلنے ‘ تیار ہونے کے لئے بطور ’’ضیوف الرحمان‘‘ (اللہ کے مہمان )بڑی خندہ پیشانی سے گھر گھر ان کی خوش آمدید کی جاتی ہے اور خدمت میں بچے ‘ عورتیں ‘ بوڑھے سب لگے ہوئے ہیں ۔
جنگ زدہ علاقوں میں لوٹ مار ‘ ڈکیتی ‘ چوری ‘ میتوں پر سے زیورات چرا لینے اور ملبے سے قیمتی اشیا کا سرقہ کرنے کی عام طور پر ایسی افراتفری کی صورت حال دیکھی جاتی ہے۔ غزہ کا جنگ زدہ شہر کرۃ الارض پر اپنی ایک منفرد خصوصی شناخت بنانے میں کامیاب ہوگیا ۔غزہ میں کہیں کوئی چوری نہیں ہوتی۔ کئی ایسے سوپر مارکٹس بھی ہے جو جزوی طور پر بمباری میں تباہ ہوگئے ہیں ۔ سامان بھرا ہونے کے باوجود مجال ہے کہ کوئی بھوک اور پیاس سےتباہ حال شخص دوکان میں کوئی سامان حتیٰ کہ پینے کے پانی کی بوتل بھی اٹھالے جائے ‘ جب کہ ایک ایک بوند اور چمچہ پانی کے لئے آبادی کا بڑا حصہ پیاس سے ترس رہا ہے ۔ عام لوگ قطار بنا کر ان تباہ شدہ دکانوں میں داخل ہو کر ضرورت کا سامان ملبے کے باہر بیٹھے مالک ِ دوکان کے کسی عزیز کو اس کی قیمت ادا کرکے ہی خرید شدہ سامان لے جاتے ہیں۔ (وہاں کے علما ٔ ‘ مصلحین اور دینی حلقوں بالخصوص والدین کو سلام کرنا چاہیئے)۔
غزہ کے سیاست دان اور انتظامیہ کے عہدہ دار اور ملازمین بڑے ہی دیانت دار لوگ ہیں۔ بدعنوان لوگوں کا جرم ثابت ہوجائے تو کورٹ مارشل کیا جاتا ہے ان کی دیانت داری دیکھیں تو خلفہ راشدین کا عہد یاد آتا ہے۔
صدر غزہ پارلیمنٹ مسٹر یحییٰ سنوار نے 17 سال اسرائیل جیل میں قید کی زندگی گزاری نہ ان کے پاس ان کوئی ذات گھر ‘ ذاتی کاروبار ہے ۔ صرف سال میں دو جوڑے کپڑوں میں زندگی بسر کرتے ہیں ۔ اسرائیل نے کئی مرتبہ انھیں ہلاک کرنے کے لئے بمباری کی وہ ہمیشہ بچتے رہے ۔ اخلاص ‘ صداقت ‘ دیانت داری کوٹ کوٹ کر عوام میں بسی ہوئی ہے ۔
کسی اسکولی طالب علم سے اگر نصرت اور فتح کے ممکنات و اُمید کے سلسلے میں جب دریافت کیا جاتا ہے تو اُن کی آنکھوں میں روشنی آجاتی ہے اور اتنے پُر عزم اور حوصلہ مند نظر آتے ہیں اور ایک جملے میں ’’نحن و منصورون‘‘ ( ہم ہی فتح یاب ہونے والے ہیں) عام طور پر سن سکتے ہیں ۔ انھیں اس بات پر مسرت ہے کہ وہ ابنائے خالد بن ولید ؓ ‘ صلاح الدین ایوبی ؒ و عز الدین قسام شہیدؒ قرار دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ 3 ملین والی آبادی والے شہر میں کوئی پولیس نام کا شعبہ نہیں ہے ۔ غزہ کے 40 ہزار سرکاری ملازمین ہیں جو زیادہ تر صحت ‘ تعلیم‘ عدلیہ اور بلدیہ کے وزارتوں میں معمور نہیں ۔ اس وقت حماس کے لئے اندرونی مصائب اور مسائل بھی بڑے چیالنجس سے کم نہیں ۔ اب تک 2 ہزار سے زیادہ بیوائیں اور 8 ہزار سے زیادہ بچے یتیم ہوچکے ہیں ان سب کی بہتر انداز میں دیکھ بحال کے لئے حماس کا انتظامیہ پوری طرح مستعد و متحرک نظر آتا ہے ۔
Total No of Words: 2,247
Release on : 29-10-2023
Social Issues
مسئلہ فلسطین کا سفارتی و سیاسی حل نکالنے میں ہماری عدم دلچسپی!!

بسمہ تعالیٰ
مسئلہ فلسطین کا سفارتی و سیاسی حل نکالنے میں ہماری عدم دلچسپی!!
