Blog

فوجداری قوانین میں ترمیمات کی تجویز‘ خطرہ سے خالی نہیں !!

Published

on

بسمہ تعالیٰ

فوجداری قوانین میں ترمیمات کی تجویز‘ خطرہ سے خالی نہیں !!

         از:  ناظم الدین فاروقی

NPA  DOC No : 0162

Dated: 20-08-2023

11؍ اگسٹ 23 کو پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ امیت شاہ نے ہندوستان کے فوج داری قوانین Indian Penal Code (IPC)   اور Criminal Code for Proceeding (Cr.PC) اور Indian Evidence Act  22 دفعات  کو ’’بھارتیہ نیائے سنستھا ‘‘ کے ذریعہ تبدیل  کرنے کی تجویز پیش کی ہے ۔9 نئے دفعات اور 356 شقیں Provisions مکمل طور پر نئے متعارف کروائے جارہے ہیں ۔  ان کی بابت ذیلی یہ قوانین کی تبدیلی کے لئے لوک سبھا کی اسٹانڈنگ  کمیٹی کو نظر ثانی کے لئے بھیج دی گئی ہیں ۔

مجوزہ قوانین سے جمہوری قدریں پامال ہوجائیں گی ‘ قوم ایک کھلی جیل میں محصور کردی جائے گی ۔ حزب مخالف ‘ اقلیتوں اور احتجاجی گروہوں  و تنظیموں اور حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے خلاف سزائیں اتنی سخت کردی گئیں ہیں کہ جس سے ڈکٹوٹیریل ڈیموکریسی Dictatorial Democracy  کو قطعیت دی جارہی ہے ۔ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے سینئر و معروف قانون دان کپل سبل نے کہا کہ عجلت میں اس طرح سے پارلیمنٹ میں فوجی داری ترمیمات کا اچانک بل عین انتخابات  سے قبل لانے کی آخر ملک کو کیا ضرورت پڑ گئی تھی ۔ ماہرین اور دانشوروں و عوام میں پیش کرکے کل ہند سطح پر مباحث  کے بجائے  یہ مجوزہ قوانین راتوں رات Parliamentary Select Committee  کو بھیج دیا گیا ۔ کن شخصیات نے اس بل کو تیار کیا ہے اس کے پیچھے کیا خفیہ مفادات و مقاصد ہیں ۔کہا یہ جارہا ہے کہ کوئی وانس چانسلر کی سربراہی میں اس ترمیمات کمیٹی نے مجوزہ ترمیمی بل تیار کیا ہے ‘ انھیں دستور پسند اور قانون و عدلیہ کے معاملات میں کیا تجربہ ہے ۔ مجوزہ ترمیمات حسب ذیل ہیں : 

Zero FIR۔ شکایت کنندہ ملک کے کسی کونے اور حصے سے پولیس میں آن لائن شکایت درج کرواسکتا ہے۔ پولیس اسٹیشن  حدود کی قیدختم کی جارہی ہے ۔ایک جانب بہت اچھی خبر ہے لیکن دوسری جانب ہندوتوا سوشل میڈیا آرمی چاہے گی تو بیٹھے بیٹھے لاکھوں Zero FIR درج رجسٹر کرواسکتی ہے ۔ کسی طبقے یا جماعت یا پارٹی و گروہ و گروپ کے کارکنوں یا قائدین لیڈرس کو پریشان کرنا ہو تو اتنے FIR درج ہوجائیں گے۔ مقدمات لڑتے لڑتے کئی زندگیاں بس نہیں ہوں گی اور گھر بار سب مقدمہ بازی میں فروخت کرنا پڑے گا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ یہ بہت ہی خطرناک قسم کے اقدامات کئے جارہے ہیں ‘  اگر ملک کے 200 شہروں میں کسی فرد یا گروہ و جماعت کے خلاف مقدمات درج ہوجائیں گے تو وہ کہاں مارے مارے عدالتوں کے چکر کاٹ سکتا ہے کیا عملی طور پر یہ ممکن ہوسکے گا۔

پولیس کسٹڈی کو 15 دن سے بڑھا کر 90 دن تک کردیا گیا ہے ۔ کوئی بھی پولیس عہدہ دار 90 دن کی حراست میں رکھ کر ملزم کو تفتیش  کے دوران طویل اذیتیں  دے سکتا ہے ۔ سزا سے پہلے پولیس کے ہاتھوں سزا دے کر زبردستی اقراری بیان پر دستخط لئے جاسکتے ہیں ۔ بغیر وکیل کے مداخلت کے پولیس کا عملہ ملزمین کے ساتھ حیوانی سلوک کرسکتا ہے ۔

Section 124A IPC ملک و قوم کو بغاوت پر اکسانے کے دفعہ کو ختم کرتے ہوئے اس کی جگہ Endangering Unity & Integrity of India  متعارف کروایا گیا ہے ۔اس دفعہ کے تحت 3 سال سے 7 سال کی سزا تجویز کی گئی ہے ۔

چھوٹے جرائم جیسے موبائل فون کی چوریاں ‘ گلے میں سے چین چھین لینا ‘ پاکٹ چوری کرلینا ان جرائم کے لئے ملک میں پہلی مرتبہ ’’سوسائٹی سروس‘‘ کی شق متعارف کروائی جارہی ہے ۔ماہرین قانون کاکہنا ہے کہ ہندوتوا بریگیڈ کے انتہا پسند بڑے بڑے جرائم کرکے معمولی سزا ’’ سوسائٹی سروس ‘‘ کے تحت رعایت حاصل کرلیں گے۔ اور تشدد ‘ لوٹ‘ مار جاری رکھیں گے  پھر انھیں کوئی روک نہیں سکتا ۔

ہجومی تشدد Mob Lynching  میں ملوث مجرموں کو 7 سال قید سے لے کر موت کی سزا کی تجویز  رکھی گئی ہے ۔ گزشتہ 9 سالوں میں Mob Lynching میں تقریباً 750 معصوم لوگوں  کو ہلاک کیا گیا  متاثرین میں 98% مسلمان تھے ۔ اگر دیانت داری سے اس قانون کا نفاذ کیا گیا تو ملک میں Mob Lynching کا بڑی حد تک خاتمہ ہوسکتا ہے ۔ 

نوح میں محض شوبھا یاترا کے موقع پر فسادیوں کے خلاف مقامی لوگ ڈٹ گئے ان کی اکثریت مسلمانوں کی تھی ۔ دو دن بعد  بطور انتقام ضلعی انتظامیہ نے1200 سے زیادہ مکانات اور دوکانات کو بغیر کسی نوٹس کے آناً فاناً بلڈوز کردیا۔ اس پر ہریانہ ہائی کورٹ  کے بنچ نے جب  Sou Moto ایکشن  لیتے ہوئے روک لگانے کے احکامات جاری کئے تو بی جے پی سرکار کو یہ قطعی برداشت نہیں ہوا  عدالتی نظام کو دھکّہ دیا گیا۔ بالآخر اس مقدمہ کو دوسرے بینچ  پر منتقل کردیا گیا جہاں حکومت نے جھوٹا مرافعہ داخل کرتے ہوئے کہا کہ قانون کے مطابق مکانات و دوکانات اور عمارتیں منہدم کی گئیں ہیں ۔ 

مسلمانوں کو دوسرے مسائل کا سامنا ہے ‘ انتظامیہ و عدلیہ کی زہر آلود ذہنیت  اور پولیس کا جابرانہ روّیہ ۔ایک تو مسلمانوں کے خلاف قانون کا غلط استعمال ‘ دوسری جانب سرے سے حکومت کی طاقت کا غیر قانونی استعمال ۔ اگر کسی سڑک  پر پتھراؤ ہوجائے تو راست طور پر بغیر یہ دیکھے کہ پتھر بازی کرنے والے کون تھے ‘ اس علاقے کے آباد مکینوں  کے گھر منہدم کرنا  دنیا کے کسی بھی قانون کے تحت  عدل و انصاف نہیں ہوسکتا یہ اسرائیلی طرز عمل کو ہندوستان میں گزشتہ دو سالوں میں خاموشی سے اپنایا جارہا ہے۔اس سے ملک میں  مخصوص طبقے اور مذہب کے ماننے والوں کے خلاف حکومتی مظالم میں اضافہ ہوگا۔

کوئی بھی کسی حکمرا ن جماعت دوسرے پارٹی ‘ طبقے ‘ ریاست کے گروہ ‘ سیاسی قائدین ‘ مذہبی قائدین ‘ سماجی جہد کاروں ‘ دانشوروں ‘ صحافیوں ‘ مبصرین کے خلاف اس  دفعہ کے تحت  مقدمہ دائر کرکے 7 سالہ طویل سزائیں عدالتیں  دے سکتی  ہیں۔

اگر اکثریتی  طبقے بالخصوص مذہب کے ماننے والوں کے زیادتیوں ‘ حملوں اور فساد بھڑکانے والے غنڈوں  اور فسادیوں کے خلاف یا پُر تشدد مذہبی ریالیوں ‘ جلوس  اور جلسوں میں کی جانے والی اشتعال انگیزی تقاریر کے خلاف کوئی بھی تنقید کرے گا اور اعتراض کرے گا تو یہ عین ممکن ہے کہ اس تنقید کرنے والےشخص ‘ قائد ‘ لیڈر ‘ کارکن  کے خلاف ہندوستان کی یکجہتی  کو نقصان پہنچانے کا الزام لگاتے ہوئے گرفتار کیا جاسکتا ہے ۔

