Politics
لاچت کی 4 سو سالہ یادگار تقاریب کا انعقاد کیوں !!

بسمہ تعالیٰ
لاچت کی 4 سو سالہ یادگار تقاریب کا انعقاد کیوں!!
دلچسپ تاریخی حقائق کی پردہ پوشی
از: ناظم الدین فاروقی
NPA DOC No : 0146
Dated: 04-12-2022
بی جے پی حکومت کی جانب سے24 اور 25 نومبر 22 کو ملک کے تمام قومی روزناموں میں ایک مکمل صفحہ کے بڑے اشتہارات Lachit Barphukan لاچت برپوکان کو ایک مرد آہن ‘ سپہ سالار اور فاتح اعظم کے طور پر پیش کرتے ہوئے تقاریب کا اعلان کیا۔ ان کے خود ساختہ مورخین کے مطابق لاچت برپو کان نے گوہاٹی سے قریب دریا برہما پتر کے کنارے سرائے گھاٹ کے مقام پر 4 ؍ نومبر 1667 کو مغل افواج کو کراری شکست دی تھی۔اگر مہا بھارت سے اب تک جنگجو کے امیر العساکر ’’ رئیس الجندی و علاقائی افواج کے سپہ سالاروں کی سالانہ یادگار دن منانے بیٹھیں تو ہر روز سیکڑوں تاریخی تقاریب منانے پڑئیں گے۔ تاریخ کے ایک ایک سطر کو دور حاضر کے مسلمانوں کے خلاف رمزی طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ایسا دیکھا جائے تو 17 مغل بادشاہوں نے 315 سال(1837-155) حکومت کی ابتدائی ادوار میں ہر سال بڑی بڑی فتوحات حاصل کیں تھیں ۔ تو کیا اب ہم ان فتوحات کی تواریخ کو لے کرہر روز یادگاری تقاریب یا جشن منائیں ۔ابھی ان تقاریب کا اختتام بھی نہیں ہوا28؍ نومبر 22 کو قومی سطح پر حریانہ اور مرکزی حکومت کی جانب سے ایک اشتہار شائع ہوا جس میں بھگوت گیتا کی ایک ماہ کی تقاریب کے انعقاد کا اعلان تھا ۔
اگر ہم تاریخی حقائق کا مطالعہ کریں تو کئی حیران کن تفصیلات ہمارے سامنے اُبھر کر آتی ہیں اور جگہ جگہ جھوٹ ‘ افترأ ‘ من گھڑت تاریخ سازی کی مذموم کوششیں آشکار ہورہی ہیں ۔ قومی ہیروؤں کی پیدائش ‘ فتح ‘ موت کے دن منانا کوئی غلط بات نہیں ہے لیکن مسخ شدہ تاریخی اوراق کو لے کر اسے ہندو ‘ مسلم تفریق بناتے ہوئے نفرت اور حقارت کا پرچار کرنا ایک سیکولر ‘ جمہوری ‘ دستوری ملک کےسیاسی قائدین اور انتظامیہ کے لئے ہر گز سزاوار نہیں دیتا۔اس بات سے مورخین انکار نہیں کرتے کہ سرائے گھاٹ کے مقام پر دو ماہ سے جاری آسامی سلطنت آہوم کی افواج اور مغل فوجوں کے درمیان جنگ میں 4؍ نومبر 1667 کو مغل افواج کو شکست ہوئی تھی ۔ اس کی اصل وجہہ موسم کی خرابی تھی شدید بارش دو ماہ سے جاری تھی اور ہاتھی ‘ گھوڑے دلدل میں پھنس کر بیمار ہوگئے‘ ہلاکت خیز وبا پھیل گئی تھی جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں فوجی فوت ہوگئے ۔ موسلا دھار بارش میں برہما پترا کا پانی اپنی مکمل سطح تک لبریز ہو کر سیلاب آچکا تھا اور مغلیہ فوج کے پاس دریا عبور کرنے کے لئے کشتیوں کے فلیٹ دستیاب نہیں تھے۔جب کہ آہوم سلطنت کے راجہ جیا وھوج سنگھانے بحری کشتیوں کی ایک بڑی فلیٹ جمع کر رکھی تھی ۔
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ مغلیہ فوج کا سپہ سالار راجپوت راجہ رام سنگھ تھا دونوں طرف افواج میں ہندو ‘ مسلم فوجیوں ار کمانڈروں کی بڑی تعداد تھی۔ فوجی ملازمت میں تربیت یافتہ دونوں مذاہب کے فوجی ہوا کرتے تھے ۔ہندوستان کے ہزار سالہ مسلم عہد میں کبھی بھی فوج کی تشکیل مذہب کے بنیاد پر نہیں ہوئی۔
مغلیہ سلاطین میں کئی کمزوریوں کے باوجود بہت سے ایسے اوصاف حمیدہ تھے جو حکمرانوں کے لئے رہتی دنیا تک کئی خوبصورت بہترین انمنٹ نقوش و مثالیں قائم کردیں۔ مغلوں اور آہوم سلطنت کی جنگ میں مغلوں کا سپہ سالار راجپوت راجہ رام سنگھ تھا۔ اکثر جنگ میں فاتح قوم مفتوح مقامی قوم پر مظالم کرتی ہے اور عورتوں کی عزت و آبرو کو سرعام لوٹتے ہیں ۔ آہوم بادشاہ کی 6 سالہ معصوم رانی رمن گبھرو کو بڑے عزت و احترام کے ساتھ شاہی محل کے حرم میں بڑی شان و شوکت سے رکھا گیا۔ جب بڑی ہوئی تو اس کو مسلمان بنا کر ’’رحمت بانو بیگم‘‘ کا خطاب دے کر اورنگ زیب کے بڑے شہزادے محمد آعظم شاہ گورنر بنگال سے شاہی طقوس ومراتب کے ساتھ شادی کی گئی ۔ فوج کے نظم و ڈسپلین کا یہ عالم کے 2 ہزار کیلومیٹر میدان جنگ میں بھی کسی سپہ سالار صوبہ دار کو بد تمیزی چھیچھورے حرکت کی کسی میں ہمت نہیں تھی۔ (رانی رمن ) شہزادی رحمت بانو بیگم سے کئی اولاد یں ہوئیں ۔رحمت بانو بیگم کا انتقال کم عمری میں ہوا۔ بنگال کے مشہور مورخ محمد غفور کے مطابق رحمت بانو بیگم آگرہ سے ڈھاکہ کے سفر کے وران مزاج بگڑ گئی تھی 1682 میں ڈھاکہ میں انتقال ہوا۔ ڈھاکہ میں ایک مشہورمزار ہے جس کو آج بھی ’’ پوری بی بی ‘‘ Pori bibi کی مزار کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ پوری بی بی دراصل رحمت بانو بیگم ہی ہے ۔
1206 میں بختیار خلجی نے آسام کے بڑے حصہ کو اپنی مملکت میں شامل کرلیا تھا منگ ماؤ چینی حکومت منگ ماؤ کے شہزادے نے Patkai کی پہاڑیاں عبور کرکے آسام پر اپنی حکومت قائم کی ۔ آہوم سلطنت 1228 میں قائم کی گئی تھی ۔ مغل سلاطین کی افواج سے آہوم راجہ کی 17 جنگیں ہوئیں۔ سوائے سرائے گھاٹ ‘ آسامی مقامی فوجیں مغلیہ فوجوں کو شکست دینے میں ہمیشہ ناکام رہے اور مغلوں کے آخری دور تک بھی آہوم راجہ خراج دیتا رہا۔ اس وقت ہندوستان پر اورنگ زیب کی 1707-1658حکومت تھی اور میر جملہ گورنر بنگال تھے ۔ آہوم ریاست پر مغلوں کی افواج نے 17؍ مارچ 1662 کو حملہ کرکے اس وقت کے آہوم مملکت کے دارالخلافہ گریا گاؤں Garhgaon پر قبضہ کرلیا۔ مغلوں اور آہوم راجہ کے درمیان ایک مشہور معاہدہ 23؍ جنوری 1663 کو راجہ نے جیدہی اج سنگھا Jaydhiwaj Singha اور گورنر بنگال میر جملہ کے درمیان ہوا ‘ جسے معاہدہ گلیرا گھاٹ Treaty of Ghilarighat کے نام سے تاریخ میں جانا جاتا ہے ۔ معاہدہ کے مطابق راجہ Ghaopha Sutameta سوتا میٹا اپنی 6 سالہ شہزادی Rami Gabdharu اور 3 لاکھ روپیہ سکہ ہند بطور تاوان مغل بادشاہ کو دیں گے ۔ معاہدہ کے مطابق 30000 لاکھ رووپیہ تاوان بھی ادا کردیا گیا اور شہزادی رمنی گہار خادمات و اتالیق کے ساتھ مغل شہنشاہ کے آگرہ کے محل میں پہنچا دیا گیا۔ شہزادی رمنی گہارو مغل بادشاہ کے حرم میں تربیت پانے لگی۔
اسی دوران مغل سلاطین کے حرم میں شہزادی رمنی گبھرو نے اسلام قبول کرلیا اور اس کا نام رحمت بانو بیگم رکھا گیا تھا۔سالمیت مصالحت کے پیش نظر مغل سلاطین مخالف راجاؤں اور حکمران خاندان سے اپنے رشتہ داریاں قائم کرلیتے تھے جس سے جنگ وجدال کا خاتمہ ہوتا رہا۔ یہ ہی کام اورنگ زیب نے آسام آہوم سلطنت کے راجہ جیدواج سنگھا کے ساتھ کیا رانی رمنی کو اپنی بڑی پہلی بہو بنا کر محل کی ملیکہ قرار دینا طے ہوا۔اورنگ زیب نے اپنے بڑے بیٹے شہزادے محمد آعظم شاہ گورنر بنگال سے بروز اتوار 13؍ مئی 1668 کو ایک لاکھ 80 ہزار مہر ‘ مغلیہ مِحلّات کے حرم جو نظافت پاکیزگی‘لطافت‘ ثقافت‘ تہذیب و تمدن ‘ ادب و آداب ‘ شان و شوکت ‘ عظمت ملی وہ آسام کے آہوم راجہ کے پاس کبھی میسر نہیں ہوسکتی تھی کے عوض شاہی شان و شوکت کے ساتھ نکاح ہوا ار شاہی شادی کی تقریب منعقد ہوئی ۔
