Politics

کیا عمران خان تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرسکیں گے

Published

on

بسمہ تعالیٰ

کیا عمران خان  تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرسکیں گے

         از:  ناظم الدین فاروقی

NPA  DOC No : 0134

Dated: 03-04-2022

30؍ مارچ کو فوج اور آئی ایس آئی  نے عمران خان کو ٹی وی پر قوم سے خطاب کرنے سے روک دیا ہے ۔ پاکستان کی قومی سیاست  بحران کا شکار ہے ۔پاکستان 342 رکنی پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی  انصاف پارٹی 149‘ مسلم لیگ (نواز شریف) 84‘ پیپلز پارٹی 56‘ یم کیو یم  ‘ 7 مسلم لیگ (کیو) 1‘پاکستان مسلم لیگ کے 4 اور دوسری چھوٹی سیاسی پارٹیوں کے 1‘1۔2‘2 نشستیں ہیں ۔ 

پاکستان قومی اسمبلی میں 162 ارکان پارلیمنٹ  نے عمران خان کی حکومت  کے خلاف تحریک عدم اعتماد                              Non Confidence Movement  پیش کردیا ہے ۔ عمران خان کی پریشانی  میں اس وقت اضافہ ہوا جب کہ ان کی پارٹی کے 20 ارکان نے بغاوت کردی۔ اب ان کے پاس 7+132  یم کیو یم ارکان  کی تائید کو شامل کرلیا جائے تو صرف 139  ارکانِ پارلیمنٹ  ان کے کیمپ میں ہیں ‘ حکومت کے اقلیت میں آنے کے باوجود آج بھی تحریک انصاف ‘ پارلیمنٹ   میں ملک کی سب سے بڑی جماعت  ہے ۔

پاکستان کی قومی اور ریاستی سیاست ہمیشہ ریشہ دوانیوں  اور اتھل پتھل  کا شکار رہی ۔ سیاسی جماعتوں کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود  وہاں کی  معاشی ترقی بڑی سست  بلکہ تباہی کا شکار رہی۔عمران خان کو ملک کو مالی بحران  سے بچانے کے لئے غیر متوقع اقدامات کرنے پڑیں حتیٰ کہ  آئی ایم ایف  کے تحت ریژر و بینک آف  پاکستان کو دے دینے کے متعلق معاہدوں پر دستخط  ہوئے۔ خلیجی  ممالک اور  سعودیہ عربیہ کے پاکستان سے تعلقات تناؤ کا شکار ہونے سے معیشت کمزور ہوتی گئی ‘ چند ماہ قبل سعودیہ نے کچھ قرض جاری کیا ۔

عمران خان نے  تحریک انصاف پی ٹی آئی  کی بنیاد 25 سال پہلے ڈالی تھی ۔ تحریک انصاف نے 3 باتوں جیسے  مساوات ‘ بد عنوان سیاست کا خاتمہ  اور مدینہ طرز کی رفاہی ریاست  کا نعرہ دے کر ملک کے عام انتخابات  میں بڑی کامیابی حاصل کی تھی۔

4 سال قبل 4؍ ستمبر 2018 کو قومی اسمبلی کے عام انتخابات  منعقد ہوئے تھے ‘ مبصرین  کے مطابق پاکستانی پارلیمنٹ کے لئے یہ صاف ‘ ستھرے انتخابات منعقد ہوئے تھے۔ Free and Fair Election Met Work (FAFEM)   کے مطابق 2018 کے  قومی اسمبلی کے عام انتخابات  بد عنوانیوں ‘ ریگنگ  اور بوگس  ووٹنگ سے پاک تھے ۔

پاکستان کی مرکزی حکومت بنانے کے لئے 172 نشستیں درکار ہیں ۔342 قومی اسمبلی میں 272  نشستیں عام زمرے  میں اور 60 خواتین ‘ 10 اقلیتوں  کے لئے محفوظ نشستیں ہیں ۔

پاکستان  کی آبادی تقریباً 20 کروڑ کی ہے جس میں  صرف  نصف یعنی شہری 10 کروڑ 40 لاکھ رجسٹرڈ  ووٹرس ہیں ۔ 2013 کے انتخابات  میں  مسلم لیگ (ن) کو 166 نشستیں اور (پی ٹی آئی )  تحریک انصاف پارٹی کو 35 نشستیں ملیں تھیں ۔ 2018 کے عام انتخابات  میں مسلم لیگ (ن) کا 8.42%فیصد ووٹ گھٹا ہے ۔

2018 کے انتخابات میں عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی  نے جملہ 31.82% فیصد ووٹ حاصل کئے تھے جب کہ مسلم لیگ (ن) کو 24.33% فیصد ووٹ ملے۔ پی ٹی آئی  نے 149 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی ۔2013 کے  سابقہ انتخابات  کے مقابلہ ووٹنگ کا  فیصد گھٹا ہے۔ اس وقت 55% فیصد  ووٹروں نے ووٹ ڈالے  تھے جب کہ2018 میں  ووٹنگ کا  فیصد گھٹ کر 51%ہوگیا۔ 

عمران خان کی داخلی اور خارجہ پالیسی سابق وزیر آعظم سے بالکل مختلف تھی۔ کسی حد تک قومی سیاست سے بد عنوانیوں  کے خاتمہ کی کوشش میں کامیاب رہے۔داخلی طور پر قومی معیاری طبّی سہولتوں  اور  صحت بیمہ کے علاوہ عوام کو پرائیویٹ  اسپتالس  سے جوڑ دیا گیا ہے‘ نئی قومی صحت پالیسی  کے مطابق علاج کا مکمل خرچ حکومت برداشت کر رہی ہے۔200 ممالک کے لئے E.Visa‘ E. Passport‘ وراثت سرٹیفکٹ آن لائن  اور اعلیٰ تعلیمی اداروں  و یونیورسٹیوں  کا قیام عمل میں لایا ۔ اس کے علاوہ غریب عوام کے گھروں کی تعمیر کے لئے خصوصی توجہ دی۔ ملازمتوں کی فراہمی اور بند فیاکٹریوں  کے احیا ٔکے علاوہ نئی سوپر فاسٹ ریلوے لائنس  کے کام کا آغاز کیا گیا۔ عوامی خدمات  میں حکومت کو شہریوں  کے دہلیز تک پہنچانے کی عمران خان کی حکومت نے   کامیاب  کوششیں کیں۔وہ غریب  عوام کی آواز بن کر  بات کرتے رہے‘ عوامی  سطح پر انھیں بڑی مقبولیت ملی۔

ان کی حکومت میں خارجہ پالیسی  میں خاصی تبدیلی لائی گئی ۔ مسئلہ کشمیر ‘ فلسطین ‘ روہنگیا اور اسلامو فوبیا  کے لئے عالمی سطح کے تمام بڑے فورمس  میں  پہلی مرتبہ  عمران خان  نےآواز اٹھائی ۔ یورپ  میں خاص کر فرانس  میں اسلاموفوبیا  کے لہر کے خلاف مسلم ممالک کو  متحد کرنے کی کوشش  کی‘ جس کی وجہہ سے اقوام متحدہ میں 15؍ مارچ کو اسلامو فوبیا  کا عالمی دن ماننے کی تجویز منظور کی گئی۔عمران خان نے اپنے سیاسی دعوؤں کے مطابق بد عنوان سیاست  دانوں کے خلاف قانونی اقدامات  کرنے شروع کئے۔ پیپلز  پارٹی اور مسلم لیگ  نواز شریف کے بڑے بڑے اسکنڈلس  منظر عام پر لائے گئے ۔ نواز شریف کو گرفتار کیا گیا۔ نواز شریف نے اپنے بین الاقوامی طاقتور ممالک کی دوستی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عمران خان پر اتنا پریشر  ڈالا کہ  انھیں علاج کے بہانے ملک سے جانے کی سپریم کورٹ  نے اجازت دے دی‘ جیسے ہی نواز شریف  لندن پہنچے انھوں نے پیپلز پارٹی کے زرداری ‘ مہاجر قومی مومنٹ  کے الطاف حسین  کے ساتھ مل کر عمران خان کی حکومت کا تختہ پلٹنے  کی کوششوں کو تیز تر کردیا۔ لندن کے قیام  کے دوران  نواز شریف  نےعمران خان کے خلاف تحریک منظم کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی‘ خلیجی ممالک کے ساتھ پاکستان کے برادارانہ  تعلقات میں دراڑ ڈالنے میں نواز شریف  کے رول سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔

سب سے زیادہ نقصان تحریک انصاف PTI کے 20 ممبران پارلیمنٹ  کے بغاوت سے ہوا‘  جس کے نتیجے میں  عمران خان کی PTI  پارٹی قومی اسمبلی میں اکثریت سے محروم  ہونا پڑا ۔ PTI  کے 149 نشستوں کے علاوہ انھیں 23 ممبران کی تائید کی ضرورت ہے جب کہ ان کی تائید میں43 ارکان پارلیمنٹ کا ملنا مشکل نظر آرہا ہے۔ شیخ رشید ‘ وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد  کو پارلیمنٹ میں ناکامیابی ہوگی‘ دنیا عمران خان کے ماسٹر اسٹروک  سے حیران ہوجائے گی۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ 2018  کے انتخابات میں  عمران خان  نے بہت بڑی غلطی  جو کی تھی وہ یہ تھی کہ  پاکستان کے مافیہ اور بڑے  طاقتور ڈان جہانگیر ترین‘  بدنام زمانہ ‘ مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے دولت مند شخص  سے بھر پور تعاون حاصل کیا تھا ۔ انتخابی جلسوں  اور ملک کے طول و عرض  میں ہوائی  سفر کے لئے کئی ہیلی کاپٹرس  کا بندوبست اس نے کیا تھا اس کے علاوہ انتخابی  اخراجات کا انتظام ‘ گندم و چینی ‘ پٹرول کے مافیا  گینگ نے کئے تھے ۔

عمران خان  کے حکومت بنانے کے چند ماہ بعد سے ہی مافیہ عمران خان کو بلیک میل  کرنے لگا اور اپنے لئے کئی مراعات  حاصل کرنے کی کوشش کی۔ جس سےعمران خان کی ساکھ کافی متاثر ہوئی۔ بعد میں جب عمران خان نے  ان کے بلیک میلنگ  کے آگے جھکنے سے انکار کردیا تو وہ ان کےبظاہر  بنے وہی سیاسی  مددگار ایک سازش کے تحت  ان کا تختہ پلٹ دینے  کے لئے اپوزیشن  کے کیمپ میں شرکت کرلی اور  وارننگ  دیتے رہیں ۔ مسلم لیگ (ن) کے 84  اور پیپلز  پارٹی کے صرف 56 اراکین  پارلیمنٹ ہیں اس کے علاوہ  دوسری چھوٹی پارٹیوں کو لے کر  اسپیکر کے سامنے تحریک عدم  اعتماد پیش کردی۔عمران خان کو 31؍ مارچ  کو اکثریت ثابت کرنا تھا‘ ٹکنیکل بنیادوں  پر اسے 4؍ اپریل تک ملتوی کیا گیا ہے۔دونوں جانب  کافی گرما گرم سیاسی جوش نظر آرہا ہے ۔ اپوزیشن  اور حکمران جماعت کے دعوے  کسی حد تک حقیقت  سے قریب ہے وہ پارلیمنٹ  میں ووٹنگ کے دن معلوم ہوجائے گا۔

بلوچستان  کی اسمبلی میں  تائیدی  دوسری سیاسی اپوزیشن  پارٹیوں  کے اختلافات  کو کم کرنے کے لئے انھیں  اپنے چیف منسٹر  کو ہٹاتے ہوئے دوسری سیاسی پارٹی  کے لئے چیف منسٹر کا عہدہ چھوڑ دینا پڑا۔ اس کے باوجود‘ پھر بھی قومی اسمبلی میں اکثریت ثابت کرنا ناممکن ہے۔

عمران خان  کے خلاف اپوزیشن ‘ فوج ‘ امریکی نواز لابی ہے جو مسلسل پریشر بنائی ہوئی ہے ‘ صرف چین عمران کو بچانے میں لگا ہوا ہے ۔ عالمی سیاسی حلقوں میں سب  اس بات سے واقف ہیں کہ اگر پاکستانی فوج  اپنی تائید ہٹالے اور مخالفت  کرنے لگے تو پھر کسی بھی عوامی منتخب سیاسی لیڈر کا ملک سے فرار ہونا یا موت سے بچانا محال ہوجاتاہے۔

 سیاسی اتھل ‘ پتھل  اور ان کے خلاف  اٹھائی گئی تحریک عدم اعتماد  کو دیکھتے ہوئے 27؍ مارچ 22 ‘PTI  نے بہت بڑا عوامی جلسہ  منعقد کیا ۔ملک کے کونے کونے سے تحریک انصاف  PTI کے کارکنوں اور عوام کو  اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ  پر جمع کیا  جسے پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی عوامی جلسہ  قرار دیا جارہا ہے۔

 اس عظیم  جلسے کے بعد یہ توقع کی جارہی تھی کہ عمران خان مستعفی ہو کر 19 ماہ قبل انتخابات  کا اعلان کردیں گے جب کہ پارلیمنٹ کی معیاد  12؍ اکٹوبر 2023 کو ختم  ہونے والی تھی ۔ لیکن عدم اعتماد  Non Confidence Vote  کی وجہہ  سے صرف دو راستے باقی رہ گئے ہیں ‘  پارلیمنٹ  کو یا تو تحلیل کرکے الیکشن  کا اعلان  کیا جائے یا پھر اپوزیشن  اپنی اکثریت  ثابت کرکے حکومت بنا سکتی ہے۔ لیکن کیا موجودہ  حکمران PTI اس بات سے اتفاق کرے گی کہ اپوزیشن  اپنی حکومت  بنائے ۔ توقع کی جارہی ہے کہ اپوزیشن  لیڈر نواز شریف کے بھائی شہباز شریف  دوسرے اپوزیشن جماعتوں خاص کر پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمن کی تائید سے ووٹ حاصل کرکے حکومت تشکیل دیں گے۔ پھر بھی یہ اقلیتی  حکومت کہلائے گی جو زیادہ دنوں تک ٹک نہیں سکتی۔ 

اگر شہباز شریف  سیاسی توڑ جوڑ میں کامیاب ہوتے ہیں  تو ایسی صورت میں عمران خان کو کسی نہ کسی فرضی کیس  میں ملوث کرکے  گرفتار کیا جائے گا‘  مالی بد عنوانی اور بیرونی رقومات  کے غبن  کا ایک مقدمہ پہلے ہی عمران خان کے خلاف درج ہوچکا ہے۔ اگر پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد  کامیاب  ہوجاتی ہے تو زرداری  ‘ بلاول بھٹو ‘ نواز شریف ‘ مریم نواز‘ شہباز شریف  عمران خان  سے سیاسی خصومت اور انتقام لینے میں غفلت نہیں برتیں گے اور پھر انھیں گرفتاری سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ سیاسی تائید کے سلسلہ میں فوج  دو حصوں   میں تقسیم ہوچکی ہے۔ ملک کی جمہوریت  کو جلا بخشنے کے لئے فوج نے پارلیمانی امور میں مداخلت  سے مکمل اجتناب  کیا اور دستور و الیکشن  کے قاعدے و قانون کے مطابق اپوزیشن کو بھی کھل کر موقع دیا‘  جو بڑی خوش آئند بات ہے۔ 

عمران خان کے 4 سالہ دور میں پاکستان کے اندرونی سیاسی ‘ سماجی حالات  بڑے پُر آشوب  اور مضطرب رہے  ہیں  سیاسی پارٹیوں کے عالمی طاقتوں کے علاوہ ہندوستان ‘ سعودیہ عربیہ ‘ اسرائیل ‘ ایران  کے گہرے تعلقات  میں اضافہ ہوا ہے ۔  عمران خان کے مخالفین اور پریشر سیاسی گروپس فوج اور انتظامیہ میں طاقتور عہدوں پر فائز ہیں ۔ فوج اور انتظامیہ  بظاہر خاموش نظر آرہی  تھی ۔ 

عمران خان  ایک سنجیدہ سیاسی  قائد ضرور ہیں  لیکن پاکستان کی پیچیدہ سیاست میں شاطرانہ چال چلنے ‘ توڑ جوڑ                 Horse Trading   سیاسی قائدین کی خرید و فروخت کا تجربہ نہیں رکھتے بلکہ وہ ایک سادہ لوح کپتان ہیں اور اپنی مخلصانہ سیاسی جدوجہد  میں کسی قسم کی مفاہمت سے گریز کرتے رہے ۔یہ کہنے میں کوئی تردّد  نہیں کہ  پاکستان کا سیاسی میدان عالمی ریشہ دوانیوں  کا   International Political Battle Field بن چکا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ کس طرح عمران خان تحریک عدم اعتماد  کو پارلیمنٹ میں کام کرجائیں گے۔ 