ٹریڈ یونین طلبا و کسانوں ‘ خواتین کی تنظیموں ‘ تاجروں ‘ ملازمین یا قبائلی ‘ دلت و عیسائی ‘ مسلمان ‘ سکھ گروپس کے خلاف کبھی بھی سخت فوجداری  مقدمات درج ہوسکتے ہیں ۔اتنی طویل سزاؤں کا اصل مقصد ہی ملک کے تمام جمہوری  آزادیوں کو ختم کراتے ہوئے زبان پر پابندی عائد کرنا ہے ۔

نئے دفعات کے مطابق کسی بھی جرم کی تحقیقات  180 دن میں ختم ہونی چاہئے اور چارج شیٹس  اسی مدت کے درمیان عدالت میں داخل کردینا چاہیئے۔اس میں سب سے بڑی مشکل جو پیش آئے گی وہ یہ ہے کہ کوئی سیاست دان یا حکمران پارٹی اپنے پسندیدہ عہدہ دار  کی موجودگی میں اپنے مطابق چارج شیٹ داخل کرواکر  مخالف شخص  سے انتقام لیتے ہوئے سخت سزائیں عدالت سے دلا سکتی ہے ۔

پولیس عہدہ دار ‘ طاقتور سیاست دانوں یا بااثر  زعفرانی طاقتوں کے  اشاروں پر چارج تیار کردے گا اور چارج  کے مطابق مختصر وقت میں سزا عدالت سے دلا دی جائے گی ‘ عدل و انصاف  کے مطابق فیصلے دینے والے ججس  صاحبان بسا اوقات  پولیس کی کہانی کو تسلیم نہیں کیا کرتے ہیں ۔ اور  اس سے  بے قصور ملزمین کو با عزت بری ہونے میں سہولت تھی لیکن نئے قانون کے مطابق اپنے کسی جج  کو مامور کرتے ہوئے سیشن کورٹ سے ایسی سزاؤں کا اعلان ہوگا کہ سپریم کورٹ بھی پھر کسی راحت کے لئے تیار نہ ہوگا۔

ہم نے دیکھا کہ JNU‘ جامعہ ملیہ  اور دہلی یونیورسٹی کے احتجاجی طلبا اور ان کے قائدین کا کیا حشر ہوا ۔ پھر کیرالا  کے سینئر صحافی صدیق کپن  کو ضمانت پر رہائی  کے لئے کئی سُو دن تک صبر آزما دور سے گزرنا پڑا۔ کنہیا کمار اور عمر خالد پر  یکساں مقدمہ درج ہوئے تھے۔ عمر خالد کے علاوہ NRC کے خلاف  ڈسمبر 2020 سے مسلم خواتین نے شاہین باغ  دہلی میں 101 دن کا طویل دھرنا بیٹھا تھا جس کے  کئی احتجاجی نوجوان خواتین کو ابھی تک ضمانت پر رہائی نہیں دی  جارہی ہے۔

ان نئے ترمیم شدہ قوانین کے وضع کرنے میں ہمیں حکومت کی نیت صاف نظر نہیں آتی ہے ۔ایک سازش ‘ منصوبے کے ساتھ یہ قوانین مزید سخت کئے جارہے ہیں ۔

اگر کسی نے کسی جلوس اور پُر تشدد حملوں کے خلاف پتھراؤ بھی کیا تو ان افراد یا گروپ پر منظم جرائم                   Organized Crime کے تحت مقدمہ درج ہوسکتا ہے ۔

’’مسلحہ باغی ‘‘ یا خفیہ سرگرمیاں Encouraging Feelings of Separatists Activities Subversive Activities ‘ Endanger Sovereignty or Unity and Integrality of India  کے تحت کم از کم 3 سال سے عمر قید تک سزائیں ہوسکتی ہیں ۔

کسی فرد یا گروہ کے رجحانات ‘ طرز فکر ‘ سونچ ‘ قول و نظریات پر بھی مقدمہ دائر کرنے کے اختیارات سب انسپکٹر  کے سطح کے پولیس عہدہ دار کو دیئے گئے ہیں ۔ اتنے بڑے ملک میں کثرت آرأ ‘ کثرت نقطہ نظر ‘ فکر و آرا کا آپسی  اختلاف ہونا فطری بات ہے اور جمہوریت میں ہونا بھی چاہیئے۔ لیکن اب صرف ایک زعفرانی فکر کو پروان چڑھانے کے لئے تمام افکار و نظریات  کو مجرمانہ قرار دیا جانے والا ہے۔ اس سے ہمارا جمہوری ملک ایک پولیس اینٹ میں تبدیل ہوجائےگا۔ ہندوتوا کے مخالفانہ نظریات رکھنے والوں کو لازمی طور پر قومی یکجہتی اور اتحاد کے خلاف قرار دے کر خطرناک مقدمات درج ہوسکتے ہیں ۔نریندر دھا بولکر 2013‘ حمید دھابلکر  سے لے کر گوری لنکیش  2017 تک مہاراشٹرا ‘ کرناٹک کے 8 سے زیادہ الحاد پسند ہندوتوا مخالف  دانشوروں اور ادیبوں کو بلا وجہہ قتل کردیا گیا ‘ محض افکار و نظریات ‘ خیالات کے اختلاف  کو ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے ہندو انتہا پسندوں نے ایک کے بعد ایک قتل کئے ۔اب مخالفین پر لغو الزامات کے تحت بی جے پی حکومت لگام کسنا چاہتی ہے ۔

شادی کا بہانہ کرکے جو شخص کسی عورت و لڑکی کے ساتھ جسمانی تعلقات  قائم کرلے گا اور پھر شادی نہ کرے گا  تو اس کے لئے 10 سال کی سزا تجویز کی گئی ہے ۔اس میں خدشہ اس بات کا ہے کہ اصل ضرب کاری ان مسلمان نوجوانوں پر ہوگی جو غیر مسلم لڑکیوں کے محبت میں مبتلا ہو کر شادی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ انھیں طویل مدت کے لئے جیل کی سزا کاٹنی پڑے گی۔ لو جہاد کے نام پر کئی ریاستوں میں قانون پہلے ہی بن چکے ہیں ‘ اگر کوئی غیر مسلم مرد مسلم لڑکی کے ساتھ تعلقات قائم کرکے یا شادی کے نام پر استحصال کرے تو اسے کسی سزأ  کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ سارا مسئلہ خطرناک قوانین کو مخصوص مخصوص طبقے کے مرد و خواتین کے خلاف استعمال کرنے اور مجرموں کو کھلی آزادی دینے کا ہے ۔ بظاہر کوئی قانون بھی عدل و انصاف کے منافی نہیں ہوتا اس کا بے جا استعمال اسے خوفناک اور خطرناک بنا دیتا ہے ۔

گودی میڈیا میں یہ کہہ کر وارننگ بھی دی جارہی ہے کہ لو جہاد والوں کے اب برے دن آگئے ہیں وغیرہ۔ جس طرح کیرالا کی نو مسلم لڑکی اور اس کے شوہر شاہجہاں کو ھدایہ کے والدین کی طرف سے تنگ کیا گیا اور پھر سارے معاملہ کو غلط رُخ دیتے ہوئے انتہا پسندی کی منظم سازش کے تحت ہندو لڑکیوں  کو مسلمان بنایا جارہا ہے  کاالزام لگا یا گیا ۔اس الزام کو تقویت دینے کے لئے NIA کے حوالے یہ مقدمہ  کردیا گیا تھا ۔ کئی سال کی قانونی جدوجہد کے بعد سپریم کورٹ سے اس جوڑے کو راحت ملی تھی اب ایسا نہیں ہوسکے گا ۔ بلکہ دفعہ 109  Separate Harsh Punishment for Organized Crime  کے تحت مقدمہ دائر ہوگا اور سخت سزائیں ریاست جموں و کشمیر ‘ آسام ‘ یوپی اس کی بدترین مثالیں ہیں ۔ دفعہ 150Endangering Sovereignty Unity and Integrity of India کسی کو بھی ماخوذ کیا جاسکتا ہے ۔

ملزم کا کراس ایکزامینیشن  یا کورٹ حاضری ‘ ویڈیو کانفرسنگ کے ذریعہ ہوگی ‘ اس پر شدید اعتراض کیا جارہا ہے ۔ عزیز و اقارب کو پتہ ہی نہ چل سکے گا کہ ملزم پر دوران قید کیا تشدد کیا جارہا ہے ۔ زبردستی مارپیٹ کر شریک جرم ہونے کا حلفیہ  بیان دلایا جاسکتا ہے یا ملزم کو غیب رکھ کر ویڈیو کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے جج کو کچھ اور بتلایا جائے گا ۔وکیل اپنے موکل سے بات چیت علیحدگی میں نہیں کرسکے گا۔ مواد جمع کرنے میں وکلا ٔ بھی پس و پیش  ہوں گے۔ اس میں ملزمی صحت اور سلامتی شدید خطرہ میں پڑ سکتی ہے ‘ اپنے مخالفین یا اقلیتوں کو جیل بھر کے حکومت ملزمین کے ساتھ کچھ بھی کرسکتی ہے ؟ 

بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں کو 7 تا 10 سال سزائیں تجویز کی گئیں ہیں اس میں یہ ہورہا ہے کہ کمسنی کی ہندوستان میں ہر سال تقریباً 15 لاکھ شادیاں  ہوئیں ہیں ‘ جس میں 95% غیر مسلم جوڑے ہیں ۔ جب کہ 5% میں مسلم اور دوسرے اقلیتیں  ہیں ‘ آسام میں کم عمر کی شادی کرنے والے  3500مسلم جوڑوں کے خلاف مقدمات درج  کئے گئے‘                             Child Marriage Act  میں زیادہ سے زیادہ 15 دن کی سزا ہے ۔ جب کہ آسام کی بی جے پی  حکومت  نے                  Prevention of Sexual Crime Against Children (POSCO)  کے تحت مقدمات درج کردیئے گئے۔ جس میں 7 سال تک کی سزائیں شوہر اور سسرال والوں کو ہوسکتی ہیں ۔ اب نئی ترمیم میں  اسے 7 سے 10 تک  کی سزائیں کی جارہی ہیں ۔ قانون اچھا ہے لیکن بے جا مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر غلط استعمال کرتے ہوئے غریب کسانوں و مزدور خاندانوں کی زندگیاں اجیرن  ہورہی ہے اس پر کوئی مسلم جماعت ‘ ملّی قائدین آواز اٹھانے تیار نہیں ۔ NCB کی رپورٹ کے مطابق  گزشتہ دو سال میں 13 لاکھ لڑکیاں  مختلف ریاستوں سے غائب ہیں ۔

اطلاعات کے مطابق ملک میں اسی سال 45 ہزار کم عمر لڑکیاں حاملہ ہوگئیں ۔ ان سخت قوانین کو صرف مسلمانوں پر لاگو کرنے کی نیت سے اگر یہ بنائے جارہے ہیں تو مسلمانوں کو  کو نئی مصیبتوں اور آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

گینگ ریپ (ہجومی زنا بالجبر ) کے لئے 20 سال سے عمر قید کی سزا تجویز کی گئی ہیں ۔

گجرات فسادات میں بلقیس بانو کے خاندان کے 14 افراد کا قتل اور گیانگ ریپ کرنے والے مجرمین کو کس طرح سے گجرات حکومت نے با عزت رہا کردیا ۔ سپریم کورٹ نے گجرات حکومت سے سوال کیا کہ پھر دوسرے مجرموں کو اسی طرح کیوں رہا نہیں کیا گیا‘  اسی طرح کٹھوعہ جموں کی 8 سالہ لڑکی آصفہ کے ریپ اور قتل میں ملوث تمام  پولیس ملازمین اور مندر کے پنڈت کو دو سالوں کے دوران با عزت بری کردیا ‘ ایسے سیکڑوں مقدمات ہیں جس میں متاثرین مسلمان ہیں تو ان کے ساتھ معاملہ بالکل مختلف انداز کا کیا جارہا ہے ۔

10۔ اگر تحت سے لےکر اعلیٰ عدالتوں کے ججس غلط فیصلہ صادر کریں گے تو حکومت جانچ کرے گی اگر حکومت کے ذہن اور مزاج کے مطابق فیصلہ نہیں ہوا تو ججس کو 7 سال کی سزائے قید  ہوسکتی ہے۔ اس سے ہندوستان کا نظام عدلیہ تباہ و برباد ہوجائے گا۔ جب حکومتیں  عدلیہ سے تجاوز کرکے سزا و جزا  کے فیصلے اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے تو وہ ملک اور قوم کا ظلم و استبداد  کا شکار ہونا یقینی ہوجاتا ہے ۔ 

ماہرین قوانین کی تشویش  حق بجانب ہے لیکن اپوزیشن پارٹیاں ابھی تک اس بڑی خطرناک تبدیلیوں پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیول سوسائٹی اور سماجی جہد کار ان خطرناک ترمیمات کے خلاف آواز اٹھائیں ۔

Total No of Words: 2,648

  Release on : 20-08-2023

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Blog

ناگپور میں جہالت کی عظیم فتح

Published

on

بسمہٖ تعالیٰ

ناگپور میں جہالت کی عظیم فتح

NPA Doc No.218

Dated:21-03-2025                                                                          از:  ناظم الدین فاروقی

                                                                                 سینئر مبصر

ناگپور شہر ہمیشہ گہوارہ ِ اَمن رہا ہے۔ ہندوستان کے مختلف شہر ‘ گائوں فسادات میں جلتے رہے لیکن ناگپورمیں کھبی ہندو مسلم فساد رو نما نہیں ہوئے ۔ باوجود اس کے کہ زعفرانی سوپر پائور RSS کا تاریخی مرکز بھی یہیں پر ہے ۔

 شیواجی کے پر ستاروں نے اورنگ زیب پر اپنے غصے اور غم و جنجھلاہٹFrustration کا اظہار کرنے کے لئے آخر  /17 مارچ25 کوہی کو کیوں چنا ۔ اس پر ہم آئندہ پیرگراف میں روشنی ڈا لیں گے ۔ملک کے تاریخ ساز چھٹے عظیم مغل شہنشاہ مرد آہن ‘ مدبر و منتظم کے خلاف سب شتم کے ساتھ وحشی ظالم بادشاہ قرار دینے کے لئے ہندوتوا برگیڈ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے ۔ AI کے دور میں تاریخی حقائق کا مقابلہ کرنا زعفرانی طاقت کے بس کی بات نہیں ہے ۔ آورنگ زیب کے (1707) میں انتقال کے 318 سال بعد اس نا قابل تسخیر شہنشاہِ ہند کے نام سے ہی راتوں کی نیندیں حرام ہو رہی ہیں اورموجودہ وقت کے حکمران کے ایوانوں اور دیوانوں میں سکتہ طاری ہو جاتا ہے ۔

ناگپور میں زعفرانی غنڈوں نے اورنگ زیب کی تمثیلی قبرجس میں ہری چادر پر قرآن کریم کے آیات بھی درج تھی۔ نذر آتش کرنے کی کوشش کی۔  اس پر مقامی سماجی تنظیم میناریٹی ڈیموکریٹک پارٹی کے فہیم خان نے پولیس میں رپورٹ درج کر انے کی کوشش کی اس پر پولیس نے ان کی شکایت کو درج نہیں کیا۔ فہیم خان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ شیواجی کے پتلے کے پاس احتجاج کیا ۔جس پر پہلے ہی سے طئے شدہ منصوبہ کے مطابق دنگا بڑھکا دیا گیا ۔جس میں مقامی پولیس پوری طرح ملوث معلوم ہوتی ہے ۔ ایک طرف مسلمانوں کی گرفتاریاں عمل میں آرہی ہیں ۔

بلکہ بی جے پی کو حقائق سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا ۔دراصل اس کا مقصد غیر مسلم عوام کے ذہنوں میں اپنے فاسد نظریہ اور ایک خود ساختہ تاریخ کے بے بنیاد باتیں تھوپنا ہوتا ہے ۔ ملک کی گودی میڈیا آرمی اپنے کام میں لگ گئی اور اسی دوران مخالف آورنگ زیب ڈاکو منٹری فلم چھا جا یا Chhaava خوب زوروں پر چلائی جارہی ہے ۔

چیف منسٹر مہاراشٹرا Devendra Fadnavis   نے اس بات کا اقرار کیا کہ چھایا فلم کی وجہ سے تنائو میں اضافہ ہوا ۔

 دنیا چاہتی ہے کہ Synthetic History کی دنیا میں کوئی اور دو کوڑی کی بھی حیثیت نہیں ہے ۔ اسی طرح RSS کے جنرل سکریٹری سنیل نے کہا کہ اورنگ زیب کے متعلق موجودہ دور میں بات کرنا بے معنی ہے ۔ یہ اندھ بھگت ہمیشہ سے ہی تجاہل عارفانہ سے کام لیتے رہے ہیں ۔

 ہندوستان کے تمام غیر مسلم مورخین سے لے کر عالمی سطح کے معروف تاریخ دانو ں نے حقیقی تاریخ سے انحراف کرنے والے مکذوبہ جعلی تاریخ نویسوں کو آئینہ د کھلایا۔ چاہے وہ یورپی تاریخ داں ہو ں یا امریکی ‘ چینی ‘ جاپانی ‘ فارسی ‘عربی سب نے اورنگ زیب کے بعض سیاہ انتقامی کاروائیوں کی شمولیت کے ساتھ تاریخ کے سنہری باب کا پھر ایک مرتبہ افشاں کیا ہے ۔

بی جے پی سرکار حکومت میں آنے کے بعد ہندوستان کے عظیم شہنشاہ کے خلاف نفرت اور زہر کی کھیتی کی آبیاری کا آغاز کیاگیا ۔ 2015 میں دہلی میں واقع اورنگ زیب روڑ پر اویزاں بورڈوں پر سیاسی لیپ دی گئی ۔ پھر روڑ کا نام بدل ڈالا۔ مرکزی حکومت اپنی پروپگنڈہ مشنری کے ذریعہ یہ باور کروانے کی کوشش کی ۔ اورنگ زیب ایک قومی ویلن ہندوستان کا جابر ظالم مسلم بادشاہ تھا۔

شکست و فتح کے فیصلے تاریخ میں 3 صدیوں قبل ہو چکے ہیں ۔ اب کوہ دمن آسمانوں اور بادلوں پر واویلا کرنے سے سوائے فتنہ و فساد ‘ بد اَمنی کے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ۔ ہم اورنگ زیب کی تاریخ پر کیا لکھیں اور کیا پڑھیں ۔ امریکی یورپی‘ حال کے مشہور مورخین  نے بھی جو کچھ لکھا وہ اورنگ زیب کو ایک عظیم الشان کامیاب شہنشاہ قرار دیتے ہوئے خراج عقیدت پیش کیا۔