از: ناظم الدین فاروقی
NPA DOC No : 01688
Dated: 22-10-2023
7؍ اکٹوبر سے غزہ میں حماس اسرائیل جنگ جاری ہے فلسطینی کی تمام سرحدوں کو مقفل کرتے ہوئے پانی ‘ بجلی ‘ غذا ٔ کی سربراہی کو مسدود کردیا گیا ۔5 ہزار سے زیادہ معصوم بچے ‘ عورتیں ‘ بوڑھے اور نوجوان اسرائیل کی وحشیانہ بمبنگ میں جام شہادت پا چکے ہیں ۔ 30 ہزار سے زیادہ شدید زخمی ہیں ‘ معمدانی اسپتال پر بمبنگ سے ایک ہی وقت میں ایک ہزار معصوم لوگ ہلاک ہوچکے ہیں ۔ 10 ہزار سے زیادہ مکانات بمبنگ میں کھنڈر ہوچکے ہیں ۔جس طرح پہلے 40 بچوں کے سر قلم کرنے کا ساری دنیا میں جھوٹا پروپگنڈہ کیا گیا ٹھیک اسی طرح معمدانی ہاسپٹل پر حماس کے راکٹ کی غلطی سے حملے کی جھوٹی خبریں میڈیا میں عام کی جاتی رہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ ساری دنیا غزہ کی جنگ کئی حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے ۔ عیسٰی و موسیٰ کے آپسی اتحاد نے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ نہ صرف طاقتور ظالم و مظلوم کی جنگ ہے بلکہ عالمی اتحاد کی ایک نوعیت مذہبی بھی ہے ۔ صیہونی طاقتوں کے اثر ورسوخ اور 7 گریٹ پر گرفت کا عالم یہ ہے کہ ایک کروڑ سے بھی کم آبادی والے ملک کی حوصلہ افزائی اور ظالمانہ کارائیوں کی پشت پناہی کے لئے بلا کسی تاخیر کے پہلے امریکہ نے F35A جیسے خطرناک جٹ بامبروں سے لدے بحری بیڑے کو غزہ کے ساحل پر بھیج کر خود صدر جو بائیڈن نے تل ابیب پہنچ کر اپنے کھلے عام ظالم صیہونی مملکت اسرائیل کی صیانتی و دفاعی کئی بلین کی امداد بھی فوری پہنچادی ۔ ابھی صدر بائیڈن امریکہ لوٹے بھی نہیں تھے کہ برطانیہ کے وزیر آعظم رشی سونک معہ امدادی سازو سامان کے ساتھ تل ابیب پہنچ گئے ۔ جب کہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ کس طرح نہتے فلسطینیوں کو ایک چھوٹے سے شہر میں محصور کرکے پانی کے ایک ایک قطرے ‘ بوند کو ترسا کر بڑے پیمانے پر لیل والنہار اسرائیلی اپنے وحشیانہ بمبنگ کے ذریعے بے قصور نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے ۔
امریکی صدر جوبائیڈن کی وزیر آعظم نتن یاہو کی ملاقات کے بعد 4 اہم ملکوں مصر ‘ اردن ‘ سعودیہ عربیہ ‘ قطر سے ملاقات کا ارادہ تھا لیکن ان ممالک نے سرد مہری کا اظہار کیا ۔وزیر خارجہ بلنکن کو ریاض میں اپنے سفارتی دورہ کے موقع پر محمد بن سلمان سے کافی اہانت کا سامنا کرنا پڑا ۔ پہلے چوبیس گھنٹے محمد بن سلمان نے امریکی وزیر خارجہ کو دن بھر انتظار میں بٹھا دیا اور رات دیر گئے بھی ملاقات نہیں کی بلکہ دوسرے دن امریکی خارجہ کو ملاقات کا موقع دیا ۔ اس پر سفارتی حلقوں میں محمد بن سلمان کے غیر متوقع کم درجے کے سلوک پر کافی مباحث ہورہے ہیں ۔
طوفان الاقصٰی کے عبقری ‘ عسکری ناقابل یقین بجلی کی طرح شاطرانہ کاروائیوں کے بعد سے تمام بڑی عالمی طاقتیں ابھی تک سخت صدمے میں مبتلا ہیں ۔ اسرائیل کی مخابرات اور سیکریٹ جیسے امان ‘ موساد اور کٹسا جیسے خطرناک ادارے رکھنے والے ملک کو خاک چاٹنی پڑی ۔ اس دوران تین بڑی کانفرنسیس خلیجی کونسل ‘ عرب لیگ اور رابطہ عالم اسلامی OIC کی تین بڑی کانفرنس منعقد کی گئیں۔ تینوں کانفرنسوں کی قراردادیں جو دنیا کے سامنے آئی ہیں اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہمیشہ کی طرح نشست ‘ گفت ‘ برخواست کے علاوہ کوئی خاص ٹھوس غیر معمولی مضبوط قراردادیں منظور کرنے میں یہ تینوں کانفرنس ناکام رہیں ۔ OIC اپنے قیام ستمبر 1969 سے ہی تمام مسلم ممالک کا اقوام متحدہ کے بعد سب سے بڑا ایک وفاق ہے لیکن اسے ایک کافی کلب سے بڑھ کر کبھی با اختیار ادارہ بننے نہیں دیا گیا اور کوئی اہم بڑے فیصلے لیتے ہوئے جاری عالم اسلام کے کسی بھی المیہ کو روک لگا نے میں یہ ہمیشہ ناکام رہا ۔ اس کی بڑی وجہہ یہ رہی OIC بھی عالمی بلاک کی طرح کئی بلاکس میں تقسیم رہا ۔ سویت یونین کے زوال کے بعد 7 گریٹ استعماری ممالک کے ہمنوا بن کر آج بھی عرب و مسلم ممالک آپسی تضادات کا شکار ہیں ۔ OIC کی تاریخ میں سوائے مالی امداد اور دو طرفہ ذومعنی صحافتی بیانات کے کوئی بڑا اہم ٹھوس اقدام کرتے نہیں دیکھا گیا ہے جس سے کسی مسلم ملک یا مسلمانان عالم کے مقابل کا حل نکلا ہو یا پھر اندرونی جاری خانہ جنگی گزشتہ 35 سالوں میںعالمی استعماری طاقتوں کے بے جا مظالم میں کمی واقع ہوئی ہو ۔
