Politics

قزاقستان میں عوامی احتجاج اور روسی فوج کی مداخلت

Published

on

بسمہ تعالیٰ

قزاقستان میں عوامی احتجاج اور روسی فوج کی مداخلت

         از:  ناظم الدین فاروقی

NPA  DOC No : 0127

Dated: 16-01-2022

سویت یونین کے سقوط کے بعد 7 نئے نئے تشکیل بنانے والے مسلم ممالک میں قزاقستان سب سے اہم بڑا ملک ہے ۔ اس کی سرحدیں ازبکستان ‘ کرغستان ‘ چین اور نصف سے زیادہ 7644 کیلو میٹر طویل  روس سے ملی ہوئی ہیں ۔یہ آئیل اور گیاس کے قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ ملک میں ڈیزل اور پٹرول سے کہیں زیادہ ایل پی جی  گیس کا کاروں اور ٹرکس میں استعمال بڑے پیمانے پر ہوتا ہے ۔80%فیصد ٹرانسپورٹ کے ایندھن کے لئے ایل پی جی استعمال کرتے ہیں ۔ آئیل اور گیاس سکٹر میں امریکہ کی بڑی بڑی کمپنیوں  نے سرمایہ کاری کر رکھی ہے ۔ پٹرول اور گیاس کی قیمتوں کا کنٹرول انہی کے ہاتھ میں ہے ۔ مقامی طور پر ایل پی جی کافی سستے داموں پر فروخت ہوا کرتی تھی ۔ کمپنیاں حکومت کی نرخ پر کنٹرول سے  کمپنیاں نقصان اٹھا رہی تھیں ۔ کمپنیوں نے ایل پی جی کی فراہمی کو محدود کرتے ہوئے 2؍ جنوری کو مارکٹ کے نرخ پر ایل پی جی فروخت کرنے کی پالیسی کا اعلان کیا۔گزشتہ سال ڈسمبر میں 60 ٹنگے($0.14) میں فی لیٹر فروخت کی جارہی تھی وہ بڑھا کر اچانک دوگنی کردی گئی ۔ 2؍ جنوری 2022 کو اس کی قیمت 120 ٹنگے($0.28) کردی گئی ۔ سارے ملک میں احتجاج شروع ہوا ‘ آئیل اور گیاس  کے لئے مشہور مغربی شہرزہانوزین(Zhanaozen)  میں کمپنیوں  پر قبضہ کرلیا پھر 5؍ جنوری کو ملک کے دارالحکومت الماٹی کے سکریٹریٹ ایر پورٹ پر احتجاجیوں نے ہلہ بول دیا ۔ اس پُر تشدد احتجاج میں 12 سیکوریٹی فورسیس کے اہلکار ہلاک اور کئی سو زخمی ہوگئے۔ صدر نے          وزیر اعظم اور ان کی  کابینہ  کو معزول کرتے ہوئے ایمرجنسی کا اعلان کردیا۔ اس احتجاجیوں اور سیکوریٹی فورسیس کے تصادم میں کئی سو احتجاجی بھی ہلاک ہوگئے۔عام بے روزگاری ‘ معاشی پستی سے عوام تنگ ہوچکے تھے۔سابق صدر تحلیل شدہ سویت یونین میں کمیونست پارٹی  کافی بڑی مضبوط پوزیشن رکھتے تھے ‘ وہ برزنف کے قریبی ساتھیوں  میں سے تھے انھیں سابق USSR کے نائب صدر کے طور پر دیکھا جارہا تھا۔ سویت یونین سے آزاد ہونے کے بعد میں  سابق صدر 81 سالہ مسٹر نور سلطان نذر باوی او        Mr. Nazar Bayev  نے طویل عرصہ تک حکمرانی کرتے ہوئے شدید دباؤ میں 2019 میں مستعفی ہو کر اپنے ہی قریبی پیرو اور شاگرد 68 سالہ قاسم جومرات نوکاوی وا Kassym-Jomarf Tokayev  کو عنان حکومت سونپی ‘ حکومت پر آج بھی نذرباوی او کے خاندان کا قبضہ ہے  اور سابقہ صدر نے ایک سیکولر جمہوری ملک کو ایک خاندانی حکومت میں تبدیل کرکے ملک قومی قدرتی وسائل کو عوام کی فلاح و بہبود کے  لئےاستعمال  کرنے کے  بجائے  ان کا خاندان اور حواری بڑے پیمانے کی بد عنوانیوں کے ذریعے لوٹ مار کر رہا ہے  وہ بوڑھے حکمران Octogenarian former president  کے نام سے شہرت حاصل  کر چکے تھے۔ احتجاجی ایک ہی نعرہ ملک کے طول و عرض میں لگارہے تھے’’شل کٹی ‘‘ ’’بوڑھا خارج ‘‘ سارے ملک میں نور سلطان کے قائم مجسموں کو گرا کر توڑ دیا گیا ہے ۔ مسٹر نذر باوی او نے اپنے نام سے مشہور مالیاتی مرکزی شہر کا نام نور سلطان رکھا۔( نور سلطان نے حکومت کے تمام اختیارات اپنے ہاتھ مرکوز کرتے ہوئے اس طرح کا قانون بنالیا کہ وہ کسی بھی دیوانی اور فوج داری مقدمات  اور احتساب  سے  تا حیات مبّرا ہیں۔

جس کسی بھی ملک میں حکومت کی باگ ڈور ایک ہی خاندان کے ہاتھوں میں آجاتی  ہے تو پھر عوامی فلاح و بہبود ‘ ملک کی قومی  معاشی ترقی ‘ تجارت و صنعت ‘ در آمدات و بر آمدات اور سالانہ  قومی پیداوار کا اصل فائدہ  وہی خاندان اٹھانے لگتا ہے جس طرح سے بادشاہت میں ہوا کرتاہے ۔

مغربی مبصرین کا کہنا ہے کہ نور سلطان ڈکٹوٹوریل ڈیموکریسی  چلاتے رہے اور اب مستعفی ہو کر بھی 2019  میں بنے صدر مملکت  مٹر ٹوکاوے اوKassym Tokayav  ‘5؍ جنوری  کو سب سے پہلے نور سلطان سے سیکوریٹی  کونسل  واپس حاصل کرلی اور ان کے قریبی رفیق  داخلی  مخابرات Intelligence   کے چیف کریم ماسموا Karim Masimov  کو معطل کردیا ۔سابقہ صدر کے فولادی پنجے سے حکومت آزادی حاصل نہیں کرپا رہی ہے ۔ یہی وجہہ ہے کہ انھوں نے اپنے ذاتی و خاندانی مفادات کے لئے تمام جمہوری اصولوں کو پامال کرتے ہوئے ملک اور قوم کے مفاد کے سخت خلاف اقدامات کرتے ہوئے اپنے دیرینہ رفیق ولڈمیر پوٹن کو فوجی مداخلت کی دعوت دی۔ اور روسی افواج نے راتوں رات  ملک کے سارے بڑے شہروں پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ پڑوسی ملک سے دہشت گردانہ کاروائیاں ہورہی تھیں  اور ملک میں پُر تشدد احتجاج کے پیچھے بھی عسکریت  پسندوں کی کارستانی ہے وغیرہ ۔

 کوئی انسان کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو اس کو ملک و قوم کے مفادات کو قربان کرنے کی اجازت ہرگز نہیں مل سکتی ۔ حکومت کے نشہ میں  سابق صدر بڑی فاش غلطیاں کرتے جارہے ہیں ۔ان  میں الحاد پرستی کوٹ کوٹ کر بھری نظر آتی ہے وہ مذہب بیزار انسان ہیں‘ روسی افواج ایک مرتبہ ملک میں داخل ہوچکی ہے۔ اس کے مستقبل قریب میں لوٹنے کے امکانات غیر یقینی ہوچکے ہیں ۔ حکمران ٹولہ ہٹ دھرمی کرنے کے بجائے عوامی مطالبات کو مان لیتا تو مسائل فوری حل کی طرف بڑھتے تھے۔ دانشمندی کا تقاضہ تھا کہ قوم اور ملکی و حکومتی مفادات کو بلند رکھتے ہوئے اغیار کو مداخلت کا موقع نہ دیتے‘  یہ سیاست کا  ایک سیاہ پہلو ہے۔ مسلم ممالک کی اکثریت گزشتہ 100 سال سے زیادہ اس طرح کے مسائل سے دوچار  ہے۔ جو حکمران آتا ہے وہ پھر تا دم حیات حکومت کی کرسی سے ہٹنا ہی نہیں چاہتا ۔ 

علاقے کے اعتبار سے قزاقستان بہت بڑا اور آبادی کے اعتبار سے چھوٹا ملک ہے۔ قزاقستان  کا کل رقبہ 2727300 مربع میل ہے ‘ ہندوستان سے صرف 10%فیصد  چھوٹا اور  جملہ آبادی 1 کروڑ 70 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے ۔ جس میں 70% فیصد مسلمان اور 26%فیصد عیسائی شامل ہیں۔ ان کی مادری زبان قازق ہے اور دوسری زبان کے طور پر روسی زبان کا بھی استعمال ہے ۔فی فرد آمدنی 10ہزار ڈالر ماہانہ ہے ‘ فی فرد آمدنی ہندوستان سے چار گنا اور چین سے دوگنی  زیادہ ہے ۔