مہاراشٹرا اسمبلی کے سماج وادی پارٹی کے سینئر ایم ایل اے ابو عاصم اعظمی اورنگ زیب کے متعلق تاریخی حوالوں کے ساتھ دو ٹوک انداز میں کہا کہ دنیا میں ہندوستان کا نام روشن اورنگ زیب کے زمانے میں ہوا۔اس وقت ہندوستان کی GDP 25%  تک پہنچ چکی تھی۔ انہوں نے  اپنی بات حوالوں کے ساتھ ایوان میں ر کھی ۔ اس پر ہنگامہ کھڑا ہو گیا ۔ ابو عاصم اعظمی نے اپنی تقریر میں کوئی ایسی غلط بات نہ کی اور نہ ہی کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں پر کیچڑ اُچھا لا ۔ اس پر حکمران پارٹی( بی بے پی) نے آسمان سر پر اُٹھا دیا اور ان پر اتنا دبائو ڈالا گیا کہ انہیں معافی مانگنا پڑا۔ اور یہ کہتے ہوئے کہ اگر کسی کی دلآزاری ہوئی تو میں تقریر کو واپس لیتا ہوں ۔ بات معافی مانگنے پر یہاں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ /5 مارچ کو انہیں بجٹ سیشن  25کیلئے معطل کر دیا گیا۔

اورنگ زیب نہ کوئی اسلامی خلیفہ تھا اور نہ ہی ہندوستان میں ان کی حکومت اسلامی نظام چلایا کرتی تھی ۔ وہ ایک عام حاکمۃ اسریٰ مغل شہنشاہیت کا چھٹواں بادشاہ تھا ۔ تمام مذاہب کے ماننے والے اسی کی حکومت اور رعایا میں شامل تھے ۔ اورنگ زیب کی زندگی خطرناک چیالنجس کے مقابلے طویل جنگوں کی نبرد آزمائی کے باوجود عدل و انصاف اور عوامی حقوق پر اولین توجہ دی ۔ دنیاکے تمام بڑے مورخین انہیں ایک عظیم مدبر‘ منتظم سربراہ ‘ نا قابل شکست حاکم اور عوام دوست قرار دیتے ہیں ۔ اگر ہندوں سے نفرت ہو تی تو سینکڑوں مندروں ‘ بت کدوںکو جاگیریں اور انعام نہیں دیتے ۔اورنگ زیب کے راجپوتوں کے ساتھ نہ صرف مراسم اور خاندانی تعلقات تھے بلکہ وہ اورنگ زیب کے دیوان خاص مشیروں اور تمام 32 اعلیٰ ذات کے منصب داروں میں شامل تھے ۔ تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر بادشاہ اپنی جوانیوں میںفتوحات حاصل کر تے ہوئے دشمن سے ٹکرانے میں پیش پیش ہوا کرتے تھے ۔لیکن اورنگ زیب نے اپنی ضعیف العمری میں بھی ملک میں کسی بھی محکمہ پر سے اپنی گرفت کو کمزور ہونے نہیں دیا۔ اندازہ کیجئے 91سال کی عمر میں انتقال کیا اور آخری سانس تک بڑی سے بڑی دنیا کی طاقت حکومت اور فوج کے سامنے گھٹنے بھی نہیں ٹیکے ۔حکمت و دانائی مصلحت بہترین تال میل اور ہندوستانی مزاج کے مطابق حکمرانی کی۔

ہندوتوا کے آندھ بھگتوں او رنگ زیب کے قضیہ کو آج بھی فتنہ و فساد کا زبردستی ذریعہ بنانا چاہتے ہیں۔ اورنگ زیب کی روح اور سادہ قبر پر اب سینہ کوپی کرنے سے ملک کا کیا فائدہ ہونے والاہے ۔ 318 سال بعد مسلمانان ِ ہند پر مرہٹوں کی اپنی شکست خوردگی اور زمظلومیت کا رونا رونے سے کیا حاصل ہے ۔ اُس وقت نہ تم تھے اور نا ہم ۔

اورنگ زیب کے عہد میں شیواجی مہاراج ‘ بمشکل 6 سال حکومت کر کے صرف 52 سال کی عمر میں دیھانت کر گئے ۔ اس کے علاوہ ان کے پرنس بہادر سامبھا سبھا جی رائو کو /11 مارچ 1689 ؁ء میں ‘ 23 سال کی عمر میںاورنگ زیب نے سزاموت دی ۔ کہا یہ جاتا تھا کہ شیواجی مہاراج نے 250 قلعہ تعمیر کئے تھے ۔ سوشل میڈیا پر اتنا جھوٹ ڈال رکھا کہ اگر کوئی گوگل پر یہ دریافت کرے کہ شیواجی مہاراج کی حکومت کا جملہ رقبہ کتنا تھا ۔ جواب ملے گا کہ 25 لاکھ مربع کلو میٹر ۔ جبکہ آج کا مہاراشٹرا کل 3 لاکھ مربع کلو میٹری پر محیط ہے ۔ شیواجی مہاراج کے وقت آورنگ زیب ہندوستان کی حکمرانی گجرات ‘ راجستھان ‘ جنوبی مشرقی ہند کے کسی اور شہر اور علاقے سے نہیںکر رہے تھے۔وہ بہ نفس نفیس خلد آبادمیں جو مرہٹواڑہ کاایک حصہ ہے اور مہاراشٹرا کی سرزمین پر واقع ہے ۔ان کا دوسرا پایہ تخت قائم کیا تھا۔ حتیٰ کہ پونا میں بھی اورنگ زیب کے گورنر کامحل ویند کوارٹر تھا ۔ شیوا جی مہاراج کردار کو لھا پوسانگلی مستا را سے منسلک 12 اضلاع پر مشتمل علاقے پر مختصر عرصے کے لئے حکومت کی ۔ ان مراہٹہ سورمائوں نے آخر اورنگ زیب جیسے خطرناک بادشاہ کو اپنے ہی قطعے کے بڑے رقبے پر پورے آب و تاب اور طاقت کے ساتھ 25 سال حکومت کرنے کیوں دیا؟کیوں اورنگ زیب کی حکومت کو تہس نہس نہیں کر دیا۔یہ اورنگ زیب کی حکمرانی کا تعلق ہندو مسلم فرقہ سے ہرگز نہیں تھا ۔ اگر ایسا ہو تا تو شیواجی و سامبھاجی کے بعد دکن کی مسلم ریاستوں بیجا پور اور قطب شاہی حکومتوں کے خلاف فوج کشی کرتے ہوئے مسلم حکومتوںکو کیوں اپنا باز گار بنالیا تھا ۔

اورنگ زیب کی حکمرانی مرہٹواڑہ کے علاقے کے بیچ و بیچ مرہیٹوں کے درمیان کی پیرانہ سالی سن عمری کے باوجود پوری ہوش و حواس کے ساتھ وہ انہیں کے نظروں کے سامنے وہیں پر شہنشاہ آعظم ہند آخری سانس تک بنے رہنے میں کامیاب رہے ۔

دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ اورنگ زیب پر پڑھی جانے والی کتاب’’ آورنگ زیب‘‘ ہے ۔مصنفہ امریکن یونیورسٹی Rutgers University  نیوریارک امریکہ کی تاریخ کی پروفیسر امریکی نثردا Audrey Truschke کی 190 صفحات پر مشتمل کتاب’’ آورنگ زیب‘‘ نے پھر ایک مرتبہ مغلوں کی تاریخ کو روشن کر دیا ۔مورخہ نے تمام تاریخی حقائق کو اپنی تحقیقات کے مطابق کھول کر رکھ دیئے ۔ 2019 میں ہندوستان میں بی جے پی حکومت نے اس کتاب کی رسم اجرائی کی اجازت نہیں دی۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد سے سنگھیوں کے دروغ گو جھوٹے تاریخ نوسیوں کی نیند بھی حرام ہو گئی ہیں ۔

ہندوتوا کی ٹرول آرمی کئی ملین کی تعداد میں اویڈرے امریکی طالبانی بھیس بدل کر کام کرنے والی مسلمانوں کی ایجنٹ اور اس کے شوہر کو لے کر رات و دن گالیاں بکی جارہی ہیں ۔

Penguin Book شائع کرنے والے  ادارے نے اس کتاب کوایک بہترین قومی سطح کی فروخت ہونے والی کتاب قرار دیتے ہوئے سر ورق شائع کیا ۔

مصنفہ نے لکھا کہ تاریخی حوالے جات کازیادہ تر سنسکرت اور فارسی زبان سے آثار قدیمہ کے ریکارڈ سے حاصل کردہ مواد اکٹھا کیا اورپھر کئی جگہ دوسرے مورخین کا مواخذہ بھی کیا اور بعض کی جھوٹی باتوں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں غلط قرار دیا۔

 Audrey Truschke نے واضح انداز میں حقیقت پسندانہ تاریخی جائزہ پیش کرتے ہوئے ہندو مسلم کے زاویہ سے اورنگ زیب کی تاریخ پر نگاہ ڈالنے والے قارئین کی مکمل نفی کی ۔ کتاب کے صفحہ نمبر 127 پر

اورنگ زیب ایک عظیم شہنشاہ تھا جس نے اپنی حکمرانی کے لئے عدل و انصاف کی با بصیرت بلند ترین شعور اور توسیع پسند نظریات کے ساتھ حکومت کی سادہ منکسر المزاج بادشاہ ہندوستان ہے۔ اپنی عبقری دانشمندانہ جرأتمند انہ فیصلوں کے ساتھ عوامی فلاح و بہبود کے لئے تاریخی اقدامات کئے وہیں اس سے کچھ غلطیاں بھی ہوئیں ۔