Total No of Words: 1,931

  Release on : 03-04-2022

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Politics

اسرائیل کی حماقت اور حماس کی حقیقت

Published

on

بسمہ تعالیٰ

اسرائیل کی حماقت اور حماس کی حقیقت

         از:  ناظم الدین فاروقی

NPA  DOC No : 170

Dated: 01-11-2023

کرۃ الارض پر فلسطینیوں کی نسل کشی کے لئے غزہ کو دور جدید کے جہنم میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ لہو کے آبشار ‘ شہدا کی بے گور و کفن لاشیں ‘ ہزاروں علاج کے لئے تڑپتے زخمی  معذور ‘ بھوک و پیاس سے نڈھال عوام ‘ خوفناک بمباری اور توپوں کے گولوں سے بچنے کے لئے شمال سے جنوب  اور جنوب سے مشرق و مغرب  دوڑتے دوڑتے  زندگی  سے تھک چکے ہیں ۔لیکن پھر بھی دشمن سے لڑنے کا ولولہ ماند نہیں پڑا ہے۔عورتوں ‘  بیواؤں ‘ یتیم بچوں ‘ زخمی مریضوں کا کہرام مچا ہواہے ۔ ہر 7 منٹ میں ایک بچہ فوت ہورہاہے ‘ مرنے والوں میں 70% عورتیں اور بچے ہیں ‘ غزہ میں21 ویں صدی کا بدترین انسانی بحران پیدا ہوگیا ہے ۔ اموات کی تعداد کا کانٹا تیزی سے ہر7 منٹ میں ایک بچے کی موت کے ساتھ شہادت پانے والوں کی تعداد  میں اضافہ ہی کرتا جارہا ہے ۔ 12 ہزار سے زیادہ معصوم فلسطینی شہادت  پا چکے ہیں ایک لاکھ سے زیادہ زخمی ہیں  اور بار بار اسرائیلی فوج  کی وارننگ کی وجہہ سے محلہ کا محلہ خالی کرکے جان بچانے کے لئے بھاگ رہے ہیں ۔ وزارت سیول سروس غزہ کے مطابق آدھے سے زیادہ آبادی یعنی تقریباً 12 لاکھ بے گھر ہو کر سڑکوں ‘ گلی ‘ کوچوں میں زیر سماں بے سہارا ہجوم ‘ بے آب و غذأ و دوأ سکتہ میں ہے ۔ جائیں تو کہا ں جائیں ؟ کھلی جیل میں اسرائیل وحشیانہ بمباری کے ذریعے معصوم فلسطینی ہونے کا  بدترین انتقام لے رہاہے۔ قتل عام و غارت گیری  کی بدترین تجربہ گاہ بنا کر ظلم و بربریت  کی چکی میں پیسا جارہاہے ۔عالمی رائے کو بدلنے کے لئے پروپگنڈے کے ذر یعے دنیا میں مظلوم فلسطینیوں کو مجرم اور وحشی عرب کے طور پر بد نام کرنے امریکہ کے کئی بڑی میڈیا کمپنیوں جیسے ڈیجیٹل  مارکٹنگ  کمپنی Semrush  وغیرہ کوتشہیر  کا کنٹراکٹ دیا گیا ۔ اسکے ذریعہ  فلسطینیوں  کو وحشی ‘ بد معاش عرب  کے طور پر ان کا تشویۃ ( بدنام) کرنے کے لئے کئی بلین ڈالر عالمی میڈیا وار پر اسرائیل خرچ  کر رہا ہے دنیا میں اک سو بیس کروڑ  1.2 بلین (Billion)  ناظرین تک غزہ کی جنگ کی فیک ‘جھوٹ پر مبنی ویڈیوز اور واقعات و معلومات  پہنچائی جاچکی ہیں ۔ اسرائیل کے ایک آئی ٹی I.T  ماہرمحقق کے مطابق 2 ملین سے زیادہArtificial Intelligence   کے ذریعہ فیک نیوز  تیار کرکے دنیا میں سوشل میڈیا پر گشت کروایا جارہا ہے ۔ ایک عربی چیانل نے کئی اس طرح کے فرضی قدیم ویڈیو کلیپنگس  کو واشگاف  کیا گیا ‘ حال ہی میں یہ بتلایا گیا ہے کہ امرحکہ کے ہزاروں فوجی ایر کرافٹ سے اسرائیل ایر پورٹ  پہنچ رہے ہیں ۔ ان مناظر کو فیاکٹ چیک کے ذریعہ ٹسٹ کیا گیا تو پتہ چلا کہ یہ دوسال پرانی ویڈیو ہے ۔ ٹھیک اسی طرح 40 بچوں کے سر کاٹنے کی افواہ پھیلائی  گئی  اور ایک فیک ویڈیو  میڈیا میں گشت کر وادیا گیا ۔جس کے ذریعے حقیقی واقعات پر پردہ ڈالتے ہوئے پوری دنیا میں اپنے معصومیت کے ڈنکے پیٹتے ہوئے نسل کشی کو ضروری اور اپنے دفاع کے حق میں  لازمی اور وقت کی ضرورت قرار دے رہے ہیں۔

دنیا کا چاہے پرنٹ میڈیا ہو  یا ڈیجیٹل‘ ان تمام بڑی کمپنیوں  کے مالکین یہودی ہیں  وہ اور زور و شور سے اسرائیلی ظالمانہ پالیسیوں کو خوبصورت بنا کر بھر پور ساتھ دے رہے ہیں لیکن یہودی مذہبی پیشواؤں‘   یہودی دانشوروں کی بڑی تعداد اب فلسطینیوں کی آزادی  کے حق میں ایک طاقتور تحریک چلا رہے ہیں ۔ 

نیو یارک پوسٹ 29؍ اکٹوبر کے شمارے میں پہلے صفحہ پر سرخیوں میں خبر شائع کی گئی کہ دو ہزار اسرائیلی مشرقی وسطیٰ کے وحشیوں سے لڑنے کے لئے روانہ ہوئے ہیں ۔ اسی اخبار میں ایک گھریلو عورت کو اس کے لوّر (Lover)  نے قتل کرکے اس کے جسم کے ٹکڑوں کو فریج میں رکھ دیا ‘ جس کی اطلاع پولیس  کو ایک ماہ بعد ملی وحشی کون ہیں ؟ سالانہ 35  ہزار سے زیادہ معصوم لوگ امریکہ میں گن فائر میں ایسے ہی ہلاک کردیئے جاتے ہیں ۔ عرب دنیا میں کسی بھی مقام پر اس طرح آپسی فائرنگ  کے ذریعہ  بے جا قتل نہیں ہوتے ۔ پہلی مرتبہ یہ دیکھا گیا ہے کہ یہودی  لابی میں خود غزہ پر حملو ں کے خلاف زبردست آپسی شدید اختلاف  کا شکار ہوچکی ہے ۔ احتجاجی یہودی  واشنگٹن میں کیپٹل ہلز پر ہلہ بول دیا ۔ ہفتہ 4؍ اکٹوبر 23 کو امریکہ کے  50 شہروں سے لاکھوں افراد احتجاجی جلوس  کی شکل میں جمع ہو کر پورے امریکہ کو دھلا دیا ۔ منھا ٹن نیویارک کے اسٹیشن کو  روز روز کے احتجاج کی وجہہ سے کئی مرتبہ بند کرنا پڑا ۔31؍ اکٹوبر 23 کو وزیر خارجہ امریکہ انٹونی بلنکن (Antony Blinken) کی پریس کانفرنس میں صحافیوں کی بدترین مخالفت  اور اہانت کا سامنا کرنا پڑا ۔ صحافیوں  کی اکثریت نے اپنے ہاتھوں کو خون سے رنگ کر زبردست پریس کانفرنس  کے خلاف احتجاج کیا۔ 

اسرائیل کے ایک مشہور صحافی Hila Weiss Berg کا ایک مضمون بعنوان اسرائیل کی حماقتیں اور حماس کی حقیقتیں’’Israel Fantasies & Hamas Realties ‘‘ کے عنوان سے ایک مشہور روزنامہ میں  شائع ہوا ہے۔ جس کے مطالعہ سے اسرائیل کے اعلیٰ ملٹری قیادت کی صحیح طور پر سونچ و فکر کا اندازہ ہوتا ہے  جس کا اقتباس قارئین کے استفادہ کے لئے یہاں درج ہے :

’’Dr. Micshetin مشیر اعلیٰ برائے فلسطینی امور IDF (اسرائیلی ڈیفنس فورس ) کے  انٹلیجنس (مخابرات ) میں لفٹنٹ  کرنل کے عہدہ پر رہ چکے ہیں  انہوں  نے 1948 کے نکبہ پر اپنی پی ایچ ڈیP.hd کی تھی‘ ہلز ویس برگ Hils Weis Bergجنھوں نے ایک خصوصی انٹرویو  میں بعض حقائق  پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے بہت ساری چونکا  دینے والی باتیں کہی ہیں ۔ 

فلسطینیوں کا مسئلہ اتنا آسان نہیں جتنا ہمارے سیاست دان تصور کرتے ہیں ۔ اسرائیل کی انٹلیجنس  کی سب سے بڑی تاریخی غلطی  یہ تھی کہ وہ حماس اور اس کی قیادت کو الفتح و حزب تحریک فلسطین جیسے گروپوں  کی طرح سمجھتی رہی جب تک حماس کے تصورات ‘ خیالات ‘ نکتہ نظر اور فکر ان سے بالکل مختلف ہے ۔ وہ ہمارا ایسا دشمن ہے جس کو ایک زاویہ نگاہ سے سمجھنا اور اس کے مطابق ایک مفروضہ بنا لینا سوائے ہمار ی بے  بصیرتی  اور اندھے پن کے کچھ نہیں ہے ۔ حماس  جہاں دہشت گرد  ہے وہی وہ ایک سیاسی ‘ سماجی ‘ فلاحی اور نتائج سے بھر پور مہیمات چلانے میں مہارت  رکھنے والی تحریک ہے ۔ حماس میں عقلی بنیادیں  Pragmatism کوٹ کوٹ کر بھرا ہواہے۔ موجودہ فدائی کوششوں کو اپنی تاریخ سے جوڑ کر کام کرنے کی  ان میں بھر پور صلاحیت پائی جاتی ہے ‘ ان کی قیادت مذہبی قیادت نہیں ہے لیکن وہ  بہت کٹر مذہبی ہیں ۔ 