سرائے گھاٹ کے مقام پر شدید موسم کی خرابی کی وجہہ سے مغلیہ فوج کی4؍ نومبر 1667 کو شکست کے 4 سال بعد یہ شادی کی تقریب منعقد ہوئی۔ مغل شہزادے محمد آعظم راجہ چوپا سوتامیتا Chopa Sutametaکا داماد بن چکا تھا‘ اس کے بعد جید وج سنگھاJaydhwaj Singha آہوم سلطنت کا بادشاہ بنا۔شہزادی رحمت بانو بیگم ( رمن گبھرو) نے راجہ کو کئی خطوط لکھے کہ وہ مغل افواج سے کسی قسم کی جنگ نہ کرے۔ لاچت بارپوکان Lachit Barphukan رحمت بانو بیگم ( رمن گبھرو ) کا حقیقی ماموں تھا۔ انتقام کی آگ تھی جس نے لاچت کوجنگ کے لئے آمادہ کیا تھا۔4؍ نومبر 1667 کو سرائے گھاٹ کے مقام پر جنگ میں مغل افواج کو شکست ہوئی راجپوت راجہ رام سنگھ کمانڈر ان چیف تھا۔ اورنگ زیب کو یہ بات بڑی ہی ناگوار گزری کہ 23؍ جنوری 1663 گلہاری گھاٹ معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے راجہ کی افواج منحرف ہوگئی اور لاچت کی سرکردگی میں جنگ کی۔نومبر1667 کی سرائے گھاٹ کی جنگ میں شکست کے بعد اورنگ زیب نے فوری 30 ہزار پیدل ‘ 18 ہزار ترکی گھڑ سوار افواج اور 15 ہزار تیر بازوں کا لشکر جرار کی کمک روانہ کیا۔ یہ سب اس وقت ہورہا تھا جب شہزادی رحمت بانو بیگم ( رمنی گبھرو ) مغل شہنشاہ کے حرم میں موجود تھیں ار اس مرتبہ بھی مغلیہ فوج کا کمانڈر ان چیف راجپوت راجہ رام سنگھ تھا ۔آہوم کے راجہ کے پاس اتنی فوجی طاقت کہاں تھی کہ وہ مغل شہنشاہ سے ٹکر لے۔ ذرائع وسائل فوجی جنگی تربیت جن کی تجربات کے اعتبار سے آہوم آسامی سلطنت اور مغلیہ سلطنت کا کوئی تقابل نہیں تھا۔
مورخین لکھتے ہیں کہ مغل اور آہوم ریاست کے راجہ جئے دواج سنگھ کے درمیان کوئی راست جنگ نہیں ہوئیں۔ خود راجہ چوپا سوتامیتا نہیں چاہتا تھا کہ وہ اپنی بیٹی شہزادی رحمت بانو بیگم ( رمن گبھرو ) کے سسرال سے جنگ کریں۔ کہا جاتا ہے کہ جنگ کو ختم کرانے میں شہزادی کا بڑا کارنامہ تھا لیکن بعض ہندتوا کے مورخین لکھتے ہیں کہ مغل لشکر جرار کو 1671 میں بھی لاچت بارپوکان Lachit Barphukan نے شکست دی تھی جب کہ وہ سخت علیل ‘ بستر مرگ پر تھا اس کی مدافعانہ طاقت ختم ہوچکی تھی۔
اندازہ کریں کہ مغل دارالخلافہ دہلی سے تقریباً 1900 کیلو میٹر دور مقامی آسامی آہوم سلطنت کے افواج سے موسم کی خرابی کے باوجود جنگ کرنا کوئی آسان بات نہ تھی ۔ طویل سفر پہاڑیوں‘ کوہساروں‘ وادیوں اور دریاؤں کو عبور کرتے ہوئے برسر پیکار ہونا ایک غیر معمولی جنگی حکمت عملی اور ذہانت کا نتیجہ تھی کہ جنگ کی کمانڈ راجہ رام سنگھ کے ہاتھ میں تھی۔ آہوم کی حکومت مغلیہ دور کے آخری دور 1822 تک بھی باج گذار تھی ۔ 1823 میں برما کی فوج نے حملہ کرکے آسام پر قبضہ کرلیا تھا۔ برمائی فوج کی صرف 2 سال حکومت رہی بعد میں 1826 میں برطانی (برٹش)آرمی نے آسام پر قبضہ کرلیا۔ برطانوی سامراج کے وقت بھی ایک مسلمان وزیر آعظم اسد اللہ خاں مقرر کئے گئے تھے۔ مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی آہوم سلطنت کے دور سے ہی آسام میں متوطین ہے ۔ یہ کہنا غلط ہے کہ بنگال سے بڑی تعداد میں مسلمانوں نے یہاں ہجرت کی ہے ۔ آسام بنگال ریسیڈنسی کا حصہ تھے ۔ کٹر انتہا پسند آسامیوں میں اب بھی انتقام کا جذبہ ان کے دل و دماغ میں گھیرا ہوا ہے ۔
18؍ فبروری 1983 کو آسام کے ایک گاؤں نیلی کے مقام پر 10 ہزار معصوم مسلمانوں (غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق) کا قتل عام کیا گیا اور اب NRC کے نام پر 30 لاکھ سے زیادہ بنگالی مسلمانوں کو شہریت سے دور رکھا جارہا ہے ۔ 36% مسلمانوں کی آبادی ہونے کے باوجود ان کے گھر بار منہدم کرنے اور کتھوں سے بے دخل کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ ایسا لگتا ہے یہ انتقام کا سلسلہ 1663 سے جاری ہے ۔
آسام کے فرقہ پرست عناصر آج بھی مسلمانوں کے خلاف نفرت کی فضا ک ہوا دینے کے لئے سرائے گھاٹ کی مغلں کی شکست اور Lachit Barphukan لاچت برپوکان کو ہندوؤں کا عظیم تاریخ ساز ‘ سپہ سالار قرار دیتے ہوئے نئی نسل کو لغو ‘ من گھڑت ‘ مسخ شدہ تاریخ پڑھا رہے ہیں ۔ بی جے پی کی مرکزی اور آسام کی ریاستی حکومت Lachit Barphukan لاچت برپوکان کی یاد میں جوسہ روزہ تقاریب کا انعقاد عمل میں لایا ہے وہ محض تاریخ کو سرکاری سطح پر مسخ کرنے کے لئے کیا جارہا ہے ۔
Lachit Barphukan لاچت برپوکان کو 1990 تک بھی کوئی جانتا نہیں تھا۔ یہ ضرور تھا کہ سرائے گھاٹ کی جنگ کو اوررانی رمن گبھرو کی محمد آعظم شاہ سے شادی کو لے کر ابھی بھی ہندو انتہا پسند فورس مسلمانوں سے بار بار انتقام لیتے رہتے ہیں ۔
لفٹیننٹ سری نواس کمار سنہا کو 1994 میں جب آسام کا گورنر بنایا گیا تو انھوں نے مورخین سے کہا تھا کہ Lachit Barphukan لاچت برپوکان پر کام کیا جائے ‘ وہ ہمارے لئے سورما تھا وغیرہ ۔ لفٹیننٹ سری نواس کمار سنہا نے ہی بنگالی مسلمانوں کے آسام میں بڑے پیمانے پر غیر قانونی طور پر گھسنے کا شوشہ چھوڑا تھا ۔ راقم نے اپنی کتاب ’’آسام کی اقلیتیں ‘ قانونی انتہا پسندو ں کے شکنجے میں ‘‘ میں اس پر تفصیلی رشنی ڈالی ہے ۔ لفٹیننٹ جنرل ایس کے سنہا سری نواس کمار سنہا کو بعد میں کشمیر کا گورنر جنرل بھی بنایا گیا تھا ۔ 17؍ نومبر 2016 کو 90 سال کی عمر میں انتقال ہوا ۔
لاچت کو بطور سورما دکھانے کے لئے کئی کتابیں آسامی اور مختلف زبانوں میں تحریر کی جارہی ہیں اور بی جے پی ‘ آر ایس ایس کی من مانی ‘ معاندانہ پروپگنڈہ میں مصروف ہے۔ واقعات کو توڑ موڑ کر بڑھا چڑھا کر ایسے پیش کیا جارہا ہے کہ جیسے یہ جنگ ہندو مسلم یا کافر مسلم کی تھی ۔ کئی ویب سائٹس پر مذموم ‘ قابل اعتراض زبان استعمال کرتے ہوئے تکذیب کے ساتھ تاریخی مواد پیش کیا جارہا ہے ۔2004 میں شرما کی تحریریں سامنے آئیں جنھوں نے لکھا کہ پہلے لاچت کو الفا انتہا پسندوں یا چند قبائل کےہیرو کے طور پر نہیں ابھارا گیا بلکہ اب ہندوؤں کے ایک بڑے سورما کے طور پر پروپگنڈہ کیا جارہا ہے جس میں بی جے پی حکومت پیش پیش ہے ۔ O P Indio اپنے سائٹ پر لکھا کہ Lachit Barphukan لاچت برپوکان کے مغلوں کو شکست دینے کے بعد مسلمانوں کی ساری دنیا میں شکست ہونے لگی اور کافروں کو ہلاک کرنے کی مسلمانوں کی تمام جنگی حکمت عملی ک شکست سے دوچار ہونا پڑا اور مسلمان ہر جگہ شکست خوردہ ہونے لگے وغیرہ ۔