اورنگ زیب کو کسی ایک خاص صفت ‘ انداز طریقہ حکومت اور فیصلوں کے تناظر میں ہر گز نہیں جانچا جاسکتا ۔ انہوں نے مغل شہنشاہیت کے تاج کو ساری دنیا میں جگمایا اور روشن رکھا جو عام انسانوں کے سوچ و خیال سے بہت باعلیٰ تر ہے ۔

کسی بھی شہنشاہ کو اس کی حکمرانی کے طرز اور کامیاب و ناکام پالیسیوں کے میزان پر تولا جاتا ہے۔

ناگپور کا 17 مارچ کا دنگا بظاہر آورنگ زیب کی قبر کو خلدہ آباد سے ہٹانے کے لئے پرپا کیا گیا۔اگر باریک بینی سے غور سے دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ اسی دن جنتر منتر پر مسلم پرسنل لاء بورڈ نے مجوزہ وقف ترمیمی بل 24 کے خلاف تمام اپوزیشن جماعتوں کی شمولیت کے ساتھ ایک رمزی دھرنا و احتجاج منظم کیا تھا ۔ باوجود رمضان المبارک کے جو اپنے مقصد کے اعتبار سے بہت کامیاب ثابت ہوا ۔

یہ RSS/BJP ‘ ہندوتوا کی قیادت کوناقابل برداشت ہو گیا اور ملک کے عوام کی توجہ بانٹنے کے لئے اسی دن چند گھنٹوں میں مہاراشٹرا میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے وہیں پر VHP کے اشرار کے ذریعہ اورنگ زیب کے نام پر فساد بھڑکانے کا کام کیا گیا ۔وہ پہلے سے ایک خفیہ منصوبہ کے تحت طئے شدہ تھا۔ ملک کی گودی میڈیا نے وقف ترمیمی بل 24-کے مخالفت میں تسلیم کئے گئے احتجاج کو دبانے کے لئے ناگپور نے آورنگ زیب کے نام پر بھڑکائے گئے دھنگے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ۔کئی دن یہ سلسلہ جاری رہا ۔ کئی سو معصوم نوجوانوں کو گرفتار کرتے ہوئے ان پر ملک غداری جیسے خطرناک دفعات کے تحت مقدمات درج کردیئے گئے ۔فہیم خان کا آیت کریمہ کی چادر کو جلانے پر شدید اعتراض کئے جانے پر پولیس و انتظامیہ اس کو وقار کا مسئلہ بناتے ہوئے فہیم خان کو ہی دنگے کا اصل ماسٹر مائینڈ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف ملک سے بغاوت جیسے مقدمات دائر کر دیئے گئے ۔

       No.of Words: 2200

Continue Reading

Blog

مولانامحترم اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری کا قضیہ

Published

on

بسمہٖ تعالیٰ

مولانامحترم اور ڈاکٹریٹ

کی ڈگری کا قضیہ

SMA Doc No.169

17-03-2025

ابوالعزم                                                                                                         

جمہوری ملک ہندوستان میں ہر شہری آزاد ہے اپنے عقل فکر اور عقیدے و سوچ و سمجھ کے مطابق انفرادی یا اجتماعی کام کرے ۔ ایک افسوسناک واقعہ اخبارات کے ذریعہ ہمارے علم میںآیا ہے ۔ پورے ادب و احترام و اکرام کے ساتھ ایک معروف فعال عالم دین اور عوام کے گوش گزار کرنا چاہیے ۔ ندائے حق کے طور پر تمام عقیدتوں ‘ بعض عداوتوں سے پاک تحریر پیش ہے ۔

حیدرآباد میں ایک فعال شخصیت ہے جو اپنی علمی کاوشوں اور خدمت خلق کی سرگرمیوں کے سلسلہ میں مشہور ہیں ۔ مسلم معاشرہ میں علماء اکرام کی کافی قدر و احترام ہے ۔ حال ہی میں ایک مولانا صاحب جو ایک بیت المال کے مئوسس اور سارے ہندوستان میں Social Work کے سلسلہ میں اپنا ماڈل علماء کو سکھانے کی کوشش کر تے رہتے ہیں۔ایک ایسی حماقت کر بیٹھے جس سے ان کی( تجاہل ِ عارفانہ) کھل کر سامنے آگئی۔

روزنامہ سیاست کے 26فروری کے شمارے میں ایک خبر تصویر کے ساتھ شائع ہوئی تھی جس میں جو تفصیلات دی گئی وہ یہ ہیں کہ حضرت مولانا غیاث الدین رشادی صدر صفاء بیت المال کو ان کی گراں قدر خدمات کے عوض میں ہنری مارٹن انسٹیٹیوٹ فار اسلامک اسٹڈیز کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کیرلا کے ایک مشہور پادری

H.G.Dr.Geevarghese Mar Yulios Metropolitan

Chairman Henry Martin Institute Hyderabad

 

 

 

 

کے ہاتھوں دی گئی۔ ڈاکٹر ورگیز نے جرمنی سے مذہبیات میں پی ایچ ڈی اور سنسکرت میں ڈپلوما کیاہے ۔ مد ارس ‘ لندن پیرس کے علاو ہ

 

کئی بڑے چرچس میںپوپ کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں ۔

مولانا محترم ملک کے بڑے علماء ‘ فقہا اور ائمہ کے بہت قریب اور نور نظر مانے جانتے ہیں ۔ صفاء بیت المال کے علاوہ اب وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی صفوں میں نمایاں نظر آرہے ہیں۔ عیسائی مشنری کی جانب سے چلائے جانے والے ہنری مارٹن انسٹیٹیوٹ فار اسلامک اسٹڈیزکے سربراہ سے مولانا رشادی کا ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر نے کے مسئلہ کو یقینا نظر انداز کر دیا جانا چاہیے تھا لیکن بسا اوقات اہل علم کی غلط نظر ملت میں دائرۃ سؤ کے لئے راہ ہموار کرتی ہے ۔ قولوا قولاً سدیدا کے تحت حقائق کو واشگاف کرتے ہوئے چند گذارشات کو پیش کرنا ایک اہم دینی ملی فریضہ قرار پاتا ہے ۔

آپ کی یاد دہانی کے لئے عرض ہے کہ

 ہنری مارٹن کی گذشتہ 40 سال سے زیادہ جاری اسلام مخالف سرگرمیوں سے اسلام پسند تعلیم یافتہ مسلمان اچھی طرح واقف ہیں۔

اس انسٹیٹیوٹ کے متعلق چند تفصیلات قارئین کے استفادہ کے لئے پیش ہیں:

1     ہنری مارٹن انسٹیٹیوٹ کی حیثیت کسی تعلیمی ادارہ کی نہیں ہے ۔ ہنری مارٹن انسٹیٹیوٹ کوئی عصری تعلیمی ادارہ یا جامعہ نہیں ہے ۔ جو اعلیٰ تعلیمی صلاحیتوں کے حامل دانشوروں کو پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کرتاہو۔

 ہنری مارٹن انسٹیٹیوٹ در اصل ایک تبشری مشنری نصرانیوں کا مسلمانوں کو اسلام سے ہٹانے اور دین اللہ سے گمراہ کرنے کا بہت بڑا مصروف طاقت ور مرکز ہے ۔ہمارا اس ادارہ کے سلسلہ میں بڑا ہی گہرا اور مضبوط 40 سالہ مطالعہ ہے جو کسی بھی عصبیت اور بے جا مخالفت سے پاک حقائق کی بنیاد پر مبنی ہے ۔

ہندوستان کے بعض نامی گرامی بڑے مسلم دانشور اور سماجی شخصیات بھی اس کے لائف ممبر اور ڈائرکٹر ہیں۔ سینکڑوں نوجوان لڑکے لڑکیا ں مردو خواتین اس ادارہ کی خاموش سیکریٹ کوششوں کی وجہہ مرتد ہو چکے ہیں۔

یہاں سے آزاد خیال تعلیم یافتہ مسلمانوں یا ملک کے کونے کونے سے بعض بھولے بھالے نوجوانوں کو ٹریننگ اینڈ ڈیولپمنٹ  کے نام پر لا یا جاتا ہے ۔ انہیں یہاں طعام و قیام کی سہولتیں فراہم کر تے ہوئے اسلام سے غیر محسوس طریقہ سے برگزشتہ کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ کئی مسلم تعلیم یافتہ اور اچھے گھرانوں کی خواتین کو خصوصی اسکریننگ کے ذریعہ چن کر امریکہ کو 3 ماہ کے سفر پر مفت روانہ کیا جاتاہے ۔ وہاں دو تا تین ماہ چرچس میں ذہنی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جاتا ہے ۔ پورے امریکہ کی مفت سیاحت بھی کروائی جاتی ہے ۔ جو ان کے (نصرانیت) عقیدہ ‘ نظریات اور خیالات سے اتفاق کر لیتا ہے ۔ پھر انہیں ایک دو تعلیمی صحت یا غربت کے خاتمہ کے لئے جیسے پروجکٹ بھی اپنے شہر اور علاقوں کے لئے دیئے جاتے ہیں اور پھر انہیں سالانہ امداد بھی ملنی شروع ہو جاتی ہے ۔ کئی سال پہلے روزنامہ منصف حیدرآباد میں اس پر ایک خبر بھی شائع ہوئی تھی ۔حیدرآباد کے ایک دعوتی مرکز چلانے والے صاحب بھی اس طرح کا دورہ کر کے آئے ہیں ۔ ان کے خلاف کئی مسجدو ں میں ورقیئے بانٹے گئے ۔