یہ بات ہمیں تسلیم کرنی پڑے گی کہ OIC افغانستان ‘ عراق ‘ شام ‘ لبنان ‘ سوڈان ‘ لیبیا ‘ صومالیہ ‘ نائجیریا ‘ بوسنیا کے تباہ کن ‘ بدترین حالت میں اپنا کوئی موثر رول ادا کرنے میں ہمیشہ ناکام اور پیچھے رہا ۔
فلسطین اور مسجد الاقصیٰ کی آزادی کا مسئلہ 75 سال سے چل رہا ہے ۔ مسجد الاقصیٰ کے علاوہ مغربی پٹی ‘ غزہ اور داخلی اسرائیل میں فلسطینیوں پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے ۔ رابطہ عالمی اسلامی اگر اپنے مطالبات میں صرف اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 1948/181 اور بعدUNO کی 200 سے زیادہ منظور کردہ قراردادوں کی پاسداری کا متحدہ طور پر پُر زور مطالبہ کرتے ہوئے اسے نافذ کر کرانے میں کامیاب ہوجاتی تو آج مقبوضہ فلسطین میں فلسطینی عوام کی اتنے بڑے پیمانے پر آج یہ نسل کشی نہ ہوتی ۔
ایک قابل تحسین بات یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ تمام عرب ممالک نے متحدہ طور پر یہ بات بڑی ہی پُر زور طریقہ سے رکھی کہ کسی بھی صورت میں فلسطینی متاثرین کا انخلأ نہیں ہونا چاہیئے ‘ اردن اور مصر نے کہہ دیا ہے کہ ہم کوئی بھی فلسطنی مہاجر کو قبول نہیں کریں گے کیوں کہ اسرائیل کی ہمیشہ سے یہ خطرناک پالیسی رہی ہے کہ دم دُمار کے ذریعے فلسطینیوں کو پہلے بے گھر کیا جاتا رہا پھر نہتے فلسطینی خاندانوں کو سرحد پار لبنان ‘ اردن ‘ مصر میں ڈھکیل دیا گیا اور بعد میں اسرائیل مہاجرین کو اپنے آبائی وطن لوٹنے پر سخت پابندی عائد کرتے ہوئے انھیں بیرونی شہری قرار دیا کرتاہے۔ تجربات کی بنیاد پر یہ حکمت عملی اختیار کی گئی ہے جسے حماس کی بھی تائید حاصل ہے ۔اردن کا کہنا ہے کہ پہلے ہی 60 لاکھ فلسطینی پناہ گزینوں کا ہم بوجھ اٹھا رہے ہیں اور اسرائیل انھیں اپنے آبائی مقام جانے پر اسرائیل میں سخت پابندی عائد کر رکھا ہے ۔
تقریباً 22 مسلم ممالک نے اسرائیل سے اپنے تعلقات ’’ ابرھیمی امن معاہدے ‘‘ کے عنوان سے استوار کرلئے ہیں۔اردن اور مصر تو 50 سال پہلے اپنے سفارتی تعلقات بحال کرچکے تھے ۔ امارات اور بحرین نے توحدیں پار کردیں ۔ خلیجی عرب سیادت کے بے بصیرتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل جیسا اسلام و مسلم دشمن ظالم ملک جس کی سرحدیں آپ کے ملک سے نہیں ملتیں ہیں اور اس کا نہ وہ پڑوسی ملک ہے اور نہ ہی اس کے رحم و کرم پر ان ممالک کی معیشت اور ترقی کا کبھی انحصار رہا ہے ۔ اللہ نے انھیں تیل کی دولت سے مالا مال کر رکھا ہے ۔ امارات ‘ اسرائیلی یہودیوں کو پاسپورٹ جاری کرتے ہوئے انھیں دوہری شہریت دی جارہی ہے یہ مالی طور پر طاقتور مسلم عرب ممالک ان تمام معاہدات کے وقت اگر یہ شرط رکھتے کہ فلسطین اور مسجد الاقصیٰ کو پہلے مکمل آزاد کیا جائے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق دو قومی نظریہ کے تحت معاہدات کی تمام شقیں بحال کی جائیں ۔ تو پھر ہم کسی بھی قسم کے امن معاہدے کے لئے تیار ہیں؟ ۔ مقدس سرزمین فلسطین کے فلسطینی مستوطنین کو تو ایک پاسپورٹ بھی جاری نہیں کیا گیا بلکہ50 ہزار سے زیادہ یہودی مستوطنین Settler کو اپنے ملک کا اعزازی شہری بنادیا گیا۔
سعودی عربیہ نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کی تیاری کرلی ہے اور اسرائیلیوں کو مذہبی تجارتی اور تفریحی ویزے دینے کا اعلان کیا ہے ۔ اطلاعات کے مطابق نبی کریمؐ نے دور میں جن جن علاقوں میں یہودی بستیاں تھیں وہاں حاخامات (یہودی مذہبی پیشوا ) نے آکر بطور یادگار کے پودے لگائے ہیں ۔ اس میں اتنی عجلت کی ضرورت کیا تھی کہ ایک کروڑ فلسطینیوں کے مسائل کو ترجیحی دی جاتی تو آج یہ صورت حال نہیں ہوتی ایران نے OIC کے 18؍ اکٹوبر کے حالیہ اجلاس میں ایک وزن دار تجویز رکھی تھی جس پر کسی نے بھی ایران کے مطالبہ پر کان نہیں دہرا ۔ اس کا کہنا تھا کہ مسلم ممالک اپنے اپنے ممالک سے اسرائیلی سفیروں کو خارج کرتے ہوئے فوری ان کے سفارت خانے بند کردیں ۔ اگر یہ تجویز قبولکرلی جاتی تو مسئلہ کے حل میں ایک قدم پیش رفت ہوتی تھی اور اگر ایسا ہوتا تو بہت دباؤ اسرائیل اور امریکہ پر پڑتا۔ سعودی عربیہ نے OIC کے دوران کانفرنس حماس کے متعلق کسی بھی تنقید سے اجتناب کیا لیکن فوری د دن بعد ایک سینئر پرنس نے اسرائیل کے ساتھ ساتھ حماس پر بھی جم کر پھٹکار لگائی اور دل بھر کر برا بھلا کہہ دیا ۔ عرب ممالک میں سلفی علما کی ایک اچھی خاصی تعداد نے حماس کے خلاف کفر کے فتوؤں کی دوکانیں سجادیں انھیں یہودیوں کے ایجنٹ ‘ کافر زندیق خوارج قرار دینے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کر رہے ہیں۔ مسئلہ فلسطین کے ایک طرف گہ گیا حماس کو ملعون قرار دینے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے ۔غزہ کے نوجوان شیخ محمود الحسنات (جن کے 18 افراد خاندان 15؍ اکٹوبر کو شہید ہوگئے )نےاپنے بیان میں کہا کہ 22 عرب ممالک اسرائیل کے خوف سے لرزے جارہے ہیں جب کہ اللہ نے ہمیں نصرت دی بغیر کسی عصری ہتھیار اور رسمی فوج کے ہم نے انھیں شکست خوردہ کردیا تو ہمارے بھائیوں کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیئے ۔
شیخ احمد یاسین ؒ نے 1987 میں جب حماس تحریک کی بنیاد ڈالی تھی تو اس کے پیچھے یہ نظریہ کارفرمان تھا کہ بیت المقدس اور ارض فلسطین کی آزادی اور تحفظ کی پہلی ذمہ داری فلسطینی اسلامی قیادت پر ہے ۔ یہ امت کا فرض کفایہ ہے کہ ہم بیت المقدس کو آزاد کرائیں ‘ دنیا کے تمام معاہدے سیاسی مفاہمتیں ‘ وعدے نہ صرف کھوکھلے ثابت ہوتے ہیں بلکہ امن معاہدہ کے نام پر معصوم فلسطینی عوام کو ان کی اراضیات سے مسلسل بے دخل کرتے ہوئے مستوطنینSettler کو بسایا جارہاہے ۔
یاسرعرفات بھی امریکہ کے شدید دباؤ میں اسرائیل کے ساتھ اوسلو امن معاہدہ 1994 میں دستخط کرنے کے لئے مجبور ہوگئے تھے ‘زبردستی الفتح کو اس بات کے لئے راضی کروالیا تھا کہ وہ مغرب پٹی میں واپس لوٹ کر اپنی آزادی کی داخلی لڑائی لڑیں گے۔اس وقت سارے عرب ممالک نے اس پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا تھا کہ یاسر عرفات خود ساختہ طور پر خود تنہا معاہدہ پر دستخط کرنے کی حماقت کر بیٹھیں ہیں انھیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
اسرائیل نے ان 75 سالوں کے دوران مسلسل تین فلسطینی نسلوں اور ان کی قیادت کا مکمل خاتمہ کردیا اور ہمیشہ یہ تصور کرتے رہے کہ فلسطینی تحریکات کا ہم نے ہمیشہ کے لئے صفایا کردیا جو ان کی سونچ سے بڑی غلطی تھی ۔ شیخ احمد یسین کی شہادت کے 20 سال بعد بھی آج حماس اس سے زیادہ مضبوط اورطاقتور فعال ہے ‘ ایسا معرکہ کر ڈالا جسے تاریخ میں لکھا جائے گا۔
2004 میں مئی میں فلسطینیوں کے محبوب ‘ دست و پأ سے مفلوج اسلامی قائد تحریک کے روح رواں شیخ احمد یسین کو ویل چیر پر فجر کی نماز کے جاتے وقت ایک راکٹ حملے میں شہید کردیا گیا ۔یاسرعرفات کو ان کے دفتر میں کئی سو دن سے محصور کرکے رکھ دیا گیا تھا‘ شیخ احمد یسین شہید کے6 ماہ بعد انھیں داخلی جاسوسی کے ذریعےپلونیم نامی زہر دے کر 4؍ نومبر 2004 کو ان کا سرد قتل کردیا گیا ۔ ان دونوں کی شہادتوں کے بعد اسرائیل یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ ہم نے حماس اور الفتح دونوں قیادت کا خاتمہ کردیا ہے اور اب یہ آزادی کی تحریکات دم توڑ دیں گی اور ہم مغربی وغزہ کی پٹیوں پر قابض ہوجائیں گے۔ 2006 میں مقامی انتخابات اقوام متحدہ کی نگرانی میں کروائے گئے غزہ میں حماس کو 90% سے زیادہ ووٹ ملے اور مغربی پٹی میں 70% ووٹ ملے ۔ اختلافات کو ختم کرنے کے لئے حماس نے مغربی پٹی الفتح کے لئے چھوڑ دی ۔ تحقیقاتی اداروں کے مطابق جس میں فلسطینی سیکوریٹی اہلکار نے یاسر عرفات کو زہر دیا تھا وہ آج ابو ظہبی کے شاہی محل میں مشیر خاص کے عہدہ پر فائز ہے اور اسرائیل کے ساتھ امارات کے امن معاہدے ’’صفۃ القرن‘‘ یا Ibrahim Accord میں اس کا بہت بڑا رول مانا جاتاہے ۔
مسلم ممالک کی قیادت اس بات کی کوشش کرتی کہ مغربی پٹی اور غزہ کو اقوام متحدہ کے قراردادوں کے مطابق مکمل ایک آزاد دفاعی منسٹری وزارت قائم کرنے کی اجازت دی جانی چاہیئے تا کہ وہ اپنے شہریوں کی ہلاکتوں اور نسل کشی بر وقت روک سکیں ‘ افسوس تو یہ ہے کہ 75 سالوں میں نہ انھیں فوج تشکیل دینے ‘ نہ اسلحہ خریدنے اور نہ طیارے و بحری جنگی جہاز رکھنے کی اجازت اقوام متحدہ نے دی ہے ۔ کھلی جیل میں فلسطینی محروس ہیں ۔ اسرائیل نے تین ممالک کی سرحدوں میں گھس کر قبضہ کرلیا تھا ۔ شام کے گولان ہائٹس ‘ لبنان ‘ مصر کی سینا اور اردن کے کنارے کو پُر امن معاہدات کے ذریعے عرب سیاسی قیادت دوبارہ حاصل کرکے اسرائیل کو اپنے سفارتی اثر و رسوخ سے دستبرداری کے لئے راضی کروالتیے تو صورت حال کچھ دوسری ہوتی ‘ عرب ممالک کی کمزوریوں کی وجہہ سے فلسطینیوں کی آزادی کا مسئلہ مزید پیچیدہ ہوتا جارہا ہے ۔