آسام کے چیف منسٹر ہیمنتا بسوا سرما تاریخ کے اوراق گمشدہ ایک معمولی سے صوبیدار کو سورما بنا کر پیش کرنے کے لئے حکومت کی طاقت جھونک رہے ہیں ۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عوام کو کب تک بےوقوف بنایا جاتا رہے گا اگر واقعی Lachit Barphukan لاچت برپوکان سورما ہوتا تو وہ آگرہ کے قلعہ سے رانی رمن (رحمت بانو بیگم ) کو چھڑا لاتا یا کم از کم ڈھاکہ یا کلکتہ کے صوبہ پر قبضہ کرکے اپنا پرچم لہراتا اپنے ہی علاقے میں اپنے تحفظ و بقا کے لئے لڑائی لڑنا کوئی عظیم تاریخی کارنامہ نہیں کہلایا جاسکتا ہے ۔
لاچت کو ہندو شلسٹ گرامر میں ’’ انڈین ملٹری ہیر و ‘‘ اور فتوحات کی علامت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ۔مشہور مورخین نے اس طرح کی کوششوں کی شدید مذمت کی ہے جس کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ نفرت اور بغض و عداوت کے ماحول کو بنایا جارہا ہے ۔ اس کے شدید نقصانات مسلم سوسائٹی کو اٹھانے پڑیں گے۔
دانشور مبصرین نے ایک اہم سوال اٹھایا ہے کہ سرائے گھاٹ کے فتح کے جشن کے ساتھ (رانی رمن گبھرو) رحمت بانو بیگم کی محمد آعظم شاہ کے ساتھ ہوئی شادی کی 4 سو سال تقریبات کیوں نہیں منائی جاتی ہیں ۔ اس دور کی اچھی باتوں کو نئی نسل کے سامنے متعارف کرانے کے بجائے فرقہ وارانہ انتقام کو بڑھاوا دیا جارہا ہے جو آسام اور ملک کے مسلمانوں کے لئے شدید نقصاندہ ثابت ہوگا۔ اس کے علاوہ بی جے پی حکومت علاقائی یا قبائلی چھوٹے چھوٹے تاریخ میں گمشدہ مکھیاؤں کو زبردستی قومی ہیرو بنانے میں لگی ہوئی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ ہاؤس میں برسا منڈا کے مجسمے کی رسم کشائی انجام دی ۔برسا منڈا 1875 میں چھوٹا ناگپور جھارکھنڈ کے جنگلات میں رہنے والے قبیلہ میں پیدا ہوا ۔21 سالہ یہ قبائلی نوجوان پہلے عیسائی بنا پھر واپس ہندو مذہب میں آکر سماجی ‘ مذہبی خدمات انجام دیا کرتا تھا ۔ کم عمری میں اس کی موت واقع ہوئی ‘ اب یہ ہیرو بنایا جارہا ہے ایسا لگتا ہے کہ ملک کے کونے کونے سے اتنے تاریخی ہیرو بنائے اور پیدا کئے جائیں گے کہ اصل کون ہیرو تھا اس کا نام یاد رکھنا عوام کے لئے مشکل ہوجائے گا۔
ہریانہ حکومت مرکزی حکومت کے تعاون سے بھگوت گیتا کا مذہبی 15 روزہ ’’ بین الاقوامی گیتا مہا اتسو ‘‘ منارہی ہے۔ ہر بی جے پی ریاست میں اس طرح سے فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہندوؤں کی مذہبی ‘ تاریخی ‘ سماجی شخصیتوں پر تقاریب پر تقاریب کا انعقاد کر رہی ہے تا کہ اکثریتی عوام کے مذہبی جذبات میں ہیجان پیدا ہو۔ دوسری جانب سپریم کورٹ کا فیصلہ صادر ہوتا ہے کہ سیکولر ہندوستان میں حکومت کی جانب سےمسجد کے اماموں کی تنخواہ دینا دستور کے مغائر ہے۔
ختم شد (The end)
Total No of Words: 2,754
Release on : 04-11-2022
Politics
اسرائیل کی حماقت اور حماس کی حقیقت

بسمہ تعالیٰ
اسرائیل کی حماقت اور حماس کی حقیقت
از: ناظم الدین فاروقی
NPA DOC No : 170
Dated: 01-11-2023
کرۃ الارض پر فلسطینیوں کی نسل کشی کے لئے غزہ کو دور جدید کے جہنم میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ لہو کے آبشار ‘ شہدا کی بے گور و کفن لاشیں ‘ ہزاروں علاج کے لئے تڑپتے زخمی معذور ‘ بھوک و پیاس سے نڈھال عوام ‘ خوفناک بمباری اور توپوں کے گولوں سے بچنے کے لئے شمال سے جنوب اور جنوب سے مشرق و مغرب دوڑتے دوڑتے زندگی سے تھک چکے ہیں ۔لیکن پھر بھی دشمن سے لڑنے کا ولولہ ماند نہیں پڑا ہے۔عورتوں ‘ بیواؤں ‘ یتیم بچوں ‘ زخمی مریضوں کا کہرام مچا ہواہے ۔ ہر 7 منٹ میں ایک بچہ فوت ہورہاہے ‘ مرنے والوں میں 70% عورتیں اور بچے ہیں ‘ غزہ میں21 ویں صدی کا بدترین انسانی بحران پیدا ہوگیا ہے ۔ اموات کی تعداد کا کانٹا تیزی سے ہر7 منٹ میں ایک بچے کی موت کے ساتھ شہادت پانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہی کرتا جارہا ہے ۔ 12 ہزار سے زیادہ معصوم فلسطینی شہادت پا چکے ہیں ایک لاکھ سے زیادہ زخمی ہیں اور بار بار اسرائیلی فوج کی وارننگ کی وجہہ سے محلہ کا محلہ خالی کرکے جان بچانے کے لئے بھاگ رہے ہیں ۔ وزارت سیول سروس غزہ کے مطابق آدھے سے زیادہ آبادی یعنی تقریباً 12 لاکھ بے گھر ہو کر سڑکوں ‘ گلی ‘ کوچوں میں زیر سماں بے سہارا ہجوم ‘ بے آب و غذأ و دوأ سکتہ میں ہے ۔ جائیں تو کہا ں جائیں ؟ کھلی جیل میں اسرائیل وحشیانہ بمباری کے ذریعے معصوم فلسطینی ہونے کا بدترین انتقام لے رہاہے۔ قتل عام و غارت گیری کی بدترین تجربہ گاہ بنا کر ظلم و بربریت کی چکی میں پیسا جارہاہے ۔عالمی رائے کو بدلنے کے لئے پروپگنڈے کے ذر یعے دنیا میں مظلوم فلسطینیوں کو مجرم اور وحشی عرب کے طور پر بد نام کرنے امریکہ کے کئی بڑی میڈیا کمپنیوں جیسے ڈیجیٹل مارکٹنگ کمپنی Semrush وغیرہ کوتشہیر کا کنٹراکٹ دیا گیا ۔ اسکے ذریعہ فلسطینیوں کو وحشی ‘ بد معاش عرب کے طور پر ان کا تشویۃ ( بدنام) کرنے کے لئے کئی بلین ڈالر عالمی میڈیا وار پر اسرائیل خرچ کر رہا ہے دنیا میں اک سو بیس کروڑ 1.2 بلین (Billion) ناظرین تک غزہ کی جنگ کی فیک ‘جھوٹ پر مبنی ویڈیوز اور واقعات و معلومات پہنچائی جاچکی ہیں ۔ اسرائیل کے ایک آئی ٹی I.T ماہرمحقق کے مطابق 2 ملین سے زیادہArtificial Intelligence کے ذریعہ فیک نیوز تیار کرکے دنیا میں سوشل میڈیا پر گشت کروایا جارہا ہے ۔ ایک عربی چیانل نے کئی اس طرح کے فرضی قدیم ویڈیو کلیپنگس کو واشگاف کیا گیا ‘ حال ہی میں یہ بتلایا گیا ہے کہ امرحکہ کے ہزاروں فوجی ایر کرافٹ سے اسرائیل ایر پورٹ پہنچ رہے ہیں ۔ ان مناظر کو فیاکٹ چیک کے ذریعہ ٹسٹ کیا گیا تو پتہ چلا کہ یہ دوسال پرانی ویڈیو ہے ۔ ٹھیک اسی طرح 40 بچوں کے سر کاٹنے کی افواہ پھیلائی گئی اور ایک فیک ویڈیو میڈیا میں گشت کر وادیا گیا ۔جس کے ذریعے حقیقی واقعات پر پردہ ڈالتے ہوئے پوری دنیا میں اپنے معصومیت کے ڈنکے پیٹتے ہوئے نسل کشی کو ضروری اور اپنے دفاع کے حق میں لازمی اور وقت کی ضرورت قرار دے رہے ہیں۔
دنیا کا چاہے پرنٹ میڈیا ہو یا ڈیجیٹل‘ ان تمام بڑی کمپنیوں کے مالکین یہودی ہیں وہ اور زور و شور سے اسرائیلی ظالمانہ پالیسیوں کو خوبصورت بنا کر بھر پور ساتھ دے رہے ہیں لیکن یہودی مذہبی پیشواؤں‘ یہودی دانشوروں کی بڑی تعداد اب فلسطینیوں کی آزادی کے حق میں ایک طاقتور تحریک چلا رہے ہیں ۔