روس کی فوجی مداخلت سوائے تباہی اور علاقے کی بربادی کے قزاقستانیوں  کو اور کچھ حاصل ہونے والا نہیں ‘ روس  جہاں بھی گیا وہاں اس نے خون ریزی  کی اور تباہی  کے سوائے  مقامی عوام کو کچھ اور نہیں دیا۔ افغانستان پر 1979 میں سویت یونین قبضہ کرکے 10 سالوں میں کیا کچھ تباہی نہیں مچائی ‘ جدید ترین ہائی ٹیک اسلحہ تیار کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے ۔ ایران کے ساتھ شام پر قبضہ کرکے 15 لاکھ شامیوں کی نسل کشی اور دیڑھ کروڑ عوام کو ہجرت کے لئے مجبور کردیا۔ گولان کی پہاڑیوں  پر اسرائیل کا کم و بیش  55 سال سے قبضہ تھا۔ ٹرمپ نے 650 مربع میل کا گولان  کی پہاڑیوں  کا حصہ اسرائیل کے حوالے کرتے ہوئے نقشوں پر دستخط کردیئے ۔ اس وقت روس پوری طرح شام میں موجود تھا ۔روس نے زبانی بیان دینا تک گوارہ نہیں کیا۔

امریکہ کبھی بھی روس کے معاملات میں سوائے چند بیانات کے ہرگز مداخلت نہیں کرنا چاہتا ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ سویت یونین کے سقوط کے باوجود روس کی فوجی برتری  اور ہائی ٹک  ہوچکی ہے اس میں کوئی  کمی واقع نہیں ہوئی اور نہ کمزور پڑی ہے ۔ مسلم ممالک کے سلسلہ میں روس کی ناقابل فہم عجیب پالیسی ہے ۔ 

ترکی اور روس میں ہمیشہ عصری اسلحہ کو لےکر یا کبھی شام کی سرحدوں  کو لے کر تناؤ چلتا رہتاہے ۔ ازربائیجان  اور آرمینیا  کی جنگ میں حکمت عملی کے طور پر ازربائیجان  کو ترکی کی فوجی مدد کی اجازت مل گئی تھی۔ ترکی اور روس دونوں  ہی ناٹو کےاراکین ہیں‘  روس  کی شام پر تسلط  اور امریکہ کا عراق پر یلغار  کے بعد آج تک بھی پٹرول کی دولت عالمی طاقتوں کے خزانے میں جارہی ہے ‘ عوام کو کچھ نہیں مل پا رہا ہے ۔

قزاقستان میں روس نے اپنا قانونی تسلط جما لیا ہے ‘ حکومت کی درخواست پر وہ فوجی مداخلت کررہا ہے ۔ اقوام متحدہ یا ناٹو میں یہ نکتہ کوئی بحث کا موضوع نہیں بن سکتا ‘ یہ قزاقستانی عوام کے ساتھ دھوکہ دہی اور دغا بازی  ہوتی ہے ۔ گزشتہ 28 سالوں میں قومی آمدنیوں  اور قومی اثاثہ جات کو بوڑھے سیاست دان کے ٹولے نے نچوڑ لیا تھا ۔ دیانت داری کا تقاضہ تھا کہ قزاقستانی  عوام کےمطالبات  کا سنجیدگی سےجائزہ لیتے ہوئے حکومت کی باگ ڈور ان کے حوالے کردیتے یا ایک عوامی دوست نئی  حکومت تشکیل دیتے ہوئے جمہوریت  کے تقاضوں  کو پورا کرتے ہوئے دوبارہ آزادانہ  انتخابات  منعقد کرواتے ۔

قزاقستان میں مٹھی بھر آبادی دور دراز مقامات میں پھیلی ہوئی ہے ۔ روسی افواج کےمقابل کیا یہ نہتے عوام لڑسکیں گے۔ ان سے مقابلہ کرنے کے لئےفوجی ماہرین ‘ فوجی تربیت یافتہ جنرلس بھی پس و پیش  ہوجاتے ہیں ۔ مسلم ممالک میں عوامی احتجاج کو کچلنے کا روس کو اچھا خاصہ تجربہ حاصل ہوچکا ہے ۔ جب بے اصول  سیاست ‘ بد عنوانیوں  کے پہیوں پر چلنے لگتی ہے تو وہ بے لگام ہوجاتی ہے۔ حکمرانی کے اندھے پن میں  اپنی ہی قوم کو آئندہ کئی دہوں کے لئے پھر سے غلامی میں ڈھکیل دیا جاتا ہے ‘ضمیر فروشی ‘ وطن فروشی بڑے پیمانے کی قوم کے ساتھ دغا بازی ہے ۔ قزاقستان میں بھی یہی سب کچھ ہورہا ہے‘ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئیل اور گیاس  کے قدرتی وسائل سے بھر پور ملک کو روس یوں ہی کیوں چھوڑے گا‘  عظیم مادی وسائل اور معاشی مفادات کے  حصول  کےلئے وہ  خون ریزی اور نسل کشی سےکبھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔ 

’’یونیورسٹی آف پٹسبرگ کے پروفیسر  جن برک موتاخس ہیولی نے کہا کہ تونکاوی وا Tokoyov  نے قزاقستان  کی قومی سالمیت اور آزادی و خود مختاری  کو رہن رکھ  کرروس کو فوجی مداخلت کی دعوت دے کر تاریخ کی  ایک فاش غلطی  کی ہے اور ایک طویل مدت کے لئے قزاقستان دوبارہ غلامی میں چلا جائے گا‘‘ ۔

دہشت گردی کا الزام لگا کر مسٹر Kesyem Tokoyov   نے محض چند آئیل ‘ گیاس کے کمپنیوں کی مفادات کے تحفظ  اور اپنی حکومت  پر گرفت مضبوط  کرنے کے لئے روس کو فوجی مداخلت کی دعوت دےکر پورے قزاقستانی قوم کو ایک نئے پُر خطر ‘ تباہ کن مستقبل کی طرف ڈھکیل دیا ہے ۔ انٹی ٹرریسٹ  آپریشن Anti-Terrorist Operation    کے نام پر پورے ملک میں گرفتاریاں  عمل میں لائی جارہی ہیں۔ 6؍ جنوری  تک 380 نامور قائدین کو گرفتار کیا جاچکا ہے ۔1994 میں آزاد ہوئے 8 ممالک کی ایک سیکوریٹی کونسل بنائی گئی تھی ۔ فی الوقت ایک چھوٹا سا ملک  آر مینیا  اس کی صدارت  کر رہا ہے جو صرف 30  لاکھ نفوس پر مشتمل عیسائی ملک ہے ۔ معاہدہ  کے دفعہ 4 کو منسوخ کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ قزاقستان میں امن فوج روانہ کی جائے گی‘  کیا قزاقستان دوہرا بوجھ ایک تو روسی افواج ‘ دوسرے امن فوج کے اخراجات برداشت کرنے کا متحمل  ہوسکے گا۔ مسٹر قاسم نو کو وی و Tokoyov   اگر دانشمدانہ ‘ صحیح سیاسی فیصلہ کرتے ہوتے تو یہ عجلت میں کئے جانے والے فیصلے کا خمیازہ قزاقستانی عوام کو بھگتنا  نہیں پڑتا تھا ۔ شام  اور عراق  میں قومی قدرتی وسائل کی بڑے پیمانے پر بلیک مارکٹنگ  بھی جاری ہے ۔ عوام بھوکی ‘نڈھال ‘ فقیر ہونے تک یہ عالمی طاقتیں‘  مالدار  ممالک کو  یوں ہی نہیں چھوڑتے‘ بہانہ عوامی احتجاج کو  کچلنے کا ہے لیکن اصل ٹارگٹ قومی قیمتی وسائل و ذرائع پر قبضہ کرنا ہے ۔ تاریخ بار بار  دہرائی جاتی ہے ۔ اس کےلئے بہت زیادہ سیاسی فلسفوں  سمجھنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ پس پردہ جو کچھ ہوتا ہے اس کے صرف اشارے ہمیں میڈیا میں ملتے ہیں بلکہ اصل حقیقی صورت حال کو دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھا جاتا ہے ۔ یہاں یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ اگرOrganization of Islamic Countries  (OIC) طاقتور اور متحد ہوتی تو مسلم ممالک کو اپنے داخلی مسائل کے حل کرنے میں مدد ملتی تھی اور اس طرح سے بیرونی طاقتوں کے رحم و کرم پر عوام کو چھوڑا نہیں جاسکتا تھا ۔ OIC  کو عالمی طاقتوں نے قصداً ایک کافی کلب بنا کر رکھ دیا ۔ پہلے ہی OIC کے قیام کےمقاصد میں لکھ لیا گیا ہے کہ سماجی اور معاشی و ثقافتی پہلوؤں پر غور و خوص   کرنے اور تعلقات بڑھانے کے OIC سے تشکیل دی جارہی ہے۔ کسی بھی قسم کے سیاسی ‘ فوجی ‘ مالیاتی معاملات میں کوئی رکن ملک دوسرے ملک میں مداخلت نہیں کرے گا اور نہ سرحدی تنازعات کو حل کرنے کی گنجائش ہے۔وغیرہ۔ جمہوری ممالک کی مزدور یونین کہیں اس سے زیادہ طاقتور ہوتیں ہیں ۔کم و بیش یہ ہی حال عرب لیگ کا ہے ۔ کوئی کسی کی نہیں سنتا اور کسی کاکوئی پاس و لحاظ نہیں رکھتا ہے ‘ مالدار عرب ممالک کا اثر و رسوخ زیادہ ہے ۔ 22 عرب ممالک اس کی 44 کروڑ کی آبادی OIC کے ارکان  ممالک کئی بلاکوں  میں بٹ گئے اور کٹ گئے  ‘ وہ اتنے بے بس اور کمزور  ہوچکے ہیں۔