ساری دنیا میں اسرائیل کی بربریت اور مظالم کے خلاف زبردست مظاہرے اور میڈیا میں سخت غم و غصے اور مذمت کی لہر اٹھی ہے۔ میڈیا کمپنیوں نے فلسطین کی تائید میں ٹویٹ کرنے والے لاکھوں اکاؤنٹس زبردستی بند کردیئے ۔ روس اور چین بہت بڑی قوت ہونے کے باوجود بڑی ہی چالاکی سے فلسطین کے مسئلہ سے اپنے آپ کو ذو معنی بیانات کی حد تک محدود رکھتے ہوئے عملی طور پر کوئی مثبت رول اداکرنے میں دلچسپی نظر نہیں آئی۔
فلسطینیوں کی آزادی اور ظلم و بربریت کے خلاف لڑائی میں ہر انسان دوست شخص کو اخلاقی تعاون پیش کرنا چاہیئے۔ ہندوستان میں انصاف پسند آزادی فلسطین کے قائل سیکولر سیاسی جماعتیں ‘ دانشور اور صحافی کھل کر فلسطین کاز کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ یہ عجیب بات ہے کہ ہندوستان کی بڑی مسلم جماعتیں متحدہ موقوف اختیار کرنے سے اجتناب کر رہی ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کے قہر اور ناراضگی کا خوف ان پر طاری ہے۔ عوامی سطح پر فلسطین اور مسجد الاقصیٰ کی آزادی کے لئے شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور ہمارا ان آزادی کے لئے لڑنے والے جیالے جہد کاروں کی مکمل اخلاقی حمایت کرنی چاہیئے ۔
Total No of Words: 2,481
Release on : 22-10-2023
Social Issues
مسلم پرسنل لا بورڈ کی فعالیت پر سوال کیوں ؟

بسمہ تعالیٰ
مسلم پرسنل لا بورڈ کی فعالیت پر سوال کیوں؟
یا
مسلمانانِ ہند کے لئے مسلم پرسنل لا بورڈ ایک امید کی کرن
از: ناظم الدین فاروقی
NPA DOC No : 0156
Dated: 11-06-2023
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ملت اسلامیہ ہند کا ایک متحدہ با اعتماد و باوقار پلیٹ فارم بن کر بعض ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے50 سالوں سے مخلصانہ خدمات انجام دیں ۔ ہمارے اسلاف بڑی عرق ریزی سے ملت کے تمام طبقات ‘ مسالک اور جماعتوں ‘ کاتب ‘ مفکر کے ذہین نمائندوں کا ایک بورڈ تشکیل دیا تھا ۔
3 اور 4 ؍جون23 کو اندور میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے منعقدہ اٹھائسویں اجلاس عام میں نئے صدر کا انتخاب عمل میں آیا۔ اس کے ساتھ ہی تمام دوسرے اہم عہدوں پر جیسے نائب صدور ‘ جنرل سکریٹری ‘ سکریٹریز ‘ ترجمان و معاون ‘ ترجمان کا تقرر بھی عمل میں آیا ۔ اس پر ملا جلا رد عمل علما اکرام ‘ دانشوروں اور تعلیمی یافتہ لوگوں اور عوام میں دیکھنے میں آیا ہے ۔
اگر یہ معاملہ بورڈ کے 250 ارکان تک محدود رہتا تو با شعور مسلمانوں میں یہ موضوع اتنا زیر بحث نہ آتا‘ بورڈ کے بعض نئے کوتاہ نگاہ چھوٹے دل و دماغ کے لوگوں کو بڑے بڑے عہدوں پر مامور کردینا ‘بڑی فاش غلطی سرزد ہوگی‘تساہلوں ‘ سست رفتاری ‘ بے حسی کا شکار اورامت کے گمبھیر مسائل و مصائب سے لا تعلقی اختیار کرنے والوں کو ارباب مجاز بنا کر اہم عہدوں پر مامور کردینے سے بڑے پیمانے پر اپنے شدید تنقید و تبصرے ہورہے ہیں ۔
نئے منتخب شدہ قائدین کا اپنے اپنے حلقے اثر میں امطار گل و گل پوشی‘ نعرہ بازی و نغموں کے ذریعے ایسا زبردست والہانہ استقبال کیا گیا جس کی سابق میں کوئی نظر نہیں ملتی‘ یہ سیاست دانوں کے سستی شہرت کے طور طریقے ہیں اس سے ایک اور نیا تنازعہ کھڑا ہوگیا ‘ ملت کے باشعور افراد‘ سنجیدہ افراد کی جانب سے شدید مذمت اور اعتراض میڈیا میں گردش کررہاہے۔
مدبرین سوال اٹھارہے ہیں ایک ہی اجلاس میں رکنیت سے سکریٹری اور ایک ہی سال میں سکریٹری سے صدر تک کا سفر ؟ کوئی اصول ہے یا جب جو مرضی ہو وہی وصول ۔ ۔۔یا جوڑ توڑ و مورثیت کا فیکٹر کام کرتا ہے ۔ یہ تو بات رہی انتخاب کی ؟ رکنیت کا طریقہ کار چننے Select کرنے کا ہے ‘بعض دینی جماعتوں اور مدارس دینیہ کی گرفت اتنی مضبوط ہے عام مسلمان کتنا ہی دانشور ‘ مخلص ‘ اعلیٰ ترین اہلیت کا حامل کیوں نہ ہو اسے جگہ ملنا مشکل ہے ۔ارکان حضرات میں اکثریت سے صاحب رائے کہلانے کے قابل نہیں ہیں یا بلکہ یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ آمد و رفت ‘ نشست گفت برخواست کو زیادہ پسند کرتے ہیں ‘ ان میں کے اکثر حضرات کا کسی بھی عمل ‘ اقدام ‘ سرگرمی و جدوجہد سے ان کا دور کا بھی تعلق نہیں ہے ‘ بورڈ کی قیادت ہی بتلا سکتی ہے کہ آخر بورڈ کیوں اتنا جمود کا شکار ہوگیا ہے۔