نیو یارک پوسٹ 29؍ اکٹوبر کے شمارے میں پہلے صفحہ پر سرخیوں میں خبر شائع کی گئی کہ دو ہزار اسرائیلی مشرقی وسطیٰ کے وحشیوں سے لڑنے کے لئے روانہ ہوئے ہیں ۔ اسی اخبار میں ایک گھریلو عورت کو اس کے لوّر (Lover) نے قتل کرکے اس کے جسم کے ٹکڑوں کو فریج میں رکھ دیا ‘ جس کی اطلاع پولیس کو ایک ماہ بعد ملی وحشی کون ہیں ؟ سالانہ 35 ہزار سے زیادہ معصوم لوگ امریکہ میں گن فائر میں ایسے ہی ہلاک کردیئے جاتے ہیں ۔ عرب دنیا میں کسی بھی مقام پر اس طرح آپسی فائرنگ کے ذریعہ بے جا قتل نہیں ہوتے ۔ پہلی مرتبہ یہ دیکھا گیا ہے کہ یہودی لابی میں خود غزہ پر حملو ں کے خلاف زبردست آپسی شدید اختلاف کا شکار ہوچکی ہے ۔ احتجاجی یہودی واشنگٹن میں کیپٹل ہلز پر ہلہ بول دیا ۔ ہفتہ 4؍ اکٹوبر 23 کو امریکہ کے 50 شہروں سے لاکھوں افراد احتجاجی جلوس کی شکل میں جمع ہو کر پورے امریکہ کو دھلا دیا ۔ منھا ٹن نیویارک کے اسٹیشن کو روز روز کے احتجاج کی وجہہ سے کئی مرتبہ بند کرنا پڑا ۔31؍ اکٹوبر 23 کو وزیر خارجہ امریکہ انٹونی بلنکن (Antony Blinken) کی پریس کانفرنس میں صحافیوں کی بدترین مخالفت اور اہانت کا سامنا کرنا پڑا ۔ صحافیوں کی اکثریت نے اپنے ہاتھوں کو خون سے رنگ کر زبردست پریس کانفرنس کے خلاف احتجاج کیا۔
اسرائیل کے ایک مشہور صحافی Hila Weiss Berg کا ایک مضمون بعنوان اسرائیل کی حماقتیں اور حماس کی حقیقتیں’’Israel Fantasies & Hamas Realties ‘‘ کے عنوان سے ایک مشہور روزنامہ میں شائع ہوا ہے۔ جس کے مطالعہ سے اسرائیل کے اعلیٰ ملٹری قیادت کی صحیح طور پر سونچ و فکر کا اندازہ ہوتا ہے جس کا اقتباس قارئین کے استفادہ کے لئے یہاں درج ہے :
’’Dr. Micshetin مشیر اعلیٰ برائے فلسطینی امور IDF (اسرائیلی ڈیفنس فورس ) کے انٹلیجنس (مخابرات ) میں لفٹنٹ کرنل کے عہدہ پر رہ چکے ہیں انہوں نے 1948 کے نکبہ پر اپنی پی ایچ ڈیP.hd کی تھی‘ ہلز ویس برگ Hils Weis Bergجنھوں نے ایک خصوصی انٹرویو میں بعض حقائق پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے بہت ساری چونکا دینے والی باتیں کہی ہیں ۔
فلسطینیوں کا مسئلہ اتنا آسان نہیں جتنا ہمارے سیاست دان تصور کرتے ہیں ۔ اسرائیل کی انٹلیجنس کی سب سے بڑی تاریخی غلطی یہ تھی کہ وہ حماس اور اس کی قیادت کو الفتح و حزب تحریک فلسطین جیسے گروپوں کی طرح سمجھتی رہی جب تک حماس کے تصورات ‘ خیالات ‘ نکتہ نظر اور فکر ان سے بالکل مختلف ہے ۔ وہ ہمارا ایسا دشمن ہے جس کو ایک زاویہ نگاہ سے سمجھنا اور اس کے مطابق ایک مفروضہ بنا لینا سوائے ہمار ی بے بصیرتی اور اندھے پن کے کچھ نہیں ہے ۔ حماس جہاں دہشت گرد ہے وہی وہ ایک سیاسی ‘ سماجی ‘ فلاحی اور نتائج سے بھر پور مہیمات چلانے میں مہارت رکھنے والی تحریک ہے ۔ حماس میں عقلی بنیادیں Pragmatism کوٹ کوٹ کر بھرا ہواہے۔ موجودہ فدائی کوششوں کو اپنی تاریخ سے جوڑ کر کام کرنے کی ان میں بھر پور صلاحیت پائی جاتی ہے ‘ ان کی قیادت مذہبی قیادت نہیں ہے لیکن وہ بہت کٹر مذہبی ہیں ۔
موجودہ صدر غزہ یحیی سنوار کو ہم نے 22 سال اسرائیلی جیل میں قید میں رکھا ۔ اس دوران اسیری میں اس نے یونیورسٹی سے نہ صرف دو پی ایچ ڈی تکمیل کرلئے بلکہ حماس نے سنوار کی رہائی کے لئے ہمارے ایک فوجی کرنل Giled Shelit کا اغوا کرلیا تھا جنھیں چھڑانے کے لئے ہمیس حماس کے ساتھ ڈیل میں بہت کچھ کھونا پڑا تھا ۔ یحییٰ سنوار کے ساتھ ایک نہیں دو نہیں ایک ہزار فلسطینی قدیوں کو رہا کرنا پڑا۔ اتنی خطرناک شرائط کو بھی ہمیں ماننا پڑا ۔یہ کہنا مشکل ہوتا ہے کہ حماس کب کیا سیاسی ‘ سفارتی ‘ معاشی ‘ عسکری ‘ عالمی اعلام ترک چلے گا ‘ ہمارے سنچری کے تمام 75 سالہ تجربات کو ایک دن میں حماس نے خاک میں ملا دیا ۔
ڈاکٹر مچٹن کا کہنا ہے ایک جانب یحییٰ سنوار اسرائیل کے وزیر آعظم کو خط لکھتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے روزگار کے لئے چک پوائنٹس پر نرمی کرتے ہوئے ورک پرمٹ دیئے جائیں ۔دوسری جانب وہ ان بے روزگاروں کو ہماری سرزمین پر روزانہ محنت مزدوری کے نام پر ہمارے علاقوں میں گھسا کر ان سے ہماری جاسوسی کے ذریعے مخبری کرواتا رہا ۔
ہم یہ سمجھتے رہے کہ 22 سال قید و بند کی سزا کاٹنے کے بعد اب اس کی زندگی میں سوائے اپنی زندان کی آپ بیتی لکھنے کے کیا کام باقی رہ جائے گا اور اس نے ہماری سزاؤں (تعذیب ) سے بہت کچھ سبق حاصل کرلیا ہوگا ۔ اس کی سوسائٹی میں لوگ اس سے خوف بھی کھائیں گے ۔اس کے اہل خانہ اسے گھر کے کسی کونے میں بٹھادیں گے لیکن ہمارے یہ مفروضے سب لغو ثابت ہو گئے ‘ہم سنوار کے افکار و نظریات کو صحیح طور پر سمجھ نہیں سکے۔ سراسر دھوکہ کھا گئے۔ ہمارے جیلوں سے رہا ہونے والے بڑے بڑے سور ماؤں کی کمر ٹوٹ جاتی ہیں اور ہمیشہ کے لئے وہ ہم سےدشمنی کا راستہ بھول جاتے ہیں ۔ وہ تو رہا ہو کر نہ صرف بڑا قائد بن گیا بلکہ پوری حکومت کی باگ ڈور اس نے سنبھالی ۔( اس پر جان نچھاور کرنے والوں کی ایک فوج تیار کرلی )۔
ہمارے زندگی کے اَپروچ میں اور سنوار کے اپروچ میں بہت بڑا فرق ہے ۔ذرا سونچئے ہم لوگ بڑے بڑے فوج اور حکومت کے عہدوں پر رہ کر وظیفہ پر سبکدوش ہوجاتے ہیں اور پھر ایک دن مرجاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ہماری زندگی کا اور کیا نکتہ نگاہ ہے ۔لیکن سنوار کے اور حماس کی قیادت کے پاس نہ موت کا خوف ہے اور نہ ہی ان کی موت کے بعد ان کی تحریک ختم ہونے والی ہے ۔ ان لوگوں نے بچے بچے کہ دل اور دماغ میں اپنے ارض مقدس کی آزادی کی جو روح پھونک دی وہ ایسا لگتا ہے کہ کبھی ختم نہیں ہونے والی ہے ۔
اس تجزیہ میں ڈاکٹر مشیٹنن نے مضمون نگار صحافی کے ذریعے یہ بھی وارننگ دی کہ اگر دو قومی نظریہ قبول کرلیا جائے تو سمجھ جاؤ کہ پڑوس میں ایک نیا بوسنیا تیار ہوگیا ہے اور اگر فلسطینی نوجوانوں کو ہماری شہریت دی جائے گی تو وہ اکثریت میں آجائیں گے اور سوشل ڈیموکریٹک اسٹیٹ کے بہانے حکومت ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گی ۔ ان کی مغربی پٹی اور نہ ہی غزہ کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں مملکت کا درجہ دینے کو بین الاقوامی دباؤ کے تحت قبول کرنا اپنے لئے( اسرائیل) خودکشی کرنا ثابت ہوگا ۔ بجلی ‘ پانی ‘ فینانس ‘ دفاع ‘ صیانت سب کچھ ہمارے ہاتھ میں ہونے کے باوجود آج جس انداز سے ہم پر حملہ آور ہوئے ہیں وہ ہمارے لئے تاریخ کا ایک سبق ہے ۔ ہم ہمیشہ یہ سمجھتے رہے کہ نفق( ٹنل) کے ذریعہ یہ دہشت گرد ہمارے علاقے میں گھسنے کی کوشش کریں گے ہماری ہمیشہ نگاہیں صرفٹ ٹنلس پر ہی جمی رہیں تو انھوں نے اپنی عظیم ذہانت سے کام لیتے ہوئے فضا میں اڑنے اور کھلے عام سرحد پار کرنے کا ایک بڑا کام کرڈالا۔75 سال کی جتنی ہماری اعلیٰ ترین فوجی ‘ سیاسی ‘ سفارتی ‘ تجارتی کوششیں انھیں کمزور کرنے کی تھیں وہ سب اچانک خاک میں مل گئیں تھیں وہ اب مکمل طور پر بولنے کی ضرورت ہے۔ وغیرہ۔‘‘ (بحوالہ جیروسلم پوسٹ29؍ اکٹوبر 23)
