Politics

ہندوستان اسرائیل۔امریکہ امارات کے درمیانI2-U2 (آئی ٹو۔ یو ٹو) معاہدہ!

Published

on

بسمہ تعالیٰ

ہندوستان اسرائیل۔امریکہ امارات کے درمیانI2-U2 (آئی ٹو۔ یو ٹو) معاہدہ!

         از:  ناظم الدین فاروقی

NPA  DOC No : 0141

Dated: 24-07-2022

صدر امریکہ جوبائیڈن کے دورے مشرق وسطیٰ کومیڈیا میںکوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی۔ اسے ایک عام خیر سگالی دورے کی طرح ظاہر کیا گیا۔ اسرئیل اور امریکی سفارتی تعلقات نے مشرق وسطیٰ کی سیاسی، معاشی اور عسکری ہیکل و حکمت عملی میں بڑی تبدیلی رونما ہوتی رہی۔ 

اسرائیل کو علاقائی طاقت کبریٰ بنانے میں امریکہ نے ہر سطح پر بھرپور مدد کی۔ عربوں نے اپنی سیاسی حکمت عملی ہمیشہ عالمی طاقتوں خاص کر امریکہ و یورپ کی ہمنوائی اور ذہنی غلامی کو ترجیح دی۔ قطعہ میں امن کے نام پر گذشتہ 7دہوں میں جو تباہ کاریاں ہوئیں ، اس کا اس مہذب دنیا میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

جارج ڈبلیو بش اور بارک اوباما نے عرب و مسلم اقوام کے کاز کو زبردست نقصان پہنچایا ۔2017 میں جب ڈونالڈ ٹرمپ نے ریاض کا دورہ کیا اوروہاں سے راست تل ابیب کو روانہ ہوئے تو اس وقت دنیا کو یہ پیغام مل چکا تھا کہ اب مشرق وسطیٰ کی داخلی و خارجہ سیاسی پالیسیوں کی تبدیلی کا مرحلہ وار سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ 

ٹرمپ نے باوجود مسلم دنیا کی مخالفت کے اسرائیل میں امریکہ کا کونسل خانہ یروشلم میں منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ پھرعرب ممالک نے ایک کے بعد ایک ابراہیمی امن معاہدہ پر اتفاق کرتے ہوئے دستخط کرنے لگے۔

گو کہ ابراہیمی امن معاہدہ ایک دھوکے اور سراب کے سوائے کچھ نہیں ہے۔ خلیجی ممالک تیل سے مالا مال ممالک کو زیر نگوں کرتے ہوئے قطعہ پر کنٹرول کرنا اور انھیں آپس میں لڑاکر اسلحہ کی بڑے پیمانے پر فراہمی امریکی میڈلسٹ پالیسی  American Medelist Policy کا اہم حصہ ہے۔ 

/14جولائی 2022 کو تل ابیب میں جوبائیڈن نے I2 U2 (آئی ٹو، یو ٹو)نئے سفارتی ،سیاسی اور معاشی بلاک کا اعلان کیا۔ جس میں وزیر اعظم نریندمودی نے ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعہ ورچول شرکت کی۔ یہ ایک بہت اہم گہرے منصوبہ کے ساتھ تیار کیا گیاوفاق ہے۔(آئی ٹو)  I2 یعنی انڈیا اور اسرائیل  India and Israelاور ٗU2یعنی ٗUAEاور USA۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ دو چھوٹے ممالک اسرائیل و عرب امارات کو لیکر کیوں امریکہ نے ایک نیا طاقتور وفاق تشکیل دیا ہے۔

اگر غور کیا جائے تو اسرائیل اور ہندوستان I2 (آئی ٹو)کے درمیان کا جو قطعہ مسلم و عرب ممالک کا ہے۔ وہ سب اسی نئی تشکیل شدہ وفاق کا حصہ ہوں گے اور اسرائیل و امریکہ کی رضامندی سے ہندوستان تمام عالم اسلام پربآسانی اپنا سیاسی اثر و رسوخ بڑھائے گا۔

2018 میں مشہور سعودی صحافی جمال خشوگی کے قتل کے بعد سے سعودی و امریکہ کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔ محمد بن سلمان کی یمن کی جنگ میں کوئی خاص فتح و پیش رفت نہیں ہوئی۔ سعودی عربیہ نے صدام حسین کے خاتمہ کیلئے عراق پر امریکی افواج کے حملے اور تسلط کے وقت ایران کی طرح بھرپور امریکی افواج کا ساتھ دیا تھا۔سنی عراقیوں کے قتل عام کے باوجود سعودی عربیہ بالکل خاموش رہا۔ اوراپنے آپ کو ہونے والی خون ریزی سے بالکل دور اورالگ تھلگ رکھا۔ سعودی عربیہ کے پالیسی سازوںنے محسو س کیا کہ امریکی حلقے اور تائیدی بلاک میں جمع رہنے سے کوئی فائدہ نہیں حاصل ہورہا ہے۔ روس اور یوکرین کی جنگ کے موقع پر جب امریکہ نے نیٹویونین کو استعمال کرتے ہوئے روس کی درآمدات و برآمدات پر بین الاقوامی سطح پر پابندی عائد کردی تو سعودی عربیہ نے امریکہ اور نیٹو کی ایک نہ سنی۔ روس سے اپنے دوستانہ تعلقات کو مزید مستحکم کرتے ہوئے تیل کی قیمتوں کو روس کے مشورہ سے متعین کرتارہا۔ امریکہ کے دباؤ کے باوجود روس سے سفارتی تعلقات معمول کے مطابق بحال رکھے۔ امریکہ کو سعودی عربیہ کی ہٹ دھرمی پر کافی تشویش ہوئی۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ مشرق وسطیٰ اورعالم اسلام کا   قائدانہ رول ادا کرنے والا تیل سے مالامال ملک سے تعلقات سرد پڑ جائیں۔ اور سعودی عربیہ ،امریکی بلاک سے کہیں آزاد ہوکرآزادنہ فیصلے نہ کرنے لگے۔

ہندوستان اور اسرائیل I2 (آئی ٹو)کی تشکیل ،اسی لئے ہوئی کہ یہ دونوں ممالک کے سعودی عربیہ سے بڑے گہرے سفارتی و سیاسی تعلقات ہیں۔ یہا ں بھی ایک بڑے منصوبہ کو روبہ عمل لانے کیلئے امریکہ نے ہندوستان کے بہت سارے امور میں عدم اتفاق کرنے کے باوجود ہندوستان کے ساتھ دوستی اور قطعہ کا ایک بڑا اہم طاقتور ملک کے طور پرتسلیم کرنے کیلئے مجبور ہونا پڑا۔

امریکی پالیسی کے مطابق قطعہ میں اگر چین کا کوئی مقابلہ کرسکتا ہے تو وہ اسکا پڑوسی ملک ہندوستان ہے ۔ امریکہ نے ہندوستان کو اپنی خصوصی مراعات اور ٹیکسس بنفیٹس دیتے ہوئے ٹرمپ کے دور میںلگائے گئے ٹیکسس اور دوسرے تحدیدات میں نرمی کا اعلان دوبارہ کر چکاہے۔

ہندوستان باوجود روس کے کھلے عام تیل اور گیاس و دیگر اشیاء کی تجارت کررہا ہے۔امریکہ نے اس پرکوئی اعتراض نہیں کیا۔ پہلے ہی امریکہ ایک حکمت عملی کے تحت ہندوستان پر سے کئی تجارتی پابندیاں ختم کرتا رہا ہے۔

عالمی سطح پر دو بڑی طاقتوں کے درمیان جنگ جاری ہے۔ موقع کا فائدہ بہتر طریقہ سے ہندوستان حاصل کررہا ہے۔ پاکستان میں بھی جو سابق چند ماہ قبل سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں اس کی ایک وجہ پاکستان کا روس کی جانب متوقع جھکاؤ تھا۔ اب ہندوستان ،پاکستان سے لیکر مراقش و اسرائیل تک پورا قطعہ امریکی بلاک میں جوڑ دیا گیاہے۔

 امریکہ، ایرا ن کو الگ تھلگ کرنا چاہتا تھا۔ ایران اور دیگر 5مسلم ممالک آذربائیجان ،قازقستان،تاجکستان ۔۔۔ وغیرہ ممالک کے ساتھ روس نے معاہدات کرکے اپنے بلاک میں شامل کرلیا ہے۔ ان مسلم ممالک کو پابند کردیا گیا ہیکہ وہ ترکیہ سے کچھ معاملت نہ کرے ۔نہ برآمدات نہ درآمدات کی اجازت ہوگی۔