ہمارے سینئر صحافی اس ادارے کی سرگرمیوں سے اچھی طرح واقف ہیں :۔

راقم ایسے بیشتر خاندانوں اور اہل علم سے واقف ہے ۔ جنہوں نے خاموشی سے عیسائیت اختیار کر لی ہے ۔اور ان کے آ لہ ٔ  کار بن کر اس وقت مستقل مسلمانوں کے درمیانتبشری مشنری کے ایجنڈہ کے مطابق سرگرم عمل ہیں۔ ناچیزبعض ایسے علماء سے بھی واقف ہے جو مرتد ہو چکے ہیں ۔ یہ مولوی ایک عرصہ تک ہنری مارٹن میں ہی عربی دانی کے کلاسس لیتے رہے ہیں ۔ بعض کٹھ حجت مولوی یہ جواز پیش کر سکتے ہیں کہ مسلمانوں کے ہزاروں بچے ہر سال کریسچن مشنری اسکولس اور تعلیمی اداروں سے بہترین تعلیم حاصل کر کے نکلتے ہیں ۔ پھر اس میں کیا ممانعت ہے کہ مولانا اس مرکز سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل نہ کریں ۔ کرسچنوں کے ان دونوں طرز کے اداروں میں بہت بڑا فرق پایا جاتا ہے ۔ ان کے عام تعلیمی اداروں میں سیکولر تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ وہاں اسلام مخالف عیسائی تعلیمات وتبشری سرگرمیاں مسلط نہیں کی جاتیں۔ جبکہ ہنری مارٹن کا قیام اس مقصد سے ہوا ہے کہ مسلمانوں کو عیسایت سے قریب کر تے ہوئے اسلام سے مرتد کیا جائے ۔ یہ کوئی معترف الیہ عام تعلیمی ادارہ نہیں ہے ۔جہاں کسی مذہب کے ماننے والوں کے تعلیمی اداروں سے سیکولر تعلیم حاصل کرنا مباح ہے کہ ہمارے علماء ‘ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کریں۔ جبکہ قرآن کریم میں 15 سے زیادہ آیتوں میں رد نصرانیت کی گئی ہے۔

 یہ کہنا مشکل ہے کہ کیا واقع مولانا محترم ہنری مارٹن کی تباہ کاریوں سے واقف ہیں یاواقفیت کے باوجود Ph.D کی ڈگری کی چمک دمک مغشوش کاغذ کے مزورہ ٹکڑے نے انہیں اتنا مضطرب کر دیا کہ وہ مرکز ارتداد پر بنفس نفیس پہنچ کر امام ارتداد کے منحوس ہاتھوں سے حاصل کیا۔

مولانا کو پی ایچ ڈی کی ناکارہ ڈگری حاصل کرنے کاایسا شوق پیدا ہوا کہ وہ سب کچھ بھول گئے کہ اس ادارہ نے اسلام اور مسلمانوں کو گذشتہ 5 دہوں میں کتنا نقصان پہنچایاہے ۔

 اس مسئلہ میں ’’ لکم دینکم وَلِیَ دین‘‘ کے تحت فقہی گنجائش اور رعایت بھی حاصل نہیں ہو سکتی ۔

ابنائے وطن وغیر مسلموں میں دعوتی کام کے زمرے میں بھی یہ شامل نہیں کیا جاسکتا ۔ ائمہ المشرکین سے جو اسلام کے Certified ازلی دشمن ہیں اور صف اسلامی میں مستللین کی حیثیت میں کام کرتے ہیں تو پھر کلمۃ حدود اللہ پار کر نا کسی حال میں جائز نہ ہوگا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسی طرح کی Self Power کے ذریعہ عربوں کا ایک حصہ عیسائی بن گیا جو آج بھی عالم اسلام کے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں۔

ارتداد کے مرکز سے کسی ڈگری کا حصول دعوت الیٰ اللہ یا تکثیری سماج سے خوشگوار تعلقات اور سد بھاونا کے زمرے میں بھی نہیں آتا۔

ایک بہت مشہور عربی کے موظف پروفیسر صاحب جن کا تعلق ایفلو سے تھا جو ان کی دعوت پر امریکہ کے سفر پر تھے امریکہ کو جانے کے بعد وہاں ان کا ایک اخلاقی اور قانونی مسئلہ ہوا سب اچھی طرح واقف ہیں ۔ دانشواران اور اسلامی دینی حلقوں میں ان مذکورہ پروفیسر صاحب کی بڑی بے عزتی اور استھزاء ہوا۔

ہم جیسے بہت سے کم تعلیم یافتہ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ دراصل فتح الباب منکرات کی پہلی کوشش اور حماقت سے کچھ کم نہیں ہے ۔

مذکورہ ڈگری حاصل کرنے کے معاملہ پر خاموشی بہتر تھی لیکن ایک معروف نامور عالم دین کی یہ جرأت اور حرکت نے ہر غیرت مند حساس مسلمان کو چونکا دیا  اور شرمندہ کردیا۔ ایک اسلام سے نا واقف یا کمزور ایمان والا کوئی دوسرا مسلما ن ایسی حرکت کرتا تو ہمیں اتنی تشویش نہ ہوتی ۔ چونکہ  مولانا ایک ایسے ادارہ کے سربراہ ہیں جو مسلمانوں کے زکوٰۃ ‘ صدقات اور عطیات سے چلایا جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ مولانا کے اضلاع اور دوسری ریاستوں میں بھی محبان مولویوں کی اچھی خاصی تعداد ہے ۔ اپنا دائرہ اثر بڑھانے کے لئے مولانا نے گذشتہ 20 سالوں میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ صفاء بیت المال کے ذریعہ سال بھر خدمات کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے ۔ اب تو مسلم پرسنل لاء بورڈ کی صف میں بھی انہیں جگہ مل گئی ہے ۔ مولانا محترم کی اس بے جامعیوب حرکت نقصان ‘ ضرر  و  اثر مستفید ہونے والے غرباء و مساکین پر بھی پڑ سکتا ہے ۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ ہندوستان میں 1113 تسلیم شدہ یونیورسٹیاں ہیں کوئی بھی سرکاری نیم سرکاری یونیورسٹی سے ہنری مارٹن کی Ph.Dکی ڈگری تسلیم شدہ نہیں ہے ۔ہنری مارٹن کسی بھی Ph.D کی ڈگری جاری کرنے کا مجاز ہی نہیں ۔ سوائے کسی عیسائی مذہبی یونیورسٹی کے کوئی بھی ادارہ بغیر کسی بھی معترف یونیورسٹی کے Approval کے اس طرح کی Ph.D کی کوئی ڈگری جاری نہیں کر سکتا ۔اگر کرتا ہے تو وہ بو گس اور غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے ۔ عیسائیوں کے مذہبی اداروں نے یہ بوگس طریقہ اپنایا ہے کہ نادان بھولے بھالے مولوی حضرات کو اس طرح Ph.D کی ڈگری عطاء کرنے کے نام پر خوش کردیا جائے اور اایسی تبشری سرگرمیوں میں ان کی فوٹوز اور نام خوب استعمال کیا جائے ۔

حضرت مولانا کی اس لا علمی اور مرتدین سے قربت کا کیا شرعی جواز ہو سکتا ہے ؟ ہمیں پتہ ہے کہ مولانا کے زیر اثر مفتیان اکرام کی ایک طاقتور ٹیم ہے ہو سکتا ہے کشف کے ذریعہ وہ کوئی شرعی جواز اور گنجائش نکال لیں گے ۔ ہو سکتا ہے اس طرح کی لیپا تھوپی سے وقتی طور پر دل کو خوش کرنے کے لے آخری درجے کے مولوی سے کوئی فتویٰ کے نام سے برأت نامہ حاصل کرلیں لیکن مرتدین اور منافقین کی خباثتیںوگناہ دائمی ہے جب تک کہ اس مسئلہ میں مولانا محترم رجوع نہیں کر لیتے یا پھر کسی پیر طریقت کی توبہ کی مجلس میں بیٹھ کر اپنے اس گناہ عظیم کی معافی چا ہ لیں ۔ لیکن یہ بھی یقینا مسئلہ کا حل نہیں ہے عوامی سطح پر کھلم کھلا غلطی گناہ کا ارتکاب ہوا ہے اس کا ازالہ اور رجوع بھی عوامی سطح پر ہی ہونا چاہیے ۔

کس مردود نے مولانا کے قلب و ذہن میں یہ وسوسہ ڈالا کہ مسلم دشمن نصرانیوں کے ادارے سے ایک جعلی ڈگری حاصل کی جائے ۔بعض دینی اداروں اور ایسے تعلیم یافتہ مسلمانوں کو استعمال کر تے ہوئے عیسائی مشنری کے لئے مسلمانوں کے درمیان جو رکاوٹیں ہیں وہ اس طرح کے لوگوں کو استعمال کر تے ہوئے دور کرنے کی بھر پور کوشش کی جاتی ہیں ۔

آخر کار مولانا نے کئی دینی کتابیں اپنے ملازمین و شاگردوں کی مدد سے مدّون کی ہے۔ حضرت مولانا منبر و محراب فائونڈیشن آف انڈیا کے سربراہ بھی ہیں۔ ایسا کیا ہو گیا کہ اسلامی خدمات کا اچانک رخ عیسائی مشنری کی طرف ہو گیا ۔انہیں آخر کیوں کر ہنری مارٹن انسٹیٹیوٹ کی جعلی Ph.D کی ڈگری کو حاصل کرنے اور اپنی فوٹو کے ساتھ روزنامہ میں خبر بھی شائع کروانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ۔