ڈاکٹر مسٹن غزہ سے متعلق بہت ہی ذہین تصور کئے جاتے تھے وہ کئی جنگوں میں شریک رہ چکے ہیں وہ IDF کے انٹلیجنس ڈپارٹمنٹ کے لفٹنٹ کرنل ہونے کے باوجود اہم باتوں کااخفأ کیا ہے ۔ اپنے انٹرویو ں میں بھی عیاری سے کام لیتے ہوئے بہت ساری باتوں پر پردہ ڈال دیا۔ شیخ احمد یسینٰ کی قیادت میں اسلامی تحریک کی پہلی انتقاضہ 8؍ ڈسمبر 1987 اور دوسری تحریک انتقاضہ 2000 اور 2004 میں شیح یسین و یاسر عرفات کی شہادت اور 2006 میں حماس کی UNO کی زیر نگرانی پہلے عام انتخابات میں 132 پارلیمانی نشستوں میں 74 نشستوں پر اور الفتح PIO کو 45 نشستیں حاصل ہوئیں تھیں ‘ حماس ایک عالمی سطح پر معترفہ سیاسی پارٹی ہے ‘ دہشت گردی کا اس پر لیبل لگا کر اسے بدنام کرنے کی کوشش عالمی طاقتوں کی جانب سے جاری ہے ۔ اس عظیم الشان کامیابی کے بعد سے پھر فلسطینیوں کے دیئے گئے ووٹ کے حق کو 17 سال سے دوبارہ نہیں دیا جارہا ہے اور مغربی پٹی و غزہ میں حسب معمول ہر 5 سال کو عام انتخابات کروانے کے بجائے نہتے خالی ہاتھ غزہ کے شہریوں پر پہلے 4 جنگیں اور اب 5 ویں جنگ مسلط کرتے ہوئے گزشتہ 24 دنوں کے دوران 16 ہزار ٹن بم عام معصوم زندہ آبادی پر گراکر ہلاک کیا جارہا ہے ۔
صیہونی دانشور کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ فلسطین کی آزادی اور فلسطینیوں کے اسلام بیتُ المقدس سے دائمی تعلق کو چھپاتے ہوئے ایک خود ساختہ تشریحات اور کھوکھلے تجزیات پیش کرتے ہوئے دنیا کا اپنے مطابق ذہن بنانے میں بڑی حد تک کامیاب ہورہے ہیں ۔
حماس کو جتنی کامیابیاں ہوتی ہیں اس سے کئی گنا زیادہ ہر روز ایک نئے چیالنجس اور داخلی عرب اسرائیل لابی کی مضر سرگرمیوں کا سامنا درپیش ہے ۔
حماس کے گزشتہ 20 سالوں میں کئی سو تربیت یافتہ قائدین کو چن چن کر اسرائیل نے دنیا میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر شہید کرڈالا۔ حماس کی آج کی اجتماعی قیادت طوفان الاقصیٰ کے ذریعہ دنیا کو حیرت زدہ کردیا ‘ دشمن کو یہ احساس ہوچکا ہے کہ حماس کے یحییٰ سنوار جیسے 50 قائدین کو بھی شہید کردیا جائے تو حماس کی سرگرمیوں اور کارکردگی میں کوئی ذرہ برابر فرق نہیں آئے گا بلکہ اعلیٰ تعلیمی یافتہ و اسلامی تربیت سے ہمکنار دوسری اور تیسری صف بالکل تیار ہے ۔قربانیوں ‘ شہادت کو وہ اپنے لئے باعثِ شہادت سمجھتے ہیں اور مقتل غزہ کو ’’مجزرہ مشرف‘‘ کہتے ہیں ۔ دشمن اسی سے خوف زدہ ہے کہ پوری قوم کو شوق شہادت سے سرشار کردیا گیا ہے ۔ موت کو تبسم کے ساتھ چوم کر شہادت کے لئے ایک دوسرے سے بازی لے جانے کا جذبہ دن بہ دن بالاہی ہوتا جارہا ہے ۔
حماس کی بے پناہ عصری صلاحیتوں کے اسرائیل کی اعلیٰ ترین قیادت بھی معترف ہو چکی ہے ۔ سل فون بگ Pegasus جو دنیا کے کسی بھی شخص اور شہری کی بات چیت کو غیر محسوس طریقہ سے ہائیکنگ کرتا ہے وہ ایک اسرائیلی کمپنی ہے ‘ اس سے جاسوسی کے ہگ کے فروخت کے ذریعہI.T اسرائیلی کمپنی نے کئی بلین ڈالر کمالئے ۔ حتیٰ کہ ہندوستان نے بھی بہت بھاری قیمت میں اس کو خریدا اور اس کا بی جے پی اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کر رہی ہے ۔ جس کی حال ہی میں ہندوستان کے کئی ممبران پارلیمنٹ نے حکومت سے شکایت بھی کی۔ اسرائیل کو بہت گھمنڈ تھا کہ ہم ساری دنیا کی مخبری و جاسوسی کی قدرت رکھتے ہیں ۔ 7؍ اکٹوبر کے حملے سے پہلے حماس کے I.T سائنس دانوں نے Pegasus کو فیل کرتے ہوئے اپنا جدید ترین بگ بنا کر اسرائیلی ملٹری کی خفیہ معلومات حاصل کرلیں ۔ حتیٰ کہ دنیا کے خفیہ معلومات کا سب سے محفوظ بڑا مرکز مانے جانے والا موساد کا سنسر راکٹ حملے میں تباہ کرتے ہوئے وہاں کی تمام خفیہ معلومات کے کمپیوٹرس اٹھالئے گئے‘Pegasus کی بدترین ناکامی کے بعد اسرائیل نے اس کمپنی کو اب بلیک لسٹ کردیا ‘ اس ذلت آمیز شکست اور ہائی ٹک ہونے والے تکبّر کو حماس نے ملیا میٹ کردیا اس علاقے میں اپنی جنگی حکمت عملی وٹکنالوجی کی سوپر میسی تو حماس نے منوانے کے لئے دنیا کو مجبور کردیا ۔
اب دنیا کے بڑے بڑے طاقتوں کے ملٹری ریسرچWar Colleges حماس پر ریسرچ کرنے میں لگ گئے ہیں ۔ جس طرح دنیا کے دونوں سوپر پاورس افغانستان میں آخرکار شکست فاش ہوئی ٹھیک آج نہیں تو آئندہ چند سالوں میں فلسطینیوں کی نئی نسل جو ماں کے گودوں میں ہے ضرور غلامی سے آزادی حاصل کرکے ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت دے گی۔
Total No of Words: 2,603
Release on : 01-11-2023
Politics
طوفان الاقصیٰ کی جنگ خطرناک مرحلے میں داخل

بسمہ تعالیٰ
طوفان الاقصیٰ کی جنگ خطرناک مرحلے میں داخل
از: ناظم الدین فاروقی
NPA DOC No : 0167
Dated: 15-10-2023
آزادی فلسطین و مسجد الاقصٰی کی جدوجہد ایک خوفناک رُخ اختیار کرچکی ہے ۔7؍ اکٹوبر 23 طوفان القدس نے اسرائیل میں ناقابل تلافی نقصان کے ساتھ نفسیاتی جنگ میں فلسطینیوں نے زبردست برتری حاصل کی ۔ انٹلیجنس اور مخابرات میں دنیا کا استاد مانا جانے والا اسرائیل اور اس کی تمام خفیہ ایجنسیوں کو مقام بریگیڈ نے حماس بریگیڈ نے راکھ چٹادی ۔ آئی ٹی کے تمام سوپر
Space Command اور آئرن ڈوم(قبۃ الحدید) کو بھی اپنی مہارت سے حماس کے مجاہدین نے ناکارہ کردیئے ۔ دنیا سکتہ میں ہے ‘ عالمی طاقتیں افغانستان کی طویل جنگ آزادی میں شکست فاش کے بعد صرف دو سالوں میں ایک اور دوسرا جھٹکہ سوپر ملٹری پاور کےجنریلوں کے ہوش اُڑا دیئے ۔
اسرائیل کے جرنیل اس بات کو لے کر سر پیٹ رہے ہیں جہاں جس علاقے پر بمباری کی جارہی ہے چند منٹوں بعد میں سے آئرن ڈوم(قبۃ الحدید) کو ناکام کرتے ہوئے ابھی بھی ہلاکت خیز راکٹ داغے جارہے ہیں ۔گزشتہ ایک ہفتے تقریباً 15 سو معصوم فلسطینی اسرائیلی بمباری میں ہلاک ہوچکے ہیں ۔UNO کے 9 ملازمین کے علاوہ پریس کے لوگ بھی ہلاک ہوئے ہیں ‘ دوسری جانب مصر نے غزہ کی رَفأ سرحدی گیٹ کو مقفل کردیا ہے ۔ اسرائیل 3 مرتبہ اس پر بمباری کرچکا ہے ‘ اب اسرائیل نے اقوام متحدہ سے کہا ہے کہ ایک ملین پناہ گزین کا مصر کے صحرأ میں انتظام کرلیں ہم شہر خالی کروانے والے ہیں ۔بحری ‘ برّی ‘ فضائی حملے کے لئے3 لاکھ کو اسرائیل کے فوجی لشکر کی بھاری ٹینکس کے ذریعہ غزہ پر چڑھائی کرواکر سرحد کے اس پار مصر کے صحرا سینا میں ڈھکیل دینے کا اعلان کیا ہے لیکن حماس کی حساس جنگی حکمت عملی اور زمینی سرنگوں سے سب خوفزدہ ہیں ۔اطلاع کے مطابق 14؍ اکٹوبر 23 کو ہفتے کے دن کئی لاکھ اسرائیلی فوج غزہ شہر میں داخل ہوگئی ہے ۔ 17 سالوں کے درمیان ابھی تک غزہ پر 5 جنگیں مسلط کی گئیں۔
غزہ سے راکٹوں کے حملے اور مجاہدین کی کاروائیوں میں15000 سے زیادہ اسرائیلی اور 1500 سے زیادہ طوفان القدس کے کارکن شہید ہوگئے ۔بعض کیبوٹس میں اب بھی لڑائی جاری ہے ۔1987 سے ہی اسرائیل حماس کے تیور اور کاروائیوں سے پریشان ہے ‘ یہ اسلامی فلسطینی تنظیم اگر متحرک ہوجائے تو اسرائیل کے لئے بہت بڑا نقصان ہوگا۔ عجلت میں یاسر عرفات سے کئی معاہدے کرلئے تا کہ حماس کا صفایا کیا جائے اسرائیل بار بار حماس کے صفائے کا اعلان کرچکا ہے ۔ 37 سال کا عرصہ ہوگیا یہ اسلامی تنظیم کا خاتمہ اسرائیل اور عالمی طاقتوں کے بس کی بات نہیں رہی ۔