بورڈ کی ترجیحات بدلتے بدلتے اب جماعتی و بعض دینی‘ گروہی ‘ مسلکی یا نجی مفادات کے لئے امت کے اہم ترین مفادات و مقاصد شرعیہ کو بھینٹ چڑھایا جارہاہے ۔ موجودہ قیادت مسالمہ و مصالحہ حکمت کے نام پر پہلے تو فکری معرکے میں شکست خوردگی کا مسلسل شکار ہوتی رہی اعلیٰ ترین علمی و عبقری شخصیات ہونے کے باوجود اب یہ مزید زوال پذیر ہو کر بے باکی ‘ حق گوئی ‘ صداقت تمام لازمی بنیادی قائدانہ صلاحیتوں جیسے نام بنیادی ‘ لازمی کی جگہ تحریص‘ تخویف ‘ الغبانہ و الجبانہ کا شکار ہوگئے ہیں۔
بورڈ کا دائرہ کار کا مسئلہ:
بورڈ کے قیام کے وقت بورڈ کا دائرہ کار صرف 10 نکات پر مشتمل ہے ۔ (1)۔ نکاح ۔(2)۔ طلاق ۔(3)۔ نان و نفقہ ۔(4)۔ مز ۔(5)۔خلع ۔(6)۔ وراثت ۔(7)۔وصیت‘ھبہ ۔(8)۔ خصائث۔(9)۔ متنبہ ۔(10)۔ وقف ۔ عائلی امور میں دستور ہند میں دی گئی ضمانتوں کے تحفظ کے لئے وقت ضرورت قانونی اور عوامی جدوجہد جاری رکھنا تھا ۔ حالات کے تقاضوں کے مطابق بورڈ نے بعد میں کئی سرگرمیوں کا آغاز کیا جیسے دارالقضا ‘ اصلاح معاشرہ ‘ تفہم شریعت اور خواتین ونگ جیسے کمیٹیوں کو تشکیل دیا۔ امت اسلامیہ کا مسلسل دباؤ پڑنے کی وجہہ سے بورڈ نے اپنے دائرہ کار کو وسعت دیتے ہوئے ملی مسائل کو بھی اپنے ہاتھ میں لے کر حکومت اور اربابِ مجاز کے سامنے کامیاب نمائندگیاں کی تھیں ۔شاہ بانو کیس اور بعد میں طلاق ثلاثہ ‘ بابری مسجد جیسے کئی مسائل میں سپریم کورٹ میں مقدمات دائر کئے تھے۔
ملک کے حالیہ سیاسی ماحول کی تبدیلی کا اثر بورڈ کے اندرونی معاملات پر پڑنے لگا‘ بورڈ کے دائرہ کار کو لاسٹک کی طرح کبھی وسعت دی جاتی تو کبھی مسلمانوں کے مسائل کو باہر کردیا جاتا اور العباد البقر کے چند ایجنٹوں کی بورڈ پر گرفت مضبوط ہوگئی ۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں رہی افسوس تو اس بات پر ہے کہ اپنے اپنے مفادات کے مطابق بورڈ کے دائرہ کار کو وسعت دی جا نے لگی اور اعدا اسلام کے چشم کے اشاروں پر مسلمانانِ ہند کے بھیانک ہلاکت خیز ‘ پیچیدہ مسائل کو بورڈ کے دائرہ کار سے باہر کیا جانے لگا ۔
سب سے بڑا مسئلہ وقت کے چیالنجس کو ٹھیک طور پر سمجھ کر حکیمانہ تدابیر کے ساتھ ملت کے تحفظ‘ بقا و ترقی کے لئے اپنی عظیم قائدانہ صلاحیتوں کو بروقت روبہ عمل لانے کی بھر پور ذمہ داری کرسی الرئاسہ پر فائز رہنما کی ہے ۔ کوتاہ نگاہی ‘ نفسا نفسی‘ جدید علوم اور عصری تقاضوں اوراعدا اسلام کی شاطرانہ حکومت و سیاست کے داؤ بیچ سے ناواقفیت ‘ معاشی ‘ سماجی ‘ معاشرتی بدلتے ہوئے تقاضوں مطلوبہ تبدیلیوں کے مراحل سے واقف رہے اور صالح معاشرے کی تعمیر پر پڑنے والے مضر اثرات سے ہر وقت آگاہی ضرور ہوتی ہے اور بورڈ کسی اندرونی معاملات میں بڑھتی کمزوریوں اور بیرونی دشمن طاقتوں کی سازشوں سے بے خبری نے ملت کو ابواب کارثہ پر لا کھڑا کردیا ۔ بعض باطل ‘ ظالم طاقتوں نے بورڈ کے اندرونی حلقوں پر آہستہ آہستہ مضبوط گرفت حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی تھی وہ اسے ایک عرصے سے چھپایا جارہا تھا لیکن ایک ایک کرکے اب وہ سب واشگاف ہونے لگے ہیں ۔ حضرت سید محمد ولی رحمانی ؒ کے آخری دور میں انھیں بھی اس کا شدت سے احساس ہوچکا تھا انھیں اس بات کو لے کر تشویش تھی وہ کہا کرتے تھے کہ بورڈ بکھرے گا نہیں بلکہ چند غیبی زعفرانی طاقتیں اس کا ہائی جیک کرلیں گی۔
قیادت کی پیرانہ سالی اور مفاد حاصلہ نے بورڈ کی ساکھ کو بہت بڑے پیمانے پر متاثر کیا ہے ۔ جب ضرورت پڑی مفادات کے مطابق بورڈ کا پلیٹ فارم خوب استعمال کیا جاتا ہے جہاں زعفرانی آقاؤں کی ناراضگی کا اندیشہ ہوتا ہے وہاں ملت کا بڑے سے بڑا مسئلہ بورڈ کے دائرہ کار سے باہر کرکے کچل دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
ایک معروف مبصر ڈاکٹر عدیل اختر نے ملی مسائل اور بورڈ کے موقوف کے سلسلہ میں لکھا کہ بورڈ کے بزرگ ترجمان کے جاری کردہ ایک پریس نوٹ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بورڈ ملک و ملت میں ہونے والے حادثات و واقعات اور سنگین حالات میں خاموش نہیں رہ سکتا ۔ جناب قاسم رسول الیاس نے اپنے بیان میں اڑیسہ میں ہوئے ٹرین حادثے میں ہوئی 280 ہلاکتوں پر اپنے دکھ و رنج کا اظہار کیا ‘ تو پھر ملت کے گمبھیر مسائل پر کیوں صحافتی بیانات جاری نہیں کئے جاتے ؟ قصداً خاموش کرنے کی کیا وجہہ ہے ۔
جناب اسد الدین اویسی صاحب کی توجہہ دہانی :