Total No of Words: 2,190

  Release on : 16-01-2022

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Politics

اسرائیل کی حماقت اور حماس کی حقیقت

Published

on

بسمہ تعالیٰ

اسرائیل کی حماقت اور حماس کی حقیقت

         از:  ناظم الدین فاروقی

NPA  DOC No : 170

Dated: 01-11-2023

کرۃ الارض پر فلسطینیوں کی نسل کشی کے لئے غزہ کو دور جدید کے جہنم میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ لہو کے آبشار ‘ شہدا کی بے گور و کفن لاشیں ‘ ہزاروں علاج کے لئے تڑپتے زخمی  معذور ‘ بھوک و پیاس سے نڈھال عوام ‘ خوفناک بمباری اور توپوں کے گولوں سے بچنے کے لئے شمال سے جنوب  اور جنوب سے مشرق و مغرب  دوڑتے دوڑتے  زندگی  سے تھک چکے ہیں ۔لیکن پھر بھی دشمن سے لڑنے کا ولولہ ماند نہیں پڑا ہے۔عورتوں ‘  بیواؤں ‘ یتیم بچوں ‘ زخمی مریضوں کا کہرام مچا ہواہے ۔ ہر 7 منٹ میں ایک بچہ فوت ہورہاہے ‘ مرنے والوں میں 70% عورتیں اور بچے ہیں ‘ غزہ میں21 ویں صدی کا بدترین انسانی بحران پیدا ہوگیا ہے ۔ اموات کی تعداد کا کانٹا تیزی سے ہر7 منٹ میں ایک بچے کی موت کے ساتھ شہادت پانے والوں کی تعداد  میں اضافہ ہی کرتا جارہا ہے ۔ 12 ہزار سے زیادہ معصوم فلسطینی شہادت  پا چکے ہیں ایک لاکھ سے زیادہ زخمی ہیں  اور بار بار اسرائیلی فوج  کی وارننگ کی وجہہ سے محلہ کا محلہ خالی کرکے جان بچانے کے لئے بھاگ رہے ہیں ۔ وزارت سیول سروس غزہ کے مطابق آدھے سے زیادہ آبادی یعنی تقریباً 12 لاکھ بے گھر ہو کر سڑکوں ‘ گلی ‘ کوچوں میں زیر سماں بے سہارا ہجوم ‘ بے آب و غذأ و دوأ سکتہ میں ہے ۔ جائیں تو کہا ں جائیں ؟ کھلی جیل میں اسرائیل وحشیانہ بمباری کے ذریعے معصوم فلسطینی ہونے کا  بدترین انتقام لے رہاہے۔ قتل عام و غارت گیری  کی بدترین تجربہ گاہ بنا کر ظلم و بربریت  کی چکی میں پیسا جارہاہے ۔عالمی رائے کو بدلنے کے لئے پروپگنڈے کے ذر یعے دنیا میں مظلوم فلسطینیوں کو مجرم اور وحشی عرب کے طور پر بد نام کرنے امریکہ کے کئی بڑی میڈیا کمپنیوں جیسے ڈیجیٹل  مارکٹنگ  کمپنی Semrush  وغیرہ کوتشہیر  کا کنٹراکٹ دیا گیا ۔ اسکے ذریعہ  فلسطینیوں  کو وحشی ‘ بد معاش عرب  کے طور پر ان کا تشویۃ ( بدنام) کرنے کے لئے کئی بلین ڈالر عالمی میڈیا وار پر اسرائیل خرچ  کر رہا ہے دنیا میں اک سو بیس کروڑ  1.2 بلین (Billion)  ناظرین تک غزہ کی جنگ کی فیک ‘جھوٹ پر مبنی ویڈیوز اور واقعات و معلومات  پہنچائی جاچکی ہیں ۔ اسرائیل کے ایک آئی ٹی I.T  ماہرمحقق کے مطابق 2 ملین سے زیادہArtificial Intelligence   کے ذریعہ فیک نیوز  تیار کرکے دنیا میں سوشل میڈیا پر گشت کروایا جارہا ہے ۔ ایک عربی چیانل نے کئی اس طرح کے فرضی قدیم ویڈیو کلیپنگس  کو واشگاف  کیا گیا ‘ حال ہی میں یہ بتلایا گیا ہے کہ امرحکہ کے ہزاروں فوجی ایر کرافٹ سے اسرائیل ایر پورٹ  پہنچ رہے ہیں ۔ ان مناظر کو فیاکٹ چیک کے ذریعہ ٹسٹ کیا گیا تو پتہ چلا کہ یہ دوسال پرانی ویڈیو ہے ۔ ٹھیک اسی طرح 40 بچوں کے سر کاٹنے کی افواہ پھیلائی  گئی  اور ایک فیک ویڈیو  میڈیا میں گشت کر وادیا گیا ۔جس کے ذریعے حقیقی واقعات پر پردہ ڈالتے ہوئے پوری دنیا میں اپنے معصومیت کے ڈنکے پیٹتے ہوئے نسل کشی کو ضروری اور اپنے دفاع کے حق میں  لازمی اور وقت کی ضرورت قرار دے رہے ہیں۔

دنیا کا چاہے پرنٹ میڈیا ہو  یا ڈیجیٹل‘ ان تمام بڑی کمپنیوں  کے مالکین یہودی ہیں  وہ اور زور و شور سے اسرائیلی ظالمانہ پالیسیوں کو خوبصورت بنا کر بھر پور ساتھ دے رہے ہیں لیکن یہودی مذہبی پیشواؤں‘   یہودی دانشوروں کی بڑی تعداد اب فلسطینیوں کی آزادی  کے حق میں ایک طاقتور تحریک چلا رہے ہیں ۔ 

نیو یارک پوسٹ 29؍ اکٹوبر کے شمارے میں پہلے صفحہ پر سرخیوں میں خبر شائع کی گئی کہ دو ہزار اسرائیلی مشرقی وسطیٰ کے وحشیوں سے لڑنے کے لئے روانہ ہوئے ہیں ۔ اسی اخبار میں ایک گھریلو عورت کو اس کے لوّر (Lover)  نے قتل کرکے اس کے جسم کے ٹکڑوں کو فریج میں رکھ دیا ‘ جس کی اطلاع پولیس  کو ایک ماہ بعد ملی وحشی کون ہیں ؟ سالانہ 35  ہزار سے زیادہ معصوم لوگ امریکہ میں گن فائر میں ایسے ہی ہلاک کردیئے جاتے ہیں ۔ عرب دنیا میں کسی بھی مقام پر اس طرح آپسی فائرنگ  کے ذریعہ  بے جا قتل نہیں ہوتے ۔ پہلی مرتبہ یہ دیکھا گیا ہے کہ یہودی  لابی میں خود غزہ پر حملو ں کے خلاف زبردست آپسی شدید اختلاف  کا شکار ہوچکی ہے ۔ احتجاجی یہودی  واشنگٹن میں کیپٹل ہلز پر ہلہ بول دیا ۔ ہفتہ 4؍ اکٹوبر 23 کو امریکہ کے  50 شہروں سے لاکھوں افراد احتجاجی جلوس  کی شکل میں جمع ہو کر پورے امریکہ کو دھلا دیا ۔ منھا ٹن نیویارک کے اسٹیشن کو  روز روز کے احتجاج کی وجہہ سے کئی مرتبہ بند کرنا پڑا ۔31؍ اکٹوبر 23 کو وزیر خارجہ امریکہ انٹونی بلنکن (Antony Blinken) کی پریس کانفرنس میں صحافیوں کی بدترین مخالفت  اور اہانت کا سامنا کرنا پڑا ۔ صحافیوں  کی اکثریت نے اپنے ہاتھوں کو خون سے رنگ کر زبردست پریس کانفرنس  کے خلاف احتجاج کیا۔ 

اسرائیل کے ایک مشہور صحافی Hila Weiss Berg کا ایک مضمون بعنوان اسرائیل کی حماقتیں اور حماس کی حقیقتیں’’Israel Fantasies & Hamas Realties ‘‘ کے عنوان سے ایک مشہور روزنامہ میں  شائع ہوا ہے۔ جس کے مطالعہ سے اسرائیل کے اعلیٰ ملٹری قیادت کی صحیح طور پر سونچ و فکر کا اندازہ ہوتا ہے  جس کا اقتباس قارئین کے استفادہ کے لئے یہاں درج ہے :

’’Dr. Micshetin مشیر اعلیٰ برائے فلسطینی امور IDF (اسرائیلی ڈیفنس فورس ) کے  انٹلیجنس (مخابرات ) میں لفٹنٹ  کرنل کے عہدہ پر رہ چکے ہیں  انہوں  نے 1948 کے نکبہ پر اپنی پی ایچ ڈیP.hd کی تھی‘ ہلز ویس برگ Hils Weis Bergجنھوں نے ایک خصوصی انٹرویو  میں بعض حقائق  پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے بہت ساری چونکا  دینے والی باتیں کہی ہیں ۔ 