حماس کے حملے پر دنیا میں ہنگامہ کھڑا کیا جارہا ہے ۔اگر خون آلود فلسطین کے تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ نکبہ 1948 سے اب تک 5 لاکھ فلسطینیوں کو ہلاک اور 2 ملین فلسطینیوں کو ملک بدر کردیا گیا تھا ۔ اس دوران ایک ملین سے زیادہ فلسطینیوں کو گرفتار کرکے طویل مدت کے لئے جیل میں مقید کردیا گیا ۔2022 سے اب تک 11540 جن میں نصف بچے ‘ عورتیں اور معصوم فلسطینی شامل ہیں ہلاک کردیا گیا ۔ بیت المقدس کے اطراف صرف قدیم شہر یروشلم میں 250 قدیم عمارتوں کو منہدم کرکے 258 عمارتیں تعمیر کی گئیں۔2021 میں فلسطینی علاقوں 70 مقامات کو منہدم کرتے ہوئے 71900 یہودی مستوطنین Settler کو بسایا گیا۔ 19 مساجد شہید کردیئے گئے ‘ 10 ہزار لوگوں کو زمینوں سے بے دخل کیا گیا۔ اس کے علاوہ مسجد اقصیٰ میں روزانہ مصلیوں بالخصوص خواتین ‘ عورتوں ‘ بچوں کو زودو کوب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ اسرائیل نے بیت المقدس کے نیچے دو بڑی سرنگیں بنالی ہیں ۔ جس کے اندر دھماکہ کرکے وہ کبھی بھی بیت المقدس کو شہید کرنے کی تیاری کی جاچکی ہے۔
وزیر آعظم اسرائیل بنجامن نتن یاہو اور فلیڈ مارشل اسرائیل نے 8؍ اکٹوبر 23 کو انتقام کی وارننگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ حماس نے غزہ میں اپنے لئے جہنم کے داہنےکھول لئے ہیں ہمارے لئے یہ حملے 9/11 ٹوین ٹاور کے حملوں سے زیادہ خطرناک ہیں۔ہمارا پہلا کام ہوگا حماس کو صفہ ہستی سے مٹادیں اور غزہ کے دہشت گردانہ کاروائیوں کا ہمیشہ کے لئے صفایا کردیں ۔ امریکہ ‘ یورپ یہ استعماری طاقتوں کا توسیع شدہ ایجنڈہ ہے کہ سفید قوم کی عرب علاقے میں سرپرستی قائم رکھی جائے ‘ حتٰی کہ ایشیا کے کئی اسرائیل دوست ممالک نے اسرائیل کے انتقامی کاروائیوں کی مکمل تائید کی ہے ۔غزہ پر کارپیٹ بمبنگ شروع کردی گئی ‘ گزشتہ 8 دنوں کے دوران 6 ہزار عمارتوں کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کردیا اور 2000 سے زیادہ عام معصوم شہری ہلاک ہوگئے ۔ شہادت پانے والوں میں حماس کی قیادت کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔
اسرائیل اپنی فوج اور انٹلیجنس کی ناکامی کا بدلہ وحشی بمباری سے لیتے ہوئے 8 ہزار سے زیادہ مکانات اور اپارٹمنٹس کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کرچکاہے ۔ فاسفورس بم استعمال کئے جارہے ہیں ۔ فاسفورس روشنی و بدبو کے ساتھ 800 ڈگری کی تپش پر جلا کر راکھ کردیتے ہیں ۔ جب کہ پانی 100 ڈگری شلسیس پر کھول جاتا ہے ۔ کسی بھی انسانی جسم پر لگ جائے تو پورے جسم کو سکنڈوں میں کوئلہ بنا دیتے ہیں ۔ اس آتشی تپش کی اتنی دیرپا صلاحیت ہوتی ہے کہ پانی ڈالنے سے بھی نہیں بجھتی ہے‘ آکسیجن ملتے ہی شعلہ پوش ہوتی ہے ۔
اگر ہم حماس اور عز الدین قسام بریگیڈ کے اسرائیل پر اچانک حملے کی وجوہات کا تجزیہ کریں تو اس کے کئے عوامل ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ایک تو سعودی عربیہ اور اسرائیل کے آپسی امن معاہدے اور سفارتی تعلقات 75 سالوں میں پہلی مرتبہ بحال کرنے کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں ۔ اسرائیل جیسے ظالم ملک کے ساتھ عرب ممالک نے احتیاط سے کام لینے کے بجائے بڑی عجلت سے کام لیا اور فلسطینی قیادت کو اعتماد میں لئے بغیر ایک کے بعد ایک عرب و مسلم ملک اسرائیل سے معاہدات کر رہے تھے ۔ جس سے صاف طور پر یہ مطلب ظاہر ہورہا تھا کہ مسئلہ فلسطین کو عربوں و مسلمانوں کے درمیان اب کوئی خاص اہمیت حاصل نہ رہی‘ ہماری ملکی قومی مفادات کو اہمیت دیتے ہوئے فلسطینی کاز کو ہمیشہ کے لئے دفن کرنے کے لئے راضی ہوگئے ۔
دوسرا سب سے بڑا فلسطینی کاز کو اس وقت دھکہ لگا اور اس میں اسرائیل کی اصل نیت کھل کر سامنے آگئی جب اسرائیلی وزیر آعظم نتن یاہو نے 22 ؍ ستمبر 23 کو اقوام متحدہ میں تقریر کرتے وقت اسرائیل کا ایک نقشہ بڑی چالاکی سے دنیا کو بتلایا ۔ جس میں فلسطین ہی غائب کردیا گیا ہے۔ عرب سے دوستی اور تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے بڑی آسانی سے فلسطینی وجود کو ہی ختم کرنے کے منصوبے کو اس نے آشکار کردیا تھا۔ تیسرا سبب ترکی جیسا فلسطین و بیت المقدس کی آزادی کا کا سب سے بڑا ہمنوا اور مددگار بھی اچانک اپنی فلسطینی پالیسی بدل چکا تھا ‘ مصلحتوں کا شکار ہو کر طیب اردغان نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی لب و لہجہ میں کافی نرمی اختیار کرلی تھی ۔ انتخابات سے پہلے اسرائیل کی دہشت گردی و مظالم اور غیر انسانی سلو ک پر وہ زبردست تنقیدیں کیا کرتے تھے۔اب سب بند ہوچکے تھے ۔تمام عرب و مسلم ممالک اپنے اپنے مفادات اور امریکی و بین الاقوامی دباؤ کے تحت نارمل سفارتی تعلقات کے رجحان کو تقویت پہنچا رہے تھے ۔
جیسے ہی 7؍ اکٹوبر 23 کو حماس کا طوفان الاقصیٰ کا آپریشن ہوا پہلے24 گھنٹے میں اسرائیل کی تائید میں بیانات آنے لگے بعض عرب حکمرانوں نے تائیدی بیان دے دیا تھا لیکن جب عرب و مسلم عوام کا شدید دباؤ بڑھنے لگا تو تیسرے دن سے پھر فلسطینیوں کے حق میں فضا بننے لگی ۔ یو اے ای کے شیخ محمد زاید النیہان نے پہلے اسرائیل کے تائید میں بیان دیا پھر بیان بدل دیا ۔سعودی عربیہ نے بھی کھل کر فلسطینیوں کی تائید کی ‘ ایک عرصے کے بعد حرم شریف میں فلسطینیوں کے لئے خصوصی دعائیں کی گئیں ۔دراصل عالم مسلم قیادت سہ رخی چال چل رہی ہے ایک جانب اسرائیل کو خوش کیا جارہا ہے دوسری جانب مسلم عوام کے جذبات کا خیال رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ‘ تیسری جانب فلسطینیوں کو یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ہم تمہارے کاز میں شامل ہیں ۔بڑے عرب مسلم ممالک امریکہ اور اسرائیل کو ناراض نہیں کرنا چاہتے ‘ امریکہ کے وزیر خارجہ فارن سکریٹری بلنکن جو یہودی ہے عرب قائدین سے ملاقات کرنے میں مصروف ہیں ۔
اسرائیل کی تائید کے لئے امریکہ نے اقوام متحدہ میں ووٹنگ کی کوشش کی تو کویت نے جم کر مخالفت کی اس کی وجہہ سے بین الاقوامی سطح پر فضا بنی اس اعتبار سے 15 ووٹ اسرائیل کے خلاف اور صرف امریکہ کا ایک ووٹ تائید میں حاصل ہوا ۔ اسی طرح EU یورپین یونین بھی حماس اسرائیل کے معاملہ میں شدید اختلافات کا شکار ہوگیا ۔ امریکہ کے سینٹ ممبرس کی بڑی تعداد فلسطینیوں کے حق میں ہے ۔ ایران نے بھی بہت محتاط رویہ اپنایا ہوا ہے ۔ ایران نے تائید تو کی لیکن ساتھ ہی ساتھ کسی بھی قسم سے حملوں میں مدد کرنے کے الزام کا انکار کیا۔ پھر امریکہ اور یورپ نے بھی یہ کہا کہ حماس کے حملوں میں ایران اور حزب اللہ شامل نہیں ہے ۔ ایران کی ہمیشہ زبانی تائید حاصل رہی۔ ایران کے صدر ابراھم رئیسی نے عرب ممالک سے اپیل کرتے ہوئے پر زور طریقہ پر کہا کہ فلسطین کے تحفظ کے لئے تمام عرب ممالک ایک متحدہ فرنٹ تشکیل دیں ‘ یہ تجویز بر وقت پیش کی گئی ۔ یقیناً اگر ایران کی تجویز پر غور و فکر کرنے سے غفلت برتی جائے گی تو ہوسکتا ہے اسرائیل اپنے شدید وحشی ظالمانہ منصوبوں کو روبہ عمل لائے۔ نتن یاہو اپنی حکومت کی ساکھ بچانے کے لئے کسی بھی جانب اس تباہی و بربادی کو لے جاسکتا ہے ‘ اس کے دور میں ہوئی ذلت اور عسکری ہائی جک کے جھٹکے سے وہ اور فوجی قیادت ابھی سنبھلنے نہیں پائی ہے ۔آئرن ڈوم(قبۃ الحدید) کے جام کرنے کے ساتھ 4 ملٹری ٹاور کو تباہ و برباد کرتے ہوئے بڑی اہم اسرائیلی فوجی سربراہوں کا اغوا ٔ اور 15 یہودیوں کی ہلاکت کے جھٹکے ‘ رسوائی و ذلت سے سنبھل نہیں پائیں۔