تبشری اداروں کے متعلق شعور بیدار کرنا علماء اور اسلامی و دینی ذہن رکھنے والوں کا اولین فریضہ ہے بجائے اس کے کہ عامۃ الناس کو اس کی تباہ کاریوں سے آگاہ کرا تے اور متنبہ کرتے خود مولانا Ph.D کی جعلی ڈگری کے لئے بنفس نفیس اسلام دشمن انسٹیٹیوٹ پہنچ گئے ۔مولانا ہو سکتا ہے کہ کوئی فقہی جواز نکال لیں ‘لیکن مذکورہ انسٹیٹیوٹ کے سلسلہ میں کوئی بھی فقہی عالم بھی جائز ہونے اور حلّت کا جواز نہیں دے سکتا ہے ۔کیونکہ اہل علم و عقلاء و غیور مسلمان اس ادارہ کی اسلام دشمن سرگرمیوں سے بخوبی واقف ہیں۔

مولانا کو چاہیے تھا کہ اگر اعلیٰ تعلیم کے حصول کا یقینی طور پر اتنا شوق آپ رکھتے ہیں تو مولویوں کے لئے مولانا آزاد یونیورسٹی یا ا نسٹیٹیوٹ آف فارن لینگویجس تارناکہ ‘عثمانیہ یونیورسٹی اور حیدرآباد یونیورسٹی جیسے مشہور مایہ ناز دانش گاہیں شہر میں موجود ہیں ۔ وہاں امتحان د ے سکتے ۔ اگر Ph.D میں داخلہ مل گیا تو پھر یہ ان کی علمی کاویشیں قاعدے و قانون کے مطابق ہوں گی۔جس میں شہرت ‘ ریاکاری اور مشرکین سے ساز باز کا کوئی شائبہ تک بھی نہیں ہوگا۔

دو وجہ سے مولانا رجوع کرلیں :ایک تو آپ نے تبشری ادارہ و مرکز سے ایک پادری کے ہاتھوں  بوگس ڈگری حاصل کی۔دوسرے یہ کہ یہ ایک بوگس نا کارہ کوڑی کی ردی میں ڈالنے کی پی  ایج  ڈی کی ڈگری ہے ۔

تیسرے یہ کہ ایک بوگس جعلی ڈگری کو اخبار میں شائع کرانے کی کیا ضرورت پیش آئی۔

٭     مولانا نے معصومیت میں نوجوان نسل کے لئے یہ ایک انتہائی معیوب مثال چھوڑی ہے ۔

٭     یہاں یہ شک ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کہیں مولانا کے بھولے پن کو دیکھ کر یہ مشنری کے بشپ نے مسلمانوں کے درمیان کام کرنے اور نصرانیوں کے لئے جگہ بنانے کی قبیح ذمہ داری تو نہیں سونپی ہے ۔؟

٭     اس ملک میں ہم بعض بڑے رہنمائوں و مولویوں کو بھی دیکھ رہے ہیں کس طرح موالی اعداد ء اسلام کی حیثیت سے منظم پیمانے پر جم کر صف اسلامی میں ریشہ دوانیوں کا کام انجام دے رہے ہیں۔ کہ اس کی اتنی شرمناک تفصیلات ہیں کہ اہل ایمان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی ۔

                                                وما علینا الیٰ البلاغ

17-03-2025

تعلیق:

II  :  2017 میں میری ملاقات ایک بڑے مسلم دانشور سے دہلی میں ہوئی تھی ۔ ان سے یہ میری پہلی ملاقات تھی ۔ میرے ہمراہ اور بھی 4 افراد تھے جو ان کے آفس پر پہنچے تھے ۔ موصوف کا آفس دہلی کے ایک چرچ کے کمپائونڈ میں ہے ۔ موصوف نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا آپ ہنری مارٹن انسٹیٹیویٹ سے واقف ہیں کبھی آپ کا جانا ہوا ہے۔؟بہت اچھا بڑا مایہ ناز انسٹیٹیوٹ ہے ہمیں وہاں ضرور جانا چاہیے اور ان سے تعلقات بڑھانا چاہیے ۔ پھر کئی آیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے قرآن میں عیسائیوں کے سلسلہ میں جو فضیلتیں آئی ہیں اس پر بھی روشنی ڈالی ۔وہ میرے جواب کے انتظار میں تھے میں کیا رد عمل ظاہر کرتا ہوں۔ میں نے کہا محترم آپ جس انسٹیٹیوٹ کی بات کر رہے ہیں اس سے میں 40 سال سے بخوبی واقف ہوں ۔یہ موضوع بہت طویل ہے اور اس پر تفصیلی گفتگو کرنے سے تلخ کلامی اور بد مزگی پیدا ہو گی ۔اب تو میں آپ کا مہمان ہوں پھر کسی وقت اس موضوع پر ضرورگفتگو کرنے حاضر ہو تا ہوں ۔ آج اِسے رہنے دیں۔ میں آپ کو کئی گھنٹے اس سے متعلق کڑوی سچ کی تفصیلات سنا سکتا ہوں ۔ پہلے دن ازرائے احترام میز بان ہم ان کے آفس سے نکل گئے ۔ دوسرے دن کال آئی ہم دوبارہ ان کے آفس پہنچ گئے ۔ پھر میں نے انہیں ہنری مارٹن انسٹیٹیوٹ کے سلسلہ میں ایسی ایسی باتیں سنائی ڈیڑھ گھنٹے تک ان کے پاس جواب دینے کے لئے ایک لفظ نہیں تھا۔ میں نے کہا میں اچھے خاندان کے مرتد ہونے والے مرد وخواتین کی ایک فہرست آپ کو دے سکتا ہوں۔

مجھے پتہ ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھ جو بھی مسلمان اس ادارہ سے جڑے ہیں ہر سال ایک یا دو مرتبہ بڑے اعزاز کے ساتھ آپ لوگوں کوبیرونی سفر پر مفت روانہ کیا جاتاہے ۔ اس کے علاوہ آپ کو آپ ہی کی طرح کے لوگوں کو عیسائی مشنری سے نقد امداد بھی ملتی رہی ہے ۔آپ ایک جانب قرآن اورزکوٰۃ پر پورے ملک میں کام کرتے ہیں دوسری جانب اس منظم مرتد کرنے والے ادارہ کی سر پرستی بھی کرتے ہیں ۔ آپ کے پاس اس کا کیا شرعی و فقہی جواز ہے ؟ان کا چہرہ سفید ہو چکا تھا ۔ چہرہ پر ہوائیں اڑرہی تھیں ۔ میں جس موصوف کی بات کر رہاہوں وہ ہنری مارٹن انسٹیٹیوٹ کے لائف ڈائر یکٹر ہیں۔ جہاں تک ہنری مارٹن انسٹیٹیوٹ کی پی ایچ ڈی کی ڈگری کا تعلق ہے یہ بوگس اور اپنے آپ کواور معصوم بھولے بھالے مولویوں کو بے وقوف بنانے کا بڑی سستی شہرت کا ذریعہ ہے ۔

Continue Reading

Blog

مساجد میں خواتین کی نماز کا مسئلہ

Published

on

الوجیز  صلاۃ  المراۃ  فی المساجد

مساجد

میں

خواتین کی نماز کا مسئلہ

مولانا محمد رضی الدین ندوی

ناظم الدین فاروقی

تمام حقوق محفوظ ہیں

نام کتاب

مساجد میں خواتین کی نماز کا مسئلہ

مصنفین

        باب اول                               باب دوم

              ناظم الدین فاروقی                   مولانا محمد رضی الدین ندوی

طباعت                    :         /14 مارچ2025 ‘ بروز جمعہ

                                      ۱۳ ؍رمضا ن المبارک ۱۴۴۶ھ

صفحات                             :         26

قیمت                       :         50/-روپے

ناشر                       :         شعبہ نشرو اشاعت

سلامہ ایجوکیشنل ویلفیر اینڈ ایجوکیشنل ٹرسٹ

ملنے کے پتہ

سلامہ اکیڈمی

سلامہ سنٹر ‘ پرانی حویلی حیدرآباد

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد اللہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین

افتتاحیہ

مساجد سے خواتین کو جوڑنے کے سلسلے میں ہمارے علماء ،فقھاء ، مفتیان اور تعلیم یافتہ دانشور وں کے درمیان یہ مسئلہ موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ اس مسئلہ میں حنفی مسلک کے فقہا اس بات کے سختی سے قائل ہیں کہ خواتین کامساجد میں آنا مسلک حنفی کے مطابق مکروہ تحریمی ہے۔ جبکہ دوسرے مسالک کے فقہا او ر ائمہ اکرام اپنا دوسرا دو ٹوک صاف مؤقف رکھتے ہیں اور خواتین کی مساجد میں نماز کو مباح قرار دیتے ہیں۔ چند سالوں تک یہ مسئلہ صرف مسلکی بحث تک محدود تھا۔ مگر اب ملک کے سنگین حالات کو دیکھتے ہوئے فقہا احناف سے اس فروعی ذیلی مسئلہ پر نظر ثانی کرنے کیلئے ملت کے تمام حلقوں سے پُر زور مطالبہ ہورہا ہے۔

اس موضوع کے بعض بنیادی نکات پر اس تفصیلی مضمون میں روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ امیدہے کہ قارئین اس کا مطالعہ فرماکر مسئلہ کی حساسیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کے حل کیلئے پورے فہم و ادراک کے ساتھ کام لیتے ہوئے اپنے اسلامی شعور کو بلند و ارفع کریں گے ۔اس سلسلہ میں دو اہم تحریریں مدد گار ثابت ہوں گے ۔

کسی مسلک کا فقیہ یہ نہیں کہتا ہیکہ دوسرے مسلک میں دی گئی اجازت باطل و ناجائز ہے۔ہندوستان میں اسلامی اجتماعیت کو مضبوط بنائے رکھنے اور دس کروڑ خواتین کی  روحانی ارتقاء میں شمولیت کو یقینی بناتے ہوئے انھیںمساجد سے جوڑ نا وقت کا اہم تقاضہ ہے ۔

اس مضمون میں مولانا محمد رضی الدین ندوی کی ایک اہم تحریر شامل کی گئی ہے۔ طوالت سے بچنے کیلئے موضوع پر اختصار کے ساتھ اظہار خیال کیا گیا۔ امید ہے کہ قارئین  موضوع کا مطالعہ کریں گے۔

                                      والسلام

                                         ناظم الدین فاروقی

14-3-2025

۱۳؍رمضان المبارک ۱۴۴۶ہجری

باب اوّل

ناظم الدین فاروقی

 

 

مساجدسے خواتین کو جوڑنے میں

جو فروعی و فقہی رکاوٹیں ہیں

انہیں دور کیا جا ئے !