فلسطینیوں کا مسئلہ اتنا آسان نہیں جتنا ہمارے سیاست دان تصور کرتے ہیں ۔ اسرائیل کی انٹلیجنس  کی سب سے بڑی تاریخی غلطی  یہ تھی کہ وہ حماس اور اس کی قیادت کو الفتح و حزب تحریک فلسطین جیسے گروپوں  کی طرح سمجھتی رہی جب تک حماس کے تصورات ‘ خیالات ‘ نکتہ نظر اور فکر ان سے بالکل مختلف ہے ۔ وہ ہمارا ایسا دشمن ہے جس کو ایک زاویہ نگاہ سے سمجھنا اور اس کے مطابق ایک مفروضہ بنا لینا سوائے ہمار ی بے  بصیرتی  اور اندھے پن کے کچھ نہیں ہے ۔ حماس  جہاں دہشت گرد  ہے وہی وہ ایک سیاسی ‘ سماجی ‘ فلاحی اور نتائج سے بھر پور مہیمات چلانے میں مہارت  رکھنے والی تحریک ہے ۔ حماس میں عقلی بنیادیں  Pragmatism کوٹ کوٹ کر بھرا ہواہے۔ موجودہ فدائی کوششوں کو اپنی تاریخ سے جوڑ کر کام کرنے کی  ان میں بھر پور صلاحیت پائی جاتی ہے ‘ ان کی قیادت مذہبی قیادت نہیں ہے لیکن وہ  بہت کٹر مذہبی ہیں ۔ 

موجودہ صدر غزہ  یحیی سنوار کو ہم نے 22 سال اسرائیلی جیل میں قید میں رکھا ۔ اس دوران اسیری میں  اس نے یونیورسٹی سے نہ صرف دو پی ایچ ڈی تکمیل کرلئے بلکہ حماس نے سنوار کی رہائی کے لئے ہمارے ایک فوجی کرنل  Giled Shelit  کا اغوا کرلیا تھا جنھیں چھڑانے کے لئے ہمیس حماس کے ساتھ ڈیل میں بہت کچھ کھونا پڑا تھا ۔ یحییٰ سنوار کے ساتھ  ایک نہیں دو نہیں ایک ہزار فلسطینی قدیوں کو رہا کرنا پڑا۔  اتنی خطرناک شرائط کو بھی ہمیں ماننا پڑا ۔یہ کہنا مشکل ہوتا ہے کہ حماس کب کیا سیاسی ‘ سفارتی ‘ معاشی ‘ عسکری ‘ عالمی اعلام ترک چلے گا ‘ ہمارے سنچری کے تمام 75 سالہ تجربات  کو ایک دن میں حماس نے خاک میں ملا دیا ۔ 

ڈاکٹر مچٹن کا کہنا ہے ایک جانب یحییٰ سنوار اسرائیل کے وزیر آعظم کو خط لکھتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے روزگار کے لئے چک پوائنٹس  پر نرمی کرتے ہوئے ورک پرمٹ دیئے جائیں ۔دوسری جانب وہ ان بے روزگاروں کو ہماری سرزمین پر روزانہ محنت مزدوری کے نام پر ہمارے علاقوں میں  گھسا کر ان سے ہماری  جاسوسی کے ذریعے مخبری کرواتا رہا ۔ 

ہم یہ سمجھتے رہے کہ 22 سال قید و بند  کی سزا کاٹنے کے بعد اب اس کی زندگی میں سوائے اپنی زندان کی آپ بیتی لکھنے کے کیا کام باقی رہ جائے گا اور اس نے ہماری سزاؤں (تعذیب ) سے بہت کچھ سبق حاصل کرلیا ہوگا ۔ اس کی سوسائٹی میں  لوگ اس سے خوف  بھی کھائیں گے ۔اس کے اہل خانہ اسے گھر کے کسی کونے میں بٹھادیں گے لیکن ہمارے یہ مفروضے سب لغو ثابت ہو گئے ‘ہم سنوار کے افکار و نظریات  کو صحیح طور پر سمجھ نہیں سکے۔ سراسر دھوکہ کھا گئے۔ ہمارے جیلوں سے رہا ہونے والے بڑے بڑے سور ماؤں کی کمر ٹوٹ جاتی ہیں اور ہمیشہ کے لئے وہ  ہم سےدشمنی کا راستہ بھول جاتے ہیں ۔ وہ تو رہا ہو کر  نہ صرف  بڑا قائد بن گیا بلکہ پوری حکومت کی باگ ڈور  اس نے سنبھالی ۔( اس پر جان نچھاور کرنے والوں کی ایک فوج تیار کرلی )۔

ہمارے زندگی کے اَپروچ میں اور سنوار کے اپروچ میں بہت بڑا فرق ہے ۔ذرا سونچئے ہم لوگ بڑے بڑے فوج اور حکومت کے عہدوں پر رہ کر وظیفہ  پر سبکدوش ہوجاتے ہیں اور پھر ایک  دن مرجاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ہماری زندگی کا اور کیا نکتہ نگاہ ہے ۔لیکن سنوار  کے اور حماس کی قیادت کے پاس نہ موت کا خوف ہے اور نہ ہی ان کی موت کے بعد ان کی تحریک ختم ہونے والی ہے ۔ ان لوگوں نے بچے بچے  کہ دل اور دماغ میں اپنے ارض مقدس  کی آزادی کی جو روح پھونک  دی وہ ایسا لگتا ہے کہ کبھی ختم نہیں ہونے والی ہے ۔ 

اس تجزیہ  میں ڈاکٹر مشیٹنن نے مضمون نگار صحافی کے ذریعے یہ بھی وارننگ دی کہ اگر دو قومی نظریہ قبول کرلیا جائے تو سمجھ جاؤ کہ پڑوس میں ایک نیا بوسنیا تیار ہوگیا ہے اور اگر فلسطینی نوجوانوں کو ہماری شہریت دی جائے گی تو وہ اکثریت میں آجائیں گے اور سوشل ڈیموکریٹک اسٹیٹ کے بہانے حکومت  ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گی ۔ ان کی مغربی پٹی اور نہ ہی غزہ کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں مملکت کا درجہ  دینے کو بین الاقوامی دباؤ کے تحت قبول کرنا  اپنے لئے( اسرائیل) خودکشی کرنا ثابت ہوگا ۔ بجلی ‘ پانی ‘ فینانس ‘ دفاع ‘ صیانت  سب کچھ ہمارے ہاتھ میں ہونے کے باوجود آج  جس انداز سے ہم پر حملہ آور ہوئے ہیں وہ ہمارے لئے  تاریخ کا ایک سبق ہے ۔ ہم ہمیشہ یہ سمجھتے رہے کہ نفق( ٹنل) کے ذریعہ یہ دہشت گرد ہمارے علاقے میں گھسنے کی کوشش کریں گے ہماری ہمیشہ نگاہیں صرفٹ ٹنلس  پر ہی جمی رہیں تو انھوں نے اپنی عظیم ذہانت سے کام لیتے ہوئے فضا میں اڑنے اور کھلے عام سرحد پار کرنے کا ایک بڑا کام کرڈالا۔75 سال کی جتنی ہماری اعلیٰ ترین فوجی ‘ سیاسی ‘ سفارتی ‘ تجارتی کوششیں انھیں کمزور کرنے کی تھیں وہ سب اچانک خاک میں مل گئیں  تھیں وہ اب مکمل طور پر بولنے کی ضرورت ہے۔ وغیرہ۔‘‘                                              (بحوالہ  جیروسلم پوسٹ29؍ اکٹوبر 23)

ڈاکٹر   مسٹن غزہ سے متعلق بہت ہی ذہین تصور کئے جاتے تھے وہ کئی جنگوں میں شریک رہ چکے ہیں وہ IDF  کے انٹلیجنس ڈپارٹمنٹ کے لفٹنٹ  کرنل ہونے کے باوجود  اہم باتوں کااخفأ کیا ہے ۔ اپنے انٹرویو ں میں بھی عیاری سے کام لیتے ہوئے بہت ساری باتوں پر پردہ ڈال دیا۔ شیخ احمد یسینٰ  کی قیادت میں اسلامی تحریک  کی پہلی انتقاضہ  8؍ ڈسمبر 1987 اور دوسری تحریک انتقاضہ 2000 اور 2004 میں شیح یسین  و یاسر عرفات کی شہادت  اور 2006 میں حماس کی UNO کی زیر نگرانی پہلے عام انتخابات  میں 132 پارلیمانی نشستوں میں 74 نشستوں پر  اور الفتح PIO کو 45 نشستیں حاصل ہوئیں تھیں ‘ حماس ایک عالمی سطح پر معترفہ سیاسی پارٹی ہے ‘ دہشت گردی کا اس پر لیبل لگا کر اسے بدنام کرنے کی کوشش عالمی طاقتوں کی جانب سے جاری ہے ۔ اس عظیم الشان کامیابی کے بعد سے پھر فلسطینیوں کے دیئے گئے ووٹ  کے حق کو 17 سال سے دوبارہ  نہیں دیا جارہا ہے اور مغربی پٹی و غزہ میں حسب معمول ہر 5 سال کو عام انتخابات کروانے کے بجائے نہتے خالی ہاتھ غزہ کے شہریوں پر پہلے 4 جنگیں اور اب 5 ویں جنگ مسلط کرتے ہوئے گزشتہ 24 دنوں کے دوران 16 ہزار ٹن  بم عام معصوم زندہ آبادی پر گراکر ہلاک کیا جارہا ہے ۔

