Social Issues

مسئلہ نکاح مسیار

Published

on

سعودیہ معاشرہ میں مروجہ مسیار نکاح کو لے کر انگریزی میڈیا میں مباحث جاری ہیں  ۔ مغربی دانشواران اور سینئر صحافی شدید تنقید کرتے ہوئے ماڈرن معاشرہ کے علمبردار شہزادہ محمد بن سلمان سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ سعودی عربیہ معاشرہ میں جاری علما و فقہا کی جانب سے دی جانے والی گنجائش اور حلت نکاح کو ختم کیا جائے ۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اعدا اسلام بغیر کسی بنیادی اسلامی تعلیمات اور باریک فقہی علوم کے واقفیت کے چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر اس کا بتنگڑ بنانا اور اسلامی اسکالر ‘ مفکرین  قابل قدر علما و فقہا اور مسلم سماج پر لعن طعن کرنا اور برا بھلا کہنا ۔ عربی مسلم سماج سے کما حقہ نا واقفیت کے باوجود مسلمانوں کے مصلح بن کر مسلط ہونا چاہتے ہیں ۔ امریکی ویورپی عیسائی سماج میں جو اس وقت بدترین اخلاقی و سماجی برائیاں عروج پر ہے اس پر تنقید اور تبصرہ کی تو کوئی اجازت نہیں دی جاتی اور گنجائش فراہم نہیں کی جاتی  جس طرح دنیا کے تمام اقوام کے معاشرہ میں افراط و تفریظ اور تمام انسانی بنیادی اخلاقی قدروں کو پامال کرتے ہوئے بدترین عریانیت و فحاشی میں ڈوب چکا ہے ( اس پر راقم نے اپنے مضمون ’’ترقی یافتہ اقوام ‘ فحاشی کے عباب میں غرق ‘‘ جاری کردہ سوشل میڈیا آرٹیکل بتاریخ ‘ 3؍ اگسٹ 21  تحریر  کیا ہے۔ اس تناظر میں اگر عرب و مسلم سماج پر کوئی انگشت نمائی کرتا ہے تو پہلے آئنہ یا بائے روم ‘ کلیساؤں کے کارڈٹیلس اور بتوں کے اچاریہ اور آشرموں کے مہارشیوں کو دیکھانا چاہیئے ۔

عرب دنیا عالم اسلام کا ایک اہم حصہ ہے ۔ عربوں کی 35 کرور آبادی 22ممالک میں منقسم ہے۔ چند کروڑ عرب غیر مسلم اور ملحد بھی اس میں شامل ہیں ۔عربستان کے کئی قطعے ہیں ۔ ہر علاقے ‘ قطعے اور ملک اور تاریخی پس منظر کے ساتھ ایک دوسرے بہت سے باتیں یکساں ہیں لیکن ان کے آپس میں تہذیب ‘ تمدن قدرے مختلف ہے ۔یہ بات مشہور ہے کہ ہر 100 سال میں زبان ‘ لہجہ اور تہذیبیں بدلتی رہتی ہیں ۔ یہ ہی بات عربوں پر صادق آتی ہے ۔

مشرق وسطیٰ کا ایک قطعہ وہ ہے جو تیل کی دولت سے مالا مال ہے ۔ دوسرے زمرے میں اردن ‘ مراقش ‘ یمن اور مصر ‘ تیسرے ملک شام کا علاقہ ہے جس میں شام ‘ عراق ‘ لبنان ‘ فلسطین شامل ہے ۔ چوتھا حصہ مغرب کا ہے ۔ مغرب میں 6ممالک شامل ہیں ۔ لیبیا‘ الجیریا ‘ تونس ‘ ماریطانیہ ‘ سحرا ‘ عرب ریپبلک ‘ پانچواں حصہ افریقی عرب ممالک کا ہے جس میں سوڈان‘ نائجیریا‘ صومالیہ جیسے کئی ممالک شامل ہیں ۔

خلافت عثمانیہ کے خاتمہ سے پہلے ہی جو ممالک مغربی استعمار کا نوخیز آبادیات تھے وہاں کی تہذیبیں مغربی عادت و اطوار اور تہذیب سے بہت زیادہ متاثر نظر آئیں گی۔ جیسا کہ مغرب میں ہم دیکھتے ہیں کہ فرانسیسی اثرات گہرے پائےجاتے ہیں ۔ لیبیا اور دوسرے ممالک جہاں فرانس اعلیٰ اور کبس‘ اٹلی ‘ برطانیہ وغیرہ ممالک کو آپس میں تقسیم کرکے اپنی ظالمانہ ‘ استبدادی ‘ مخالفین حکومت کئی دہوں اور صدیوں تک چلاتے رہے ۔

پھر ان تمام زمرے کے علاوہ اعلیٰ تعلیمی یافتہ جو عرب ممالک ہیں جیسے شام ‘ لبنان ‘ فلسطین ‘ عراق ‘ تونس ‘ مراقش‘ الجیریاوغیرہ وہاں کی آبادیاں 60 تا 80 فیصد تعلیمی یافتہ ‘ باشعور اور دنیا کی ترقی کی رفتار سے بخوبی واقف ہیں ۔ ان عرب ممالک میں تعداد ازدواج مروج نہیں ہے ۔ یک دو جگہہ جیسے ہندوستان ‘ پاکستان اور بنگلہ دیش ‘ افغانستان میں ترجیح دی جاتی ہے ۔ اگر ایک سے زیادہ زواج کا 3% تا 5% خاندانوں میں رواج پایا جاتا ہے ۔ ان عرب ممالک میں ایک سے زیادہ بیویاں کرنا سماج میں کوئی مستحسن عمل قرار نہیں دیا جاتا اس ضمن میں قدیم قبائلی نظام آج بھی قائم ہے ۔ خلیجی قبائل میں ایک سے زیادہ بیویاں عام ہیں اکثر رشتے قبلہ کے سردار کے رائے و اتفاق سے طئے پاتے ہیں ۔

مصر میں 20% عوام میں بڑی بے راہ روئی پائی جاتی ہے ۔ مغربی اقوام خاص کر فرانسیسی ‘ برطانوی سامراج کی وجہہ سے اعلیٰ سوسائٹی میں بڑی جنسی بے راہ روئی پائی جاتی ہے ۔ مشرق وسطیو کے مصر میں سری نکاح کو عرفی نکاح ‘ نکاح بدون ولی کا رواج نوجوان نسل میں بڑھ رہا ہے ۔ مصر کی اکثریت جنبلی و مالکی مسلک پر پابند شریعت ہے ۔ علما و فقہا مصر نے سری نکاح اور نکاح بدون ولی کو ناجائز حرام قرار دے دیا ہے ۔ اس طرح کے کسی بھی نکاح پڑھانے پر قاری نکاح پر پابندی ہے ۔ جبکہ احناف کے پاس نکاح بدون ولی جائز اور 100% فیصد حلال ہے ۔ حنابلی فقہا نے اس مسئلہ میں بڑی شدت اختیار کرتے ہوئے یہ فیصلے متفقہ علیہ صادر کردیتے ہیںکہ ’’ نکاح بدون ولی ‘‘ سے پیدا ہونے والی اولاد ولد حرام میں شامل ہوگی اور اس طرح کی عورتوں کو ازدواج فقہہ حنبلی  کوئی حق زوجیت نہیں مل سکتی ۔

 

نکاح مسیار کیا ہے ؟

خلیجی ممالک GCC تیل سے مالا مال ممالک کا عربی سماج دو راہ پر کھڑا ہے ایک طبقہ اسلامی عقیدہ ‘ عرب تقالید ‘ رسم ورواج و تہذیب سے مکمل بغاوت کے لئے کوشاں ہیں دوسرا طبقہ مغلوبہ و مطلوبہ تہذیب کو اولین فوقیت دے رہے ہیں ۔ تیسرا طبقہ اپنے زوجہ اسلامی تہذیب و تمدن ‘ اخلاق و کردار صالح کو انفرادی و اجتماعی زندگی کے لئے لازم و ملزوم سمجھتا ہے ۔ مگر اس طبقے کی اپنے ملک کے نوجوان نسل پر سے گرفت ختم ہورہی ہے ۔حکمران خاندانوں ‘ ملک کے بادشاہوں ‘ شیوخ و امرا نے قصداً منصوبہ بند پیمانے پر اپنے اپنے ریاستوں و ممالک میں کسی بھی قسم کی ٹھوس اسلامی فکر کے خاتمے کے لئے کامیاب کوششیں کی جب کسی قوم میں صالح مرکز میں کوئی آفاقی روح اور اسلامی فکر پروان چڑھانے کے لئے اجتماعی جدوجہد نہیں کی جاتی وہ مسلم سماج صرف مسلم پرسنل لا یا نجی عائلی قوانین لے کر زیادہ دن مضبوط اور اعدااسلام کے معاندانہ افکار اور ابلیسی تہذیب کی یلغار کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔

امارات و بحرین وغیرہ میں عورتوں کے نامحرم کے ساتھ رہنے اور سفر کرنے کی پابندیوں کو ختم کردیا بلکہ کسی ہوٹل میں اگر کوئی غیر شادی شدہ جوڑا پائے جائیں تو اس پر بھی حکومت کوئی کاروائی نہیں کرے گی۔اور حکومتی اداروں و سوشل آرگنائزیشن کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا وغیرہ ۔ اس کے علاوہ لڑکیوں اور عورتوں کو سیاحت و تعلیم کے لئے اکیلے سفر کرنے کی مکمل آزادی دے دی گئی بلکہ اگر لڑکیاں کسی دنیا کے کسی بھی ملک میں ایک ماہ سے زیادہ قیام کرنا چاہتی ہیں تو ان کے خرچ کے لئے وہاں موجود اماراتی سفارت خانہ فی لڑکی ؍ عورت کو 50ہزار درہم جاری کرنے کی پابند ہے ۔ اب لڑکیاں یورپ ‘ امریکہ کے علاوہ اسرائیل کا رُخ کر رہی ہیں ۔ جہاں رقص و سرور ‘ نشہ ‘ منشیات ‘ جنسی آوارگی کا بازار گرم ہے ۔

خلیجی عرب سماج میں ایک اور معیوب برائی پروان چڑھ ہیں ۔ جن کی تعلیم یافتہ بیویاں ماہانہ تنخواہ گھر لاتی ہیں تو شوہر گھر کے خرچ اور نان و نفقہ کا خرچ دینے سے دست بردار ہورہا ہے ۔اور یہ کہہ دیتا ہے کہ میں گھر کا خرچ نہیں اٹھاؤں گا۔ اپنی آمدنی و تنخواہ ‘ عیش و عشرت اور دوسرے غیر غلط باتوں میں خرچ کر رہا ہے ۔ جو خواتین پابند شریعت ہیں ان کے لئے تو یہ بہت بڑی آفت ہے ۔ بعض خواتین تو اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا اظہار بھی نہیں کرتیں ۔ لیکن غیر ضروری کے مرد کے چار چار ‘ آٹھ اٹھ بچوں کے لئے مری جارہی ہیں ۔ کثیر الاعیال ہوکرچھوڑ کر کیسے فیصلہ لیں گی ۔ اخلاقی ذمہ داریوں کے بوجھ سے نڈھال ہے ۔