 ترکیہ کی تلون مزاجی اور وقتی و لمحاتی تقاضوں کے مطابق خارجہ پالیسیاں تبدیل کرتا رہتا ہے۔ روس ترکیہ کو ایک بااعتماددوست نہیں سمجھتا۔

اب امارات اور امریکہ U2 کا ایک علیحدہ بین الاقوامی معاہدہ ہوا۔ امارات اور اسرائیل چونکہ آپسی گہرے دوست بن چکے ہیں اور امارات کے سیاسی ،فوجی، معاشی امور میں اسرائیل کی راست مداخلت ہورہی ہے۔۔

مشرقی وسطیٰ میں ابو ظہبی کو کئی وجوہات کی بناء پرخصوصی اہمیت حاصل ہے۔ ایک تو ابوظہبی دنیا کا واحد ملک ہے۔ جس نے امریکی سرکاری خزانے میں 8ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ دوسرے یہ کہ امریکہ کے حساس و فوجی خفیہ ایجنسیوں کے مراکز بھی یہاں موجود ہیں۔ابوظہبی، اسرائیل و امریکی جدید ترین اسلحہ اور جٹ بامبرس کا بڑا خریداربھی ۔ آفریقی اور مشرق وسطحی کے غریب ممالک میں امداد کے علاوہ کئی ملیشیاء اور گوریلا لڑاکو گروپس کو تربیت، اسلحہ اور پیسہ فراہم کرتاہے۔

ابوظہبی کے محل میں سابق وزیراعظم برطانیہ ٹونی بلیر اور یاسرعرفات کا خصوصی و صیانتی عہدیدار محمد دھلان  بطورمشیر خاص کام کرتے ہیں ۔کہا یہ جاتا ہیکہ یہ دونوں اسرائیل کی منظوری سے مشیر اعلیٰ بنائے گئے۔امریکہ چاہتا ہیکہ اسرائیل اور امارات کے درمیان مضبوط رشتوں اور تنقیح ابراہیمی امن معاہدے کے نام پر ہو جونئی صف بندی ہوئی ہے اسکا بھرپور فائدہ اٹھایا جائے۔

سابق صدر امریکہ بش نے سعودی عربیہ کو اسلامی سرگرمیوں کی سرپرستی اور تمام اسلامی اداروں کو بند کرنے کیلئے ایک سیکیولر طرز کا جدید سعودی عربیہ بنانے کی ترغیب دی تھی ،اس پروجیکٹ ٹرمپ کے دور تک تقریبا عملی جامعہ پہنایا جاچکا تھا۔اسکے بعد گذشتہ 4سالوں میں جدیدیت اور عصری ترقی کے نام پر اسلامی اقدار کوکمزور کرنے اور اکھاڑپھینکنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی۔ 

یہی وجہ ہیہ قبلہ اول فلسطین پر صہیونی طاقت کے تسلط کا مسئلہ اب کوئی اہمیت نہیں رکھتاہے۔ بلکہ سوائے چند عرب ممالک کے تمام ہی اسرائیل سے دوستی اور معاہدات کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ایسے میں I2 U2 (آئی ٹو ، یو ٹو) کا جو معاہدہ ہواہے اس کے اثرات آئندہ چند سالوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ وقت و حالات یقینا بدلتے رہتے ہیں۔

 لیکن مرض بڑھتاگیا جوں جوں دوا کی۔ کے مصداق مشرق وسطیٰ کے ممالک کے اثر و رسوخ کم کرنے اور علاقے تک انکی سیاسی وسفارتی سرگرمیاں محدود رکھنے کیلئے امریکہ و اسرائیل ہمیشہ کامیاب حکمت عملی اختیار کرتے رہے ہیں۔ اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتے۔

Total No of Words: 1331

  Release on : 24-07-2022

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Politics

اسرائیل کی حماقت اور حماس کی حقیقت

Published

on

بسمہ تعالیٰ

اسرائیل کی حماقت اور حماس کی حقیقت

         از:  ناظم الدین فاروقی

NPA  DOC No : 170

Dated: 01-11-2023

کرۃ الارض پر فلسطینیوں کی نسل کشی کے لئے غزہ کو دور جدید کے جہنم میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ لہو کے آبشار ‘ شہدا کی بے گور و کفن لاشیں ‘ ہزاروں علاج کے لئے تڑپتے زخمی  معذور ‘ بھوک و پیاس سے نڈھال عوام ‘ خوفناک بمباری اور توپوں کے گولوں سے بچنے کے لئے شمال سے جنوب  اور جنوب سے مشرق و مغرب  دوڑتے دوڑتے  زندگی  سے تھک چکے ہیں ۔لیکن پھر بھی دشمن سے لڑنے کا ولولہ ماند نہیں پڑا ہے۔عورتوں ‘  بیواؤں ‘ یتیم بچوں ‘ زخمی مریضوں کا کہرام مچا ہواہے ۔ ہر 7 منٹ میں ایک بچہ فوت ہورہاہے ‘ مرنے والوں میں 70% عورتیں اور بچے ہیں ‘ غزہ میں21 ویں صدی کا بدترین انسانی بحران پیدا ہوگیا ہے ۔ اموات کی تعداد کا کانٹا تیزی سے ہر7 منٹ میں ایک بچے کی موت کے ساتھ شہادت پانے والوں کی تعداد  میں اضافہ ہی کرتا جارہا ہے ۔ 12 ہزار سے زیادہ معصوم فلسطینی شہادت  پا چکے ہیں ایک لاکھ سے زیادہ زخمی ہیں  اور بار بار اسرائیلی فوج  کی وارننگ کی وجہہ سے محلہ کا محلہ خالی کرکے جان بچانے کے لئے بھاگ رہے ہیں ۔ وزارت سیول سروس غزہ کے مطابق آدھے سے زیادہ آبادی یعنی تقریباً 12 لاکھ بے گھر ہو کر سڑکوں ‘ گلی ‘ کوچوں میں زیر سماں بے سہارا ہجوم ‘ بے آب و غذأ و دوأ سکتہ میں ہے ۔ جائیں تو کہا ں جائیں ؟ کھلی جیل میں اسرائیل وحشیانہ بمباری کے ذریعے معصوم فلسطینی ہونے کا  بدترین انتقام لے رہاہے۔ قتل عام و غارت گیری  کی بدترین تجربہ گاہ بنا کر ظلم و بربریت  کی چکی میں پیسا جارہاہے ۔عالمی رائے کو بدلنے کے لئے پروپگنڈے کے ذر یعے دنیا میں مظلوم فلسطینیوں کو مجرم اور وحشی عرب کے طور پر بد نام کرنے امریکہ کے کئی بڑی میڈیا کمپنیوں جیسے ڈیجیٹل  مارکٹنگ  کمپنی Semrush  وغیرہ کوتشہیر  کا کنٹراکٹ دیا گیا ۔ اسکے ذریعہ  فلسطینیوں  کو وحشی ‘ بد معاش عرب  کے طور پر ان کا تشویۃ ( بدنام) کرنے کے لئے کئی بلین ڈالر عالمی میڈیا وار پر اسرائیل خرچ  کر رہا ہے دنیا میں اک سو بیس کروڑ  1.2 بلین (Billion)  ناظرین تک غزہ کی جنگ کی فیک ‘جھوٹ پر مبنی ویڈیوز اور واقعات و معلومات  پہنچائی جاچکی ہیں ۔ اسرائیل کے ایک آئی ٹی I.T  ماہرمحقق کے مطابق 2 ملین سے زیادہArtificial Intelligence   کے ذریعہ فیک نیوز  تیار کرکے دنیا میں سوشل میڈیا پر گشت کروایا جارہا ہے ۔ ایک عربی چیانل نے کئی اس طرح کے فرضی قدیم ویڈیو کلیپنگس  کو واشگاف  کیا گیا ‘ حال ہی میں یہ بتلایا گیا ہے کہ امرحکہ کے ہزاروں فوجی ایر کرافٹ سے اسرائیل ایر پورٹ  پہنچ رہے ہیں ۔ ان مناظر کو فیاکٹ چیک کے ذریعہ ٹسٹ کیا گیا تو پتہ چلا کہ یہ دوسال پرانی ویڈیو ہے ۔ ٹھیک اسی طرح 40 بچوں کے سر کاٹنے کی افواہ پھیلائی  گئی  اور ایک فیک ویڈیو  میڈیا میں گشت کر وادیا گیا ۔جس کے ذریعے حقیقی واقعات پر پردہ ڈالتے ہوئے پوری دنیا میں اپنے معصومیت کے ڈنکے پیٹتے ہوئے نسل کشی کو ضروری اور اپنے دفاع کے حق میں  لازمی اور وقت کی ضرورت قرار دے رہے ہیں۔