موجودہ صدر غزہ  یحیی سنوار کو ہم نے 22 سال اسرائیلی جیل میں قید میں رکھا ۔ اس دوران اسیری میں  اس نے یونیورسٹی سے نہ صرف دو پی ایچ ڈی تکمیل کرلئے بلکہ حماس نے سنوار کی رہائی کے لئے ہمارے ایک فوجی کرنل  Giled Shelit  کا اغوا کرلیا تھا جنھیں چھڑانے کے لئے ہمیس حماس کے ساتھ ڈیل میں بہت کچھ کھونا پڑا تھا ۔ یحییٰ سنوار کے ساتھ  ایک نہیں دو نہیں ایک ہزار فلسطینی قدیوں کو رہا کرنا پڑا۔  اتنی خطرناک شرائط کو بھی ہمیں ماننا پڑا ۔یہ کہنا مشکل ہوتا ہے کہ حماس کب کیا سیاسی ‘ سفارتی ‘ معاشی ‘ عسکری ‘ عالمی اعلام ترک چلے گا ‘ ہمارے سنچری کے تمام 75 سالہ تجربات  کو ایک دن میں حماس نے خاک میں ملا دیا ۔ 

ڈاکٹر مچٹن کا کہنا ہے ایک جانب یحییٰ سنوار اسرائیل کے وزیر آعظم کو خط لکھتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے روزگار کے لئے چک پوائنٹس  پر نرمی کرتے ہوئے ورک پرمٹ دیئے جائیں ۔دوسری جانب وہ ان بے روزگاروں کو ہماری سرزمین پر روزانہ محنت مزدوری کے نام پر ہمارے علاقوں میں  گھسا کر ان سے ہماری  جاسوسی کے ذریعے مخبری کرواتا رہا ۔ 

ہم یہ سمجھتے رہے کہ 22 سال قید و بند  کی سزا کاٹنے کے بعد اب اس کی زندگی میں سوائے اپنی زندان کی آپ بیتی لکھنے کے کیا کام باقی رہ جائے گا اور اس نے ہماری سزاؤں (تعذیب ) سے بہت کچھ سبق حاصل کرلیا ہوگا ۔ اس کی سوسائٹی میں  لوگ اس سے خوف  بھی کھائیں گے ۔اس کے اہل خانہ اسے گھر کے کسی کونے میں بٹھادیں گے لیکن ہمارے یہ مفروضے سب لغو ثابت ہو گئے ‘ہم سنوار کے افکار و نظریات  کو صحیح طور پر سمجھ نہیں سکے۔ سراسر دھوکہ کھا گئے۔ ہمارے جیلوں سے رہا ہونے والے بڑے بڑے سور ماؤں کی کمر ٹوٹ جاتی ہیں اور ہمیشہ کے لئے وہ  ہم سےدشمنی کا راستہ بھول جاتے ہیں ۔ وہ تو رہا ہو کر  نہ صرف  بڑا قائد بن گیا بلکہ پوری حکومت کی باگ ڈور  اس نے سنبھالی ۔( اس پر جان نچھاور کرنے والوں کی ایک فوج تیار کرلی )۔

ہمارے زندگی کے اَپروچ میں اور سنوار کے اپروچ میں بہت بڑا فرق ہے ۔ذرا سونچئے ہم لوگ بڑے بڑے فوج اور حکومت کے عہدوں پر رہ کر وظیفہ  پر سبکدوش ہوجاتے ہیں اور پھر ایک  دن مرجاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ہماری زندگی کا اور کیا نکتہ نگاہ ہے ۔لیکن سنوار  کے اور حماس کی قیادت کے پاس نہ موت کا خوف ہے اور نہ ہی ان کی موت کے بعد ان کی تحریک ختم ہونے والی ہے ۔ ان لوگوں نے بچے بچے  کہ دل اور دماغ میں اپنے ارض مقدس  کی آزادی کی جو روح پھونک  دی وہ ایسا لگتا ہے کہ کبھی ختم نہیں ہونے والی ہے ۔ 

اس تجزیہ  میں ڈاکٹر مشیٹنن نے مضمون نگار صحافی کے ذریعے یہ بھی وارننگ دی کہ اگر دو قومی نظریہ قبول کرلیا جائے تو سمجھ جاؤ کہ پڑوس میں ایک نیا بوسنیا تیار ہوگیا ہے اور اگر فلسطینی نوجوانوں کو ہماری شہریت دی جائے گی تو وہ اکثریت میں آجائیں گے اور سوشل ڈیموکریٹک اسٹیٹ کے بہانے حکومت  ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گی ۔ ان کی مغربی پٹی اور نہ ہی غزہ کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں مملکت کا درجہ  دینے کو بین الاقوامی دباؤ کے تحت قبول کرنا  اپنے لئے( اسرائیل) خودکشی کرنا ثابت ہوگا ۔ بجلی ‘ پانی ‘ فینانس ‘ دفاع ‘ صیانت  سب کچھ ہمارے ہاتھ میں ہونے کے باوجود آج  جس انداز سے ہم پر حملہ آور ہوئے ہیں وہ ہمارے لئے  تاریخ کا ایک سبق ہے ۔ ہم ہمیشہ یہ سمجھتے رہے کہ نفق( ٹنل) کے ذریعہ یہ دہشت گرد ہمارے علاقے میں گھسنے کی کوشش کریں گے ہماری ہمیشہ نگاہیں صرفٹ ٹنلس  پر ہی جمی رہیں تو انھوں نے اپنی عظیم ذہانت سے کام لیتے ہوئے فضا میں اڑنے اور کھلے عام سرحد پار کرنے کا ایک بڑا کام کرڈالا۔75 سال کی جتنی ہماری اعلیٰ ترین فوجی ‘ سیاسی ‘ سفارتی ‘ تجارتی کوششیں انھیں کمزور کرنے کی تھیں وہ سب اچانک خاک میں مل گئیں  تھیں وہ اب مکمل طور پر بولنے کی ضرورت ہے۔ وغیرہ۔‘‘                                              (بحوالہ  جیروسلم پوسٹ29؍ اکٹوبر 23)

ڈاکٹر   مسٹن غزہ سے متعلق بہت ہی ذہین تصور کئے جاتے تھے وہ کئی جنگوں میں شریک رہ چکے ہیں وہ IDF  کے انٹلیجنس ڈپارٹمنٹ کے لفٹنٹ  کرنل ہونے کے باوجود  اہم باتوں کااخفأ کیا ہے ۔ اپنے انٹرویو ں میں بھی عیاری سے کام لیتے ہوئے بہت ساری باتوں پر پردہ ڈال دیا۔ شیخ احمد یسینٰ  کی قیادت میں اسلامی تحریک  کی پہلی انتقاضہ  8؍ ڈسمبر 1987 اور دوسری تحریک انتقاضہ 2000 اور 2004 میں شیح یسین  و یاسر عرفات کی شہادت  اور 2006 میں حماس کی UNO کی زیر نگرانی پہلے عام انتخابات  میں 132 پارلیمانی نشستوں میں 74 نشستوں پر  اور الفتح PIO کو 45 نشستیں حاصل ہوئیں تھیں ‘ حماس ایک عالمی سطح پر معترفہ سیاسی پارٹی ہے ‘ دہشت گردی کا اس پر لیبل لگا کر اسے بدنام کرنے کی کوشش عالمی طاقتوں کی جانب سے جاری ہے ۔ اس عظیم الشان کامیابی کے بعد سے پھر فلسطینیوں کے دیئے گئے ووٹ  کے حق کو 17 سال سے دوبارہ  نہیں دیا جارہا ہے اور مغربی پٹی و غزہ میں حسب معمول ہر 5 سال کو عام انتخابات کروانے کے بجائے نہتے خالی ہاتھ غزہ کے شہریوں پر پہلے 4 جنگیں اور اب 5 ویں جنگ مسلط کرتے ہوئے گزشتہ 24 دنوں کے دوران 16 ہزار ٹن  بم عام معصوم زندہ آبادی پر گراکر ہلاک کیا جارہا ہے ۔

صیہونی دانشور کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ فلسطین  کی آزادی اور فلسطینیوں کے اسلام بیتُ المقدس سے دائمی تعلق کو  چھپاتے ہوئے ایک خود ساختہ  تشریحات  اور کھوکھلے تجزیات پیش کرتے ہوئے دنیا کا اپنے مطابق ذہن بنانے میں بڑی حد تک کامیاب ہورہے ہیں ۔ 

حماس  کو جتنی کامیابیاں ہوتی ہیں اس سے کئی گنا زیادہ ہر روز ایک نئے چیالنجس  اور داخلی عرب اسرائیل لابی کی مضر سرگرمیوں کا سامنا درپیش ہے ۔ 