ہم نے عربی عورتوں میں یہ خاص عنصر دیکھا کہ وہ بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال میں کبھی غفلت نہیں برتتی۔ شام اور عراق و فلسطین جیسے جنگ سے تباہ ممالک میں بھی جہاں کئی لوگ ظالم افواج کے حملوں میں ہلاک ہوجاتے ہیں ان کے شیر خوار معصوم بچوں کو ماں چھوڑ کر راہ فرار اختیار نہیں کرتیں بلکہ فلاحی امدادی تنظیموں کے تعاون سے بچوں کی پرورش رنگاہ داش کے لئے اپنی تمام توانائیاں جھونک دیتی ہیں ۔

(سینئر صحافی اسد مرزا کا ایک انگریزی مضمون مسیار جو 10؍ اگسٹ 21‘ سیاست ڈاٹ کام پر پڑھنے کو ملا اس کے جواب میں عرب سوسائٹی ‘ مختلف صفوں کا مدلل جائزہ لیتے ہوئے یہ مضمون قارئین کے لئے تیار کیا گیا ہے )۔

ناقدین یہ تنقید کر رہے ہیں کہ مسیار کا نہ قرآن میں اور نہ حدیث میں ذکر ہے ۔ پھر یہ سعودیہ سماج میں کس طرح سے جائز قرار دیا جارہا ہے ۔ ائمہ اکرام اسلامی اسکالر اور فقہا کسی بھی عہد اور دور میں سماج کو جو اندرون شدید مسائل درپیش رہتے ہیں اس پر اصلین کی روشنی میں سدباب امر فتح الباب کا مطالعہ کرکے اسلامی تعلیمات کی وسعتوں اور فقہہ کی گنجائشوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کی سہولت کے لئے مسلم سماج کے لئے اپنے فیصلے اور فتویٰ جاری کرتے ہیں ۔

جن لوگوں نے زندگی چند ماہ بھی دینا و فقہی علوم کے باضابطہ چند ماہ بھی تعلیم حاصل نہیں کی ہے وہ فقہااور ائمہ پر تنقید و تبصرہ کرتے لکھتے ہیں ۔ مسیار کے مسئلہ میں بھی یہ ہی ہوا ۔

یقیناً سعودی سماج افراط و تفریظ کا شکار ہے ۔ کہیں قبائلی نظام ‘ کہیں ناخواندگی اور نیم تعلیم یافتہ اور کہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل ہے ۔لڑکیاں اور خواتین اعلیٰ تعلیم میں مردوں سے بہت آگے بڑھ چکی ہے ۔

سعودی سماج یا خلیجی سماج میں ایک سماجی برائی جو پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ لڑکیاں ایسے لڑکوں اور مردوں کو پسند کرتی ہےں جو بڑے کشادہ ‘ عالیشان مکان ‘ کئی لاکھ ریال کے زیوار ت اور نکاح کے موقع پر بڑےتحفے دلہن کو دینے کے لئے تیار ہے ۔ جس طرح ہمارے میں غریب لڑکیوں کی شادیاں ایک مسئلہ بنی ہوئی ہیں ٹھیک اسی طرح غریب یا متوسط آمدنی والے نوجوانوں کے لئے شادی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ صرف پہلی شادی کے موقع پر ہے بعد میں حسب استطاعت اپنی بیویوں کی تعدا د میں بآسانی اضافہ کرلیتے ہیں ۔ ایک تا چار بیویاں خلیجی عرب سماج میں ہر گز معیوب نہیں ہے ۔لیکن فلموں کی بہتات ‘ بے حیا ‘ ٹی وی سیریلس ‘ نٹ فلیکس پر عریاں بلو فلموں کی وجہہ سے طلاق کی شرح میں بے حد اضافہ ہوا ہے ۔ 2008 میں ایک سروے کے مطابق ٹی وی سیریلس کی وجہہ سے 2.5% شرح طلاق بڑھ کر 5%فیصد تک پہنچ چکی تھی ۔ اسلام ہر دو کو علیحدہ ہونے کی اجازت دیتاہے ۔ طلاق اور قلع دونوں کی تعداد میں کئی فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔

اسلامی فقہہ میں سب سے اہم خوبی ہے کہ ہر ذی نفس کے Personal Rights & Human Rights  ‘ نجی حقوق کے تحفظ کو اولین ترجیح دیتی ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ مسیار کے معاملے فقہہ سعودی عربیہ کو آخر اجازت دینے اور حلال کرنے کی کیوں ضرورت پیش آئی ؟

سعودی معاشرہ اسلامی عائلی قوانین کی برکتوں کی وجہہ سے بیوی ‘ مطلقہ ‘ متروکہ ‘ تریکہ ( جو عورت اور لڑکی غیر شادی شدہ باپ کے گھر رہ جائے)‘  کے نکاح کا کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ اس کے باوجود بعض ایسی خواتین جو مال دولت کے اعتبار سے دوسرے خواتین کے مقابلے میں مستحکم اور دولت مند ہیں ۔ جن کو اپنے والدین سے ترکے میں بہت کچھ مال واسباب ملے ہیں ۔لیکن کسی وجہہ نکاح نہ ہوا ہو‘ یا قلع  اور طلاق ہوچکی ہو۔

وہ خواتین دولت لے کر مجرد زندگی گزارتے ہوئے کیا کریں ۔ بحیثیت مومنہ کے وہ کوئی ناجائز ‘ حرام نہ محرموں کے ساتھ تعلقات بھی نہیں رکھ سکتی ‘ رشتوں کی تاخیر یا مناسب کنوارے رشتے نہ ہونے کی وجہہ سے تنہائی میں زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ ان کے اپنے نفس اور جنس کے بھی شرعی حقوق ہیں ۔

1985 میں جب یہ مسئلہ سعودیہ کے فقہہ اعظم عبداللہ بن باز کے پاس رجوع ہوا اور اس طرح کی عورتوں نے باضابطہ سوال کیا کہ ہم مالی اعتبار سے دولت مند ہیں جسم اپنے حق زوجیت کسی مرد سے نکاح کے لئے چھوڑ دیتے ہیں ۔ اور نان و نفقہ کی ذمہ داری سے مرد مستثنیٰ کردیتے ہیں تو اس طرح کا نکاح یا ہمارے جائز نہیں ہوسکتا ہے ۔ شیخ عبداللہ بن باز نے سینئر علما کونسل اور فقہا کی مجلس میں کئی زاویوں سے غور کرکے اس معاملہ کو فتح الباب کےمطابق مسیار  نکاح  کو جائز اور حلال قرار دیا۔مرد کی اور بیوی ہوسکتی ہیں وہ ان کے حقوق ادا کرتے ہوئے نکاح مسیار کے تحت سوائے نان و نفقہ کے تمام شوہر کی ذمہ داریاں ادا کر رہا ہو تو یہ نکاح خالصۃ اسلامی جائز ہے ان سے ہونے والی اولاد جائز اور شوہر کے ترکے وراثت میں حق دار ہوں گی۔

مغرب زدہ دانشواران ایک جانب Gay Marriages  اور Lisbian  استنہا و مماثل کو جائز اور دونوں کی اپنی آزادی مرضی کے مطابق کئے فیصلے کو سرہاتے ہیں۔ دوسری جانب مسیار ان کے نزدیک ایسا غیر مہذیب اور حقوق نسوان کے خلاف ہے وغیرہ کے شدید اعتراضات کرتے ہیں ۔

فرانس کے معاشرہ کا کیا حشر ہوا ۔ آزادی نسواں’’ میرا جسم میری مرضی ‘‘ کا قدرت نے بہتر جواب دیا ۔60% فرانس کی آبادی حرام زادوں پر مشتمل ہے ۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو ہر طرح سے جنسی بے راہ روئی پر روک لگاتے ہوئے نکاح کے ایک با برکت رشتہ ازدواج کے نظم و ضبط اور فیملی Family Institution  کے تحت جوڑجاتے ہیں ۔

آزادی نسوان کا نعرہ دینے والوں کو یہ ایشو بھی سمجھنا چاہیئے کہ ایسی خواتین جس کا کعو اور جوڑ سماج میں مشکل ہوچکا ہو تو وہ اپنے جائز جنسی خواہشات اور ضرورتوں کے لئے کہاں جائے ؟۔ بجائے چار چار مردوں کی دوستی و Live in Relation, Unmarried Partnership سے ہزار گناہ بہتر ہے کہ فقہی گنجائشوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نکاح مسیار کرے۔ عریاں ‘ بے لگام‘ فحش ترقی یافتہ معاشرہ کے پاس اس کے علاوہ کوئی جائز معروف و مقبول شادی کی صورت ہوسکتی ہو تو مباحلہ نہیں۔

نکاح متعہ :  اہل تشیع حضرات کے پاس متعہ  مدت کے لئے کنٹراکٹ Contract Marriage  جسے ایران میں White Marriage بھی کہتے ہیں جائز ہے ۔ اہل سنت کے پاس نکاح متعہ سراسر حرام ہے ۔ اس نکاح کے ذریعے ہونے والی اولاد ولد حرام کہلائے گی ۔ سماج میں بیوی اور بچوں کو کوئی حصہ نہیں ملے گا ۔ نکاح متعہ کی حرمت پر کئی مدلل کتابیں مفکرین ‘علما ‘ ائمہ و فقہا کی موجود ہیں اس پر اظہار خیال کا یہاں موقع نہیں یہ ہمارے مضمون کے  بحث کا حصہ نہیں ہے !