غزہ شہرخود 1967 کی جنگوں سے متاثر پناہ گزینوں کی وجہہ سے مجبوراً وجود میں آگیا تھا ۔ موجودہ غزہ کے شہری سابقہ تین نسلوں سے اسرائیل کے ہاتھ تباہ و برباد اور ہلاک ہوتے آئے ہیں ۔ اگر اس نازک موقع پر عالم اسلام ذرا سی بھی غفلت کرے گا اور اپنے رسوخ‘ سفارتی تعلقات و سیاسی دباؤ کو استعمال نہیں کرے گا تو یقیناً فلسطینیوں کے لئے یہ وقت تباہی و ہمیشہ کے لئے بربادی کا ہوگا ۔
مسئلہ الاقصیٰ اور ارض فلسطین کا مسئلہ 56 مسلم ممالک مل کر 75 سالوں میں حل نہیں کرواسکے بلکہ ہمیشہ فلسطینیوں کو سوائے ایمرجنسی امداد کے ایسے ہی تباہ ہونے کے لئے چھوڑ دیا کرتے ہیں اگر 56 ممالک UNO میں متحدہ موقف اختیا رکرتے ہوتے تو ارض فلسطین اور الاقصیٰ ابھی تک آزاد ہوجاتا ۔ سیاسی و سفارتی سطح پر مضبوطی سے اس عالم اسلام کے مسئلہ کو پُر امن طریقے سے حل کرنے کی نہ کسی مسلم ملک میں ہمت و جرات پائی جاتی ہے اور نہ نیت صحیح ہے آپسی اختلافات ‘ تضادات اور لڑائیاں ‘ خانہ جنگی عالمی طاقتوں نے مسلسل حملے اور تسلط نے پڑوسی ممالک کو ہمیشہ کے لئے کمزور کردیا ۔
تمام عرب و مسلم حکومتوں کا یہی حال ہے ۔ اسرائیل کی کوششوں کو اس وقت کامیابی حاصل ہوئی جب بڑے مسلم حکومتوں کا یہ ذہن تیار کردیا گیا کہ یہ مسئلہ تو فلسطینوں کا اپنا داخلی مسئلہ ہے کیوں اپنے آپ کو اس میں جھونک کر بے وقوف بنیں اور اپنی ترقی کو داؤ پر لگائیں ۔ہر ملک پھر اپنی فوج کی کمزور صورت حال سے واقف ہیں ۔
Total No of Words: 1,985
Release on : 15-10-2023
Politics
سیاسی کریک ڈاؤن اور میڈیا کو دبانا: بھارت کے 2024 کے عام انتخابات سے پہلے بی جے پی کی حکمت عملی

بسمہ تعالیٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از: ناظم الدین فاروقی
NPA DOC No : 0166
Dated: 08-10-2023
ہندوستانی پارلیمنٹ کے عام انتخابات 24 کی تیاریوں کا آغاز ہوچکا ہے ۔ سیاسی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں ۔ 18 ویں لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی تیسری مرتبہ ایک طاقتور اکثریتی سیاسی پارٹی کی حیثیت سے اُبھرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ اپنی برتری اور بقأ کے لئے ہر سیاسی پارٹی کو پُر امن جدوجہد کا پورا حق ہے ۔ لیکن حکومت کی طاقت کو اپوزیشن اور پچھڑے ہوئے طبقات و اقلیتوں کے خلاف استعمال کرنا سیاہ جابرانہ سیاست کا ایک قبحہ پہلو ہے ۔ جیسے جیسےالیکشن قریب آرہا ہے ۔ED اور NIA کی حزب مخالف سیکولر میڈیا ‘ سیاسی قانونی دانشوروں و جہد کاروں کے خلاف کاروائیاں تیز تر کردی ہیں ۔ گزشتہ بھی ایسا ہی ہوتا رہا مدھیہ پردیش ‘ کرناٹک ‘ راجستھان ‘ ہماچل پردیش ‘ چھتیس گڑھ ‘ مہاراشٹرا میں اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کی بڑی تعداد ED کے خوف سے پریشان ہو کر پیسہ کی لالچ میں NDA یا بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی ۔ جن میں سیاسی قد آور شخصیتوں پر ED کے مقدمات کی تلوار لٹک رہی تھی یا پھر اپنی مضبوط سیاسی قیادت کو داؤ پر لگا کر بی جے پی کی سرکردہ سرکاریں شمولیت کو غنیمت سمجھا۔ یہ ہی حال میڈیا کا کر رکھا ہے ۔ جو صحافی اور میڈیا چیانل دائیں بازو کی پالیسیوں سے عدم اتفاق کرتے ہیں یا گودی میڈیا کی بیانڈ باجہ پارٹی میں شامل ہونے سے گریز کر رہے ہیں ان کی بدترین درگت بنائی جارہی ہے ۔
3 اور 4؍ اکٹوبر کو سیکولر میڈیا ‘ کمپنیوں و صحافیوں کے کم از کم 100 مقامات پر چھاپے مارے گئے آزاد ‘ سچ گو صحافیوں کو نشانہ بنا کر انھیں کمزور کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔
عام آدمی پارٹی نے دہلی انتخابات 20 کے موقع پر بی جے پی سے مفاہمت کرکے کامیابی حاصل کی تھی ۔ اس وقت مشرقی دہلی کے مسلم مخالف فسادات میں سخت دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 54 سے زیادہ لوگ ہلاک اور 12 سو دوکانات و مکانات جلا کر خاکستر کردیئے گئے تھے ۔ پھر بھی مسلمانوں کی کسی بھی قسم کی ہمدردی سے محض اس لئے احتراز کیا تھا کہ بڑے صاحب اور وزیر داخلہ ناراص نہ ہوجائیں ۔پولیس کا معاملہ حکومت دہلی کے تحت نہیں ہے لہٰذا مجھے ان فسادات اور ہلاکتوں سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے ۔ اس میں عام آدمی پارٹی کے مسلم ایم ایل ایز اور کاؤنسلرس بھی گرفتار کرلے گئے تھے ۔وقت گزر گیا۔اس سال کے ابتدا میں 153 اوقافی جائیدادوں کو حکومت نے واپس حاصل کرلیا یہ سب کس کے کہنے پر ہوتا رہا ہے ۔
اب جب کہ عام آدمی کے وزیر منیش سسوڈیا Manish Sisodia اور سنجے سنگھ Sanjay Singh یم پی کو ED نے گرفتار کرلیا ہے تو اروند کجریوال کو نریندر مودی اور بی جے پی کا کرپشن و بد عنوانیاں نظر آرہی ہیں۔
ملک کے سیاسی حالات تیزی سے کروٹ لے رہے ہیں ۔ کسی بھی وقت بی جے پی کا خاموش ساتھ دینے والی بعض جماعتوں پر کراک ڈاؤن ہورہا ہے ۔ عام آدمی پارٹی کی ناراضگی وقتی ہے یا پھر بغیر کسی سیاسی مفاہمت کے ڈٹ کر بی جے پی کے زیادتیوں کا مقابلہ کریں گے ۔ سپریم کورٹ نے سنجے سنگھ کی گرفتاری پر پھٹکار لگائی ہے ۔ کجریوال کی INDIA سے وفاداری دیر پا ہوگی کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔
ابھی سنجے سنگھ کا قصہ ختم نہیں ہوا تھا 12 سے زیادہ یوٹیوب چیانلس کے دفاتر و مالکین پر مختلف سنگین الزامات کے تحت دھاوے کئے گئے ۔نیوز کلک کے بعض ڈائرکٹرس اور نیوز کاسٹر ابھی شار شرما کو بھی زیر حراست لیا گیا تھا ‘ پوچھ تاچھ کے بعد انھیں رات دیر گئے چھوڑ دیا گیا ۔ نیوز کلک پر الزام ہے کہ وہ امریکہ میں موجود چینی نواز انڈین بزنس من سے 56 کروڑ روپیہ وصول ہوا تھا۔
پریس کلب اور پریس گلڈ اور دوسرے صحافیوں کے تنظیموں نے ED و پولیس کی گرفتاریوں کے خلاف جم کر احتجاج کیا اور 12 مشہور جرنلسٹوں نے چیف جسٹس آف انڈیا مسٹر چندجوڑ کو خط لکھ کر اپیل کی کہ قبل اس کے دیر ہوجائے فوری پریس کی آزادی کے تحفظ کے لئے اقدامات کریں ۔ورنہ ملک Dictatorial Democracy میں تبدیل ہوجائے گا اور جمہوریت کا ایک اہم ستون پریس کی آزادی کا گلا گھونٹ کر اسے ختمم کردیا جائے گا ۔ اس تکلیف کا احساس امریکی صدر جوبائیڈن نے G20 ستمبر کی میٹنگ میں شرکت کے بعد ۔۔۔گئے تو ان سے رہا نہیں گیا بلکہ اشارۃ ً کہا دیا کہ وہاس پریس کو آزادی حاصل نہیں ۔