دنیا کا چاہے پرنٹ میڈیا ہو  یا ڈیجیٹل‘ ان تمام بڑی کمپنیوں  کے مالکین یہودی ہیں  وہ اور زور و شور سے اسرائیلی ظالمانہ پالیسیوں کو خوبصورت بنا کر بھر پور ساتھ دے رہے ہیں لیکن یہودی مذہبی پیشواؤں‘   یہودی دانشوروں کی بڑی تعداد اب فلسطینیوں کی آزادی  کے حق میں ایک طاقتور تحریک چلا رہے ہیں ۔ 

نیو یارک پوسٹ 29؍ اکٹوبر کے شمارے میں پہلے صفحہ پر سرخیوں میں خبر شائع کی گئی کہ دو ہزار اسرائیلی مشرقی وسطیٰ کے وحشیوں سے لڑنے کے لئے روانہ ہوئے ہیں ۔ اسی اخبار میں ایک گھریلو عورت کو اس کے لوّر (Lover)  نے قتل کرکے اس کے جسم کے ٹکڑوں کو فریج میں رکھ دیا ‘ جس کی اطلاع پولیس  کو ایک ماہ بعد ملی وحشی کون ہیں ؟ سالانہ 35  ہزار سے زیادہ معصوم لوگ امریکہ میں گن فائر میں ایسے ہی ہلاک کردیئے جاتے ہیں ۔ عرب دنیا میں کسی بھی مقام پر اس طرح آپسی فائرنگ  کے ذریعہ  بے جا قتل نہیں ہوتے ۔ پہلی مرتبہ یہ دیکھا گیا ہے کہ یہودی  لابی میں خود غزہ پر حملو ں کے خلاف زبردست آپسی شدید اختلاف  کا شکار ہوچکی ہے ۔ احتجاجی یہودی  واشنگٹن میں کیپٹل ہلز پر ہلہ بول دیا ۔ ہفتہ 4؍ اکٹوبر 23 کو امریکہ کے  50 شہروں سے لاکھوں افراد احتجاجی جلوس  کی شکل میں جمع ہو کر پورے امریکہ کو دھلا دیا ۔ منھا ٹن نیویارک کے اسٹیشن کو  روز روز کے احتجاج کی وجہہ سے کئی مرتبہ بند کرنا پڑا ۔31؍ اکٹوبر 23 کو وزیر خارجہ امریکہ انٹونی بلنکن (Antony Blinken) کی پریس کانفرنس میں صحافیوں کی بدترین مخالفت  اور اہانت کا سامنا کرنا پڑا ۔ صحافیوں  کی اکثریت نے اپنے ہاتھوں کو خون سے رنگ کر زبردست پریس کانفرنس  کے خلاف احتجاج کیا۔ 

اسرائیل کے ایک مشہور صحافی Hila Weiss Berg کا ایک مضمون بعنوان اسرائیل کی حماقتیں اور حماس کی حقیقتیں’’Israel Fantasies & Hamas Realties ‘‘ کے عنوان سے ایک مشہور روزنامہ میں  شائع ہوا ہے۔ جس کے مطالعہ سے اسرائیل کے اعلیٰ ملٹری قیادت کی صحیح طور پر سونچ و فکر کا اندازہ ہوتا ہے  جس کا اقتباس قارئین کے استفادہ کے لئے یہاں درج ہے :

’’Dr. Micshetin مشیر اعلیٰ برائے فلسطینی امور IDF (اسرائیلی ڈیفنس فورس ) کے  انٹلیجنس (مخابرات ) میں لفٹنٹ  کرنل کے عہدہ پر رہ چکے ہیں  انہوں  نے 1948 کے نکبہ پر اپنی پی ایچ ڈیP.hd کی تھی‘ ہلز ویس برگ Hils Weis Bergجنھوں نے ایک خصوصی انٹرویو  میں بعض حقائق  پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے بہت ساری چونکا  دینے والی باتیں کہی ہیں ۔ 

فلسطینیوں کا مسئلہ اتنا آسان نہیں جتنا ہمارے سیاست دان تصور کرتے ہیں ۔ اسرائیل کی انٹلیجنس  کی سب سے بڑی تاریخی غلطی  یہ تھی کہ وہ حماس اور اس کی قیادت کو الفتح و حزب تحریک فلسطین جیسے گروپوں  کی طرح سمجھتی رہی جب تک حماس کے تصورات ‘ خیالات ‘ نکتہ نظر اور فکر ان سے بالکل مختلف ہے ۔ وہ ہمارا ایسا دشمن ہے جس کو ایک زاویہ نگاہ سے سمجھنا اور اس کے مطابق ایک مفروضہ بنا لینا سوائے ہمار ی بے  بصیرتی  اور اندھے پن کے کچھ نہیں ہے ۔ حماس  جہاں دہشت گرد  ہے وہی وہ ایک سیاسی ‘ سماجی ‘ فلاحی اور نتائج سے بھر پور مہیمات چلانے میں مہارت  رکھنے والی تحریک ہے ۔ حماس میں عقلی بنیادیں  Pragmatism کوٹ کوٹ کر بھرا ہواہے۔ موجودہ فدائی کوششوں کو اپنی تاریخ سے جوڑ کر کام کرنے کی  ان میں بھر پور صلاحیت پائی جاتی ہے ‘ ان کی قیادت مذہبی قیادت نہیں ہے لیکن وہ  بہت کٹر مذہبی ہیں ۔ 

موجودہ صدر غزہ  یحیی سنوار کو ہم نے 22 سال اسرائیلی جیل میں قید میں رکھا ۔ اس دوران اسیری میں  اس نے یونیورسٹی سے نہ صرف دو پی ایچ ڈی تکمیل کرلئے بلکہ حماس نے سنوار کی رہائی کے لئے ہمارے ایک فوجی کرنل  Giled Shelit  کا اغوا کرلیا تھا جنھیں چھڑانے کے لئے ہمیس حماس کے ساتھ ڈیل میں بہت کچھ کھونا پڑا تھا ۔ یحییٰ سنوار کے ساتھ  ایک نہیں دو نہیں ایک ہزار فلسطینی قدیوں کو رہا کرنا پڑا۔  اتنی خطرناک شرائط کو بھی ہمیں ماننا پڑا ۔یہ کہنا مشکل ہوتا ہے کہ حماس کب کیا سیاسی ‘ سفارتی ‘ معاشی ‘ عسکری ‘ عالمی اعلام ترک چلے گا ‘ ہمارے سنچری کے تمام 75 سالہ تجربات  کو ایک دن میں حماس نے خاک میں ملا دیا ۔ 

ڈاکٹر مچٹن کا کہنا ہے ایک جانب یحییٰ سنوار اسرائیل کے وزیر آعظم کو خط لکھتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے روزگار کے لئے چک پوائنٹس  پر نرمی کرتے ہوئے ورک پرمٹ دیئے جائیں ۔دوسری جانب وہ ان بے روزگاروں کو ہماری سرزمین پر روزانہ محنت مزدوری کے نام پر ہمارے علاقوں میں  گھسا کر ان سے ہماری  جاسوسی کے ذریعے مخبری کرواتا رہا ۔ 

ہم یہ سمجھتے رہے کہ 22 سال قید و بند  کی سزا کاٹنے کے بعد اب اس کی زندگی میں سوائے اپنی زندان کی آپ بیتی لکھنے کے کیا کام باقی رہ جائے گا اور اس نے ہماری سزاؤں (تعذیب ) سے بہت کچھ سبق حاصل کرلیا ہوگا ۔ اس کی سوسائٹی میں  لوگ اس سے خوف  بھی کھائیں گے ۔اس کے اہل خانہ اسے گھر کے کسی کونے میں بٹھادیں گے لیکن ہمارے یہ مفروضے سب لغو ثابت ہو گئے ‘ہم سنوار کے افکار و نظریات  کو صحیح طور پر سمجھ نہیں سکے۔ سراسر دھوکہ کھا گئے۔ ہمارے جیلوں سے رہا ہونے والے بڑے بڑے سور ماؤں کی کمر ٹوٹ جاتی ہیں اور ہمیشہ کے لئے وہ  ہم سےدشمنی کا راستہ بھول جاتے ہیں ۔ وہ تو رہا ہو کر  نہ صرف  بڑا قائد بن گیا بلکہ پوری حکومت کی باگ ڈور  اس نے سنبھالی ۔( اس پر جان نچھاور کرنے والوں کی ایک فوج تیار کرلی )۔