غریب عرب ممالک خاص کر مصر ‘ سوڈان وغیرہ میں بھی نکاح کے موقع پر لڑکیوں اور عورتوں کو وہی مسائل کا سامنا ہے جو ہندوستان اور پاکستان میں ہے ۔ طلب نقود اور جہیز کا لڑکیوں کے والدین سے مطالبہ جو کی وجہہ سے کئی غریب لڑکیاں انتظار میں عمر رسیدہ ہورہی ہیں اور کئی گمبھیر و پیچیدہ مسائل کا سامنا مسلم سوسائٹیز کو کرنا پڑ رہا ہے ۔ اس طرح کے لڑکیوں سے مطالبات کو ناجائز حرام قرار دیا جاچکا ہے ۔ سماجی جہد کار اور مصلحین سماج سدھار اور اصلاح میں لگے ہوئے ہیں ۔

تمام عرب علما ‘ حنفی ‘ مالکی ‘ شافعی کا متعہ پر فیصلہ ہے کہ نکاح سے قبل مرد کو گھر کا انتظام کرنا لازمی ہے ۔ اس کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں ۔ کم از کم ایک کمرہ ‘ ایک مطبغ ‘ ایک باتھ روم لازمی طور پر ساز و سامان کے ساتھ نکاح سے قبل تیار رہنا چاہیئے۔ لڑکی اور اس کے والدین کو حق ہے کہ وہ نکاح سے پہلے حسب استطاعت نئے نویلے جوڑے کے لئے انتظامات ہوچکے ہیں یا نہیں !

وما علینا الاالبلاغ

Social Issues

غزہ کے مقتل سے اجتماعی اخلاق کی روشن کرنیں !

Published

on

بسمہ تعالیٰ

غزہ کے مقتل سے اجتماعی اخلاق کی روشن کرنیں !

         از:  ناظم الدین فاروقی

NPA  DOC No : 0169

Dated: 29-10-2023

اقوام متحدہ کی جانب سے اسرائیل ‘ حماس جنگ بندی قرارداد منظور کرنے کے باوجود  اسرائیل اور امریکہ  اس بات پر مصر ہیں کہ حماس کے خاتمے کے نام پر غزہ کا ہی صفایا کردیا جائے۔ ابھی بھی اسرائیلی افواج جس کی کمانڈ امریکی جنرل نے سنبھالی ہے ۔ مسجد اقصیٰ میں نمازوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے ۔ جمعہ کی نماز کی بھی اجازت نہیں دی گئی ۔ جب اسرائیلیوں کو کھلے مسجد کے احاطے میں جمع ہونے کی اجازت دے دی گئی ہے ‘ اس سے مسلمانانِ عالم میں مزید تشویش  کی لہر دوڑ گئی ۔

بار بار غزہ کے اندر کئی کیلو میٹر  تک گھس کر زمینی حملے کئے جارہے ہیں ۔ قطر اور ترکی اپنی ثالثی کی سفارتی  حتی المقدور  کوشش میں جٹ گئے ہیں ۔ انٹرنٹ ‘ فون سرویس سب کچھ غزہ کا منقطع  کردیا گیا ہے ‘ اسی دوران القسام بریگیڈ  نے پھر سے اسرائیل کے مختلف شہروں پر ڈرون حملوں کو تیز کردیا جس سے اسرائیل کا کئی سو بلین کا نقصان ہورہا ہے ۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ جنگ کو طوالت  دے کر القسام بریگیڈ  کے پاس موجود تمام اسلحہ کو بروئے کار لا کر جمع شدہ اسلحہ کا اسٹاک ختم کروادیں اور پھر چند کیمیکل بمس کے ذریعہ قیامت  برپأ کردی جائے اور خالی شدہ شہر کو بآسانی قبضہ میں لے لیں ۔ جب سیول سپلائیز  کی اجازت مانگی جارہی ہے تو اسرائیل کا کہنا ہے کہ غزہ میں ایندھن ‘ غذا ‘ پانی بہت کچھ ہے وہ ختم نہیں ہوا۔ جمعہ کی رات سے اسرائیل نے بلا کسی تحقیق کے غزہ کے تمام ہی علاقوں پر بے تحاشہ بمباری شروع کردی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ساری دنیا کہ تمام بین الاقوامی پلیٹ فارمس  اور ادارے مکمل طور پر اسرائیل و امریکہ کو جنگ بندی کے لئے راضی کروانے میں ناکام نظر آتے ہیں ۔

اکنامسٹ لندن نے اپنے 27؍ اکٹوبر 23 کے شمارے میں Lexington نے لکھا کہ جو بائیڈن  کے لئے اسرائیل کی حمایت سخت ترین امتحان سے گزر رہی ہے ‘جو بائیڈن نے رمضان مئی ؍2021 میں غزہ و اسرائیل کی جنگ میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی تھی جس کا خمیازہ اب انھیں  اسرائیل کی اندھی تائید کی  شکل میں پیش کرنا پڑرہا ہے۔معصوم عوام کے قتل عام کا لائسنس  اسرائیل کو دے دیا گیا ہے ‘کیمیکل ہتھیار کے استعمال کا یہ تجربہ پہلے ہی شام کے حلب و حمأAlepo جیسے علاقوں میں کیا جاچکا ہے ۔ اس وقت بھی دنیا خاموش تماشائی بنی دیکھتی رہی ۔ اب اگر غزہ میں  ان کیمیکل ہتھیاروں کا استعمال ہوگا تو بھی اس بات کا قوی امکان ہے کہ دو‘ تین دن میڈیا  میں ہنگامہ کے بعد سب کچھ اضطراب  آمیز سکون میں بدل جائے گا  اور پھر ایک مرتبہ فلسطین و بیت المقدس کی آزادی کا مسئلہ سرد خانے میں ڈال دیا جائے گا۔

امریکہ اور اسرائیل فلسطین کی آزادی کے مسئلہ کو پڑوسی عرب ممالک کے ترقیاتی پروجکٹ  کا بڑے پیمانے پر پروپگنڈہ کرتے ہوئے  معصوم نہتے  فلسطینیوں کی نسل کشی کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے مظلوم و معتوب فلسطینی عوام کی آواز کو کچلنا چاہتے ہیں ۔ جس طرح روینڈا ‘ بوسنیا ‘ عراق ‘ افغانستان ‘ شام ‘ یمن ‘ لیبیا میں بے گناہ معصوم اقوام کے مسلسل قتل عام کا کوئی جواز نہیں تھا ٹھیک اسی طرح آج غزہ میں بھی نسل کشی  در نسل کشی کا وقفے وقفے سے چکرا چلایا  جارہا ہے ۔ 1994 میں یاسرعرفات اور  وزیر آعظم اسرائیل اسحق راہن‘ بل کلنٹن کے درمیاں ہونے والے اوسلو معاہدے کے بعد سے اب تک 30 سال  کا عرصہ گزر گیا ۔ اس دوران کوئی رات اور دن ایسا نہیں گزرا جس میں فلسطینیوں کی گرفتاری ‘ قتل یا ان کے مکانات اور علاقوں سے  انھیں بے دخل نہیں کیا گیا ہو ۔ گزشتہ 21 دنوں میں  سے مغربی پٹی میں فلسطینیوں  کے گھروں  کو شعلہ پوش کرتے ہوئے ‘ مستوطنین  Settlers  و پولیس  کے حملوں میں 100 سے زیادہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں ۔

بڑی طاقتوں کی ظلم و بربریت پر دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے ۔ ایک حصہ ظالم کے تائید اور ہاتھ مضبوط کرنے میں لگا ہوا ہے دوسرامظلومین کی آواز بن کر امریکہ و اسرائیل کے بربریت کی شدید مذمت و مخالفت کر رہا ہے ۔ امریکہ کی انسانی ہمدردی اور انسانی حقوق کے قواعد و قانونی  تشریحات  دنیا سے بالکل مختلف ہے ۔

سیکوریٹی کونسل  میں روس اور چین کے ویٹو  کرنے کے باوجود امریکہ و اسرائیل  جنگ حسب معمول جاری رکھے ہوئے ہیں اوروقتی طور پر جنگ بندی کا معاملہ طوالت  میں پڑ گیا ہے۔ اقوام متحدہ میں 120 ممالک نے جنگ بندی کی قرارداد منظور کی لیکن اسرائیل و امریکہ اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔مسلم ممالک کا آپسی عدم اتفاق عربوں کی مایوس کن سرد مہری میں صرف مٹھی بھر مسلم ممالک ڈٹ کر حماس کی تائید میں کھڑے ہیں۔

Miko Peled ایک مشہور انسانی حقوق کے جہد کار اور نامور یہودی مصنف ہیں ‘ ان کے والد اسرائیلی فوجی جنرل تھے ۔  یہودیوں کے مظالم پر دو اہم کتابیں Injustice  اور  General’s Son   تصنیف کی ہیں  ۔ انھوں نے میڈیا میں بیان دیتے ہوئے  کہا کہ اسرائیلی فوج دنیا کی بہترین تربیت یافتہ عصری ٹکنالوجی سے لیس اسلحہ کے ساتھ انتہا ئی منظم دہشت  گرد ریجمنٹ ہے ۔ ان کا مقصد و نصب العین سوائے دہشت گردی کے سوائے اور کچھ بھی نہیں ہے ‘ مسٹرمیکو نے  مثال  دیتے ہوئے کہا کہ 2008 کی 21 دن کی جنگ کے پہلے دن صبح ٹھیک 11 بجے دن جب کہ اسکول کی پہلی شفٹ ختم ہو کر 12 بجے دوسری  شفٹ شروع ہوئی تھی اسرائیل نے کارپیٹ بمبنگ  کرتے ہوئے 100 ٹن بم برسادیئے ‘ دوسرے عوام کے ساتھ ان کا سلوک اس طرح کا وحشیانہ ہوتا ہے کہ وہ  اپنے لبرزم  کا مکھوٹہ  پہنے ہوئے ہیں ۔

 پہلی مرتبہ بڑے پیمانے میں یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ اسرائیلی یہودیوں کی بڑی تعداد جس میں حاخامات ( یہودی مذہبی پیشوا) بھی شامل ہیں ۔ فلسطینیوں کو مکمل آزادی دینے کی عالمی سطح پر  چلائی جانے والی مہیمات    میں کھل کر  حصہ لے رہے ہیں ‘ ایک مذہبی پیشوا نے کھلے عام اسلام بھی قبول کرلیا ہےخود اسرائیل کے اندر پہلی مرتبہ فلسطین کی تائید میں  کئی شہروں میں بڑے مظاہرات  دیکھے گئے۔

غزہ جیسے گنجان آبادی والے شہر پر جہاں کلسٹر  و فاسفورس  بموں کی ہر لمحہ بارش ہورہی ہے ۔ 15 ہزار مکانات نست و نابود  ہوچکے ہیں ‘ جہاں موت کے فرشتوں کا ہجوم ہر گلی ‘ کوچے اور ملبے معصوم لختِ جگر کے لہو اور معصوم بچوں ‘ والدین کے آنسوؤں  سے لبریز ہیں ۔ کفنانے ‘ نمازِ جنازہ اور دفنانے کے لئے تڑپتے معذور  ‘ زخمی لواحقین منتظر ہیں‘ میتوں کو غسل دینا تو دور کی بات ہے کفنانے کے لئے کفن دستیاب نہیں ہے ‘ ملبے میں دبے ہزاروں  لاشوں کو نکالنا نا ممکن ہوگیا ہے‘ اس جنگی صورت حال میں غزہ کے معاشرے کی اعلیٰ اخلاقی قدروں ‘ تہذیب و تمدن کو دیکھ کر دنیا حیرت زدہ ہے کہ 3 ملین کی آبادی کے بچوں ‘ بڑوں ‘ امیر ‘ غریب ‘ مریض و ڈاکٹر  کو آخر کس نے اخلاق حسنہ و اخلاق کریمہ سے مزین کیا ہے ۔ 