حماس کے گزشتہ 20 سالوں  میں کئی سو تربیت یافتہ قائدین کو چن چن کر اسرائیل نے دنیا میں ڈھونڈ ڈھونڈ  کر شہید کرڈالا۔ حماس کی آج کی اجتماعی قیادت طوفان الاقصیٰ  کے ذریعہ دنیا کو حیرت زدہ کردیا ‘ دشمن کو یہ احساس ہوچکا ہے کہ حماس کے یحییٰ سنوار  جیسے 50 قائدین کو بھی شہید کردیا جائے تو حماس کی سرگرمیوں اور کارکردگی میں کوئی ذرہ برابر فرق نہیں آئے گا بلکہ اعلیٰ تعلیمی یافتہ و اسلامی تربیت سے ہمکنار دوسری  اور تیسری صف بالکل تیار ہے ۔قربانیوں ‘ شہادت کو وہ اپنے لئے باعثِ شہادت سمجھتے ہیں اور مقتل غزہ کو ’’مجزرہ مشرف‘‘ کہتے ہیں ۔ دشمن اسی سے خوف زدہ ہے کہ پوری قوم کو شوق شہادت سے سرشار کردیا گیا ہے ۔ موت کو تبسم کے ساتھ چوم کر شہادت کے لئے ایک دوسرے سے بازی لے جانے کا جذبہ دن بہ دن بالاہی ہوتا جارہا ہے ۔

حماس کی بے پناہ عصری صلاحیتوں کے اسرائیل  کی اعلیٰ ترین  قیادت بھی معترف ہو چکی ہے ۔ سل فون بگ  Pegasus جو دنیا کے کسی بھی شخص اور شہری کی بات چیت کو غیر محسوس طریقہ سے ہائیکنگ کرتا ہے وہ ایک اسرائیلی کمپنی ہے ‘ اس سے جاسوسی کے ہگ کے فروخت کے ذریعہI.T اسرائیلی کمپنی نے کئی بلین ڈالر کمالئے ۔ حتیٰ کہ ہندوستان نے بھی بہت بھاری قیمت میں اس کو خریدا اور اس کا  بی جے پی  اپنے مخالفین کے خلاف استعمال  کر رہی ہے  ۔ جس کی حال ہی میں  ہندوستان کے کئی ممبران پارلیمنٹ نے حکومت سے شکایت بھی کی۔ اسرائیل کو بہت گھمنڈ تھا کہ ہم ساری دنیا کی مخبری و جاسوسی کی قدرت رکھتے ہیں ۔ 7؍ اکٹوبر  کے حملے سے پہلے حماس کے I.T سائنس دانوں  نے Pegasus کو فیل کرتے ہوئے اپنا جدید ترین بگ بنا کر اسرائیلی ملٹری کی خفیہ معلومات  حاصل کرلیں ۔ حتیٰ کہ دنیا کے خفیہ  معلومات  کا سب سے محفوظ بڑا مرکز مانے جانے والا موساد کا سنسر  راکٹ حملے میں تباہ کرتے ہوئے وہاں کی تمام خفیہ معلومات کے کمپیوٹرس  اٹھالئے گئے‘Pegasus  کی بدترین ناکامی کے بعد اسرائیل نے اس کمپنی کو اب بلیک لسٹ کردیا ‘ اس ذلت آمیز شکست  اور ہائی ٹک ہونے والے تکبّر  کو حماس نے ملیا میٹ کردیا اس علاقے میں  اپنی جنگی حکمت عملی  وٹکنالوجی کی سوپر میسی تو حماس نے منوانے کے لئے دنیا کو مجبور کردیا ۔

اب دنیا کے بڑے بڑے طاقتوں کے ملٹری ریسرچWar Colleges  حماس پر ریسرچ کرنے میں لگ گئے ہیں ۔ جس طرح دنیا کے دونوں سوپر پاورس افغانستان میں آخرکار شکست فاش ہوئی  ٹھیک آج نہیں تو آئندہ چند سالوں میں فلسطینیوں کی نئی نسل جو ماں کے گودوں میں ہے ضرور غلامی سے آزادی حاصل کرکے ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت دے گی۔

Total No of Words: 2,603

  Release on : 01-11-2023

Continue Reading

Politics

طوفان الاقصیٰ کی جنگ خطرناک مرحلے میں داخل

Published

on

بسمہ تعالیٰ

طوفان الاقصیٰ کی جنگ خطرناک مرحلے میں داخل

         از:  ناظم الدین فاروقی

NPA  DOC No : 0167

Dated: 15-10-2023

آزادی فلسطین و مسجد الاقصٰی کی جدوجہد ایک خوفناک رُخ اختیار کرچکی ہے ۔7؍ اکٹوبر 23 طوفان القدس نے اسرائیل میں ناقابل تلافی نقصان کے ساتھ نفسیاتی جنگ میں فلسطینیوں نے زبردست برتری حاصل کی ۔ انٹلیجنس  اور مخابرات  میں دنیا کا استاد مانا جانے والا اسرائیل اور اس کی تمام خفیہ ایجنسیوں کو مقام بریگیڈ نے حماس بریگیڈ نے راکھ چٹادی ۔ آئی ٹی کے تمام سوپر

Space Command اور آئرن ڈوم(قبۃ الحدید) کو بھی اپنی مہارت سے حماس کے مجاہدین نے ناکارہ کردیئے ۔ دنیا سکتہ میں ہے ‘ عالمی طاقتیں  افغانستان کی طویل جنگ آزادی میں شکست فاش کے بعد صرف دو سالوں میں ایک اور دوسرا جھٹکہ سوپر ملٹری پاور کےجنریلوں کے ہوش اُڑا دیئے ۔

اسرائیل کے جرنیل  اس بات کو لے کر سر پیٹ رہے ہیں جہاں جس علاقے پر بمباری کی جارہی ہے چند منٹوں بعد میں سے آئرن ڈوم(قبۃ الحدید) کو ناکام کرتے ہوئے ابھی بھی ہلاکت خیز راکٹ داغے جارہے ہیں ۔گزشتہ  ایک ہفتے  تقریباً 15 سو معصوم فلسطینی اسرائیلی بمباری میں ہلاک ہوچکے ہیں ۔UNO کے 9 ملازمین کے علاوہ پریس کے لوگ بھی ہلاک ہوئے ہیں ‘ دوسری جانب مصر نے غزہ کی رَفأ   سرحدی گیٹ کو مقفل کردیا ہے ۔ اسرائیل 3 مرتبہ اس پر بمباری کرچکا ہے ‘ اب اسرائیل نے اقوام متحدہ سے کہا ہے کہ ایک ملین پناہ گزین کا مصر کے صحرأ  میں انتظام کرلیں ہم شہر خالی کروانے والے ہیں ۔بحری ‘ برّی ‘ فضائی حملے کے لئے3 لاکھ کو اسرائیل  کے فوجی لشکر کی بھاری ٹینکس کے ذریعہ غزہ پر چڑھائی  کرواکر سرحد کے اس پار مصر کے صحرا سینا میں ڈھکیل  دینے کا اعلان کیا ہے  لیکن حماس کی حساس جنگی حکمت عملی اور زمینی سرنگوں سے سب خوفزدہ ہیں ۔اطلاع کے مطابق 14؍ اکٹوبر 23 کو ہفتے کے دن کئی لاکھ اسرائیلی فوج غزہ شہر میں داخل ہوگئی ہے ۔ 17 سالوں کے درمیان ابھی تک غزہ پر 5 جنگیں مسلط کی گئیں۔

غزہ سے راکٹوں کے حملے اور مجاہدین کی کاروائیوں میں15000 سے زیادہ اسرائیلی اور 1500 سے زیادہ طوفان القدس کے کارکن شہید ہوگئے ۔بعض کیبوٹس میں اب بھی لڑائی جاری ہے ۔1987 سے ہی اسرائیل حماس کے تیور اور کاروائیوں سے پریشان ہے ‘ یہ اسلامی فلسطینی تنظیم اگر متحرک  ہوجائے تو اسرائیل کے لئے بہت بڑا نقصان ہوگا۔ عجلت میں یاسر عرفات سے کئی معاہدے کرلئے تا کہ حماس کا صفایا کیا جائے  اسرائیل بار بار حماس کے صفائے کا اعلان کرچکا ہے ۔ 37 سال کا عرصہ ہوگیا یہ اسلامی تنظیم کا خاتمہ اسرائیل اور عالمی طاقتوں کے بس کی بات نہیں رہی ۔

حماس کے حملے پر دنیا میں ہنگامہ کھڑا کیا جارہا ہے ۔اگر خون آلود فلسطین کے تاریخ کے اوراق  پلٹ کر دیکھیں  تو پتہ چلے گا کہ نکبہ 1948 سے اب تک 5 لاکھ فلسطینیوں  کو ہلاک اور 2 ملین فلسطینیوں کو ملک بدر کردیا گیا تھا ۔ اس دوران ایک ملین سے زیادہ فلسطینیوں کو گرفتار کرکے طویل مدت کے لئے جیل میں مقید کردیا گیا ۔2022 سے اب تک 11540  جن میں نصف  بچے ‘ عورتیں  اور معصوم فلسطینی شامل ہیں ہلاک کردیا گیا ۔ بیت المقدس  کے اطراف صرف قدیم شہر یروشلم میں 250 قدیم عمارتوں کو منہدم کرکے 258 عمارتیں تعمیر کی گئیں۔2021 میں فلسطینی علاقوں 70 مقامات کو منہدم کرتے ہوئے 71900 یہودی مستوطنین Settler کو بسایا گیا۔ 19 مساجد شہید کردیئے گئے ‘ 10 ہزار لوگوں کو زمینوں سے بے دخل کیا گیا۔ اس کے علاوہ مسجد اقصیٰ میں روزانہ مصلیوں بالخصوص خواتین ‘ عورتوں ‘ بچوں کو زودو کوب  کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ اسرائیل نے بیت المقدس کے نیچے دو بڑی سرنگیں بنالی ہیں ۔ جس کے اندر دھماکہ کرکے وہ کبھی بھی بیت المقدس کو شہید کرنے  کی تیاری کی جاچکی ہے۔