ہمارے زندگی کے اَپروچ میں اور سنوار کے اپروچ میں بہت بڑا فرق ہے ۔ذرا سونچئے ہم لوگ بڑے بڑے فوج اور حکومت کے عہدوں پر رہ کر وظیفہ  پر سبکدوش ہوجاتے ہیں اور پھر ایک  دن مرجاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ہماری زندگی کا اور کیا نکتہ نگاہ ہے ۔لیکن سنوار  کے اور حماس کی قیادت کے پاس نہ موت کا خوف ہے اور نہ ہی ان کی موت کے بعد ان کی تحریک ختم ہونے والی ہے ۔ ان لوگوں نے بچے بچے  کہ دل اور دماغ میں اپنے ارض مقدس  کی آزادی کی جو روح پھونک  دی وہ ایسا لگتا ہے کہ کبھی ختم نہیں ہونے والی ہے ۔ 

اس تجزیہ  میں ڈاکٹر مشیٹنن نے مضمون نگار صحافی کے ذریعے یہ بھی وارننگ دی کہ اگر دو قومی نظریہ قبول کرلیا جائے تو سمجھ جاؤ کہ پڑوس میں ایک نیا بوسنیا تیار ہوگیا ہے اور اگر فلسطینی نوجوانوں کو ہماری شہریت دی جائے گی تو وہ اکثریت میں آجائیں گے اور سوشل ڈیموکریٹک اسٹیٹ کے بہانے حکومت  ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گی ۔ ان کی مغربی پٹی اور نہ ہی غزہ کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں مملکت کا درجہ  دینے کو بین الاقوامی دباؤ کے تحت قبول کرنا  اپنے لئے( اسرائیل) خودکشی کرنا ثابت ہوگا ۔ بجلی ‘ پانی ‘ فینانس ‘ دفاع ‘ صیانت  سب کچھ ہمارے ہاتھ میں ہونے کے باوجود آج  جس انداز سے ہم پر حملہ آور ہوئے ہیں وہ ہمارے لئے  تاریخ کا ایک سبق ہے ۔ ہم ہمیشہ یہ سمجھتے رہے کہ نفق( ٹنل) کے ذریعہ یہ دہشت گرد ہمارے علاقے میں گھسنے کی کوشش کریں گے ہماری ہمیشہ نگاہیں صرفٹ ٹنلس  پر ہی جمی رہیں تو انھوں نے اپنی عظیم ذہانت سے کام لیتے ہوئے فضا میں اڑنے اور کھلے عام سرحد پار کرنے کا ایک بڑا کام کرڈالا۔75 سال کی جتنی ہماری اعلیٰ ترین فوجی ‘ سیاسی ‘ سفارتی ‘ تجارتی کوششیں انھیں کمزور کرنے کی تھیں وہ سب اچانک خاک میں مل گئیں  تھیں وہ اب مکمل طور پر بولنے کی ضرورت ہے۔ وغیرہ۔‘‘                                              (بحوالہ  جیروسلم پوسٹ29؍ اکٹوبر 23)

ڈاکٹر   مسٹن غزہ سے متعلق بہت ہی ذہین تصور کئے جاتے تھے وہ کئی جنگوں میں شریک رہ چکے ہیں وہ IDF  کے انٹلیجنس ڈپارٹمنٹ کے لفٹنٹ  کرنل ہونے کے باوجود  اہم باتوں کااخفأ کیا ہے ۔ اپنے انٹرویو ں میں بھی عیاری سے کام لیتے ہوئے بہت ساری باتوں پر پردہ ڈال دیا۔ شیخ احمد یسینٰ  کی قیادت میں اسلامی تحریک  کی پہلی انتقاضہ  8؍ ڈسمبر 1987 اور دوسری تحریک انتقاضہ 2000 اور 2004 میں شیح یسین  و یاسر عرفات کی شہادت  اور 2006 میں حماس کی UNO کی زیر نگرانی پہلے عام انتخابات  میں 132 پارلیمانی نشستوں میں 74 نشستوں پر  اور الفتح PIO کو 45 نشستیں حاصل ہوئیں تھیں ‘ حماس ایک عالمی سطح پر معترفہ سیاسی پارٹی ہے ‘ دہشت گردی کا اس پر لیبل لگا کر اسے بدنام کرنے کی کوشش عالمی طاقتوں کی جانب سے جاری ہے ۔ اس عظیم الشان کامیابی کے بعد سے پھر فلسطینیوں کے دیئے گئے ووٹ  کے حق کو 17 سال سے دوبارہ  نہیں دیا جارہا ہے اور مغربی پٹی و غزہ میں حسب معمول ہر 5 سال کو عام انتخابات کروانے کے بجائے نہتے خالی ہاتھ غزہ کے شہریوں پر پہلے 4 جنگیں اور اب 5 ویں جنگ مسلط کرتے ہوئے گزشتہ 24 دنوں کے دوران 16 ہزار ٹن  بم عام معصوم زندہ آبادی پر گراکر ہلاک کیا جارہا ہے ۔

صیہونی دانشور کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ فلسطین  کی آزادی اور فلسطینیوں کے اسلام بیتُ المقدس سے دائمی تعلق کو  چھپاتے ہوئے ایک خود ساختہ  تشریحات  اور کھوکھلے تجزیات پیش کرتے ہوئے دنیا کا اپنے مطابق ذہن بنانے میں بڑی حد تک کامیاب ہورہے ہیں ۔ 

حماس  کو جتنی کامیابیاں ہوتی ہیں اس سے کئی گنا زیادہ ہر روز ایک نئے چیالنجس  اور داخلی عرب اسرائیل لابی کی مضر سرگرمیوں کا سامنا درپیش ہے ۔ 

حماس کے گزشتہ 20 سالوں  میں کئی سو تربیت یافتہ قائدین کو چن چن کر اسرائیل نے دنیا میں ڈھونڈ ڈھونڈ  کر شہید کرڈالا۔ حماس کی آج کی اجتماعی قیادت طوفان الاقصیٰ  کے ذریعہ دنیا کو حیرت زدہ کردیا ‘ دشمن کو یہ احساس ہوچکا ہے کہ حماس کے یحییٰ سنوار  جیسے 50 قائدین کو بھی شہید کردیا جائے تو حماس کی سرگرمیوں اور کارکردگی میں کوئی ذرہ برابر فرق نہیں آئے گا بلکہ اعلیٰ تعلیمی یافتہ و اسلامی تربیت سے ہمکنار دوسری  اور تیسری صف بالکل تیار ہے ۔قربانیوں ‘ شہادت کو وہ اپنے لئے باعثِ شہادت سمجھتے ہیں اور مقتل غزہ کو ’’مجزرہ مشرف‘‘ کہتے ہیں ۔ دشمن اسی سے خوف زدہ ہے کہ پوری قوم کو شوق شہادت سے سرشار کردیا گیا ہے ۔ موت کو تبسم کے ساتھ چوم کر شہادت کے لئے ایک دوسرے سے بازی لے جانے کا جذبہ دن بہ دن بالاہی ہوتا جارہا ہے ۔

حماس کی بے پناہ عصری صلاحیتوں کے اسرائیل  کی اعلیٰ ترین  قیادت بھی معترف ہو چکی ہے ۔ سل فون بگ  Pegasus جو دنیا کے کسی بھی شخص اور شہری کی بات چیت کو غیر محسوس طریقہ سے ہائیکنگ کرتا ہے وہ ایک اسرائیلی کمپنی ہے ‘ اس سے جاسوسی کے ہگ کے فروخت کے ذریعہI.T اسرائیلی کمپنی نے کئی بلین ڈالر کمالئے ۔ حتیٰ کہ ہندوستان نے بھی بہت بھاری قیمت میں اس کو خریدا اور اس کا  بی جے پی  اپنے مخالفین کے خلاف استعمال  کر رہی ہے  ۔ جس کی حال ہی میں  ہندوستان کے کئی ممبران پارلیمنٹ نے حکومت سے شکایت بھی کی۔ اسرائیل کو بہت گھمنڈ تھا کہ ہم ساری دنیا کی مخبری و جاسوسی کی قدرت رکھتے ہیں ۔ 7؍ اکٹوبر  کے حملے سے پہلے حماس کے I.T سائنس دانوں  نے Pegasus کو فیل کرتے ہوئے اپنا جدید ترین بگ بنا کر اسرائیلی ملٹری کی خفیہ معلومات  حاصل کرلیں ۔ حتیٰ کہ دنیا کے خفیہ  معلومات  کا سب سے محفوظ بڑا مرکز مانے جانے والا موساد کا سنسر  راکٹ حملے میں تباہ کرتے ہوئے وہاں کی تمام خفیہ معلومات کے کمپیوٹرس  اٹھالئے گئے‘Pegasus  کی بدترین ناکامی کے بعد اسرائیل نے اس کمپنی کو اب بلیک لسٹ کردیا ‘ اس ذلت آمیز شکست  اور ہائی ٹک ہونے والے تکبّر  کو حماس نے ملیا میٹ کردیا اس علاقے میں  اپنی جنگی حکمت عملی  وٹکنالوجی کی سوپر میسی تو حماس نے منوانے کے لئے دنیا کو مجبور کردیا ۔