صیہونی دانشور کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ فلسطین  کی آزادی اور فلسطینیوں کے اسلام بیتُ المقدس سے دائمی تعلق کو  چھپاتے ہوئے ایک خود ساختہ  تشریحات  اور کھوکھلے تجزیات پیش کرتے ہوئے دنیا کا اپنے مطابق ذہن بنانے میں بڑی حد تک کامیاب ہورہے ہیں ۔ 

حماس  کو جتنی کامیابیاں ہوتی ہیں اس سے کئی گنا زیادہ ہر روز ایک نئے چیالنجس  اور داخلی عرب اسرائیل لابی کی مضر سرگرمیوں کا سامنا درپیش ہے ۔ 

حماس کے گزشتہ 20 سالوں  میں کئی سو تربیت یافتہ قائدین کو چن چن کر اسرائیل نے دنیا میں ڈھونڈ ڈھونڈ  کر شہید کرڈالا۔ حماس کی آج کی اجتماعی قیادت طوفان الاقصیٰ  کے ذریعہ دنیا کو حیرت زدہ کردیا ‘ دشمن کو یہ احساس ہوچکا ہے کہ حماس کے یحییٰ سنوار  جیسے 50 قائدین کو بھی شہید کردیا جائے تو حماس کی سرگرمیوں اور کارکردگی میں کوئی ذرہ برابر فرق نہیں آئے گا بلکہ اعلیٰ تعلیمی یافتہ و اسلامی تربیت سے ہمکنار دوسری  اور تیسری صف بالکل تیار ہے ۔قربانیوں ‘ شہادت کو وہ اپنے لئے باعثِ شہادت سمجھتے ہیں اور مقتل غزہ کو ’’مجزرہ مشرف‘‘ کہتے ہیں ۔ دشمن اسی سے خوف زدہ ہے کہ پوری قوم کو شوق شہادت سے سرشار کردیا گیا ہے ۔ موت کو تبسم کے ساتھ چوم کر شہادت کے لئے ایک دوسرے سے بازی لے جانے کا جذبہ دن بہ دن بالاہی ہوتا جارہا ہے ۔

حماس کی بے پناہ عصری صلاحیتوں کے اسرائیل  کی اعلیٰ ترین  قیادت بھی معترف ہو چکی ہے ۔ سل فون بگ  Pegasus جو دنیا کے کسی بھی شخص اور شہری کی بات چیت کو غیر محسوس طریقہ سے ہائیکنگ کرتا ہے وہ ایک اسرائیلی کمپنی ہے ‘ اس سے جاسوسی کے ہگ کے فروخت کے ذریعہI.T اسرائیلی کمپنی نے کئی بلین ڈالر کمالئے ۔ حتیٰ کہ ہندوستان نے بھی بہت بھاری قیمت میں اس کو خریدا اور اس کا  بی جے پی  اپنے مخالفین کے خلاف استعمال  کر رہی ہے  ۔ جس کی حال ہی میں  ہندوستان کے کئی ممبران پارلیمنٹ نے حکومت سے شکایت بھی کی۔ اسرائیل کو بہت گھمنڈ تھا کہ ہم ساری دنیا کی مخبری و جاسوسی کی قدرت رکھتے ہیں ۔ 7؍ اکٹوبر  کے حملے سے پہلے حماس کے I.T سائنس دانوں  نے Pegasus کو فیل کرتے ہوئے اپنا جدید ترین بگ بنا کر اسرائیلی ملٹری کی خفیہ معلومات  حاصل کرلیں ۔ حتیٰ کہ دنیا کے خفیہ  معلومات  کا سب سے محفوظ بڑا مرکز مانے جانے والا موساد کا سنسر  راکٹ حملے میں تباہ کرتے ہوئے وہاں کی تمام خفیہ معلومات کے کمپیوٹرس  اٹھالئے گئے‘Pegasus  کی بدترین ناکامی کے بعد اسرائیل نے اس کمپنی کو اب بلیک لسٹ کردیا ‘ اس ذلت آمیز شکست  اور ہائی ٹک ہونے والے تکبّر  کو حماس نے ملیا میٹ کردیا اس علاقے میں  اپنی جنگی حکمت عملی  وٹکنالوجی کی سوپر میسی تو حماس نے منوانے کے لئے دنیا کو مجبور کردیا ۔

اب دنیا کے بڑے بڑے طاقتوں کے ملٹری ریسرچWar Colleges  حماس پر ریسرچ کرنے میں لگ گئے ہیں ۔ جس طرح دنیا کے دونوں سوپر پاورس افغانستان میں آخرکار شکست فاش ہوئی  ٹھیک آج نہیں تو آئندہ چند سالوں میں فلسطینیوں کی نئی نسل جو ماں کے گودوں میں ہے ضرور غلامی سے آزادی حاصل کرکے ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت دے گی۔

Total No of Words: 2,603

  Release on : 01-11-2023

Continue Reading

Politics

طوفان الاقصیٰ کی جنگ خطرناک مرحلے میں داخل

Published

on

بسمہ تعالیٰ

طوفان الاقصیٰ کی جنگ خطرناک مرحلے میں داخل

         از:  ناظم الدین فاروقی

NPA  DOC No : 0167

Dated: 15-10-2023

آزادی فلسطین و مسجد الاقصٰی کی جدوجہد ایک خوفناک رُخ اختیار کرچکی ہے ۔7؍ اکٹوبر 23 طوفان القدس نے اسرائیل میں ناقابل تلافی نقصان کے ساتھ نفسیاتی جنگ میں فلسطینیوں نے زبردست برتری حاصل کی ۔ انٹلیجنس  اور مخابرات  میں دنیا کا استاد مانا جانے والا اسرائیل اور اس کی تمام خفیہ ایجنسیوں کو مقام بریگیڈ نے حماس بریگیڈ نے راکھ چٹادی ۔ آئی ٹی کے تمام سوپر

Space Command اور آئرن ڈوم(قبۃ الحدید) کو بھی اپنی مہارت سے حماس کے مجاہدین نے ناکارہ کردیئے ۔ دنیا سکتہ میں ہے ‘ عالمی طاقتیں  افغانستان کی طویل جنگ آزادی میں شکست فاش کے بعد صرف دو سالوں میں ایک اور دوسرا جھٹکہ سوپر ملٹری پاور کےجنریلوں کے ہوش اُڑا دیئے ۔

اسرائیل کے جرنیل  اس بات کو لے کر سر پیٹ رہے ہیں جہاں جس علاقے پر بمباری کی جارہی ہے چند منٹوں بعد میں سے آئرن ڈوم(قبۃ الحدید) کو ناکام کرتے ہوئے ابھی بھی ہلاکت خیز راکٹ داغے جارہے ہیں ۔گزشتہ  ایک ہفتے  تقریباً 15 سو معصوم فلسطینی اسرائیلی بمباری میں ہلاک ہوچکے ہیں ۔UNO کے 9 ملازمین کے علاوہ پریس کے لوگ بھی ہلاک ہوئے ہیں ‘ دوسری جانب مصر نے غزہ کی رَفأ   سرحدی گیٹ کو مقفل کردیا ہے ۔ اسرائیل 3 مرتبہ اس پر بمباری کرچکا ہے ‘ اب اسرائیل نے اقوام متحدہ سے کہا ہے کہ ایک ملین پناہ گزین کا مصر کے صحرأ  میں انتظام کرلیں ہم شہر خالی کروانے والے ہیں ۔بحری ‘ برّی ‘ فضائی حملے کے لئے3 لاکھ کو اسرائیل  کے فوجی لشکر کی بھاری ٹینکس کے ذریعہ غزہ پر چڑھائی  کرواکر سرحد کے اس پار مصر کے صحرا سینا میں ڈھکیل  دینے کا اعلان کیا ہے  لیکن حماس کی حساس جنگی حکمت عملی اور زمینی سرنگوں سے سب خوفزدہ ہیں ۔اطلاع کے مطابق 14؍ اکٹوبر 23 کو ہفتے کے دن کئی لاکھ اسرائیلی فوج غزہ شہر میں داخل ہوگئی ہے ۔ 17 سالوں کے درمیان ابھی تک غزہ پر 5 جنگیں مسلط کی گئیں۔

غزہ سے راکٹوں کے حملے اور مجاہدین کی کاروائیوں میں15000 سے زیادہ اسرائیلی اور 1500 سے زیادہ طوفان القدس کے کارکن شہید ہوگئے ۔بعض کیبوٹس میں اب بھی لڑائی جاری ہے ۔1987 سے ہی اسرائیل حماس کے تیور اور کاروائیوں سے پریشان ہے ‘ یہ اسلامی فلسطینی تنظیم اگر متحرک  ہوجائے تو اسرائیل کے لئے بہت بڑا نقصان ہوگا۔ عجلت میں یاسر عرفات سے کئی معاہدے کرلئے تا کہ حماس کا صفایا کیا جائے  اسرائیل بار بار حماس کے صفائے کا اعلان کرچکا ہے ۔ 37 سال کا عرصہ ہوگیا یہ اسلامی تنظیم کا خاتمہ اسرائیل اور عالمی طاقتوں کے بس کی بات نہیں رہی ۔