’’الغد‘‘ عربی ٹی وی چیانل کے نامہ نگار کے تفصیلی انکشافات نے  دنیا کو پھر ایک مرتبہ حیرت میں ڈال دیا۔ رپورٹر نے جو تفصیلات پیش کیں اختصار  کے ساتھ یہاں درج کیا جاتا ہے ۔اغوا ٔ کردہ دو عمر رسیدہ ضعیف یہودی خواتین کی قید میں جس طرح خدمت اور حسن سلوک حماس کے کارکنوں نے کی تھی ان کا پریس کے سامنے برملا اظہار کرتے ہوئے ان کے  اخلاق کی تعریف  کی اور شکریہ ادا کیا اس پر اسرائیل اور انتہا پسند یہودی چراغ پا ہوگئے اور دشمنانِ اسلام پر سانپ لوٹ گیا۔

7 لاکھ سے زیادہ مرد و خواتین ‘ جوان بچیاں اور معصوم بچے  بالکل بے گھر ہوچکے ہیں ۔جہاں سر چھپانے کے لئے  ریلیف کیمپس  میں ایک رات بھی نہیں گزارتے اسرائیلی جٹ بمبار پناہ گزیں  کیمپ پر جیسے اسلامی یونیورسٹی میں30 سے زیادہ مساجد اور 200 سے زیادہ مدارس  پر بمبنگ کرکے خون کی ندیاں بہا کر ابدی نیند سلا دیتے ہیں۔18؍ اکٹوبر 23 کوہمدانی عیسائی ہاسپٹل  پر جہاں ڈاکٹروں ‘ پیرا میڈیکل  اسٹاف  جو خدمات طبی پر مامور تھے اور اس کے علاوہ مریضوں اور اُن کے رشتہ دار جو اس ہاسپٹل کے سائے میں پناہ لئے ہوئے تھے بمبنگ  کرکے ایک ہزار سے زیادہ معصوم ‘ بے گناہ عوام کو ایک لمحہ میں موت کے آغوش میں ڈھکیل دیا۔اس بدترین نسل کشی پر دنیا میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑاٹھی   اس پر پھر ظالم ‘ وحشی اسرائیل و امریکہ کا جھوٹ پر جھوٹ  کہنا ہے کہ القسام بریگیڈ کے راکٹوں کے غلط رُخ پر داغنے سے یہ ہلاکتیں  ہوئیں ۔ اس کی پول تو کئی بڑے میڈیا ہاؤز  نے کھول دی ۔ نیو یارک ٹائمز نے بھی اس جھوٹے مفروضے کو ردّ کرتے ہوئے اسرائیلی بمبارنمنٹ کا دلیل کے ساتھ جواز پیش کیا ۔بمباری میں کئی زچہ ہلاک ہوئے اور اُن کے  سیکڑوں بچے معجزاتی طور پر بچ گئے ان نومولود شیر خوار بچوں کے علاوہ موذی مرض سے متاثرہ  شریک ہسپتال مریضوں  کے لواحقین کی اموات  کی وجہہ سے ان کی دیکھ بھال ایک بہت  بڑا چیلنج تھی ‘ بجلی اور ایندھن کی مسدودی سے کئی ہسپتال نے کام کرنا بند کردیا تھا  لیکن بڑی حُسن و خوبی سے خودعوام ان  کی بہتر نگہداشت کر رہے ہیں۔

سونے کے لئے غزہ کے تباہ حال بے گھر شہریوں کو 15 تا 18 گھنٹے انتظار  کرنا پڑتا ہے ۔ بھوکے ‘ پیاسے نیند کے لئے شدید بے قرار لوگ قطار بنا کر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں ۔ کئی تو سڑکوں پر بیٹھے بیٹھے اپنی نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں ۔ لیکن کوئی بھی سونے والے افراد کو نیند پورا ہونے تک ہر گز نیند سے بیدار نہیں کرتا۔

مصیبت زدہ لوگوں کے لئے کوئی  علیحدہ بیت الخلا  نہیں بنائے جاتے ‘غزہ کے تمام شہری اپنے گھر چوبیس  گھنٹے کھلے رکھتے ہیں جہاں مرد و خواتین ‘ بچے کسی بھی گھر میں جاکر اپنی حاجت پوری کرتے  اس طرح متاثرین کے لئےاہتمام ہر محلے اور بستی میں عام ہے‘ شیر خوار بچوں کے لئے دودھ گرم کرنے سے لے کر دودھ پلانے ‘ کپڑے بدلنے ‘ تیار ہونے  کے لئے بطور ’’ضیوف الرحمان‘‘ (اللہ کے مہمان )بڑی خندہ پیشانی سے گھر گھر  ان کی خوش آمدید کی جاتی ہے اور خدمت میں بچے ‘ عورتیں  ‘ بوڑھے سب لگے  ہوئے ہیں ۔

جنگ زدہ علاقوں میں لوٹ مار ‘ ڈکیتی ‘ چوری ‘ میتوں پر سے زیورات چرا لینے اور ملبے سے قیمتی اشیا کا سرقہ کرنے کی  عام طور پر ایسی افراتفری کی صورت حال دیکھی جاتی ہے۔ غزہ کا جنگ زدہ شہر کرۃ الارض پر اپنی ایک منفرد خصوصی شناخت بنانے میں کامیاب ہوگیا ۔غزہ میں کہیں کوئی چوری نہیں ہوتی۔ کئی ایسے سوپر مارکٹس بھی ہے جو جزوی طور پر بمباری میں تباہ ہوگئے ہیں ۔ سامان بھرا ہونے کے باوجود  مجال ہے کہ کوئی بھوک اور پیاس سےتباہ حال شخص دوکان میں کوئی سامان حتیٰ کہ پینے کے پانی کی بوتل بھی اٹھالے جائے ‘ جب کہ  ایک ایک بوند اور چمچہ پانی کے لئے آبادی کا بڑا حصہ پیاس سے ترس رہا ہے ۔  عام لوگ قطار بنا کر ان  تباہ شدہ دکانوں میں داخل  ہو کر ضرورت کا سامان ملبے کے باہر بیٹھے  مالک ِ دوکان کے کسی عزیز کو اس کی قیمت ادا کرکے ہی خرید شدہ سامان  لے جاتے ہیں۔ (وہاں کے علما ٔ ‘ مصلحین  اور دینی حلقوں بالخصوص  والدین کو سلام کرنا چاہیئے)۔

 غزہ کے سیاست دان اور انتظامیہ کے عہدہ دار اور ملازمین بڑے ہی دیانت دار لوگ ہیں۔ بدعنوان  لوگوں کا جرم ثابت ہوجائے تو کورٹ مارشل کیا جاتا ہے ان کی دیانت داری دیکھیں تو خلفہ راشدین  کا عہد یاد آتا ہے۔ 

صدر غزہ پارلیمنٹ مسٹر یحییٰ سنوار نے 17 سال اسرائیل جیل میں قید کی زندگی گزاری  نہ ان کے پاس ان کوئی ذات گھر ‘ ذاتی کاروبار ہے ۔ صرف سال میں دو جوڑے کپڑوں  میں زندگی بسر کرتے ہیں ۔ اسرائیل نے کئی مرتبہ انھیں ہلاک کرنے کے لئے بمباری کی وہ ہمیشہ بچتے رہے ۔ اخلاص ‘ صداقت ‘ دیانت داری کوٹ کوٹ کر عوام میں بسی ہوئی ہے ۔

 کسی اسکولی طالب علم سے اگر نصرت اور فتح کے ممکنات و اُمید کے سلسلے میں جب دریافت کیا جاتا ہے تو اُن کی آنکھوں میں روشنی آجاتی ہے اور اتنے پُر عزم  اور حوصلہ مند نظر آتے ہیں اور  ایک جملے  میں ’’نحن و منصورون‘‘  ( ہم ہی فتح یاب ہونے والے ہیں) عام طور پر سن سکتے ہیں ۔ انھیں اس بات پر مسرت ہے کہ وہ ابنائے  خالد بن ولید ؓ ‘ صلاح الدین ایوبی ؒ  و عز الدین قسام شہیدؒ  قرار دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔

  حیرت کی بات تو یہ ہے کہ 3 ملین والی آبادی والے شہر میں کوئی پولیس نام کا شعبہ نہیں ہے ۔ غزہ کے 40 ہزار سرکاری  ملازمین  ہیں جو زیادہ تر صحت ‘ تعلیم‘ عدلیہ اور بلدیہ کے وزارتوں میں معمور نہیں ۔ اس وقت حماس کے لئے اندرونی مصائب اور مسائل بھی بڑے چیالنجس  سے کم نہیں ۔ اب تک 2 ہزار سے زیادہ بیوائیں  اور 8 ہزار سے زیادہ بچے یتیم  ہوچکے ہیں ان سب کی بہتر انداز میں دیکھ بحال کے لئے حماس کا انتظامیہ پوری طرح مستعد و متحرک  نظر آتا ہے ۔ 

Total No of Words: 2,247

  Release on : 29-10-2023

Continue Reading

Social Issues

مسئلہ فلسطین کا سفارتی و سیاسی حل نکالنے میں ہماری عدم دلچسپی!!

Published

on

بسمہ تعالیٰ

مسئلہ فلسطین کا سفارتی و سیاسی حل نکالنے میں ہماری عدم دلچسپی!!