وزیر آعظم  اسرائیل بنجامن نتن یاہو  اور فلیڈ مارشل اسرائیل نے 8؍ اکٹوبر 23 کو انتقام کی وارننگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ حماس نے غزہ میں اپنے لئے جہنم کے داہنےکھول لئے ہیں ہمارے لئے یہ حملے 9/11 ٹوین ٹاور کے حملوں سے زیادہ خطرناک ہیں۔ہمارا پہلا کام ہوگا حماس کو صفہ ہستی سے مٹادیں اور غزہ کے دہشت گردانہ کاروائیوں کا ہمیشہ کے لئے صفایا کردیں ۔ امریکہ ‘ یورپ  یہ استعماری طاقتوں کا توسیع شدہ ایجنڈہ ہے کہ سفید قوم کی عرب علاقے میں سرپرستی قائم رکھی جائے ‘ حتٰی کہ ایشیا کے کئی اسرائیل دوست ممالک نے اسرائیل کے انتقامی کاروائیوں کی مکمل تائید کی ہے  ۔غزہ پر کارپیٹ بمبنگ  شروع کردی گئی ‘ گزشتہ 8 دنوں کے دوران 6 ہزار عمارتوں کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کردیا اور 2000 سے زیادہ عام معصوم شہری ہلاک ہوگئے ۔  شہادت پانے والوں میں حماس کی قیادت کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔

اسرائیل اپنی فوج اور  انٹلیجنس کی ناکامی کا بدلہ وحشی بمباری سے  لیتے ہوئے 8 ہزار سے زیادہ مکانات اور اپارٹمنٹس  کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کرچکاہے ۔ فاسفورس بم استعمال کئے جارہے ہیں ۔ فاسفورس روشنی و بدبو کے ساتھ 800 ڈگری کی تپش پر جلا کر راکھ کردیتے ہیں ۔ جب کہ  پانی 100 ڈگری شلسیس پر  کھول جاتا ہے ۔ کسی بھی انسانی جسم پر لگ جائے تو پورے جسم کو سکنڈوں میں کوئلہ بنا دیتے ہیں ۔ اس آتشی  تپش  کی اتنی دیرپا صلاحیت ہوتی ہے کہ پانی ڈالنے سے بھی نہیں بجھتی ہے‘ آکسیجن  ملتے ہی شعلہ پوش  ہوتی ہے ۔

اگر ہم حماس اور عز الدین قسام بریگیڈ کے اسرائیل پر  اچانک حملے کی وجوہات  کا تجزیہ کریں تو اس کے کئے عوامل ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ایک تو سعودی عربیہ اور اسرائیل کے آپسی امن معاہدے اور سفارتی تعلقات 75 سالوں میں پہلی مرتبہ بحال کرنے کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں ۔ اسرائیل جیسے ظالم ملک کے ساتھ عرب ممالک نے احتیاط سے کام لینے کے بجائے بڑی عجلت سے کام لیا  اور  فلسطینی قیادت کو اعتماد میں لئے بغیر  ایک کے بعد ایک عرب و مسلم ملک  اسرائیل سے معاہدات کر رہے تھے ۔ جس سے صاف طور پر یہ مطلب ظاہر ہورہا تھا کہ مسئلہ فلسطین کو عربوں و مسلمانوں  کے درمیان اب کوئی خاص اہمیت حاصل نہ رہی‘ ہماری ملکی قومی مفادات کو اہمیت دیتے ہوئے فلسطینی کاز کو ہمیشہ کے لئے دفن کرنے کے لئے راضی ہوگئے ۔

دوسرا سب سے بڑا فلسطینی کاز کو اس وقت دھکہ لگا اور اس میں اسرائیل کی اصل نیت کھل کر سامنے آگئی جب اسرائیلی وزیر آعظم  نتن یاہو نے 22 ؍ ستمبر 23 کو اقوام متحدہ میں تقریر  کرتے وقت اسرائیل کا ایک نقشہ بڑی چالاکی سے دنیا کو بتلایا ۔ جس میں فلسطین ہی غائب کردیا گیا  ہے۔ عرب سے دوستی اور تعلقات  کا ذکر کرتے ہوئے بڑی آسانی  سے فلسطینی وجود کو ہی ختم کرنے کے منصوبے کو اس نے آشکار کردیا  تھا۔ تیسرا سبب ترکی  جیسا  فلسطین و بیت المقدس کی آزادی کا  کا سب سے بڑا ہمنوا اور مددگار بھی اچانک اپنی فلسطینی پالیسی بدل چکا تھا ‘ مصلحتوں کا شکار ہو کر طیب اردغان نے اسرائیل کے ساتھ  اپنے سفارتی لب و لہجہ میں کافی نرمی اختیار کرلی تھی ۔ انتخابات  سے پہلے اسرائیل کی دہشت گردی و مظالم اور غیر انسانی سلو ک پر  وہ زبردست تنقیدیں کیا کرتے تھے۔اب سب بند ہوچکے تھے ۔تمام عرب و مسلم ممالک اپنے اپنے مفادات اور امریکی و بین الاقوامی دباؤ کے تحت نارمل سفارتی تعلقات کے رجحان کو تقویت پہنچا رہے تھے ۔

جیسے ہی 7؍ اکٹوبر 23 کو حماس کا طوفان الاقصیٰ کا آپریشن ہوا پہلے24 گھنٹے  میں اسرائیل کی تائید میں بیانات  آنے لگے بعض عرب حکمرانوں  نے تائیدی بیان دے دیا تھا  لیکن جب عرب و  مسلم عوام کا شدید دباؤ بڑھنے لگا تو  تیسرے  دن سے پھر فلسطینیوں کے حق میں فضا بننے لگی ۔ یو اے ای کے  شیخ محمد زاید النیہان  نے پہلے اسرائیل کے تائید میں بیان دیا پھر بیان بدل دیا ۔سعودی  عربیہ نے بھی کھل کر فلسطینیوں کی تائید کی ‘ ایک عرصے کے بعد حرم شریف  میں فلسطینیوں کے لئے خصوصی دعائیں کی گئیں ۔دراصل عالم مسلم قیادت  سہ رخی چال چل رہی  ہے ایک جانب اسرائیل کو خوش کیا جارہا ہے  دوسری جانب مسلم عوام کے جذبات کا خیال  رکھنے  کی کوشش کی جارہی ہے ‘ تیسری جانب فلسطینیوں کو یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ہم تمہارے کاز میں شامل ہیں ۔بڑے عرب مسلم ممالک امریکہ اور اسرائیل کو ناراض نہیں کرنا چاہتے ‘ امریکہ کے وزیر خارجہ فارن سکریٹری بلنکن جو یہودی ہے عرب قائدین سے ملاقات کرنے میں  مصروف ہیں ۔

اسرائیل کی تائید کے لئے امریکہ نے اقوام متحدہ میں ووٹنگ  کی کوشش کی تو کویت نے جم کر مخالفت کی اس  کی وجہہ سے بین الاقوامی سطح پر فضا بنی  اس اعتبار سے 15 ووٹ اسرائیل کے خلاف اور صرف امریکہ کا ایک ووٹ تائید میں حاصل ہوا ۔ اسی طرح EU یورپین یونین بھی حماس اسرائیل کے معاملہ میں شدید اختلافات  کا شکار ہوگیا ۔ امریکہ کے سینٹ ممبرس کی بڑی تعداد فلسطینیوں کے حق میں ہے ۔ ایران نے بھی بہت محتاط رویہ اپنایا ہوا ہے ۔ ایران نے تائید تو کی لیکن ساتھ ہی ساتھ کسی بھی قسم سے حملوں میں مدد کرنے  کے الزام کا انکار کیا۔ پھر امریکہ اور یورپ نے بھی یہ کہا کہ حماس کے حملوں میں ایران اور حزب اللہ شامل نہیں ہے ۔ ایران کی ہمیشہ زبانی تائید حاصل رہی۔ ایران کے صدر  ابراھم رئیسی نے عرب ممالک سے اپیل کرتے ہوئے پر زور  طریقہ پر کہا کہ فلسطین کے تحفظ کے لئے تمام عرب ممالک ایک متحدہ فرنٹ تشکیل دیں ‘ یہ تجویز بر وقت پیش کی گئی ۔ یقیناً اگر ایران کی تجویز پر غور و فکر کرنے سے غفلت برتی جائے گی تو ہوسکتا ہے اسرائیل اپنے شدید وحشی ظالمانہ منصوبوں کو روبہ عمل  لائے۔ نتن یاہو اپنی حکومت کی ساکھ بچانے کے لئے  کسی بھی جانب اس تباہی و بربادی کو لے جاسکتا ہے ‘  اس کے دور میں  ہوئی ذلت اور عسکری ہائی جک کے  جھٹکے سے وہ اور فوجی قیادت ابھی سنبھلنے نہیں پائی ہے ۔آئرن ڈوم(قبۃ الحدید) کے جام کرنے کے ساتھ 4 ملٹری ٹاور کو تباہ و برباد کرتے ہوئے بڑی اہم اسرائیلی فوجی سربراہوں کا اغوا ٔ اور 15 یہودیوں کی ہلاکت کے جھٹکے ‘ رسوائی و ذلت سے  سنبھل نہیں پائیں۔