حماس کے حملے پر دنیا میں ہنگامہ کھڑا کیا جارہا ہے ۔اگر خون آلود فلسطین کے تاریخ کے اوراق  پلٹ کر دیکھیں  تو پتہ چلے گا کہ نکبہ 1948 سے اب تک 5 لاکھ فلسطینیوں  کو ہلاک اور 2 ملین فلسطینیوں کو ملک بدر کردیا گیا تھا ۔ اس دوران ایک ملین سے زیادہ فلسطینیوں کو گرفتار کرکے طویل مدت کے لئے جیل میں مقید کردیا گیا ۔2022 سے اب تک 11540  جن میں نصف  بچے ‘ عورتیں  اور معصوم فلسطینی شامل ہیں ہلاک کردیا گیا ۔ بیت المقدس  کے اطراف صرف قدیم شہر یروشلم میں 250 قدیم عمارتوں کو منہدم کرکے 258 عمارتیں تعمیر کی گئیں۔2021 میں فلسطینی علاقوں 70 مقامات کو منہدم کرتے ہوئے 71900 یہودی مستوطنین Settler کو بسایا گیا۔ 19 مساجد شہید کردیئے گئے ‘ 10 ہزار لوگوں کو زمینوں سے بے دخل کیا گیا۔ اس کے علاوہ مسجد اقصیٰ میں روزانہ مصلیوں بالخصوص خواتین ‘ عورتوں ‘ بچوں کو زودو کوب  کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ اسرائیل نے بیت المقدس کے نیچے دو بڑی سرنگیں بنالی ہیں ۔ جس کے اندر دھماکہ کرکے وہ کبھی بھی بیت المقدس کو شہید کرنے  کی تیاری کی جاچکی ہے۔

وزیر آعظم  اسرائیل بنجامن نتن یاہو  اور فلیڈ مارشل اسرائیل نے 8؍ اکٹوبر 23 کو انتقام کی وارننگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ حماس نے غزہ میں اپنے لئے جہنم کے داہنےکھول لئے ہیں ہمارے لئے یہ حملے 9/11 ٹوین ٹاور کے حملوں سے زیادہ خطرناک ہیں۔ہمارا پہلا کام ہوگا حماس کو صفہ ہستی سے مٹادیں اور غزہ کے دہشت گردانہ کاروائیوں کا ہمیشہ کے لئے صفایا کردیں ۔ امریکہ ‘ یورپ  یہ استعماری طاقتوں کا توسیع شدہ ایجنڈہ ہے کہ سفید قوم کی عرب علاقے میں سرپرستی قائم رکھی جائے ‘ حتٰی کہ ایشیا کے کئی اسرائیل دوست ممالک نے اسرائیل کے انتقامی کاروائیوں کی مکمل تائید کی ہے  ۔غزہ پر کارپیٹ بمبنگ  شروع کردی گئی ‘ گزشتہ 8 دنوں کے دوران 6 ہزار عمارتوں کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کردیا اور 2000 سے زیادہ عام معصوم شہری ہلاک ہوگئے ۔  شہادت پانے والوں میں حماس کی قیادت کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔

اسرائیل اپنی فوج اور  انٹلیجنس کی ناکامی کا بدلہ وحشی بمباری سے  لیتے ہوئے 8 ہزار سے زیادہ مکانات اور اپارٹمنٹس  کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کرچکاہے ۔ فاسفورس بم استعمال کئے جارہے ہیں ۔ فاسفورس روشنی و بدبو کے ساتھ 800 ڈگری کی تپش پر جلا کر راکھ کردیتے ہیں ۔ جب کہ  پانی 100 ڈگری شلسیس پر  کھول جاتا ہے ۔ کسی بھی انسانی جسم پر لگ جائے تو پورے جسم کو سکنڈوں میں کوئلہ بنا دیتے ہیں ۔ اس آتشی  تپش  کی اتنی دیرپا صلاحیت ہوتی ہے کہ پانی ڈالنے سے بھی نہیں بجھتی ہے‘ آکسیجن  ملتے ہی شعلہ پوش  ہوتی ہے ۔

اگر ہم حماس اور عز الدین قسام بریگیڈ کے اسرائیل پر  اچانک حملے کی وجوہات  کا تجزیہ کریں تو اس کے کئے عوامل ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ایک تو سعودی عربیہ اور اسرائیل کے آپسی امن معاہدے اور سفارتی تعلقات 75 سالوں میں پہلی مرتبہ بحال کرنے کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں ۔ اسرائیل جیسے ظالم ملک کے ساتھ عرب ممالک نے احتیاط سے کام لینے کے بجائے بڑی عجلت سے کام لیا  اور  فلسطینی قیادت کو اعتماد میں لئے بغیر  ایک کے بعد ایک عرب و مسلم ملک  اسرائیل سے معاہدات کر رہے تھے ۔ جس سے صاف طور پر یہ مطلب ظاہر ہورہا تھا کہ مسئلہ فلسطین کو عربوں و مسلمانوں  کے درمیان اب کوئی خاص اہمیت حاصل نہ رہی‘ ہماری ملکی قومی مفادات کو اہمیت دیتے ہوئے فلسطینی کاز کو ہمیشہ کے لئے دفن کرنے کے لئے راضی ہوگئے ۔

دوسرا سب سے بڑا فلسطینی کاز کو اس وقت دھکہ لگا اور اس میں اسرائیل کی اصل نیت کھل کر سامنے آگئی جب اسرائیلی وزیر آعظم  نتن یاہو نے 22 ؍ ستمبر 23 کو اقوام متحدہ میں تقریر  کرتے وقت اسرائیل کا ایک نقشہ بڑی چالاکی سے دنیا کو بتلایا ۔ جس میں فلسطین ہی غائب کردیا گیا  ہے۔ عرب سے دوستی اور تعلقات  کا ذکر کرتے ہوئے بڑی آسانی  سے فلسطینی وجود کو ہی ختم کرنے کے منصوبے کو اس نے آشکار کردیا  تھا۔ تیسرا سبب ترکی  جیسا  فلسطین و بیت المقدس کی آزادی کا  کا سب سے بڑا ہمنوا اور مددگار بھی اچانک اپنی فلسطینی پالیسی بدل چکا تھا ‘ مصلحتوں کا شکار ہو کر طیب اردغان نے اسرائیل کے ساتھ  اپنے سفارتی لب و لہجہ میں کافی نرمی اختیار کرلی تھی ۔ انتخابات  سے پہلے اسرائیل کی دہشت گردی و مظالم اور غیر انسانی سلو ک پر  وہ زبردست تنقیدیں کیا کرتے تھے۔اب سب بند ہوچکے تھے ۔تمام عرب و مسلم ممالک اپنے اپنے مفادات اور امریکی و بین الاقوامی دباؤ کے تحت نارمل سفارتی تعلقات کے رجحان کو تقویت پہنچا رہے تھے ۔

جیسے ہی 7؍ اکٹوبر 23 کو حماس کا طوفان الاقصیٰ کا آپریشن ہوا پہلے24 گھنٹے  میں اسرائیل کی تائید میں بیانات  آنے لگے بعض عرب حکمرانوں  نے تائیدی بیان دے دیا تھا  لیکن جب عرب و  مسلم عوام کا شدید دباؤ بڑھنے لگا تو  تیسرے  دن سے پھر فلسطینیوں کے حق میں فضا بننے لگی ۔ یو اے ای کے  شیخ محمد زاید النیہان  نے پہلے اسرائیل کے تائید میں بیان دیا پھر بیان بدل دیا ۔سعودی  عربیہ نے بھی کھل کر فلسطینیوں کی تائید کی ‘ ایک عرصے کے بعد حرم شریف  میں فلسطینیوں کے لئے خصوصی دعائیں کی گئیں ۔دراصل عالم مسلم قیادت  سہ رخی چال چل رہی  ہے ایک جانب اسرائیل کو خوش کیا جارہا ہے  دوسری جانب مسلم عوام کے جذبات کا خیال  رکھنے  کی کوشش کی جارہی ہے ‘ تیسری جانب فلسطینیوں کو یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ہم تمہارے کاز میں شامل ہیں ۔بڑے عرب مسلم ممالک امریکہ اور اسرائیل کو ناراض نہیں کرنا چاہتے ‘ امریکہ کے وزیر خارجہ فارن سکریٹری بلنکن جو یہودی ہے عرب قائدین سے ملاقات کرنے میں  مصروف ہیں ۔

اسرائیل کی تائید کے لئے امریکہ نے اقوام متحدہ میں ووٹنگ  کی کوشش کی تو کویت نے جم کر مخالفت کی اس  کی وجہہ سے بین الاقوامی سطح پر فضا بنی  اس اعتبار سے 15 ووٹ اسرائیل کے خلاف اور صرف امریکہ کا ایک ووٹ تائید میں حاصل ہوا ۔ اسی طرح EU یورپین یونین بھی حماس اسرائیل کے معاملہ میں شدید اختلافات  کا شکار ہوگیا ۔ امریکہ کے سینٹ ممبرس کی بڑی تعداد فلسطینیوں کے حق میں ہے ۔ ایران نے بھی بہت محتاط رویہ اپنایا ہوا ہے ۔ ایران نے تائید تو کی لیکن ساتھ ہی ساتھ کسی بھی قسم سے حملوں میں مدد کرنے  کے الزام کا انکار کیا۔ پھر امریکہ اور یورپ نے بھی یہ کہا کہ حماس کے حملوں میں ایران اور حزب اللہ شامل نہیں ہے ۔ ایران کی ہمیشہ زبانی تائید حاصل رہی۔ ایران کے صدر  ابراھم رئیسی نے عرب ممالک سے اپیل کرتے ہوئے پر زور  طریقہ پر کہا کہ فلسطین کے تحفظ کے لئے تمام عرب ممالک ایک متحدہ فرنٹ تشکیل دیں ‘ یہ تجویز بر وقت پیش کی گئی ۔ یقیناً اگر ایران کی تجویز پر غور و فکر کرنے سے غفلت برتی جائے گی تو ہوسکتا ہے اسرائیل اپنے شدید وحشی ظالمانہ منصوبوں کو روبہ عمل  لائے۔ نتن یاہو اپنی حکومت کی ساکھ بچانے کے لئے  کسی بھی جانب اس تباہی و بربادی کو لے جاسکتا ہے ‘  اس کے دور میں  ہوئی ذلت اور عسکری ہائی جک کے  جھٹکے سے وہ اور فوجی قیادت ابھی سنبھلنے نہیں پائی ہے ۔آئرن ڈوم(قبۃ الحدید) کے جام کرنے کے ساتھ 4 ملٹری ٹاور کو تباہ و برباد کرتے ہوئے بڑی اہم اسرائیلی فوجی سربراہوں کا اغوا ٔ اور 15 یہودیوں کی ہلاکت کے جھٹکے ‘ رسوائی و ذلت سے  سنبھل نہیں پائیں۔