اب دنیا کے بڑے بڑے طاقتوں کے ملٹری ریسرچWar Colleges  حماس پر ریسرچ کرنے میں لگ گئے ہیں ۔ جس طرح دنیا کے دونوں سوپر پاورس افغانستان میں آخرکار شکست فاش ہوئی  ٹھیک آج نہیں تو آئندہ چند سالوں میں فلسطینیوں کی نئی نسل جو ماں کے گودوں میں ہے ضرور غلامی سے آزادی حاصل کرکے ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت دے گی۔

Total No of Words: 2,603

  Release on : 01-11-2023

Continue Reading

Politics

طوفان الاقصیٰ کی جنگ خطرناک مرحلے میں داخل

Published

on

بسمہ تعالیٰ

طوفان الاقصیٰ کی جنگ خطرناک مرحلے میں داخل

         از:  ناظم الدین فاروقی

NPA  DOC No : 0167

Dated: 15-10-2023

آزادی فلسطین و مسجد الاقصٰی کی جدوجہد ایک خوفناک رُخ اختیار کرچکی ہے ۔7؍ اکٹوبر 23 طوفان القدس نے اسرائیل میں ناقابل تلافی نقصان کے ساتھ نفسیاتی جنگ میں فلسطینیوں نے زبردست برتری حاصل کی ۔ انٹلیجنس  اور مخابرات  میں دنیا کا استاد مانا جانے والا اسرائیل اور اس کی تمام خفیہ ایجنسیوں کو مقام بریگیڈ نے حماس بریگیڈ نے راکھ چٹادی ۔ آئی ٹی کے تمام سوپر

Space Command اور آئرن ڈوم(قبۃ الحدید) کو بھی اپنی مہارت سے حماس کے مجاہدین نے ناکارہ کردیئے ۔ دنیا سکتہ میں ہے ‘ عالمی طاقتیں  افغانستان کی طویل جنگ آزادی میں شکست فاش کے بعد صرف دو سالوں میں ایک اور دوسرا جھٹکہ سوپر ملٹری پاور کےجنریلوں کے ہوش اُڑا دیئے ۔

اسرائیل کے جرنیل  اس بات کو لے کر سر پیٹ رہے ہیں جہاں جس علاقے پر بمباری کی جارہی ہے چند منٹوں بعد میں سے آئرن ڈوم(قبۃ الحدید) کو ناکام کرتے ہوئے ابھی بھی ہلاکت خیز راکٹ داغے جارہے ہیں ۔گزشتہ  ایک ہفتے  تقریباً 15 سو معصوم فلسطینی اسرائیلی بمباری میں ہلاک ہوچکے ہیں ۔UNO کے 9 ملازمین کے علاوہ پریس کے لوگ بھی ہلاک ہوئے ہیں ‘ دوسری جانب مصر نے غزہ کی رَفأ   سرحدی گیٹ کو مقفل کردیا ہے ۔ اسرائیل 3 مرتبہ اس پر بمباری کرچکا ہے ‘ اب اسرائیل نے اقوام متحدہ سے کہا ہے کہ ایک ملین پناہ گزین کا مصر کے صحرأ  میں انتظام کرلیں ہم شہر خالی کروانے والے ہیں ۔بحری ‘ برّی ‘ فضائی حملے کے لئے3 لاکھ کو اسرائیل  کے فوجی لشکر کی بھاری ٹینکس کے ذریعہ غزہ پر چڑھائی  کرواکر سرحد کے اس پار مصر کے صحرا سینا میں ڈھکیل  دینے کا اعلان کیا ہے  لیکن حماس کی حساس جنگی حکمت عملی اور زمینی سرنگوں سے سب خوفزدہ ہیں ۔اطلاع کے مطابق 14؍ اکٹوبر 23 کو ہفتے کے دن کئی لاکھ اسرائیلی فوج غزہ شہر میں داخل ہوگئی ہے ۔ 17 سالوں کے درمیان ابھی تک غزہ پر 5 جنگیں مسلط کی گئیں۔

غزہ سے راکٹوں کے حملے اور مجاہدین کی کاروائیوں میں15000 سے زیادہ اسرائیلی اور 1500 سے زیادہ طوفان القدس کے کارکن شہید ہوگئے ۔بعض کیبوٹس میں اب بھی لڑائی جاری ہے ۔1987 سے ہی اسرائیل حماس کے تیور اور کاروائیوں سے پریشان ہے ‘ یہ اسلامی فلسطینی تنظیم اگر متحرک  ہوجائے تو اسرائیل کے لئے بہت بڑا نقصان ہوگا۔ عجلت میں یاسر عرفات سے کئی معاہدے کرلئے تا کہ حماس کا صفایا کیا جائے  اسرائیل بار بار حماس کے صفائے کا اعلان کرچکا ہے ۔ 37 سال کا عرصہ ہوگیا یہ اسلامی تنظیم کا خاتمہ اسرائیل اور عالمی طاقتوں کے بس کی بات نہیں رہی ۔

حماس کے حملے پر دنیا میں ہنگامہ کھڑا کیا جارہا ہے ۔اگر خون آلود فلسطین کے تاریخ کے اوراق  پلٹ کر دیکھیں  تو پتہ چلے گا کہ نکبہ 1948 سے اب تک 5 لاکھ فلسطینیوں  کو ہلاک اور 2 ملین فلسطینیوں کو ملک بدر کردیا گیا تھا ۔ اس دوران ایک ملین سے زیادہ فلسطینیوں کو گرفتار کرکے طویل مدت کے لئے جیل میں مقید کردیا گیا ۔2022 سے اب تک 11540  جن میں نصف  بچے ‘ عورتیں  اور معصوم فلسطینی شامل ہیں ہلاک کردیا گیا ۔ بیت المقدس  کے اطراف صرف قدیم شہر یروشلم میں 250 قدیم عمارتوں کو منہدم کرکے 258 عمارتیں تعمیر کی گئیں۔2021 میں فلسطینی علاقوں 70 مقامات کو منہدم کرتے ہوئے 71900 یہودی مستوطنین Settler کو بسایا گیا۔ 19 مساجد شہید کردیئے گئے ‘ 10 ہزار لوگوں کو زمینوں سے بے دخل کیا گیا۔ اس کے علاوہ مسجد اقصیٰ میں روزانہ مصلیوں بالخصوص خواتین ‘ عورتوں ‘ بچوں کو زودو کوب  کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ اسرائیل نے بیت المقدس کے نیچے دو بڑی سرنگیں بنالی ہیں ۔ جس کے اندر دھماکہ کرکے وہ کبھی بھی بیت المقدس کو شہید کرنے  کی تیاری کی جاچکی ہے۔

وزیر آعظم  اسرائیل بنجامن نتن یاہو  اور فلیڈ مارشل اسرائیل نے 8؍ اکٹوبر 23 کو انتقام کی وارننگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ حماس نے غزہ میں اپنے لئے جہنم کے داہنےکھول لئے ہیں ہمارے لئے یہ حملے 9/11 ٹوین ٹاور کے حملوں سے زیادہ خطرناک ہیں۔ہمارا پہلا کام ہوگا حماس کو صفہ ہستی سے مٹادیں اور غزہ کے دہشت گردانہ کاروائیوں کا ہمیشہ کے لئے صفایا کردیں ۔ امریکہ ‘ یورپ  یہ استعماری طاقتوں کا توسیع شدہ ایجنڈہ ہے کہ سفید قوم کی عرب علاقے میں سرپرستی قائم رکھی جائے ‘ حتٰی کہ ایشیا کے کئی اسرائیل دوست ممالک نے اسرائیل کے انتقامی کاروائیوں کی مکمل تائید کی ہے  ۔غزہ پر کارپیٹ بمبنگ  شروع کردی گئی ‘ گزشتہ 8 دنوں کے دوران 6 ہزار عمارتوں کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کردیا اور 2000 سے زیادہ عام معصوم شہری ہلاک ہوگئے ۔  شہادت پانے والوں میں حماس کی قیادت کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔

اسرائیل اپنی فوج اور  انٹلیجنس کی ناکامی کا بدلہ وحشی بمباری سے  لیتے ہوئے 8 ہزار سے زیادہ مکانات اور اپارٹمنٹس  کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کرچکاہے ۔ فاسفورس بم استعمال کئے جارہے ہیں ۔ فاسفورس روشنی و بدبو کے ساتھ 800 ڈگری کی تپش پر جلا کر راکھ کردیتے ہیں ۔ جب کہ  پانی 100 ڈگری شلسیس پر  کھول جاتا ہے ۔ کسی بھی انسانی جسم پر لگ جائے تو پورے جسم کو سکنڈوں میں کوئلہ بنا دیتے ہیں ۔ اس آتشی  تپش  کی اتنی دیرپا صلاحیت ہوتی ہے کہ پانی ڈالنے سے بھی نہیں بجھتی ہے‘ آکسیجن  ملتے ہی شعلہ پوش  ہوتی ہے ۔

اگر ہم حماس اور عز الدین قسام بریگیڈ کے اسرائیل پر  اچانک حملے کی وجوہات  کا تجزیہ کریں تو اس کے کئے عوامل ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ایک تو سعودی عربیہ اور اسرائیل کے آپسی امن معاہدے اور سفارتی تعلقات 75 سالوں میں پہلی مرتبہ بحال کرنے کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں ۔ اسرائیل جیسے ظالم ملک کے ساتھ عرب ممالک نے احتیاط سے کام لینے کے بجائے بڑی عجلت سے کام لیا  اور  فلسطینی قیادت کو اعتماد میں لئے بغیر  ایک کے بعد ایک عرب و مسلم ملک  اسرائیل سے معاہدات کر رہے تھے ۔ جس سے صاف طور پر یہ مطلب ظاہر ہورہا تھا کہ مسئلہ فلسطین کو عربوں و مسلمانوں  کے درمیان اب کوئی خاص اہمیت حاصل نہ رہی‘ ہماری ملکی قومی مفادات کو اہمیت دیتے ہوئے فلسطینی کاز کو ہمیشہ کے لئے دفن کرنے کے لئے راضی ہوگئے ۔

دوسرا سب سے بڑا فلسطینی کاز کو اس وقت دھکہ لگا اور اس میں اسرائیل کی اصل نیت کھل کر سامنے آگئی جب اسرائیلی وزیر آعظم  نتن یاہو نے 22 ؍ ستمبر 23 کو اقوام متحدہ میں تقریر  کرتے وقت اسرائیل کا ایک نقشہ بڑی چالاکی سے دنیا کو بتلایا ۔ جس میں فلسطین ہی غائب کردیا گیا  ہے۔ عرب سے دوستی اور تعلقات  کا ذکر کرتے ہوئے بڑی آسانی  سے فلسطینی وجود کو ہی ختم کرنے کے منصوبے کو اس نے آشکار کردیا  تھا۔ تیسرا سبب ترکی  جیسا  فلسطین و بیت المقدس کی آزادی کا  کا سب سے بڑا ہمنوا اور مددگار بھی اچانک اپنی فلسطینی پالیسی بدل چکا تھا ‘ مصلحتوں کا شکار ہو کر طیب اردغان نے اسرائیل کے ساتھ  اپنے سفارتی لب و لہجہ میں کافی نرمی اختیار کرلی تھی ۔ انتخابات  سے پہلے اسرائیل کی دہشت گردی و مظالم اور غیر انسانی سلو ک پر  وہ زبردست تنقیدیں کیا کرتے تھے۔اب سب بند ہوچکے تھے ۔تمام عرب و مسلم ممالک اپنے اپنے مفادات اور امریکی و بین الاقوامی دباؤ کے تحت نارمل سفارتی تعلقات کے رجحان کو تقویت پہنچا رہے تھے ۔

جیسے ہی 7؍ اکٹوبر 23 کو حماس کا طوفان الاقصیٰ کا آپریشن ہوا پہلے24 گھنٹے  میں اسرائیل کی تائید میں بیانات  آنے لگے بعض عرب حکمرانوں  نے تائیدی بیان دے دیا تھا  لیکن جب عرب و  مسلم عوام کا شدید دباؤ بڑھنے لگا تو  تیسرے  دن سے پھر فلسطینیوں کے حق میں فضا بننے لگی ۔ یو اے ای کے  شیخ محمد زاید النیہان  نے پہلے اسرائیل کے تائید میں بیان دیا پھر بیان بدل دیا ۔سعودی  عربیہ نے بھی کھل کر فلسطینیوں کی تائید کی ‘ ایک عرصے کے بعد حرم شریف  میں فلسطینیوں کے لئے خصوصی دعائیں کی گئیں ۔دراصل عالم مسلم قیادت  سہ رخی چال چل رہی  ہے ایک جانب اسرائیل کو خوش کیا جارہا ہے  دوسری جانب مسلم عوام کے جذبات کا خیال  رکھنے  کی کوشش کی جارہی ہے ‘ تیسری جانب فلسطینیوں کو یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ہم تمہارے کاز میں شامل ہیں ۔بڑے عرب مسلم ممالک امریکہ اور اسرائیل کو ناراض نہیں کرنا چاہتے ‘ امریکہ کے وزیر خارجہ فارن سکریٹری بلنکن جو یہودی ہے عرب قائدین سے ملاقات کرنے میں  مصروف ہیں ۔

اسرائیل کی تائید کے لئے امریکہ نے اقوام متحدہ میں ووٹنگ  کی کوشش کی تو کویت نے جم کر مخالفت کی اس  کی وجہہ سے بین الاقوامی سطح پر فضا بنی  اس اعتبار سے 15 ووٹ اسرائیل کے خلاف اور صرف امریکہ کا ایک ووٹ تائید میں حاصل ہوا ۔ اسی طرح EU یورپین یونین بھی حماس اسرائیل کے معاملہ میں شدید اختلافات  کا شکار ہوگیا ۔ امریکہ کے سینٹ ممبرس کی بڑی تعداد فلسطینیوں کے حق میں ہے ۔ ایران نے بھی بہت محتاط رویہ اپنایا ہوا ہے ۔ ایران نے تائید تو کی لیکن ساتھ ہی ساتھ کسی بھی قسم سے حملوں میں مدد کرنے  کے الزام کا انکار کیا۔ پھر امریکہ اور یورپ نے بھی یہ کہا کہ حماس کے حملوں میں ایران اور حزب اللہ شامل نہیں ہے ۔ ایران کی ہمیشہ زبانی تائید حاصل رہی۔ ایران کے صدر  ابراھم رئیسی نے عرب ممالک سے اپیل کرتے ہوئے پر زور  طریقہ پر کہا کہ فلسطین کے تحفظ کے لئے تمام عرب ممالک ایک متحدہ فرنٹ تشکیل دیں ‘ یہ تجویز بر وقت پیش کی گئی ۔ یقیناً اگر ایران کی تجویز پر غور و فکر کرنے سے غفلت برتی جائے گی تو ہوسکتا ہے اسرائیل اپنے شدید وحشی ظالمانہ منصوبوں کو روبہ عمل  لائے۔ نتن یاہو اپنی حکومت کی ساکھ بچانے کے لئے  کسی بھی جانب اس تباہی و بربادی کو لے جاسکتا ہے ‘  اس کے دور میں  ہوئی ذلت اور عسکری ہائی جک کے  جھٹکے سے وہ اور فوجی قیادت ابھی سنبھلنے نہیں پائی ہے ۔آئرن ڈوم(قبۃ الحدید) کے جام کرنے کے ساتھ 4 ملٹری ٹاور کو تباہ و برباد کرتے ہوئے بڑی اہم اسرائیلی فوجی سربراہوں کا اغوا ٔ اور 15 یہودیوں کی ہلاکت کے جھٹکے ‘ رسوائی و ذلت سے  سنبھل نہیں پائیں۔

غزہ شہرخود 1967 کی جنگوں سے متاثر پناہ گزینوں کی وجہہ سے مجبوراً وجود میں آگیا تھا ۔ موجودہ غزہ کے شہری  سابقہ تین نسلوں سے اسرائیل کے ہاتھ تباہ و برباد اور ہلاک ہوتے آئے ہیں ۔ اگر اس نازک موقع پر عالم اسلام ذرا سی بھی غفلت کرے گا اور اپنے رسوخ‘  سفارتی تعلقات و سیاسی دباؤ کو استعمال نہیں کرے گا تو یقیناً فلسطینیوں کے لئے یہ وقت  تباہی و ہمیشہ کے لئے بربادی کا ہوگا ۔