         از:  ناظم الدین فاروقی

NPA  DOC No : 01688

Dated: 22-10-2023

7؍ اکٹوبر سے غزہ  میں حماس اسرائیل جنگ جاری ہے فلسطینی کی تمام سرحدوں کو مقفل کرتے ہوئے پانی ‘ بجلی ‘ غذا ٔ کی سربراہی کو مسدود کردیا گیا ۔5 ہزار سے زیادہ معصوم بچے ‘ عورتیں ‘ بوڑھے اور نوجوان اسرائیل کی وحشیانہ بمبنگ میں  جام شہادت پا چکے ہیں ۔ 30 ہزار سے زیادہ شدید زخمی ہیں ‘ معمدانی اسپتال  پر بمبنگ  سے ایک ہی وقت میں ایک ہزار معصوم لوگ ہلاک ہوچکے ہیں ۔ 10 ہزار سے زیادہ مکانات بمبنگ  میں کھنڈر ہوچکے ہیں ۔جس طرح پہلے 40 بچوں کے سر قلم کرنے کا ساری دنیا میں جھوٹا پروپگنڈہ  کیا گیا ٹھیک اسی طرح  معمدانی ہاسپٹل  پر حماس کے راکٹ کی غلطی سے حملے کی جھوٹی خبریں  میڈیا میں  عام کی جاتی رہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ ساری دنیا غزہ کی جنگ  کئی حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے ۔ عیسٰی و موسیٰ  کے آپسی اتحاد نے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ نہ صرف طاقتور ظالم و مظلوم کی جنگ ہے بلکہ عالمی اتحاد کی ایک نوعیت مذہبی بھی ہے ۔ صیہونی  طاقتوں کے اثر ورسوخ اور 7 گریٹ پر گرفت کا عالم یہ ہے کہ ایک کروڑ سے بھی کم آبادی والے ملک کی حوصلہ افزائی  اور ظالمانہ کارائیوں کی پشت پناہی کے لئے بلا کسی تاخیر کے پہلے امریکہ نے F35A  جیسے خطرناک جٹ  بامبروں  سے لدے بحری بیڑے کو غزہ کے ساحل پر بھیج کر خود صدر جو بائیڈن نے تل ابیب پہنچ کر اپنے کھلے عام  ظالم صیہونی مملکت اسرائیل کی صیانتی و دفاعی کئی بلین کی امداد بھی  فوری پہنچادی ۔ ابھی صدر بائیڈن امریکہ لوٹے بھی نہیں تھے کہ برطانیہ کے وزیر آعظم رشی سونک معہ امدادی  سازو سامان کے ساتھ تل ابیب پہنچ گئے ۔ جب کہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ کس طرح نہتے فلسطینیوں  کو ایک چھوٹے سے شہر میں محصور کرکے پانی کے ایک ایک قطرے ‘ بوند کو ترسا کر بڑے پیمانے پر لیل  والنہار  اسرائیلی اپنے وحشیانہ  بمبنگ  کے ذریعے بے قصور نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے ۔ 

امریکی صدر جوبائیڈن کی وزیر آعظم  نتن یاہو کی ملاقات کے بعد  4 اہم ملکوں مصر ‘ اردن ‘ سعودیہ عربیہ ‘ قطر سے ملاقات  کا ارادہ تھا لیکن ان ممالک نے سرد مہری کا اظہار کیا ۔وزیر خارجہ بلنکن  کو  ریاض  میں اپنے سفارتی دورہ کے موقع پر محمد بن سلمان سے کافی اہانت کا سامنا کرنا پڑا ۔ پہلے چوبیس گھنٹے  محمد بن سلمان نے امریکی وزیر خارجہ کو دن بھر انتظار میں بٹھا دیا اور رات دیر گئے بھی ملاقات نہیں کی بلکہ دوسرے دن  امریکی خارجہ کو ملاقات  کا موقع دیا ۔ اس پر سفارتی حلقوں میں محمد بن سلمان کے غیر متوقع کم درجے  کے سلوک پر کافی  مباحث ہورہے ہیں ۔

طوفان الاقصٰی  کے عبقری ‘ عسکری ناقابل یقین  بجلی کی طرح شاطرانہ  کاروائیوں کے بعد سے  تمام بڑی عالمی  طاقتیں ابھی تک سخت صدمے میں  مبتلا ہیں ۔ اسرائیل کی مخابرات اور سیکریٹ   جیسے امان ‘  موساد  اور کٹسا جیسے خطرناک ادارے رکھنے والے ملک  کو خاک چاٹنی پڑی ۔ اس دوران  تین بڑی کانفرنسیس خلیجی کونسل ‘ عرب لیگ اور رابطہ عالم اسلامی OIC  کی  تین بڑی کانفرنس منعقد کی گئیں۔ تینوں کانفرنسوں کی قراردادیں جو دنیا کے سامنے آئی ہیں اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ  ہمیشہ کی طرح نشست ‘ گفت ‘ برخواست  کے علاوہ کوئی خاص ٹھوس  غیر معمولی مضبوط قراردادیں منظور کرنے میں یہ تینوں کانفرنس ناکام رہیں ۔ OIC  اپنے قیام ستمبر 1969 سے ہی تمام مسلم ممالک کا اقوام متحدہ کے بعد سب سے بڑا  ایک وفاق ہے لیکن اسے ایک کافی کلب سے بڑھ کر کبھی با اختیار ادارہ بننے نہیں دیا گیا  اور کوئی اہم بڑے فیصلے لیتے ہوئے جاری عالم اسلام کے کسی بھی المیہ کو روک لگا نے میں یہ ہمیشہ ناکام رہا ۔  اس کی بڑی وجہہ یہ رہی OIC  بھی عالمی بلاک کی طرح کئی بلاکس میں تقسیم رہا ۔ سویت یونین کے زوال کے بعد 7 گریٹ استعماری ممالک کے ہمنوا بن کر آج بھی  عرب و مسلم ممالک آپسی تضادات کا شکار ہیں ۔ OIC کی تاریخ میں سوائے مالی امداد اور دو طرفہ ذومعنی صحافتی بیانات کے کوئی بڑا اہم  ٹھوس اقدام  کرتے نہیں دیکھا گیا ہے  جس سے کسی مسلم ملک  یا مسلمانان عالم کے مقابل کا حل نکلا ہو یا پھر  اندرونی  جاری خانہ جنگی گزشتہ 35 سالوں میںعالمی استعماری طاقتوں کے بے جا مظالم میں کمی واقع ہوئی ہو ۔

یہ بات ہمیں تسلیم کرنی پڑے گی کہ OIC افغانستان ‘ عراق ‘ شام ‘ لبنان ‘ سوڈان ‘ لیبیا ‘ صومالیہ ‘ نائجیریا ‘ بوسنیا کے تباہ کن ‘ بدترین حالت میں اپنا کوئی موثر رول ادا کرنے میں ہمیشہ ناکام اور پیچھے رہا ۔

فلسطین اور مسجد الاقصیٰ  کی آزادی کا مسئلہ  75 سال سے چل رہا ہے ۔ مسجد الاقصیٰ کے علاوہ مغربی پٹی ‘ غزہ اور داخلی اسرائیل میں فلسطینیوں پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے ۔ رابطہ عالمی اسلامی اگر اپنے مطالبات میں صرف اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 1948/181 اور بعدUNO کی 200 سے زیادہ  منظور کردہ قراردادوں  کی پاسداری کا متحدہ طور پر پُر زور مطالبہ کرتے ہوئے اسے نافذ کر کرانے میں کامیاب ہوجاتی  تو آج مقبوضہ فلسطین  میں  فلسطینی عوام کی اتنے بڑے پیمانے پر آج یہ نسل کشی نہ ہوتی ۔

ایک قابل تحسین بات یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ تمام عرب ممالک نے متحدہ طور پر  یہ بات بڑی ہی پُر زور طریقہ سے رکھی کہ کسی بھی صورت میں فلسطینی  متاثرین  کا انخلأ نہیں ہونا چاہیئے ‘ اردن اور مصر نے کہہ دیا ہے کہ ہم کوئی بھی فلسطنی مہاجر کو قبول نہیں کریں گے کیوں کہ  اسرائیل کی ہمیشہ سے یہ خطرناک پالیسی رہی ہے کہ  دم دُمار کے ذریعے فلسطینیوں کو پہلے بے گھر  کیا جاتا رہا پھر نہتے فلسطینی خاندانوں کو سرحد پار لبنان ‘ اردن ‘ مصر  میں ڈھکیل دیا  گیا اور بعد میں اسرائیل مہاجرین کو اپنے آبائی وطن لوٹنے پر سخت پابندی عائد کرتے ہوئے انھیں بیرونی شہری قرار دیا کرتاہے۔ تجربات کی بنیاد پر یہ حکمت عملی اختیار کی گئی ہے جسے حماس کی بھی تائید حاصل ہے ۔اردن کا کہنا ہے کہ پہلے ہی 60 لاکھ فلسطینی پناہ گزینوں کا ہم بوجھ اٹھا رہے ہیں اور اسرائیل انھیں اپنے آبائی مقام جانے  پر اسرائیل میں سخت پابندی عائد کر رکھا ہے ۔

تقریباً 22  مسلم ممالک نے اسرائیل سے اپنے تعلقات ’’ ابرھیمی امن معاہدے ‘‘ کے عنوان سے استوار کرلئے ہیں۔اردن اور مصر تو 50 سال پہلے اپنے سفارتی تعلقات بحال کرچکے تھے ۔ امارات اور بحرین نے توحدیں  پار کردیں ۔ خلیجی عرب سیادت کے بے بصیرتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل جیسا  اسلام و مسلم دشمن ظالم ملک جس کی سرحدیں آپ  کے ملک سے  نہیں ملتیں  ہیں اور اس کا  نہ وہ پڑوسی ملک ہے اور نہ ہی اس کے رحم و کرم پر ان ممالک کی معیشت اور ترقی کا کبھی انحصار رہا ہے ۔ اللہ نے انھیں تیل کی دولت سے مالا مال کر رکھا ہے ۔ امارات ‘ اسرائیلی یہودیوں کو پاسپورٹ  جاری کرتے ہوئے انھیں دوہری شہریت دی جارہی ہے یہ مالی طور پر طاقتور مسلم عرب ممالک ان تمام معاہدات کے وقت اگر یہ شرط رکھتے کہ فلسطین اور مسجد الاقصیٰ  کو پہلے مکمل آزاد  کیا جائے اور  اقوام متحدہ کی قراردادوں  کے مطابق دو قومی  نظریہ کے تحت معاہدات کی تمام شقیں بحال کی جائیں ۔ تو پھر ہم کسی بھی قسم کے امن معاہدے  کے لئے تیار ہیں؟ ۔ مقدس سرزمین فلسطین کے فلسطینی مستوطنین کو تو ایک پاسپورٹ بھی جاری نہیں کیا گیا بلکہ50 ہزار سے زیادہ یہودی مستوطنین Settler کو اپنے ملک کا اعزازی شہری بنادیا گیا۔ 