180 ممالک کے عالمی پریس فرینڈم کے انڈیکس میں ہندوستان کا رینک گزشتہ سال 150 تھا اس سال 23 میں 11 گریڈ گرکر 161 تک پہنچ گیا ۔ نہ صرف یہ بلکہ سیاسی Indicator 24 گریڈ ‘ معاشیات میں 6 گریڈ ‘ قانون سازی باڈیوں میں 14 گریڈ ‘ سوشل Indication 16 گریڈ اور صیانتی 9 گریڈ گرچکے ہیں ۔ افغانستان ‘ پاکستان ‘ بھوٹان ‘ سری لنکا میں پریس کی آزادی ہندوستان سے بہتر ہے ۔
16؍ اکٹوبر کو کشمیر کی ایک پریس فوٹو گرافر سنا ارشاد میٹو ایر پورٹ پر امریکہ جانے سے روک دیا گیا ۔ ثنا کو امریکہ میں جرنلٹس شعبہ میں دیئے جانے والے اعلیٰ ترین انعام حاصل کرنے جارہی تھی ۔ امریکہ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی پریس کو آزادی ملنی چاہیئے ۔ اس طرح جرنلسٹوں پر سفر کی پابندی پریس کی آزادی کو ختم کردے گی ۔
سیول سوسائٹی اقلیتوں اور دلتوں کے جتنے دانشورو جہد کار ہیں یا پھر انھیں تعاون دینے والے ادارے ہوں حکومت ایک ایک کرکے ہر ہفتے ملک کے مخصوص شہروں اور علاقوں میں مسلسل کراک ڈاؤن کر رہی ہے ۔ حراست میں لے گئے افراد اور رپورٹرس ‘ نیوز کاسٹر سے عجیب و غریب ناقابل فہم سوالات کئے جارہے ہیں ۔ ابھشار شرما سے یہ تک پوچھ ڈالا کہ 3 سال قبل کیا شاہین باغ گئے تھے یا جعفر آباد دہلی 20 کے فسادات کے موقع پر وہ علاقے کا دورہ کیا تھا ۔
پریس ‘ میڈیا ‘ وکلا ٔ براداری اور آزاد خیال مخالف ہندوتوا فکر کے تمام دانشوروں کو بی جے پی حکومت اپنا دشمن تصور کرتی ہے۔ اقلیتوں کے کسی بھی احتجاجی پروگرام ‘ دھرنے اور جلوسوں کو خوف کے مارے اپنے لئے نیوکلئیر بم اور Mass Heads of Mass Distruction تصور کرنے لگی ہے ۔ اطلاعات کے مطابق NRC, CAA کے خلاف ملک کے دوسرے مقامات پر جو جو افراد شریک تھے ان پر بھی کراک ڈاؤن کی تیاری ہورہی ہیں ۔ ٹوئٹر ‘ فیس بک ‘ یو ٹیوب کو دن بھر نوٹس وصول ہوتے رہتے ہیں ۔ اور جہاں محسوس کرلیا گیا کہ خیرہ تبصرہ اور تجزیہ میں مودی ‘ بی جے پی کے خلفا کسی بھی قسم کا مواد ہے اس کا بند ہونا یا مقدمے کا دائر ہونا ضروری ہے ۔
منی پور کے فسادات سے ملک کا مستقبل کی اجڑنے والی تصویر کا بہتر اندازہ لگایا جاسکتاہے ۔لوٹ کھسوٹ ‘ لوٹ مار ‘ قتل و غارت گیری کا ایک مخصوص اپنا انتہا دہشت گرد ہندوتوا حزب و گروپوں کو حاصل ہے ۔ سوسائٹی کے تمام آزاد طبقات حصوں اور زندگی کے مختلف میدان میں خدمات انجام دینے والوں سے بی جے پی بہت خوف کھاتی ہے ۔ آر ایس ایس کے ایک دانشور روی اروراRavi Arrora نے ویدا اور جدید چیالنجس کو ملحوظ رکھتے ہوئے عصر حاضر میں ہندو سوسائٹی کو درپیش 5 بڑی جنگوں کا اپنی ضخیم کتاب میں تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔ وہ مسلمانوں ‘ کمینسٹوں ونکسلس کو Dividing Forces قرار دیتا ہے ۔ کتاب پڑھنے والا ہر غیر مسلم ہندوستانی یہ خیالات میں چلا جاتا ہے کہ وہ حالت جنگ میں ہے اور ہر سمت دشمنوں سے گھیرے ہوئے ہیں اور ان پر جو جنگ مسلط کی گئی ہے اس میں لڑ کر دشمن کو کچل کر فنا کردینا ہے ۔ اس نئی مہا بھارت کی جنگ میں لیل والنہار ہمیں ہمارے دشمنوں سے جنگ کرنا ہے وغیرہ ۔
تقاریر ‘ گودی میڈیا اور نام نہاد ہندوتوا کے دانشوروں کی تحریری اور کتابیں نفرت اور زہر سے بھری پڑی ہیں ۔ یہ وجہ ہے کہ ایک ہندوتوا کا ملک گیر سطح پر ایسا سیاسی ماحول بنادیا گیا ہے کہ اس میں اعلیٰ ذات ہندوؤں کے ہاتھوں دلت اور پچھڑے ہوئے طبقات کا بھر پور استحصال ہو ۔
بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار Nitish Kumar نے طبقات اور مختلف ذاتوں کا سروے جاری کردیا جس کی توقع بی جے پی کو ہرگز نہیں تھی ۔ اس سروے سے اندازہ ہوتا ہے کہ 2% اعلیٰ ذات برہمنوں کو 17% ریژرویشن حاصل ہے ۔ جب کہ دوسری ذاتیں اور مسلمان 12 تا 20% پر بھی انہیں کوئی تحفظات حاصل نہیں ہے ۔
اڑیسہ کے چیف منسٹر نوئین پٹنائک Naveen Patnaik اور کرناٹک چیف منسٹر سدارامیا Siddaramaiah نے بھی طبقاتی سروے کا اعلان کیا ہے ۔ جس سے ووٹروں میں ایک عام سیاسی بیداری پیدا ہوگی اور ہر طبقہ اپنے حقوق اور سیاست و ملازمتوں و حکومتی مراعات میں تحفظات پر دباؤ ڈالے گا ۔ اس کا اثر لازمی طور پر 18 ویں لوک سبھا الیکشن پر پڑ سکتا ہے اور ممکن ہے کہ بی جے پی گزشتہ انتخابات کی طرح بہتر نتائج حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہوجائے ۔
زور زبردستی ‘ ظلم و تشدد کے ذریعے شہریوں کو اپنی سیاسی وفاداریوں میں طویل عرصے تک محصور رکھنا اس میڈیاو ڈیجیٹل کی دنیا میں مشکل ہے ۔ بد عنوانیوں ‘ بوتھ منیجمنٹ ‘ کرپشن ‘ توڑ جوڑ ‘ خرید و فروخت ‘ ڈرا دھمکا کرMLA اور MP’s کو تائید میں لے کر حکومتیں تشکیل دینا تو آسان ہوسکتا ہے لیکن اس کی برقراری اور سیاسی استحکام نا ممکن ہوجاتا ہے ۔
آئندہ چند ماہ میں ہونے والے 5 ریاستوں کے ریاستی انتخابات بڑی اہمیت رکھتے ہیں ان ریاستوں راجستھان ‘ مدھیہ پردیش ‘ چھتیس گڑھ ‘ تلنگانہ میں بی جے پی کی سیاسی صورت حال بہت کمزور نظر آرہی ہے ۔
دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی قیادت ریاستوں میں انتخابی کامیابی کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے یا پھر ہمیشہ کی طرح ووٹ کا پیاٹرن تبدیل کرنے کے لئے کوئی چونکہ دینے والا حیرت انگیز حادثہ اور دھماکہ خیز صورت حال پیدا کردی جائے ۔ ستیہ پال ملک سابق گورنر جموں و کشمیر کے مطابق پلوامہ میں معصوم درجنوں فوجیوں کی ہلاکت عین انتخابات سے قبل مشکوک ہے ۔
INDIA جب تک مضبوط میدان میں اپنی سیاسی سرگرمیوں کو ووٹروں سے نہیں جوڑتی ‘ اس وقت تک INDIA کا بی جے پی کو شکست دینا بہت مشکل اور نا ممکن قرار پاتا ہے ۔
Total No of Words: 1,766
Release on : 08-10-2023
-
Social Issues7 months ago
مدرسہ کو۔۔۔مدرسہ قیادت سے شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔!
-
Social Issues7 months ago
مسئلہ نکاح مسیار
-
Social Issues7 months ago
عدل و انصاف کا قتل!
-
Politics7 months ago
سیاسی کریک ڈاؤن اور میڈیا کو دبانا: بھارت کے 2024 کے عام انتخابات سے پہلے بی جے پی کی حکمت عملی
-
Social Issues7 months ago
مسئلہ فلسطین کا سفارتی و سیاسی حل نکالنے میں ہماری عدم دلچسپی!!
-
Politics7 months ago
اسرائیل کی حماقت اور حماس کی حقیقت
-
Blog7 months ago
مسجد اقصیٰ کا تحفظ خطرے میں!!
-
Blog7 months ago
ملک میں بے روزگاری کا بھیانک سُلگتا ہوا مسئلہ