دوران اجلاس عام بیرسٹر اسد الدین اویسی‘ یم پی نے چند انتہائی اہم تجاویز پیش کیں اور ملت کے احساسات و درد کو کھل کر صدر اجلاس کے سامنے رکھا ‘ آپ کے تجاویز بڑی دور اندیشی کا مظہر تھی جس کو سنہری الفاظ میں لکھنا چاہیئے ۔
جناب اسد الدین اویسی نے دوسرے باتوں کی بحث میں الجھے بغیر صرف 3 باتوں کو دوٹوک طریقہ پر اجلاس میں سب کے سامنے رکھا: ۔ آپ نے سوال کیا کہ کیوں حجاب کے مسئلہ پر بورڈ اپنے موقف کا اظہار نہیں کرتا اور کانگریس سے بات نہیں کی جاتی ؟۔ یہ بہت سے مسلم خواتین کا نہایت اہم مسئلہ ہے ‘آپ نے دوسرا سوال اٹھایا۔ 25؍ جنوری 23 کے انڈین اکسپریس اخبار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی کے نمائندہ ملک معتصم خاں نے آر ایس ایس کے نمائندوں سے ملاقات کی اور مساجد کے سلسلہ میں دوران گفتگو بات بھی ہوتی جس میں متھروا کی مساجد کے اور دوسرے مساجد کو تحفظ فراہم کرنے کے سوال پر آر ایس ایس کے نمائندے نے کسی بھی قسم کی طمانیت دینے سےانکار کردیا۔ یہ میٹنگ نجیب جنگ کے گھر پر ہوئی تھی ۔ اگر کوئی اور مسئلہ ہوتا تو یقیناً وہ جماعت کا اندرونی معاملہ ہوتا تھا اور ہمیں اس پر کوئی اعتراض کا حق نہیں تھا۔ لیکن انھیں کیا یہ اختیار پہنچتا ہے کہ وہ مساجد کے سلسلہ میں علیحدگی میں جاکر اس طرح آر ایس ایس سے گفت و شنید کریں ۔سوال کیا کہ آپ کو کب سے آر ایس ایس پر اتنا اعتماد آگیا ؟ مساجد کا اہم مسئلہ ہے اس میں ہم سب کی ایک ہی رائے ہے۔آپ نے ایک اور اہم تیسرا اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ۔ منی پور فسادات کے سلسلہ میں عیسائیوں پر ہونے والے زیادتیوں پر فی الوقت کوئی بیان نہ دیں اس کو بعد میں الجھایا جائے تو مسئلہ ہوگا لہذٰا فی الوقت بورڈ اس پر بیان دینے سے گریز ک کرے۔
بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب کی تینوں باتوں کا غیر اطمینان بخش جواب دیتے ہوئے نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی ۔
1۔ حجاب کے مسئلے پر جواب دیا گیا کہ ہم کانگریس کے رحمان خاں سے گفتگو کرچکے ہیں انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ کرناٹک میں وہ حکمنامہ واپس لے لیں گے‘ اسد الدین اویسی صاحب نے کہا کہ جناب وہ کیا کرتے ہیں یا نہیں کرتے انھیں کرنے دیجئے ۔ آپ کیوں بورڈ کی جانب سے ٹھوس موقوف اختیار کرتے ہوئےمطالبہ کرناٹک کی کانگریس کے سامنے نہیں رکھتے کہ حجاب کے حکمنامہ کو واپس لیں۔
2۔ جماعت کے ملک معتصم خان کے آر ایس ایس کے نمائندوں سے بات کرنے کے اعتراض کا صدر محترم مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے بڑی بے چینی و ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے صاف طور پر جواب دے دیا کہ آر ایس ایس کے مسئلہ کو فی الوقت یہیں رہنے دیں ۔اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کیوں رہنے دیں؟ یہ بات عیاں ہوگئی کہ ایک بورڈ میں موجود مخصوص ٹولے کو یہ پسند نہیں ہے کہ ایک لفظ بھی آر ایس ایس کے خلاف کوئی بورڈ کے اجلاس میں کہے۔
قرار داد میں تاریخ کو جاری کردہ منظورہ قرارداد میں اسد الدین اویسی صاحب کے اٹھائے ہوئے سوالات اور دیئے گئے تجاویز کو قصداً رد کرتے ہوئے شامل نہیں کیا گیا !!۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ بورڈ کی خواتین ونگ کی سربراہ نے کرناٹک کے حجاب کے مسئلے پر بورڈ کو واضح مضبوط موقف اختیار کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور بورڈ میں شامل بعض جماعتوں و حضرات کے آر ایس ایس کے ساتھ بڑھتے ہوئے قرابتوں سے اراکین کو آگاہ کرنے کی کوشش کی تو موصوفہ پر اتنا عتاب اور عذاب ڈھایا گیا کہ زبردستی معافی نامہ پر دستخط لینے کی کوشش کی گئی پھر غصے و انتقام میں پورے ویمنس ونگ کو بلا کسی وجہہ کے تحلیل کردیا گیا ۔ جس سے بورڈ کی ساکھ متاثر ہوئی حجاب کا مسئلہ طول پکڑتا جارہا ہے ۔ملک کے مختلف حصوں میں حجابی طالبات پر اسکولس و کالجس اور ملازمت کے مقامات پر زور زبردستی سے نکالنےاور مقدمات درج کرنے کی آئے دن خبریں موصول ہورہی ہیں ۔ حال ہی میں مدھیہ پردیش ‘ راجستھان ‘ سری نگر میں حجابی طالبات پر دباؤ اور پابندی کی خبریں عام ہیں ۔ پھر بھی بورڈ نے اپنی قرارداد سے حجاب کے مسئلہ کو باہر رکھا ‘ بورڈ کی یہ بے حسی دیکھ کر مسلمان حیرت زدہ ہیں۔
منظورہ قرارداد:
4؍ جون 23 کواٹھائسویں اجلاس عام کے موقع پر بھی جو منظور کردہ تجاویز کو 5؍ جون کو جاری کی گئیں اس قرارداد کو ایک6 نکات تک محدود رکھا گیا ۔(1)۔ نفرت کی آگ پر قابو پانے کا مطالبہ ۔(2)۔ لا قوانیت مکانات کو بلڈوز کئے جانے کی مذمت ۔(3)۔ یونیفارم یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی مخالفت ۔(4)۔ مساجد اور اوقافی جائیدادوں کا تحفظ1991 کے مطابق کیا جائے ۔(5)۔ عیسائی اقلیت پر منی پور میں کئے گئے مظالم کی مذمت ۔(6)۔ ہم جنس پرستوں کی شادیوں کی مخالفت ۔7۔کرونا تبلیغی جہاد۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی 20 جس سے 60 لاکھ سے زیادہ مسلمان بچے متاثر ہوئے ہیں ۔(8)۔آسام میں 40 سے زیادہ گاؤں میں مسلمان کسانوں اور مزدوروں کو بستیوں سے بے دخل کیا گیا ۔(9)۔ بلی بائی ڈیل ۔(10)۔ کرناٹک اور مختلف ریاستوں میں حجاب کا مسئلہ۔(11)۔ لنچنگ ۔(12)۔ لو جہاد قانونی ۔(13)۔ بھگوا لو ٹراپ ‘ 30 لاکھ مسلم لڑکیوں کو مرتد کرنے اور مسلمانوں کا قتل عام کرنے کی دھمکیاں ۔(14)۔ دعوتی کام کرنے والے بے قصور داعیان اور معصوم نوجوانوں کی گرفتاریاں ۔(15)۔ بعض مسلم تنظیموں پر پابندی ‘ آسام میں چائلڈ میاریج کے نام پر غریب مزدور پیشہ مسلمان خاندانوں کے بے جاگرفتاریاں اور مقدمات ۔(16)۔ مسلم اکثریتی شہریوں اور علاقوں سے حج ٹرمنل کی برخواستگی ۔(17)۔ نجی ‘ کھلے مقامات پر نماز کی ادائیگی پر پابندی ‘ ۔(18)۔نفرت آمیز مسلم دشمن فلموں ‘ کشمیر فائیلس ‘ کیرالا اسٹوری ‘ 72 حوریں ‘ اجمیر 92 اور اسی طرح کی 20 فلموں کی تیاری۔(19)۔ اسکولوں میں یوگا کا مسلم بچوں پر لزوم ۔(20)۔ پولیس اسٹیشنوں میں بے قصور گرفتار شدہ مسلم ملزمین پر تشدد و عتاب‘ تہواروں کے موقعوں پر کئی شہروں اور گاؤں میں فسادات جیسے مسائل پر بورڈ نے معنی خیز خاموشی اختیار کی اور ان تمام کو اپنے قرار داد سے خارج رکھا۔
حضرت خالد سیف اللہ رحمانی صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے خوشی و مسرت کی لہر کے درمیان8؍ جون23 کو حیدرآباد میں صحافیوں سے ملاقات کے درمیان تنقید کرنے والوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ بورڈ کی اہمیت کو گھٹانے کے لئے سازش کر رہے ہیں وغیرہ ۔مبصرین کا کہنا ہے کہ سازش کیوں کوئی کرتا ‘ یہ خود آپ کے اپنے ذمہ داروں کے غلط معیوب طور طریقے اپنانے کا نتیجہ ہے ۔ ملی مسئولیت پر فائز حضرات اس طرح عامیانہ جشن ‘ جلوس استقبالی نعرے بازیوں سے بہت دور رہتے ہیں اور عہدہ ملنے پر اعلیٰ ظریفی کا مظاہرہ کرتے ہیں ‘ مسئولیت اور جواب دہی کا شدید احساس ہوتاہے ۔
بعض جماعتیں اور نام نہاد ملی قیادت بورڈ کے پلیٹ فارم کو اپنے اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے کا غیر مجاز اختیارات حاصل کرچکے ہیں ‘ بورڈ کی قیادت نے مسلمانوں کے مسائل سے دلچسپی کم ملک کے حادثات اور دوسرے لا تعلق ایشوز میں زیادہ دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے عامۃ المسلمین کو مایوس کردیا۔ جب بورڈ کی قیادت آپ کی رہنمائی اور دوٹوک حق گوئی کے ساتھ بیان کی ضرورت پڑتی ہے تو عام مسلمانوں میں شعور کی بیداری اور مایوسی کو دور کرتے ہوئے حوصلہ دلانے کے لئے ضروری ہوتا ہے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ وہ سب سین سےغائب رہتے ہیں ‘ یہ کہنا مشکل ہے کہ کس کو خوش کرنے کے لئے عمومی اس طرح کے بیانات جاری کئے جاتے ہیں اور ملت کے مسائل پر لب کشائی سے گریز کیا جاتا ہے۔
ذمہ داران بورڈ کی نئی باڈی تشکیل پا چکی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ کس طرح ان پر آشوب حالات میں یہ قائدین امت کی رہنمائی و رہبری کرتے ہوئے اپنے جلیل القدر منصب کا حق ادا کرتے ہیں ۔
Total No of Words: 2,618
Release on : 11-06-2023
-
Social Issues7 months ago
مدرسہ کو۔۔۔مدرسہ قیادت سے شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔!
-
Social Issues7 months ago
مسئلہ نکاح مسیار
-
Social Issues7 months ago
عدل و انصاف کا قتل!
-
Politics7 months ago
سیاسی کریک ڈاؤن اور میڈیا کو دبانا: بھارت کے 2024 کے عام انتخابات سے پہلے بی جے پی کی حکمت عملی
-
Social Issues7 months ago
مسئلہ فلسطین کا سفارتی و سیاسی حل نکالنے میں ہماری عدم دلچسپی!!
-
Politics7 months ago
اسرائیل کی حماقت اور حماس کی حقیقت
-
Blog7 months ago
مسجد اقصیٰ کا تحفظ خطرے میں!!
-
Blog7 months ago
ملک میں بے روزگاری کا بھیانک سُلگتا ہوا مسئلہ