سعودی عربیہ نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کی تیاری کرلی ہے  اور اسرائیلیوں کو مذہبی تجارتی اور تفریحی ویزے دینے کا اعلان کیا ہے ۔ اطلاعات کے مطابق نبی کریمؐ نے دور میں جن جن علاقوں میں یہودی بستیاں تھیں وہاں حاخامات (یہودی مذہبی پیشوا ) نے آکر بطور یادگار کے پودے لگائے ہیں  ۔ اس میں اتنی عجلت کی ضرورت کیا تھی کہ ایک کروڑ فلسطینیوں کے مسائل کو ترجیحی دی جاتی تو آج یہ صورت حال نہیں ہوتی  ایران نے OIC کے 18؍ اکٹوبر کے حالیہ اجلاس میں ایک وزن دار تجویز رکھی تھی جس پر کسی نے بھی ایران کے مطالبہ پر کان نہیں دہرا ۔ اس کا کہنا تھا کہ مسلم ممالک اپنے اپنے ممالک سے اسرائیلی سفیروں کو خارج کرتے ہوئے فوری ان کے سفارت خانے بند کردیں ۔ اگر یہ تجویز قبولکرلی جاتی تو مسئلہ کے حل میں ایک قدم پیش رفت ہوتی تھی اور اگر ایسا ہوتا تو بہت دباؤ اسرائیل اور امریکہ پر پڑتا۔ سعودی عربیہ نے OIC کے دوران کانفرنس حماس کے متعلق کسی بھی تنقید سے اجتناب  کیا لیکن فوری د دن بعد ایک سینئر پرنس نے اسرائیل کے ساتھ ساتھ حماس پر بھی جم کر پھٹکار لگائی اور دل بھر کر برا بھلا کہہ دیا ۔ عرب ممالک میں سلفی علما کی ایک اچھی خاصی تعداد نے حماس کے خلاف کفر کے فتوؤں کی دوکانیں سجادیں  انھیں یہودیوں کے ایجنٹ ‘ کافر زندیق  خوارج قرار دینے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں  کر رہے ہیں۔ مسئلہ فلسطین کے ایک طرف گہ گیا حماس کو ملعون قرار دینے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے  ۔غزہ کے نوجوان شیخ محمود الحسنات (جن کے 18 افراد خاندان 15؍ اکٹوبر کو شہید ہوگئے )نےاپنے بیان میں کہا کہ 22 عرب ممالک اسرائیل کے خوف سے لرزے جارہے ہیں جب کہ اللہ نے ہمیں نصرت دی بغیر کسی عصری ہتھیار اور رسمی فوج کے ہم نے انھیں شکست خوردہ کردیا تو ہمارے بھائیوں کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیئے ۔

شیخ  احمد یاسین ؒ نے 1987 میں جب حماس تحریک کی بنیاد ڈالی تھی تو اس کے پیچھے یہ نظریہ کارفرمان تھا کہ  بیت المقدس اور ارض فلسطین کی آزادی اور تحفظ کی پہلی  ذمہ داری فلسطینی اسلامی قیادت پر ہے ۔ یہ امت کا فرض کفایہ ہے کہ ہم بیت المقدس  کو آزاد کرائیں ‘ دنیا کے تمام معاہدے سیاسی مفاہمتیں ‘ وعدے نہ صرف کھوکھلے  ثابت ہوتے ہیں بلکہ امن معاہدہ  کے نام پر معصوم فلسطینی عوام کو ان کی اراضیات سے مسلسل بے دخل کرتے ہوئے مستوطنینSettler  کو بسایا جارہاہے ۔

یاسرعرفات بھی امریکہ کے شدید دباؤ میں  اسرائیل کے ساتھ اوسلو امن معاہدہ 1994 میں دستخط کرنے کے لئے مجبور ہوگئے تھے ‘زبردستی الفتح کو اس بات کے لئے راضی کروالیا تھا کہ وہ مغرب پٹی میں واپس لوٹ کر اپنی آزادی کی داخلی لڑائی لڑیں گے۔اس وقت سارے عرب ممالک نے اس پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا تھا کہ یاسر عرفات خود ساختہ طور پر خود تنہا معاہدہ پر دستخط کرنے کی حماقت کر بیٹھیں ہیں انھیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

اسرائیل نے ان 75 سالوں کے دوران مسلسل تین  فلسطینی نسلوں اور ان کی قیادت کا مکمل خاتمہ کردیا اور ہمیشہ یہ تصور کرتے رہے کہ فلسطینی تحریکات کا ہم نے ہمیشہ کے لئے صفایا کردیا جو ان کی سونچ سے بڑی  غلطی تھی ۔ شیخ احمد  یسین  کی شہادت کے 20 سال بعد بھی آج حماس   اس سے زیادہ مضبوط اورطاقتور فعال ہے ‘ ایسا معرکہ کر ڈالا جسے تاریخ میں لکھا جائے گا۔

2004 میں مئی میں فلسطینیوں کے محبوب ‘  دست و پأ سے  مفلوج اسلامی قائد تحریک کے روح رواں  شیخ احمد  یسین کو ویل چیر پر فجر کی نماز کے جاتے وقت  ایک راکٹ حملے میں شہید کردیا گیا ۔یاسرعرفات کو ان کے دفتر میں کئی سو دن سے محصور کرکے رکھ دیا گیا تھا‘ شیخ احمد یسین شہید کے6 ماہ بعد انھیں داخلی جاسوسی کے ذریعےپلونیم نامی زہر دے کر 4؍ نومبر 2004  کو ان کا سرد قتل کردیا گیا ۔ ان دونوں  کی شہادتوں کے بعد اسرائیل یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ ہم نے حماس اور الفتح دونوں قیادت کا خاتمہ کردیا ہے اور اب یہ آزادی کی تحریکات دم توڑ دیں گی  اور ہم مغربی وغزہ کی پٹیوں پر قابض ہوجائیں گے۔ 2006 میں مقامی انتخابات  اقوام متحدہ کی نگرانی میں کروائے گئے غزہ میں حماس کو 90% سے زیادہ ووٹ ملے اور مغربی پٹی میں 70% ووٹ ملے ۔ اختلافات کو ختم کرنے کے لئے حماس نے مغربی پٹی الفتح کے لئے چھوڑ دی ۔ تحقیقاتی  اداروں کے مطابق جس میں فلسطینی سیکوریٹی اہلکار نے یاسر عرفات کو زہر دیا تھا  وہ آج ابو ظہبی کے شاہی محل میں مشیر خاص کے عہدہ پر فائز ہے اور اسرائیل کے ساتھ امارات  کے امن معاہدے  ’’صفۃ القرن‘‘ یا Ibrahim Accord  میں اس کا بہت بڑا رول مانا جاتاہے ۔

مسلم ممالک کی قیادت اس بات کی کوشش کرتی کہ مغربی پٹی اور غزہ کو اقوام متحدہ کے قراردادوں  کے مطابق مکمل  ایک آزاد  دفاعی منسٹری وزارت قائم کرنے کی اجازت دی جانی چاہیئے تا کہ وہ اپنے شہریوں کی ہلاکتوں  اور نسل کشی بر وقت روک سکیں ‘ افسوس تو یہ ہے کہ 75 سالوں میں نہ انھیں فوج  تشکیل دینے ‘ نہ اسلحہ خریدنے اور  نہ طیارے و بحری جنگی جہاز رکھنے کی اجازت اقوام متحدہ نے دی ہے ۔ کھلی جیل میں فلسطینی محروس ہیں ۔ اسرائیل نے   تین ممالک کی سرحدوں میں گھس کر قبضہ کرلیا تھا ۔ شام کے گولان ہائٹس ‘ لبنان ‘ مصر کی سینا اور اردن کے کنارے  کو پُر امن معاہدات کے ذریعے عرب سیاسی قیادت دوبارہ حاصل کرکے   اسرائیل  کو اپنے سفارتی اثر و رسوخ سے دستبرداری  کے لئے راضی کروالتیے تو صورت حال کچھ دوسری ہوتی ‘ عرب ممالک کی کمزوریوں کی وجہہ سے فلسطینیوں  کی آزادی کا مسئلہ مزید پیچیدہ ہوتا جارہا ہے ۔

ساری دنیا میں اسرائیل  کی بربریت اور مظالم کے خلاف زبردست مظاہرے اور میڈیا میں سخت غم و غصے اور مذمت کی لہر اٹھی ہے۔ میڈیا کمپنیوں نے  فلسطین  کی تائید میں ٹویٹ کرنے والے لاکھوں  اکاؤنٹس  زبردستی بند کردیئے ۔ روس اور چین بہت بڑی قوت ہونے کے باوجود  بڑی ہی چالاکی سے فلسطین کے مسئلہ سے اپنے آپ کو  ذو معنی بیانات کی حد تک محدود  رکھتے ہوئے عملی طور پر کوئی مثبت رول اداکرنے میں دلچسپی نظر نہیں آئی۔

فلسطینیوں  کی آزادی اور ظلم و بربریت کے خلاف  لڑائی میں ہر انسان دوست شخص کو اخلاقی تعاون پیش کرنا چاہیئے۔  ہندوستان میں انصاف پسند آزادی فلسطین کے قائل سیکولر سیاسی جماعتیں ‘ دانشور اور صحافی کھل کر فلسطین کاز کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ یہ عجیب بات ہے کہ ہندوستان کی بڑی مسلم جماعتیں متحدہ موقوف اختیار کرنے سے اجتناب  کر رہی ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ          بی جے پی کے قہر اور ناراضگی کا خوف  ان پر طاری ہے۔ عوامی سطح پر فلسطین اور مسجد الاقصیٰ کی آزادی کے لئے شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے  اور ہمارا ان آزادی کے لئے لڑنے والے جیالے جہد کاروں کی مکمل اخلاقی حمایت کرنی چاہیئے ۔

Total No of Words: 2,481

  Release on : 22-10-2023

Continue Reading

Social Issues

مسلم پرسنل لا بورڈ کی فعالیت پر سوال کیوں ؟

Published

on

بسمہ تعالیٰ

مسلم پرسنل لا بورڈ کی فعالیت پر سوال کیوں؟

یا

مسلمانانِ ہند کے لئے مسلم پرسنل لا بورڈ ایک امید کی کرن

         از:  ناظم الدین فاروقی

NPA  DOC No : 0156

Dated: 11-06-2023

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ملت اسلامیہ ہند کا ایک متحدہ با اعتماد و باوقار پلیٹ فارم بن کر بعض ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے50 سالوں سے مخلصانہ خدمات انجام دیں ۔ ہمارے اسلاف بڑی عرق ریزی سے ملت کے تمام طبقات ‘ مسالک اور جماعتوں ‘ کاتب ‘ مفکر کے ذہین نمائندوں کا ایک بورڈ تشکیل دیا تھا ۔