مسئلہ الاقصیٰ  اور ارض فلسطین کا مسئلہ 56 مسلم ممالک مل کر 75 سالوں میں حل نہیں کرواسکے بلکہ ہمیشہ فلسطینیوں کو سوائے ایمرجنسی امداد کے ایسے ہی تباہ ہونے کے لئے چھوڑ دیا کرتے ہیں اگر 56 ممالک UNO میں متحدہ موقف اختیا رکرتے ہوتے تو ارض فلسطین اور الاقصیٰ  ابھی تک آزاد ہوجاتا ۔ سیاسی و سفارتی سطح پر مضبوطی سے اس عالم اسلام کے مسئلہ کو پُر امن طریقے سے حل کرنے کی نہ کسی مسلم ملک میں ہمت و جرات پائی جاتی ہے اور نہ نیت صحیح ہے آپسی اختلافات ‘ تضادات  اور لڑائیاں ‘ خانہ جنگی عالمی طاقتوں نے مسلسل حملے اور تسلط نے پڑوسی ممالک کو ہمیشہ کے لئے کمزور کردیا ۔

تمام عرب و مسلم حکومتوں کا یہی حال ہے ۔ اسرائیل کی کوششوں کو اس وقت کامیابی حاصل ہوئی جب بڑے مسلم حکومتوں  کا یہ ذہن تیار  کردیا گیا کہ یہ مسئلہ تو فلسطینوں کا اپنا داخلی مسئلہ ہے کیوں اپنے آپ کو اس میں جھونک کر بے وقوف  بنیں اور اپنی ترقی کو داؤ پر لگائیں ۔ہر ملک پھر اپنی فوج کی کمزور صورت حال سے واقف ہیں ۔ 

Total No of Words: 1,985

  Release on : 15-10-2023

Continue Reading

Politics

سیاسی کریک ڈاؤن اور میڈیا کو دبانا: بھارت کے 2024 کے عام انتخابات سے پہلے بی جے پی کی حکمت عملی

Published

on

بسمہ تعالیٰ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

         از:  ناظم الدین فاروقی

NPA  DOC No : 0166

Dated: 08-10-2023

ہندوستانی پارلیمنٹ کے عام انتخابات  24 کی تیاریوں کا آغاز ہوچکا ہے ۔ سیاسی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں ۔ 18 ویں لوک سبھا  الیکشن میں بی جے پی تیسری مرتبہ ایک طاقتور اکثریتی سیاسی پارٹی کی حیثیت  سے اُبھرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ اپنی برتری اور بقأ کے لئے ہر سیاسی پارٹی کو پُر امن جدوجہد کا پورا حق ہے ۔ لیکن حکومت کی طاقت کو اپوزیشن اور پچھڑے  ہوئے طبقات  و اقلیتوں کے خلاف استعمال کرنا سیاہ جابرانہ سیاست کا ایک قبحہ پہلو ہے ۔ جیسے جیسےالیکشن قریب آرہا ہے ۔ED  اور NIA  کی حزب مخالف  سیکولر میڈیا ‘ سیاسی قانونی دانشوروں و جہد کاروں کے خلاف کاروائیاں تیز تر کردی ہیں ۔ گزشتہ بھی ایسا ہی ہوتا رہا مدھیہ پردیش ‘ کرناٹک ‘ راجستھان ‘ ہماچل پردیش ‘ چھتیس گڑھ ‘ مہاراشٹرا میں اپوزیشن  کے ارکان اسمبلی کی بڑی تعداد  ED کے خوف سے پریشان ہو کر پیسہ کی لالچ میں NDA یا بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی ۔ جن میں سیاسی قد آور شخصیتوں پر ED کے مقدمات  کی تلوار لٹک رہی تھی یا پھر  اپنی مضبوط سیاسی قیادت کو داؤ پر لگا کر بی جے پی کی سرکردہ سرکاریں شمولیت  کو غنیمت سمجھا۔ یہ ہی حال میڈیا کا کر رکھا ہے ۔ جو صحافی اور میڈیا چیانل دائیں بازو کی پالیسیوں سے عدم اتفاق کرتے ہیں یا گودی میڈیا کی بیانڈ باجہ پارٹی میں شامل ہونے سے گریز کر رہے ہیں ان کی بدترین درگت بنائی جارہی ہے ۔ 

3 اور 4؍ اکٹوبر کو سیکولر میڈیا ‘ کمپنیوں و صحافیوں کے کم از کم 100 مقامات پر چھاپے مارے گئے آزاد ‘ سچ گو صحافیوں کو نشانہ بنا کر انھیں کمزور کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔

عام آدمی پارٹی نے دہلی انتخابات 20 کے موقع پر بی جے پی سے مفاہمت کرکے کامیابی حاصل کی تھی ۔ اس وقت مشرقی دہلی کے مسلم مخالف فسادات میں سخت دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 54 سے زیادہ لوگ ہلاک اور 12 سو دوکانات و مکانات جلا کر خاکستر کردیئے گئے تھے ۔ پھر بھی مسلمانوں کی کسی بھی قسم کی ہمدردی سے محض اس لئے احتراز  کیا تھا کہ بڑے صاحب اور وزیر داخلہ ناراص نہ ہوجائیں ۔پولیس کا معاملہ حکومت  دہلی کے تحت نہیں ہے لہٰذا  مجھے ان فسادات اور ہلاکتوں سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے ۔ اس میں عام آدمی پارٹی  کے مسلم ایم ایل ایز اور کاؤنسلرس  بھی گرفتار کرلے گئے تھے ۔وقت گزر گیا۔اس سال کے ابتدا میں 153 اوقافی جائیدادوں کو حکومت نے واپس حاصل کرلیا یہ سب کس کے کہنے پر ہوتا رہا ہے ۔

اب جب کہ عام آدمی کے وزیر  منیش سسوڈیا Manish Sisodia  اور سنجے سنگھ Sanjay Singh  یم پی کو ED نے گرفتار کرلیا ہے تو اروند کجریوال  کو نریندر مودی اور بی جے پی کا کرپشن و بد عنوانیاں نظر آرہی ہیں۔

ملک کے سیاسی حالات تیزی سے کروٹ لے رہے ہیں ۔ کسی بھی وقت بی جے پی کا خاموش ساتھ دینے والی بعض جماعتوں پر کراک ڈاؤن ہورہا ہے ۔ عام آدمی پارٹی کی ناراضگی وقتی ہے یا پھر بغیر کسی سیاسی مفاہمت کے ڈٹ کر بی جے پی کے زیادتیوں کا مقابلہ کریں گے ۔ سپریم کورٹ نے سنجے سنگھ کی گرفتاری پر پھٹکار لگائی ہے ۔ کجریوال  کی INDIA سے وفاداری دیر پا ہوگی کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔

ابھی سنجے سنگھ کا قصہ ختم نہیں ہوا تھا 12 سے زیادہ یوٹیوب چیانلس کے دفاتر و مالکین پر مختلف سنگین الزامات کے تحت دھاوے کئے گئے ۔نیوز کلک کے بعض ڈائرکٹرس اور نیوز کاسٹر  ابھی شار شرما کو بھی زیر حراست لیا گیا تھا ‘ پوچھ تاچھ کے بعد انھیں رات دیر گئے چھوڑ دیا گیا ۔ نیوز کلک پر الزام ہے کہ وہ امریکہ میں موجود چینی نواز انڈین بزنس من سے 56 کروڑ روپیہ وصول ہوا تھا۔

پریس کلب اور پریس گلڈ اور دوسرے صحافیوں کے تنظیموں  نے ED و پولیس کی گرفتاریوں کے خلاف جم کر احتجاج کیا اور 12 مشہور جرنلسٹوں نے چیف جسٹس  آف انڈیا مسٹر چندجوڑ کو خط لکھ کر اپیل کی کہ قبل اس کے دیر ہوجائے فوری پریس کی آزادی کے تحفظ کے لئے  اقدامات کریں ۔ورنہ ملک Dictatorial Democracy  میں تبدیل ہوجائے گا اور جمہوریت کا ایک اہم ستون پریس کی آزادی  کا گلا گھونٹ کر اسے ختمم کردیا جائے گا ۔ اس تکلیف کا احساس امریکی صدر جوبائیڈن نے G20 ستمبر کی میٹنگ میں شرکت کے بعد ۔۔۔گئے تو ان سے رہا نہیں گیا بلکہ اشارۃ ً کہا دیا کہ وہاس پریس کو آزادی حاصل نہیں ۔