غزہ شہرخود 1967 کی جنگوں سے متاثر پناہ گزینوں کی وجہہ سے مجبوراً وجود میں آگیا تھا ۔ موجودہ غزہ کے شہری  سابقہ تین نسلوں سے اسرائیل کے ہاتھ تباہ و برباد اور ہلاک ہوتے آئے ہیں ۔ اگر اس نازک موقع پر عالم اسلام ذرا سی بھی غفلت کرے گا اور اپنے رسوخ‘  سفارتی تعلقات و سیاسی دباؤ کو استعمال نہیں کرے گا تو یقیناً فلسطینیوں کے لئے یہ وقت  تباہی و ہمیشہ کے لئے بربادی کا ہوگا ۔

مسئلہ الاقصیٰ  اور ارض فلسطین کا مسئلہ 56 مسلم ممالک مل کر 75 سالوں میں حل نہیں کرواسکے بلکہ ہمیشہ فلسطینیوں کو سوائے ایمرجنسی امداد کے ایسے ہی تباہ ہونے کے لئے چھوڑ دیا کرتے ہیں اگر 56 ممالک UNO میں متحدہ موقف اختیا رکرتے ہوتے تو ارض فلسطین اور الاقصیٰ  ابھی تک آزاد ہوجاتا ۔ سیاسی و سفارتی سطح پر مضبوطی سے اس عالم اسلام کے مسئلہ کو پُر امن طریقے سے حل کرنے کی نہ کسی مسلم ملک میں ہمت و جرات پائی جاتی ہے اور نہ نیت صحیح ہے آپسی اختلافات ‘ تضادات  اور لڑائیاں ‘ خانہ جنگی عالمی طاقتوں نے مسلسل حملے اور تسلط نے پڑوسی ممالک کو ہمیشہ کے لئے کمزور کردیا ۔

تمام عرب و مسلم حکومتوں کا یہی حال ہے ۔ اسرائیل کی کوششوں کو اس وقت کامیابی حاصل ہوئی جب بڑے مسلم حکومتوں  کا یہ ذہن تیار  کردیا گیا کہ یہ مسئلہ تو فلسطینوں کا اپنا داخلی مسئلہ ہے کیوں اپنے آپ کو اس میں جھونک کر بے وقوف  بنیں اور اپنی ترقی کو داؤ پر لگائیں ۔ہر ملک پھر اپنی فوج کی کمزور صورت حال سے واقف ہیں ۔ 

Total No of Words: 1,985

  Release on : 15-10-2023

Continue Reading

Politics

سیاسی کریک ڈاؤن اور میڈیا کو دبانا: بھارت کے 2024 کے عام انتخابات سے پہلے بی جے پی کی حکمت عملی

Published

on

بسمہ تعالیٰ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

         از:  ناظم الدین فاروقی

NPA  DOC No : 0166

Dated: 08-10-2023

ہندوستانی پارلیمنٹ کے عام انتخابات  24 کی تیاریوں کا آغاز ہوچکا ہے ۔ سیاسی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں ۔ 18 ویں لوک سبھا  الیکشن میں بی جے پی تیسری مرتبہ ایک طاقتور اکثریتی سیاسی پارٹی کی حیثیت  سے اُبھرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ اپنی برتری اور بقأ کے لئے ہر سیاسی پارٹی کو پُر امن جدوجہد کا پورا حق ہے ۔ لیکن حکومت کی طاقت کو اپوزیشن اور پچھڑے  ہوئے طبقات  و اقلیتوں کے خلاف استعمال کرنا سیاہ جابرانہ سیاست کا ایک قبحہ پہلو ہے ۔ جیسے جیسےالیکشن قریب آرہا ہے ۔ED  اور NIA  کی حزب مخالف  سیکولر میڈیا ‘ سیاسی قانونی دانشوروں و جہد کاروں کے خلاف کاروائیاں تیز تر کردی ہیں ۔ گزشتہ بھی ایسا ہی ہوتا رہا مدھیہ پردیش ‘ کرناٹک ‘ راجستھان ‘ ہماچل پردیش ‘ چھتیس گڑھ ‘ مہاراشٹرا میں اپوزیشن  کے ارکان اسمبلی کی بڑی تعداد  ED کے خوف سے پریشان ہو کر پیسہ کی لالچ میں NDA یا بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی ۔ جن میں سیاسی قد آور شخصیتوں پر ED کے مقدمات  کی تلوار لٹک رہی تھی یا پھر  اپنی مضبوط سیاسی قیادت کو داؤ پر لگا کر بی جے پی کی سرکردہ سرکاریں شمولیت  کو غنیمت سمجھا۔ یہ ہی حال میڈیا کا کر رکھا ہے ۔ جو صحافی اور میڈیا چیانل دائیں بازو کی پالیسیوں سے عدم اتفاق کرتے ہیں یا گودی میڈیا کی بیانڈ باجہ پارٹی میں شامل ہونے سے گریز کر رہے ہیں ان کی بدترین درگت بنائی جارہی ہے ۔ 

3 اور 4؍ اکٹوبر کو سیکولر میڈیا ‘ کمپنیوں و صحافیوں کے کم از کم 100 مقامات پر چھاپے مارے گئے آزاد ‘ سچ گو صحافیوں کو نشانہ بنا کر انھیں کمزور کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔

عام آدمی پارٹی نے دہلی انتخابات 20 کے موقع پر بی جے پی سے مفاہمت کرکے کامیابی حاصل کی تھی ۔ اس وقت مشرقی دہلی کے مسلم مخالف فسادات میں سخت دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 54 سے زیادہ لوگ ہلاک اور 12 سو دوکانات و مکانات جلا کر خاکستر کردیئے گئے تھے ۔ پھر بھی مسلمانوں کی کسی بھی قسم کی ہمدردی سے محض اس لئے احتراز  کیا تھا کہ بڑے صاحب اور وزیر داخلہ ناراص نہ ہوجائیں ۔پولیس کا معاملہ حکومت  دہلی کے تحت نہیں ہے لہٰذا  مجھے ان فسادات اور ہلاکتوں سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے ۔ اس میں عام آدمی پارٹی  کے مسلم ایم ایل ایز اور کاؤنسلرس  بھی گرفتار کرلے گئے تھے ۔وقت گزر گیا۔اس سال کے ابتدا میں 153 اوقافی جائیدادوں کو حکومت نے واپس حاصل کرلیا یہ سب کس کے کہنے پر ہوتا رہا ہے ۔

اب جب کہ عام آدمی کے وزیر  منیش سسوڈیا Manish Sisodia  اور سنجے سنگھ Sanjay Singh  یم پی کو ED نے گرفتار کرلیا ہے تو اروند کجریوال  کو نریندر مودی اور بی جے پی کا کرپشن و بد عنوانیاں نظر آرہی ہیں۔

ملک کے سیاسی حالات تیزی سے کروٹ لے رہے ہیں ۔ کسی بھی وقت بی جے پی کا خاموش ساتھ دینے والی بعض جماعتوں پر کراک ڈاؤن ہورہا ہے ۔ عام آدمی پارٹی کی ناراضگی وقتی ہے یا پھر بغیر کسی سیاسی مفاہمت کے ڈٹ کر بی جے پی کے زیادتیوں کا مقابلہ کریں گے ۔ سپریم کورٹ نے سنجے سنگھ کی گرفتاری پر پھٹکار لگائی ہے ۔ کجریوال  کی INDIA سے وفاداری دیر پا ہوگی کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔

ابھی سنجے سنگھ کا قصہ ختم نہیں ہوا تھا 12 سے زیادہ یوٹیوب چیانلس کے دفاتر و مالکین پر مختلف سنگین الزامات کے تحت دھاوے کئے گئے ۔نیوز کلک کے بعض ڈائرکٹرس اور نیوز کاسٹر  ابھی شار شرما کو بھی زیر حراست لیا گیا تھا ‘ پوچھ تاچھ کے بعد انھیں رات دیر گئے چھوڑ دیا گیا ۔ نیوز کلک پر الزام ہے کہ وہ امریکہ میں موجود چینی نواز انڈین بزنس من سے 56 کروڑ روپیہ وصول ہوا تھا۔