غزہ شہرخود 1967 کی جنگوں سے متاثر پناہ گزینوں کی وجہہ سے مجبوراً وجود میں آگیا تھا ۔ موجودہ غزہ کے شہری  سابقہ تین نسلوں سے اسرائیل کے ہاتھ تباہ و برباد اور ہلاک ہوتے آئے ہیں ۔ اگر اس نازک موقع پر عالم اسلام ذرا سی بھی غفلت کرے گا اور اپنے رسوخ‘  سفارتی تعلقات و سیاسی دباؤ کو استعمال نہیں کرے گا تو یقیناً فلسطینیوں کے لئے یہ وقت  تباہی و ہمیشہ کے لئے بربادی کا ہوگا ۔

مسئلہ الاقصیٰ  اور ارض فلسطین کا مسئلہ 56 مسلم ممالک مل کر 75 سالوں میں حل نہیں کرواسکے بلکہ ہمیشہ فلسطینیوں کو سوائے ایمرجنسی امداد کے ایسے ہی تباہ ہونے کے لئے چھوڑ دیا کرتے ہیں اگر 56 ممالک UNO میں متحدہ موقف اختیا رکرتے ہوتے تو ارض فلسطین اور الاقصیٰ  ابھی تک آزاد ہوجاتا ۔ سیاسی و سفارتی سطح پر مضبوطی سے اس عالم اسلام کے مسئلہ کو پُر امن طریقے سے حل کرنے کی نہ کسی مسلم ملک میں ہمت و جرات پائی جاتی ہے اور نہ نیت صحیح ہے آپسی اختلافات ‘ تضادات  اور لڑائیاں ‘ خانہ جنگی عالمی طاقتوں نے مسلسل حملے اور تسلط نے پڑوسی ممالک کو ہمیشہ کے لئے کمزور کردیا ۔

تمام عرب و مسلم حکومتوں کا یہی حال ہے ۔ اسرائیل کی کوششوں کو اس وقت کامیابی حاصل ہوئی جب بڑے مسلم حکومتوں  کا یہ ذہن تیار  کردیا گیا کہ یہ مسئلہ تو فلسطینوں کا اپنا داخلی مسئلہ ہے کیوں اپنے آپ کو اس میں جھونک کر بے وقوف  بنیں اور اپنی ترقی کو داؤ پر لگائیں ۔ہر ملک پھر اپنی فوج کی کمزور صورت حال سے واقف ہیں ۔ 

Total No of Words: 1,985

  Release on : 15-10-2023

Continue Reading

Politics

سیاسی کریک ڈاؤن اور میڈیا کو دبانا: بھارت کے 2024 کے عام انتخابات سے پہلے بی جے پی کی حکمت عملی

Published

on

بسمہ تعالیٰ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

         از:  ناظم الدین فاروقی

NPA  DOC No : 0166

Dated: 08-10-2023

ہندوستانی پارلیمنٹ کے عام انتخابات  24 کی تیاریوں کا آغاز ہوچکا ہے ۔ سیاسی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں ۔ 18 ویں لوک سبھا  الیکشن میں بی جے پی تیسری مرتبہ ایک طاقتور اکثریتی سیاسی پارٹی کی حیثیت  سے اُبھرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ اپنی برتری اور بقأ کے لئے ہر سیاسی پارٹی کو پُر امن جدوجہد کا پورا حق ہے ۔ لیکن حکومت کی طاقت کو اپوزیشن اور پچھڑے  ہوئے طبقات  و اقلیتوں کے خلاف استعمال کرنا سیاہ جابرانہ سیاست کا ایک قبحہ پہلو ہے ۔ جیسے جیسےالیکشن قریب آرہا ہے ۔ED  اور NIA  کی حزب مخالف  سیکولر میڈیا ‘ سیاسی قانونی دانشوروں و جہد کاروں کے خلاف کاروائیاں تیز تر کردی ہیں ۔ گزشتہ بھی ایسا ہی ہوتا رہا مدھیہ پردیش ‘ کرناٹک ‘ راجستھان ‘ ہماچل پردیش ‘ چھتیس گڑھ ‘ مہاراشٹرا میں اپوزیشن  کے ارکان اسمبلی کی بڑی تعداد  ED کے خوف سے پریشان ہو کر پیسہ کی لالچ میں NDA یا بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی ۔ جن میں سیاسی قد آور شخصیتوں پر ED کے مقدمات  کی تلوار لٹک رہی تھی یا پھر  اپنی مضبوط سیاسی قیادت کو داؤ پر لگا کر بی جے پی کی سرکردہ سرکاریں شمولیت  کو غنیمت سمجھا۔ یہ ہی حال میڈیا کا کر رکھا ہے ۔ جو صحافی اور میڈیا چیانل دائیں بازو کی پالیسیوں سے عدم اتفاق کرتے ہیں یا گودی میڈیا کی بیانڈ باجہ پارٹی میں شامل ہونے سے گریز کر رہے ہیں ان کی بدترین درگت بنائی جارہی ہے ۔ 

3 اور 4؍ اکٹوبر کو سیکولر میڈیا ‘ کمپنیوں و صحافیوں کے کم از کم 100 مقامات پر چھاپے مارے گئے آزاد ‘ سچ گو صحافیوں کو نشانہ بنا کر انھیں کمزور کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔

عام آدمی پارٹی نے دہلی انتخابات 20 کے موقع پر بی جے پی سے مفاہمت کرکے کامیابی حاصل کی تھی ۔ اس وقت مشرقی دہلی کے مسلم مخالف فسادات میں سخت دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 54 سے زیادہ لوگ ہلاک اور 12 سو دوکانات و مکانات جلا کر خاکستر کردیئے گئے تھے ۔ پھر بھی مسلمانوں کی کسی بھی قسم کی ہمدردی سے محض اس لئے احتراز  کیا تھا کہ بڑے صاحب اور وزیر داخلہ ناراص نہ ہوجائیں ۔پولیس کا معاملہ حکومت  دہلی کے تحت نہیں ہے لہٰذا  مجھے ان فسادات اور ہلاکتوں سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے ۔ اس میں عام آدمی پارٹی  کے مسلم ایم ایل ایز اور کاؤنسلرس  بھی گرفتار کرلے گئے تھے ۔وقت گزر گیا۔اس سال کے ابتدا میں 153 اوقافی جائیدادوں کو حکومت نے واپس حاصل کرلیا یہ سب کس کے کہنے پر ہوتا رہا ہے ۔

اب جب کہ عام آدمی کے وزیر  منیش سسوڈیا Manish Sisodia  اور سنجے سنگھ Sanjay Singh  یم پی کو ED نے گرفتار کرلیا ہے تو اروند کجریوال  کو نریندر مودی اور بی جے پی کا کرپشن و بد عنوانیاں نظر آرہی ہیں۔

ملک کے سیاسی حالات تیزی سے کروٹ لے رہے ہیں ۔ کسی بھی وقت بی جے پی کا خاموش ساتھ دینے والی بعض جماعتوں پر کراک ڈاؤن ہورہا ہے ۔ عام آدمی پارٹی کی ناراضگی وقتی ہے یا پھر بغیر کسی سیاسی مفاہمت کے ڈٹ کر بی جے پی کے زیادتیوں کا مقابلہ کریں گے ۔ سپریم کورٹ نے سنجے سنگھ کی گرفتاری پر پھٹکار لگائی ہے ۔ کجریوال  کی INDIA سے وفاداری دیر پا ہوگی کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔

ابھی سنجے سنگھ کا قصہ ختم نہیں ہوا تھا 12 سے زیادہ یوٹیوب چیانلس کے دفاتر و مالکین پر مختلف سنگین الزامات کے تحت دھاوے کئے گئے ۔نیوز کلک کے بعض ڈائرکٹرس اور نیوز کاسٹر  ابھی شار شرما کو بھی زیر حراست لیا گیا تھا ‘ پوچھ تاچھ کے بعد انھیں رات دیر گئے چھوڑ دیا گیا ۔ نیوز کلک پر الزام ہے کہ وہ امریکہ میں موجود چینی نواز انڈین بزنس من سے 56 کروڑ روپیہ وصول ہوا تھا۔