3 اور 4 ؍جون23 کو اندور میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ  کے منعقدہ اٹھائسویں اجلاس عام میں نئے صدر کا انتخاب  عمل میں آیا۔ اس کے ساتھ ہی تمام دوسرے اہم عہدوں پر جیسے نائب صدور ‘ جنرل سکریٹری ‘ سکریٹریز ‘ ترجمان و معاون ‘ ترجمان کا تقرر بھی عمل میں آیا ۔ اس پر ملا جلا رد عمل علما اکرام ‘ دانشوروں اور تعلیمی یافتہ لوگوں اور عوام میں دیکھنے میں آیا ہے ۔

 اگر یہ معاملہ بورڈ کے 250 ارکان تک محدود رہتا تو با شعور مسلمانوں میں یہ موضوع اتنا زیر بحث  نہ آتا‘  بورڈ کے بعض نئے کوتاہ نگاہ چھوٹے دل و دماغ کے لوگوں کو بڑے بڑے عہدوں پر مامور کردینا ‘بڑی فاش غلطی سرزد ہوگی‘تساہلوں ‘ سست رفتاری ‘ بے حسی  کا شکار اورامت کے گمبھیر  مسائل و مصائب سے لا تعلقی اختیار کرنے والوں  کو ارباب مجاز بنا کر اہم عہدوں پر مامور کردینے سے بڑے پیمانے پر  اپنے شدید تنقید و تبصرے  ہورہے ہیں ۔

 نئے منتخب شدہ  قائدین کا اپنے اپنے حلقے اثر میں امطار گل و گل پوشی‘ نعرہ بازی و نغموں کے ذریعے ایسا زبردست والہانہ استقبال  کیا گیا جس کی سابق میں کوئی نظر نہیں ملتی‘ یہ سیاست دانوں  کے سستی شہرت کے طور طریقے ہیں اس سے ایک اور نیا تنازعہ کھڑا ہوگیا ‘ ملت کے باشعور افراد‘ سنجیدہ افراد  کی جانب سے شدید مذمت اور اعتراض میڈیا میں گردش کررہاہے۔ 

مدبرین سوال اٹھارہے ہیں ایک ہی اجلاس میں رکنیت سے سکریٹری  اور ایک ہی سال میں سکریٹری سے صدر تک کا سفر ؟ کوئی اصول ہے یا جب جو مرضی ہو وہی وصول ۔ ۔۔یا جوڑ توڑ و مورثیت  کا فیکٹر کام کرتا ہے ۔ یہ تو بات رہی انتخاب کی ؟ رکنیت کا طریقہ کار چننے Select کرنے کا ہے ‘بعض دینی جماعتوں اور مدارس دینیہ کی گرفت اتنی مضبوط ہے عام مسلمان کتنا ہی دانشور ‘ مخلص ‘ اعلیٰ ترین اہلیت کا حامل کیوں نہ ہو اسے جگہ ملنا مشکل ہے ۔ارکان حضرات میں  اکثریت  سے  صاحب رائے کہلانے کے قابل نہیں ہیں یا  بلکہ  یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ  آمد و رفت ‘ نشست گفت برخواست  کو زیادہ پسند کرتے ہیں ‘ ان میں کے اکثر حضرات کا کسی بھی عمل ‘ اقدام ‘ سرگرمی و جدوجہد  سے ان کا دور کا بھی تعلق نہیں ہے ‘ بورڈ کی قیادت  ہی بتلا سکتی  ہے کہ آخر بورڈ کیوں اتنا جمود کا شکار ہوگیا ہے۔ 

بورڈ کی ترجیحات  بدلتے بدلتے اب جماعتی و بعض دینی‘ گروہی ‘ مسلکی  یا نجی مفادات کے لئے امت کے اہم ترین مفادات و مقاصد شرعیہ کو بھینٹ چڑھایا جارہاہے ۔ موجودہ قیادت مسالمہ و مصالحہ حکمت کے نام پر پہلے تو فکری معرکے میں شکست خوردگی کا  مسلسل شکار ہوتی رہی اعلیٰ ترین علمی و عبقری شخصیات ہونے کے باوجود اب یہ مزید زوال پذیر ہو کر بے باکی ‘ حق گوئی ‘ صداقت تمام لازمی بنیادی قائدانہ صلاحیتوں  جیسے نام بنیادی ‘ لازمی کی جگہ  تحریص‘ تخویف ‘ الغبانہ و الجبانہ کا شکار ہوگئے ہیں۔

بورڈ کا دائرہ کار کا مسئلہ:

بورڈ کے  قیام کے وقت بورڈ کا دائرہ کار صرف 10 نکات پر مشتمل ہے ۔ (1)۔ نکاح ۔(2)۔ طلاق ۔(3)۔ نان و نفقہ ۔(4)۔ مز ۔(5)۔خلع ۔(6)۔ وراثت ۔(7)۔وصیت‘ھبہ ۔(8)۔ خصائث۔(9)۔ متنبہ ۔(10)۔ وقف ۔ عائلی امور میں دستور ہند میں دی گئی ضمانتوں کے تحفظ کے لئے وقت ضرورت  قانونی اور عوامی جدوجہد جاری رکھنا تھا ۔ حالات کے تقاضوں کے مطابق بورڈ نے  بعد میں کئی سرگرمیوں کا آغاز کیا جیسے دارالقضا ‘ اصلاح معاشرہ ‘ تفہم شریعت  اور خواتین ونگ  جیسے کمیٹیوں کو تشکیل دیا۔ امت اسلامیہ کا  مسلسل دباؤ  پڑنے کی وجہہ سے بورڈ نے اپنے دائرہ کار کو وسعت دیتے ہوئے  ملی مسائل کو بھی اپنے ہاتھ میں لے کر حکومت اور اربابِ مجاز کے سامنے کامیاب نمائندگیاں  کی تھیں ۔شاہ بانو کیس اور بعد میں طلاق ثلاثہ ‘ بابری مسجد جیسے کئی مسائل میں سپریم کورٹ میں مقدمات دائر کئے تھے۔ 

  ملک کے حالیہ سیاسی ماحول کی تبدیلی کا اثر بورڈ کے اندرونی معاملات پر پڑنے لگا‘ بورڈ کے دائرہ کار کو لاسٹک کی طرح کبھی وسعت دی جاتی تو کبھی مسلمانوں کے مسائل کو باہر کردیا جاتا  اور العباد البقر  کے چند ایجنٹوں کی بورڈ پر گرفت مضبوط ہوگئی ۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں رہی افسوس تو اس بات پر ہے کہ  اپنے اپنے مفادات کے مطابق  بورڈ کے دائرہ کار کو وسعت دی جا نے لگی اور اعدا اسلام کے چشم کے اشاروں پر مسلمانانِ ہند کے بھیانک ہلاکت خیز ‘ پیچیدہ مسائل کو بورڈ کے دائرہ کار سے باہر  کیا جانے لگا ۔ 

سب سے بڑا مسئلہ وقت کے چیالنجس کو ٹھیک  طور پر سمجھ کر حکیمانہ تدابیر کے ساتھ ملت کے تحفظ‘  بقا و ترقی کے لئے اپنی عظیم قائدانہ صلاحیتوں  کو بروقت روبہ عمل لانے  کی بھر پور ذمہ داری کرسی الرئاسہ پر فائز رہنما کی ہے ۔ کوتاہ نگاہی ‘ نفسا نفسی‘ جدید علوم اور عصری تقاضوں  اوراعدا اسلام کی شاطرانہ حکومت و سیاست کے داؤ بیچ  سے ناواقفیت ‘ معاشی ‘ سماجی ‘ معاشرتی  بدلتے  ہوئے تقاضوں  مطلوبہ تبدیلیوں کے مراحل سے واقف رہے اور صالح معاشرے کی تعمیر پر پڑنے والے مضر اثرات سے ہر وقت آگاہی ضرور ہوتی ہے  اور بورڈ کسی  اندرونی معاملات میں  بڑھتی کمزوریوں  اور بیرونی دشمن طاقتوں  کی سازشوں سے بے خبری نے  ملت کو ابواب کارثہ پر لا کھڑا کردیا ۔  بعض باطل ‘ ظالم طاقتوں نے بورڈ کے اندرونی حلقوں  پر آہستہ آہستہ مضبوط گرفت حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی تھی وہ اسے ایک عرصے سے  چھپایا جارہا تھا لیکن ایک ایک کرکے اب وہ سب  واشگاف  ہونے لگے ہیں ۔ حضرت سید محمد ولی رحمانی ؒ کے آخری دور میں انھیں بھی اس کا شدت سے احساس ہوچکا تھا انھیں اس بات کو لے کر تشویش تھی وہ کہا کرتے تھے کہ بورڈ بکھرے گا نہیں بلکہ چند غیبی زعفرانی طاقتیں اس کا ہائی جیک کرلیں گی۔

 قیادت کی پیرانہ سالی اور مفاد حاصلہ نے بورڈ کی ساکھ کو بہت بڑے پیمانے پر متاثر کیا ہے ۔ جب ضرورت پڑی مفادات کے مطابق بورڈ کا پلیٹ فارم خوب استعمال کیا جاتا ہے جہاں زعفرانی آقاؤں کی ناراضگی کا اندیشہ ہوتا ہے  وہاں ملت کا بڑے سے بڑا مسئلہ بورڈ کے دائرہ کار سے باہر کرکے کچل دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔

 ایک معروف مبصر ڈاکٹر عدیل اختر نے ملی مسائل اور بورڈ کے موقوف کے سلسلہ میں لکھا کہ بورڈ کے بزرگ ترجمان کے جاری کردہ ایک پریس نوٹ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بورڈ ملک و ملت میں ہونے والے حادثات و واقعات اور سنگین حالات میں خاموش نہیں رہ سکتا ۔ جناب قاسم رسول الیاس  نے اپنے بیان میں اڑیسہ میں ہوئے ٹرین حادثے میں ہوئی 280 ہلاکتوں پر اپنے دکھ و رنج کا اظہار کیا ‘ تو پھر ملت کے گمبھیر مسائل پر کیوں صحافتی بیانات جاری نہیں  کئے جاتے ؟ قصداً خاموش کرنے کی کیا وجہہ ہے ۔

جناب اسد الدین اویسی صاحب کی توجہہ دہانی

دوران اجلاس عام  بیرسٹر اسد الدین اویسی‘  یم پی نے چند انتہائی اہم تجاویز پیش کیں اور ملت کے احساسات و درد کو کھل کر صدر اجلاس کے سامنے رکھا ‘ آپ کے تجاویز بڑی دور اندیشی کا مظہر تھی جس  کو سنہری الفاظ میں لکھنا چاہیئے ۔