پریس کلب اور پریس گلڈ اور دوسرے صحافیوں کے تنظیموں  نے ED و پولیس کی گرفتاریوں کے خلاف جم کر احتجاج کیا اور 12 مشہور جرنلسٹوں نے چیف جسٹس  آف انڈیا مسٹر چندجوڑ کو خط لکھ کر اپیل کی کہ قبل اس کے دیر ہوجائے فوری پریس کی آزادی کے تحفظ کے لئے  اقدامات کریں ۔ورنہ ملک Dictatorial Democracy  میں تبدیل ہوجائے گا اور جمہوریت کا ایک اہم ستون پریس کی آزادی  کا گلا گھونٹ کر اسے ختمم کردیا جائے گا ۔ اس تکلیف کا احساس امریکی صدر جوبائیڈن نے G20 ستمبر کی میٹنگ میں شرکت کے بعد ۔۔۔گئے تو ان سے رہا نہیں گیا بلکہ اشارۃ ً کہا دیا کہ وہاس پریس کو آزادی حاصل نہیں ۔

180 ممالک کے عالمی پریس فرینڈم کے انڈیکس  میں ہندوستان کا رینک گزشتہ سال  150 تھا اس سال 23 میں 11 گریڈ گرکر 161 تک پہنچ گیا ۔ نہ صرف یہ بلکہ سیاسی Indicator  24 گریڈ ‘ معاشیات میں 6 گریڈ ‘ قانون سازی باڈیوں میں 14 گریڈ ‘ سوشل Indication   16 گریڈ اور صیانتی 9 گریڈ گرچکے ہیں ۔ افغانستان ‘ پاکستان ‘ بھوٹان ‘ سری لنکا  میں پریس کی آزادی ہندوستان سے بہتر ہے ۔ 

16؍ اکٹوبر کو کشمیر کی ایک پریس فوٹو گرافر سنا ارشاد میٹو ایر پورٹ پر امریکہ جانے سے روک دیا گیا ۔ ثنا کو امریکہ میں جرنلٹس  شعبہ میں دیئے جانے والے اعلیٰ ترین انعام حاصل کرنے جارہی تھی ۔ امریکہ نے تشویش کا  اظہار  کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی پریس کو آزادی ملنی چاہیئے ۔ اس طرح جرنلسٹوں  پر سفر کی پابندی پریس کی آزادی کو ختم کردے گی ۔

سیول سوسائٹی  اقلیتوں اور دلتوں کے جتنے دانشورو جہد کار ہیں یا پھر انھیں تعاون دینے والے ادارے ہوں حکومت ایک ایک کرکے ہر ہفتے ملک کے مخصوص شہروں اور علاقوں میں مسلسل کراک ڈاؤن کر رہی ہے ۔ حراست میں لے گئے افراد اور رپورٹرس ‘ نیوز کاسٹر سے عجیب و غریب ناقابل فہم سوالات کئے جارہے ہیں ۔ ابھشار شرما سے یہ تک پوچھ ڈالا کہ 3 سال قبل کیا شاہین باغ گئے تھے یا جعفر آباد دہلی 20 کے فسادات کے موقع پر وہ علاقے کا دورہ کیا تھا ۔

پریس ‘ میڈیا ‘ وکلا ٔ براداری اور آزاد خیال مخالف ہندوتوا فکر کے تمام دانشوروں کو بی جے پی حکومت اپنا دشمن تصور کرتی ہے۔ اقلیتوں کے کسی بھی احتجاجی پروگرام ‘ دھرنے اور جلوسوں کو خوف کے مارے اپنے لئے نیوکلئیر بم اور                                 Mass Heads of Mass Distruction تصور کرنے لگی ہے ۔ اطلاعات کے مطابق NRC, CAA  کے خلاف ملک کے دوسرے مقامات پر جو جو افراد شریک تھے ان پر بھی کراک ڈاؤن  کی تیاری ہورہی ہیں ۔ ٹوئٹر  ‘ فیس بک ‘ یو ٹیوب  کو دن بھر نوٹس  وصول ہوتے رہتے ہیں ۔ اور جہاں محسوس کرلیا گیا کہ خیرہ تبصرہ اور تجزیہ میں مودی ‘ بی جے پی کے خلفا کسی بھی قسم کا مواد ہے اس کا بند ہونا یا مقدمے کا دائر ہونا ضروری ہے ۔

منی پور کے فسادات سے ملک کا مستقبل  کی اجڑنے والی تصویر کا بہتر اندازہ لگایا جاسکتاہے ۔لوٹ کھسوٹ  ‘ لوٹ مار ‘ قتل و غارت گیری  کا ایک مخصوص اپنا انتہا دہشت گرد ہندوتوا حزب و گروپوں  کو حاصل ہے ۔ سوسائٹی کے تمام آزاد طبقات  حصوں اور زندگی کے مختلف میدان میں خدمات انجام دینے والوں سے بی جے پی بہت خوف کھاتی ہے ۔ آر ایس ایس کے ایک دانشور روی اروراRavi Arrora  نے ویدا اور جدید چیالنجس  کو ملحوظ رکھتے ہوئے عصر حاضر میں ہندو سوسائٹی کو درپیش 5 بڑی جنگوں کا اپنی ضخیم کتاب میں تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔ وہ مسلمانوں ‘ کمینسٹوں ونکسلس  کو Dividing Forces  قرار دیتا ہے ۔ کتاب پڑھنے والا ہر غیر مسلم ہندوستانی یہ خیالات میں چلا جاتا ہے کہ وہ حالت جنگ میں ہے اور ہر سمت دشمنوں سے گھیرے ہوئے ہیں اور ان پر جو جنگ مسلط کی گئی ہے اس میں لڑ کر دشمن کو کچل کر فنا کردینا ہے ۔ اس نئی مہا بھارت کی جنگ میں لیل  والنہار ہمیں ہمارے دشمنوں سے جنگ کرنا ہے وغیرہ ۔

تقاریر ‘ گودی میڈیا اور نام نہاد ہندوتوا کے دانشوروں کی تحریری اور کتابیں نفرت اور زہر سے بھری پڑی ہیں ۔ یہ وجہ ہے کہ ایک ہندوتوا کا ملک گیر سطح پر ایسا سیاسی ماحول بنادیا گیا ہے کہ اس میں اعلیٰ ذات ہندوؤں کے ہاتھوں دلت اور پچھڑے ہوئے طبقات  کا بھر پور استحصال ہو ۔

بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار Nitish Kumar  نے طبقات اور مختلف ذاتوں کا سروے جاری کردیا جس کی توقع بی جے پی کو ہرگز نہیں تھی ۔ اس سروے سے اندازہ ہوتا ہے کہ 2% اعلیٰ ذات برہمنوں کو 17% ریژرویشن  حاصل ہے ۔ جب کہ دوسری ذاتیں  اور مسلمان 12 تا 20% پر بھی انہیں کوئی تحفظات حاصل نہیں ہے ۔

اڑیسہ کے چیف منسٹر  نوئین پٹنائک Naveen Patnaik  اور کرناٹک چیف منسٹر سدارامیا  Siddaramaiah  نے بھی طبقاتی سروے کا اعلان کیا ہے ۔ جس سے ووٹروں میں ایک عام سیاسی بیداری پیدا ہوگی اور ہر طبقہ اپنے حقوق اور سیاست و ملازمتوں و حکومتی مراعات  میں تحفظات پر دباؤ ڈالے گا ۔ اس کا اثر لازمی طور پر 18 ویں لوک سبھا الیکشن پر پڑ سکتا ہے اور ممکن ہے کہ بی جے پی  گزشتہ انتخابات کی طرح بہتر نتائج حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہوجائے ۔

زور زبردستی ‘ ظلم و تشدد کے ذریعے شہریوں کو اپنی سیاسی وفاداریوں میں طویل عرصے تک محصور رکھنا اس میڈیاو ڈیجیٹل کی دنیا میں مشکل ہے ۔ بد عنوانیوں ‘ بوتھ منیجمنٹ ‘ کرپشن ‘ توڑ جوڑ ‘ خرید و فروخت ‘ ڈرا دھمکا کرMLA اور MP’s  کو تائید میں لے کر حکومتیں تشکیل دینا تو آسان ہوسکتا ہے لیکن اس کی برقراری اور سیاسی استحکام نا ممکن ہوجاتا ہے ۔

آئندہ چند ماہ میں ہونے والے 5 ریاستوں کے ریاستی انتخابات بڑی اہمیت رکھتے ہیں ان ریاستوں راجستھان ‘ مدھیہ پردیش ‘ چھتیس گڑھ ‘ تلنگانہ میں بی جے پی کی سیاسی صورت حال بہت کمزور نظر آرہی ہے ۔

دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی قیادت  ریاستوں میں انتخابی کامیابی کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے  یا پھر ہمیشہ کی طرح ووٹ کا پیاٹرن تبدیل کرنے کے لئے کوئی چونکہ دینے والا حیرت انگیز حادثہ اور دھماکہ خیز صورت حال پیدا کردی جائے ۔ ستیہ پال ملک سابق گورنر جموں و کشمیر کے مطابق پلوامہ میں معصوم درجنوں فوجیوں کی ہلاکت عین انتخابات  سے قبل مشکوک ہے ۔

INDIA جب تک مضبوط میدان میں اپنی سیاسی سرگرمیوں کو ووٹروں سے نہیں جوڑتی ‘ اس وقت تک INDIA کا بی جے پی کو شکست دینا بہت مشکل اور نا ممکن قرار پاتا ہے ۔

Total No of Words: 1,766

  Release on : 08-10-2023

Continue Reading

Trending