پریس کلب اور پریس گلڈ اور دوسرے صحافیوں کے تنظیموں  نے ED و پولیس کی گرفتاریوں کے خلاف جم کر احتجاج کیا اور 12 مشہور جرنلسٹوں نے چیف جسٹس  آف انڈیا مسٹر چندجوڑ کو خط لکھ کر اپیل کی کہ قبل اس کے دیر ہوجائے فوری پریس کی آزادی کے تحفظ کے لئے  اقدامات کریں ۔ورنہ ملک Dictatorial Democracy  میں تبدیل ہوجائے گا اور جمہوریت کا ایک اہم ستون پریس کی آزادی  کا گلا گھونٹ کر اسے ختمم کردیا جائے گا ۔ اس تکلیف کا احساس امریکی صدر جوبائیڈن نے G20 ستمبر کی میٹنگ میں شرکت کے بعد ۔۔۔گئے تو ان سے رہا نہیں گیا بلکہ اشارۃ ً کہا دیا کہ وہاس پریس کو آزادی حاصل نہیں ۔

180 ممالک کے عالمی پریس فرینڈم کے انڈیکس  میں ہندوستان کا رینک گزشتہ سال  150 تھا اس سال 23 میں 11 گریڈ گرکر 161 تک پہنچ گیا ۔ نہ صرف یہ بلکہ سیاسی Indicator  24 گریڈ ‘ معاشیات میں 6 گریڈ ‘ قانون سازی باڈیوں میں 14 گریڈ ‘ سوشل Indication   16 گریڈ اور صیانتی 9 گریڈ گرچکے ہیں ۔ افغانستان ‘ پاکستان ‘ بھوٹان ‘ سری لنکا  میں پریس کی آزادی ہندوستان سے بہتر ہے ۔ 

16؍ اکٹوبر کو کشمیر کی ایک پریس فوٹو گرافر سنا ارشاد میٹو ایر پورٹ پر امریکہ جانے سے روک دیا گیا ۔ ثنا کو امریکہ میں جرنلٹس  شعبہ میں دیئے جانے والے اعلیٰ ترین انعام حاصل کرنے جارہی تھی ۔ امریکہ نے تشویش کا  اظہار  کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی پریس کو آزادی ملنی چاہیئے ۔ اس طرح جرنلسٹوں  پر سفر کی پابندی پریس کی آزادی کو ختم کردے گی ۔

سیول سوسائٹی  اقلیتوں اور دلتوں کے جتنے دانشورو جہد کار ہیں یا پھر انھیں تعاون دینے والے ادارے ہوں حکومت ایک ایک کرکے ہر ہفتے ملک کے مخصوص شہروں اور علاقوں میں مسلسل کراک ڈاؤن کر رہی ہے ۔ حراست میں لے گئے افراد اور رپورٹرس ‘ نیوز کاسٹر سے عجیب و غریب ناقابل فہم سوالات کئے جارہے ہیں ۔ ابھشار شرما سے یہ تک پوچھ ڈالا کہ 3 سال قبل کیا شاہین باغ گئے تھے یا جعفر آباد دہلی 20 کے فسادات کے موقع پر وہ علاقے کا دورہ کیا تھا ۔

پریس ‘ میڈیا ‘ وکلا ٔ براداری اور آزاد خیال مخالف ہندوتوا فکر کے تمام دانشوروں کو بی جے پی حکومت اپنا دشمن تصور کرتی ہے۔ اقلیتوں کے کسی بھی احتجاجی پروگرام ‘ دھرنے اور جلوسوں کو خوف کے مارے اپنے لئے نیوکلئیر بم اور                                 Mass Heads of Mass Distruction تصور کرنے لگی ہے ۔ اطلاعات کے مطابق NRC, CAA  کے خلاف ملک کے دوسرے مقامات پر جو جو افراد شریک تھے ان پر بھی کراک ڈاؤن  کی تیاری ہورہی ہیں ۔ ٹوئٹر  ‘ فیس بک ‘ یو ٹیوب  کو دن بھر نوٹس  وصول ہوتے رہتے ہیں ۔ اور جہاں محسوس کرلیا گیا کہ خیرہ تبصرہ اور تجزیہ میں مودی ‘ بی جے پی کے خلفا کسی بھی قسم کا مواد ہے اس کا بند ہونا یا مقدمے کا دائر ہونا ضروری ہے ۔

منی پور کے فسادات سے ملک کا مستقبل  کی اجڑنے والی تصویر کا بہتر اندازہ لگایا جاسکتاہے ۔لوٹ کھسوٹ  ‘ لوٹ مار ‘ قتل و غارت گیری  کا ایک مخصوص اپنا انتہا دہشت گرد ہندوتوا حزب و گروپوں  کو حاصل ہے ۔ سوسائٹی کے تمام آزاد طبقات  حصوں اور زندگی کے مختلف میدان میں خدمات انجام دینے والوں سے بی جے پی بہت خوف کھاتی ہے ۔ آر ایس ایس کے ایک دانشور روی اروراRavi Arrora  نے ویدا اور جدید چیالنجس  کو ملحوظ رکھتے ہوئے عصر حاضر میں ہندو سوسائٹی کو درپیش 5 بڑی جنگوں کا اپنی ضخیم کتاب میں تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔ وہ مسلمانوں ‘ کمینسٹوں ونکسلس  کو Dividing Forces  قرار دیتا ہے ۔ کتاب پڑھنے والا ہر غیر مسلم ہندوستانی یہ خیالات میں چلا جاتا ہے کہ وہ حالت جنگ میں ہے اور ہر سمت دشمنوں سے گھیرے ہوئے ہیں اور ان پر جو جنگ مسلط کی گئی ہے اس میں لڑ کر دشمن کو کچل کر فنا کردینا ہے ۔ اس نئی مہا بھارت کی جنگ میں لیل  والنہار ہمیں ہمارے دشمنوں سے جنگ کرنا ہے وغیرہ ۔

تقاریر ‘ گودی میڈیا اور نام نہاد ہندوتوا کے دانشوروں کی تحریری اور کتابیں نفرت اور زہر سے بھری پڑی ہیں ۔ یہ وجہ ہے کہ ایک ہندوتوا کا ملک گیر سطح پر ایسا سیاسی ماحول بنادیا گیا ہے کہ اس میں اعلیٰ ذات ہندوؤں کے ہاتھوں دلت اور پچھڑے ہوئے طبقات  کا بھر پور استحصال ہو ۔

بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار Nitish Kumar  نے طبقات اور مختلف ذاتوں کا سروے جاری کردیا جس کی توقع بی جے پی کو ہرگز نہیں تھی ۔ اس سروے سے اندازہ ہوتا ہے کہ 2% اعلیٰ ذات برہمنوں کو 17% ریژرویشن  حاصل ہے ۔ جب کہ دوسری ذاتیں  اور مسلمان 12 تا 20% پر بھی انہیں کوئی تحفظات حاصل نہیں ہے ۔

اڑیسہ کے چیف منسٹر  نوئین پٹنائک Naveen Patnaik  اور کرناٹک چیف منسٹر سدارامیا  Siddaramaiah  نے بھی طبقاتی سروے کا اعلان کیا ہے ۔ جس سے ووٹروں میں ایک عام سیاسی بیداری پیدا ہوگی اور ہر طبقہ اپنے حقوق اور سیاست و ملازمتوں و حکومتی مراعات  میں تحفظات پر دباؤ ڈالے گا ۔ اس کا اثر لازمی طور پر 18 ویں لوک سبھا الیکشن پر پڑ سکتا ہے اور ممکن ہے کہ بی جے پی  گزشتہ انتخابات کی طرح بہتر نتائج حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہوجائے ۔

زور زبردستی ‘ ظلم و تشدد کے ذریعے شہریوں کو اپنی سیاسی وفاداریوں میں طویل عرصے تک محصور رکھنا اس میڈیاو ڈیجیٹل کی دنیا میں مشکل ہے ۔ بد عنوانیوں ‘ بوتھ منیجمنٹ ‘ کرپشن ‘ توڑ جوڑ ‘ خرید و فروخت ‘ ڈرا دھمکا کرMLA اور MP’s  کو تائید میں لے کر حکومتیں تشکیل دینا تو آسان ہوسکتا ہے لیکن اس کی برقراری اور سیاسی استحکام نا ممکن ہوجاتا ہے ۔

آئندہ چند ماہ میں ہونے والے 5 ریاستوں کے ریاستی انتخابات بڑی اہمیت رکھتے ہیں ان ریاستوں راجستھان ‘ مدھیہ پردیش ‘ چھتیس گڑھ ‘ تلنگانہ میں بی جے پی کی سیاسی صورت حال بہت کمزور نظر آرہی ہے ۔

دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی قیادت  ریاستوں میں انتخابی کامیابی کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے  یا پھر ہمیشہ کی طرح ووٹ کا پیاٹرن تبدیل کرنے کے لئے کوئی چونکہ دینے والا حیرت انگیز حادثہ اور دھماکہ خیز صورت حال پیدا کردی جائے ۔ ستیہ پال ملک سابق گورنر جموں و کشمیر کے مطابق پلوامہ میں معصوم درجنوں فوجیوں کی ہلاکت عین انتخابات  سے قبل مشکوک ہے ۔

INDIA جب تک مضبوط میدان میں اپنی سیاسی سرگرمیوں کو ووٹروں سے نہیں جوڑتی ‘ اس وقت تک INDIA کا بی جے پی کو شکست دینا بہت مشکل اور نا ممکن قرار پاتا ہے ۔

Total No of Words: 1,766

  Release on : 08-10-2023

Continue Reading

Trending