جناب اسد الدین اویسی نے دوسرے باتوں کی بحث میں الجھے بغیر صرف 3 باتوں کو دوٹوک  طریقہ پر اجلاس میں  سب کے سامنے رکھا:  ۔ آپ نے سوال کیا کہ کیوں حجاب کے مسئلہ  پر بورڈ اپنے موقف کا اظہار  نہیں کرتا اور کانگریس سے بات نہیں کی جاتی ؟۔ یہ بہت سے مسلم خواتین کا نہایت اہم  مسئلہ ہے ‘آپ نے دوسرا سوال اٹھایا۔ 25؍ جنوری 23 کے انڈین اکسپریس  اخبار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ  جماعت اسلامی کے نمائندہ ملک معتصم خاں نے آر ایس ایس کے نمائندوں سے ملاقات کی اور مساجد کے سلسلہ  میں دوران گفتگو بات  بھی ہوتی  جس میں متھروا کی مساجد کے اور دوسرے مساجد کو تحفظ فراہم کرنے کے سوال پر آر ایس ایس کے نمائندے نے  کسی بھی قسم کی طمانیت  دینے سےانکار کردیا۔ یہ میٹنگ نجیب جنگ کے گھر پر ہوئی تھی ۔  اگر کوئی اور مسئلہ ہوتا تو  یقیناً وہ جماعت کا اندرونی معاملہ ہوتا تھا  اور ہمیں  اس پر کوئی اعتراض کا حق نہیں تھا۔ لیکن انھیں کیا  یہ اختیار پہنچتا ہے کہ وہ مساجد کے سلسلہ میں علیحدگی  میں جاکر اس طرح آر ایس ایس سے گفت و شنید  کریں ۔سوال کیا کہ آپ کو کب سے آر ایس ایس پر اتنا اعتماد آگیا ؟ مساجد کا اہم مسئلہ ہے اس میں ہم سب کی ایک ہی رائے ہے۔آپ نے  ایک اور اہم تیسرا اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ۔ منی پور فسادات کے سلسلہ میں عیسائیوں پر ہونے والے زیادتیوں پر فی الوقت کوئی بیان نہ دیں اس کو بعد میں الجھایا جائے تو مسئلہ ہوگا لہذٰا فی الوقت بورڈ اس پر بیان دینے سے گریز ک کرے۔

بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب کی تینوں باتوں کا  غیر اطمینان بخش  جواب دیتے ہوئے نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی ۔

حجاب  کے مسئلے پر جواب دیا گیا کہ ہم کانگریس  کے رحمان خاں سے گفتگو کرچکے ہیں  انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ کرناٹک میں وہ حکمنامہ واپس لے لیں گے‘ اسد الدین اویسی صاحب نے  کہا کہ  جناب وہ کیا کرتے ہیں یا نہیں کرتے انھیں کرنے دیجئے ۔ آپ کیوں بورڈ کی جانب سے ٹھوس  موقوف اختیار کرتے ہوئےمطالبہ کرناٹک کی کانگریس کے سامنے نہیں رکھتے  کہ حجاب کے حکمنامہ کو واپس لیں۔

جماعت کے ملک معتصم خان  کے آر ایس ایس کے نمائندوں سے بات کرنے کے اعتراض کا صدر محترم مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے بڑی بے چینی و ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے صاف طور پر  جواب دے دیا کہ آر ایس ایس کے مسئلہ کو فی الوقت یہیں  رہنے دیں ۔اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کیوں رہنے دیں؟  یہ بات عیاں ہوگئی کہ ایک بورڈ میں موجود مخصوص ٹولے کو یہ  پسند نہیں ہے کہ ایک لفظ بھی آر ایس ایس کے خلاف کوئی بورڈ کے اجلاس میں  کہے۔

قرار داد میں  تاریخ کو جاری کردہ منظورہ قرارداد میں اسد الدین اویسی صاحب کے اٹھائے ہوئے سوالات  اور دیئے گئے تجاویز کو قصداً رد کرتے ہوئے شامل نہیں کیا گیا !!۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ بورڈ کی خواتین ونگ  کی سربراہ نے کرناٹک کے حجاب کے مسئلے پر بورڈ کو واضح مضبوط موقف اختیار کرنے کا مطالبہ کیا  تھا اور بورڈ میں شامل بعض جماعتوں و حضرات کے آر ایس ایس  کے ساتھ  بڑھتے ہوئے قرابتوں سے اراکین کو آگاہ کرنے کی کوشش کی تو  موصوفہ پر اتنا عتاب اور عذاب ڈھایا گیا کہ زبردستی معافی نامہ پر دستخط  لینے کی کوشش کی گئی پھر غصے و انتقام میں پورے ویمنس ونگ  کو بلا کسی وجہہ کے تحلیل کردیا گیا ۔ جس سے بورڈ کی ساکھ متاثر ہوئی  حجاب کا مسئلہ طول پکڑتا جارہا ہے ۔ملک کے مختلف  حصوں میں حجابی طالبات پر اسکولس و کالجس  اور ملازمت کے مقامات پر  زور زبردستی سے نکالنےاور مقدمات درج کرنے کی آئے دن  خبریں موصول ہورہی ہیں ۔ حال ہی میں مدھیہ پردیش ‘ راجستھان ‘ سری نگر میں حجابی طالبات  پر دباؤ اور پابندی کی خبریں عام ہیں ۔ پھر بھی بورڈ نے اپنی قرارداد سے حجاب کے مسئلہ کو باہر رکھا ‘ بورڈ کی یہ بے حسی دیکھ کر مسلمان حیرت زدہ ہیں۔

منظورہ قرارداد:

4؍ جون 23 کواٹھائسویں اجلاس عام کے موقع پر بھی جو منظور کردہ تجاویز کو 5؍ جون کو جاری کی گئیں  اس قرارداد کو  ایک6 نکات تک محدود رکھا گیا ۔(1)۔ نفرت کی آگ پر قابو  پانے کا مطالبہ ۔(2)۔ لا قوانیت مکانات کو بلڈوز کئے جانے کی مذمت ۔(3)۔ یونیفارم یکساں سیول کوڈ  کے نفاذ کی مخالفت ۔(4)۔ مساجد اور اوقافی جائیدادوں کا تحفظ1991 کے مطابق کیا جائے ۔(5)۔  عیسائی اقلیت پر منی پور میں کئے گئے مظالم کی مذمت ۔(6)۔ ہم جنس پرستوں کی شادیوں کی مخالفت ۔7۔کرونا تبلیغی جہاد۔  نئی قومی تعلیمی پالیسی 20 جس سے 60 لاکھ سے زیادہ مسلمان بچے متاثر ہوئے ہیں ۔(8)۔آسام میں 40 سے زیادہ گاؤں میں مسلمان کسانوں اور مزدوروں کو بستیوں سے بے دخل کیا گیا ۔(9)۔ بلی بائی ڈیل ۔(10)۔ کرناٹک اور مختلف ریاستوں میں حجاب کا مسئلہ۔(11)۔ لنچنگ ۔(12)۔ لو جہاد قانونی ۔(13)۔ بھگوا لو ٹراپ ‘ 30 لاکھ مسلم لڑکیوں کو مرتد کرنے اور مسلمانوں کا قتل عام کرنے کی دھمکیاں ۔(14)۔ دعوتی کام کرنے والے بے قصور داعیان اور معصوم نوجوانوں کی گرفتاریاں ۔(15)۔ بعض مسلم تنظیموں پر پابندی ‘ آسام میں چائلڈ میاریج  کے نام پر غریب مزدور پیشہ مسلمان خاندانوں  کے بے جاگرفتاریاں اور مقدمات ۔(16)۔ مسلم اکثریتی شہریوں اور علاقوں سے حج ٹرمنل کی برخواستگی ۔(17)۔ نجی ‘ کھلے مقامات پر نماز کی ادائیگی پر پابندی ‘ ۔(18)۔نفرت آمیز مسلم دشمن فلموں ‘ کشمیر فائیلس ‘ کیرالا اسٹوری ‘ 72 حوریں ‘ اجمیر 92 اور اسی طرح کی 20 فلموں کی تیاری۔(19)۔ اسکولوں میں یوگا کا مسلم بچوں پر لزوم ۔(20)۔ پولیس اسٹیشنوں  میں بے قصور گرفتار شدہ مسلم ملزمین پر تشدد و عتاب‘ تہواروں کے موقعوں پر کئی شہروں اور گاؤں میں فسادات  جیسے مسائل پر بورڈ نے معنی خیز خاموشی اختیار کی  اور ان تمام کو اپنے قرار داد سے خارج رکھا۔

حضرت خالد سیف اللہ رحمانی صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا  بورڈ نے خوشی و مسرت کی لہر کے درمیان8؍ جون23 کو حیدرآباد میں صحافیوں سے ملاقات کے درمیان تنقید کرنے والوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ بورڈ کی اہمیت کو گھٹانے کے لئے سازش کر رہے ہیں وغیرہ ۔مبصرین کا کہنا ہے کہ سازش کیوں کوئی کرتا ‘ یہ خود آپ کے اپنے ذمہ داروں کے غلط معیوب طور طریقے اپنانے کا نتیجہ ہے ۔ ملی مسئولیت پر فائز حضرات اس طرح عامیانہ جشن ‘ جلوس استقبالی نعرے بازیوں سے بہت دور رہتے ہیں اور عہدہ ملنے پر اعلیٰ ظریفی  کا مظاہرہ کرتے ہیں ‘ مسئولیت  اور جواب دہی کا شدید احساس ہوتاہے ۔

بعض جماعتیں اور نام نہاد ملی قیادت بورڈ کے پلیٹ فارم کو اپنے اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے کا غیر مجاز اختیارات حاصل کرچکے ہیں ‘ بورڈ کی قیادت نے مسلمانوں کے مسائل سے دلچسپی کم ملک کے حادثات اور دوسرے لا تعلق  ایشوز میں زیادہ دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے عامۃ المسلمین  کو مایوس کردیا۔ جب  بورڈ کی قیادت آپ کی رہنمائی اور دوٹوک  حق گوئی کے ساتھ بیان کی ضرورت پڑتی ہے تو  عام مسلمانوں میں شعور کی بیداری اور مایوسی کو دور کرتے ہوئے حوصلہ دلانے کے لئے ضروری ہوتا ہے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ وہ سب سین سےغائب رہتے ہیں ‘ یہ کہنا مشکل ہے کہ کس کو خوش کرنے کے لئے عمومی اس طرح کے بیانات جاری کئے جاتے ہیں اور ملت کے مسائل پر لب کشائی سے گریز کیا جاتا ہے۔

ذمہ داران بورڈ کی نئی باڈی تشکیل پا چکی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ کس طرح ان پر آشوب حالات میں یہ قائدین امت کی رہنمائی و رہبری کرتے ہوئے اپنے جلیل القدر منصب کا حق ادا کرتے ہیں ۔

Total No of Words: 2,618

  Release on : 11-06-2023

Continue Reading

Trending