180 ممالک کے عالمی پریس فرینڈم کے انڈیکس  میں ہندوستان کا رینک گزشتہ سال  150 تھا اس سال 23 میں 11 گریڈ گرکر 161 تک پہنچ گیا ۔ نہ صرف یہ بلکہ سیاسی Indicator  24 گریڈ ‘ معاشیات میں 6 گریڈ ‘ قانون سازی باڈیوں میں 14 گریڈ ‘ سوشل Indication   16 گریڈ اور صیانتی 9 گریڈ گرچکے ہیں ۔ افغانستان ‘ پاکستان ‘ بھوٹان ‘ سری لنکا  میں پریس کی آزادی ہندوستان سے بہتر ہے ۔ 

16؍ اکٹوبر کو کشمیر کی ایک پریس فوٹو گرافر سنا ارشاد میٹو ایر پورٹ پر امریکہ جانے سے روک دیا گیا ۔ ثنا کو امریکہ میں جرنلٹس  شعبہ میں دیئے جانے والے اعلیٰ ترین انعام حاصل کرنے جارہی تھی ۔ امریکہ نے تشویش کا  اظہار  کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی پریس کو آزادی ملنی چاہیئے ۔ اس طرح جرنلسٹوں  پر سفر کی پابندی پریس کی آزادی کو ختم کردے گی ۔

سیول سوسائٹی  اقلیتوں اور دلتوں کے جتنے دانشورو جہد کار ہیں یا پھر انھیں تعاون دینے والے ادارے ہوں حکومت ایک ایک کرکے ہر ہفتے ملک کے مخصوص شہروں اور علاقوں میں مسلسل کراک ڈاؤن کر رہی ہے ۔ حراست میں لے گئے افراد اور رپورٹرس ‘ نیوز کاسٹر سے عجیب و غریب ناقابل فہم سوالات کئے جارہے ہیں ۔ ابھشار شرما سے یہ تک پوچھ ڈالا کہ 3 سال قبل کیا شاہین باغ گئے تھے یا جعفر آباد دہلی 20 کے فسادات کے موقع پر وہ علاقے کا دورہ کیا تھا ۔

پریس ‘ میڈیا ‘ وکلا ٔ براداری اور آزاد خیال مخالف ہندوتوا فکر کے تمام دانشوروں کو بی جے پی حکومت اپنا دشمن تصور کرتی ہے۔ اقلیتوں کے کسی بھی احتجاجی پروگرام ‘ دھرنے اور جلوسوں کو خوف کے مارے اپنے لئے نیوکلئیر بم اور                                 Mass Heads of Mass Distruction تصور کرنے لگی ہے ۔ اطلاعات کے مطابق NRC, CAA  کے خلاف ملک کے دوسرے مقامات پر جو جو افراد شریک تھے ان پر بھی کراک ڈاؤن  کی تیاری ہورہی ہیں ۔ ٹوئٹر  ‘ فیس بک ‘ یو ٹیوب  کو دن بھر نوٹس  وصول ہوتے رہتے ہیں ۔ اور جہاں محسوس کرلیا گیا کہ خیرہ تبصرہ اور تجزیہ میں مودی ‘ بی جے پی کے خلفا کسی بھی قسم کا مواد ہے اس کا بند ہونا یا مقدمے کا دائر ہونا ضروری ہے ۔

منی پور کے فسادات سے ملک کا مستقبل  کی اجڑنے والی تصویر کا بہتر اندازہ لگایا جاسکتاہے ۔لوٹ کھسوٹ  ‘ لوٹ مار ‘ قتل و غارت گیری  کا ایک مخصوص اپنا انتہا دہشت گرد ہندوتوا حزب و گروپوں  کو حاصل ہے ۔ سوسائٹی کے تمام آزاد طبقات  حصوں اور زندگی کے مختلف میدان میں خدمات انجام دینے والوں سے بی جے پی بہت خوف کھاتی ہے ۔ آر ایس ایس کے ایک دانشور روی اروراRavi Arrora  نے ویدا اور جدید چیالنجس  کو ملحوظ رکھتے ہوئے عصر حاضر میں ہندو سوسائٹی کو درپیش 5 بڑی جنگوں کا اپنی ضخیم کتاب میں تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔ وہ مسلمانوں ‘ کمینسٹوں ونکسلس  کو Dividing Forces  قرار دیتا ہے ۔ کتاب پڑھنے والا ہر غیر مسلم ہندوستانی یہ خیالات میں چلا جاتا ہے کہ وہ حالت جنگ میں ہے اور ہر سمت دشمنوں سے گھیرے ہوئے ہیں اور ان پر جو جنگ مسلط کی گئی ہے اس میں لڑ کر دشمن کو کچل کر فنا کردینا ہے ۔ اس نئی مہا بھارت کی جنگ میں لیل  والنہار ہمیں ہمارے دشمنوں سے جنگ کرنا ہے وغیرہ ۔

تقاریر ‘ گودی میڈیا اور نام نہاد ہندوتوا کے دانشوروں کی تحریری اور کتابیں نفرت اور زہر سے بھری پڑی ہیں ۔ یہ وجہ ہے کہ ایک ہندوتوا کا ملک گیر سطح پر ایسا سیاسی ماحول بنادیا گیا ہے کہ اس میں اعلیٰ ذات ہندوؤں کے ہاتھوں دلت اور پچھڑے ہوئے طبقات  کا بھر پور استحصال ہو ۔

بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار Nitish Kumar  نے طبقات اور مختلف ذاتوں کا سروے جاری کردیا جس کی توقع بی جے پی کو ہرگز نہیں تھی ۔ اس سروے سے اندازہ ہوتا ہے کہ 2% اعلیٰ ذات برہمنوں کو 17% ریژرویشن  حاصل ہے ۔ جب کہ دوسری ذاتیں  اور مسلمان 12 تا 20% پر بھی انہیں کوئی تحفظات حاصل نہیں ہے ۔

اڑیسہ کے چیف منسٹر  نوئین پٹنائک Naveen Patnaik  اور کرناٹک چیف منسٹر سدارامیا  Siddaramaiah  نے بھی طبقاتی سروے کا اعلان کیا ہے ۔ جس سے ووٹروں میں ایک عام سیاسی بیداری پیدا ہوگی اور ہر طبقہ اپنے حقوق اور سیاست و ملازمتوں و حکومتی مراعات  میں تحفظات پر دباؤ ڈالے گا ۔ اس کا اثر لازمی طور پر 18 ویں لوک سبھا الیکشن پر پڑ سکتا ہے اور ممکن ہے کہ بی جے پی  گزشتہ انتخابات کی طرح بہتر نتائج حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہوجائے ۔

زور زبردستی ‘ ظلم و تشدد کے ذریعے شہریوں کو اپنی سیاسی وفاداریوں میں طویل عرصے تک محصور رکھنا اس میڈیاو ڈیجیٹل کی دنیا میں مشکل ہے ۔ بد عنوانیوں ‘ بوتھ منیجمنٹ ‘ کرپشن ‘ توڑ جوڑ ‘ خرید و فروخت ‘ ڈرا دھمکا کرMLA اور MP’s  کو تائید میں لے کر حکومتیں تشکیل دینا تو آسان ہوسکتا ہے لیکن اس کی برقراری اور سیاسی استحکام نا ممکن ہوجاتا ہے ۔

آئندہ چند ماہ میں ہونے والے 5 ریاستوں کے ریاستی انتخابات بڑی اہمیت رکھتے ہیں ان ریاستوں راجستھان ‘ مدھیہ پردیش ‘ چھتیس گڑھ ‘ تلنگانہ میں بی جے پی کی سیاسی صورت حال بہت کمزور نظر آرہی ہے ۔

دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی قیادت  ریاستوں میں انتخابی کامیابی کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے  یا پھر ہمیشہ کی طرح ووٹ کا پیاٹرن تبدیل کرنے کے لئے کوئی چونکہ دینے والا حیرت انگیز حادثہ اور دھماکہ خیز صورت حال پیدا کردی جائے ۔ ستیہ پال ملک سابق گورنر جموں و کشمیر کے مطابق پلوامہ میں معصوم درجنوں فوجیوں کی ہلاکت عین انتخابات  سے قبل مشکوک ہے ۔

INDIA جب تک مضبوط میدان میں اپنی سیاسی سرگرمیوں کو ووٹروں سے نہیں جوڑتی ‘ اس وقت تک INDIA کا بی جے پی کو شکست دینا بہت مشکل اور نا ممکن قرار پاتا ہے ۔

Total No of Words: 1,766

  Release on : 08-10-2023

Continue Reading

Trending