 

1       ہندوستان جیسے ملک میں جہاںمسلمان ایک ہندو تکثیری سماج میں رہتا ہے۔ ایک سازش و فتنہ و منصوبہ کے تحت مسلم خواتین کو باضابطہ ٹارگٹ کرتے ہوئے انھیں دین اسلام سے برگزشتہ کرنے کی ہر جانب سے کوشش کی جارہی ہے۔ ہندوستانی عام مسلمان گھرانے اسلامی تعلیمات سے لا علمی ، جہالت اور سماجی فرسودہ روایات میں گرفتار ہیں۔ ماں باپ ،بھائی بہن خودکم علمی کا شکار ہیں ،اسلامی بنیادی تعلیمات کے ساتھ دینی گھریلوتربیت کا بھی گھروں میںشدیدفقدان ہے۔

گھر کے مردحضرات جمعہ کے دن مساجد میںخطبات جمعہ یا مساجد میں ہونے والی تقاریر سن لیا کرتے ہیں اور رمضان المبارک میں حافظ و قاری صاحب کی نماز تراویح میں قرأت بھی سماعت کرلیتے ہیں۔

ہماری عورتوں،بچوں، نوجوان لڑکیوں کیلئے ایسا کوئی انتظام نہیں ہے۔جو مردوں کی طرح مساجد میںہونے والے خطابات ،تذکیر ،وعظ و نصیحت سے استفادہ کرسکیں۔ فقھی فروعی شدیداختلافات سے اوپر اٹھ کر اس وقت ُفقہا ،ائمہ و صلحا ء کو یہ طئے کرنا چاہیے کہ امت کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوںکو مسجدوں سے جوڑنے کیلئے کیا ابتدائی تدابیر ہوسکتے ہیں۔تاکہ وہ مسجدوں میںہونے والی تذکیر، درس، وعظ و نصیحت کی مجالس سے استفادہ کرسکیں۔ سوشل میڈیا ‘ I.T کے ذریعہ فحش و منکرات کاسیلاب خواتین اور نوجوان لڑکیوں میں اُمڈ پڑا ہے اور  لڑکیوں میںارتداد کے چیالج کا مقابلہ بہترانداز میںاسی وقت ہوسکے گا ۔

جب ہم خواتین اسلام کو مسجدوں سے جوڑ دیں اور ہرمسجدکے علیحدہ حصے میںانکی نماز کیلئے ایک مستقل تمام بنیادی ضروریات سے آراستہ حصہ ان کیلئے مختص کردیں تو ملت کے آدھے حصہ یعنی پچاس فیصدخواتین کو راست طور پر بلاکسی روک ٹوک کے استفادہ کرنے کا موقع مل سکے گا ۔

ہم جانتے ہیں بعض دینی جماعتوں نے دوسری دینی جماعت کی مساجد کو محض اس لئے آگ لگادی اور منہدم کردیاکہ ان بعض مساجد میں خواتین کی نمازوں میں شرکت کیلئے علیحدہ حصہ پوری بنیادی سہولت کے ساتھ بھی بنایا گیا تھاچونکہ کہ ان کے مسلک و فقہ کے اعتبار سے عورتوں کا مسجدوںمیں آنا مکروہ تحریمی ہے۔ اللہ کے گھروں کو منہدم کرنا اور آگ لگانا یہ سوائے جہالت مسلکی شدت پسندی کے اورکچھ نہیں ۔ اس کا تعلق نہ ہی اللہ کی رضا اورجنت کے حصو ل سے ہوسکتا ہے۔ ’’ الفتنۃ  اشد  من  القتل ‘‘  ہماری عورتوں کے ساتھ اغیار واسلام دشمن طاقتوں کی طرح یہ لوگ سلوک کررہے ہیں اور اب بھی جانے انجانے طور پر شیطان رجیم کے آلہ کار بن کرغیر ضروری اپنے مسلک کی برتری و تسلط کے ذریعہ ملت کی اجتماعیت کو اپنی انتقامی کاروائیوں کے ذریعہ نقصان پہنچارہے ہیں۔

کسی فقہی‘فروعی نکتہ کو بنیاد بناکر خواتین کو مساجد کی نمازوں سے روکنے کیلئے تنازعہ کھڑا کرنا فتنہ و فسادبر پا کرنا پولیس ، کچہری و عدالت بازی کرنا سراسر جہالت اور بیجا مسلکی تسلط ، اور مذہبی شدت پسندی ہے ۔ملت اسلامیہ میں غیر ضروری افتراق پیدا کرتے ہوئے جھگڑے کرنے سے نہ دنیا میں امت اسلامیہ کو مضبوط اور طاقت ور بنایا جاسکتا ہے اور نہ آخرت میں  اللہ تبارک و تعالیٰ ان جہالتوںپر ہم سے راضی ہوگا۔

  • یہ مقلد و غیر مقلد کا مسئلہ نہیں ہے:

بعض حضرات جب اسی مسئلہ میں عصری تناظر میں کوئی دلیل دینے سے قاصر رہتے ہیں تو پھر مقلد اور غیر مقلد کا مسئلہ چھیڑ دیتے ہیں ۔ امت کے مفاد میں وکالت کرنے والے باحثین و عقلاء کو ایک گروہ میں شامل کرتے ہوئے’’ غیر مقلد ین ‘‘ گروہ کے طور پر انہیں نشانہ ملامت بنایا جاتا ہے ۔جو شریعت اسلامی کے مزاج کے خلاف ہے ۔  

عالم اسلام میں جن مساجد میں خواتین کا مستقل علٰحیدہ انتظام ہے ان مساجد کے انتظامی کمیٹی امام و خطیب اور مصلیان اکرام کو دنیا کے بڑے دینی جامعات کے دارالافتاء یا کوئی مفتی آعظم انہیں گمراہ ‘ بدعتی یا خارج اسلام قرار نہیں دیتا ۔ اس کا صاف مطلب ومعنی یہی ہے کہ یہ نمازوں میں اجتماعی سہولت فراہم کرنے والے یا نمازوں میں شرکت کرنے والی خواتین نہ گناہ گار ہوں گی اور نہ انہیں تو بہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ مولانا محمد رضی الاسلام ندوی نے فرمایا کہ مسئلہ صرف افضل اور غیر افضل کا ہے۔ملاحظہ ہو باب دوم ۔

 

2       اب پہلے کی طرح ملک کے حالات نہیں رہے، جہاں جب چاہے مسلمان بلا خوف و خطر نماز کے وقت کسی بھی جگہ نماز ادا کرلیا کرتے تھے۔غور کرنے کی بات ہے کہ ہماری جو خواتین دفاتر اور کارخانوں ،یونیورسٹیوں و تعلیمی اداروں میں ملازمت کرتی ہیں یا وہ لڑکیاں جو کالجس ،اسکولس اور انسٹی ٹیوشنس و یونیورسٹیوں میںتعلیم حاصل کرتی ہیں ۔ یا دفاتر اور کسی کام سے باہرنکلی ہوتی ہیں۔ انھیں اپنے مقام ملازمت یا تعلیم کی جگہ نماز ادا کرنے کی جگہ نہیں ہوتی کئی بی جے پی ریاستوں میںعبادالبقر اور ہندوتوا اشرار و انتظامیہ ،پولیس کے ساتھ ملکر سختی سے نماز پڑھنے والوںپر قانونی کاروائی کے ساتھ ہنگامہ کھڑاکرتے ہوئے اہانت تذلیل کرتے ہیں۔

ہندتوا کے بعض اشرارگاؤں اور بستیوں میں ہماری بچھڑی ہوئی لڑکیوں پر نظریں جمائے ہوتے ہیں۔ لو ٹرائپ میں گھیر کر انھیں اسلام اور اپنے خاندانوں سے برگزشتہ کرنے کی کامیاب کوشش جاری ہیں۔ اگر کوئی ہندولڑکی مسلمان ہوجاتی ہے تواس مسلم لڑکے یا مرد پر لو جہاد جیسے خطرناک قوانین کاالزام لگا کر جیل بھیج دیا جاتاہے۔ لیکن جب بعض بھولی بھالی مسلم لڑکیوں اور عورتوں کو ہندتوا کے مذکورہ اشراربھگالے جاتے ہیں تو ان پر کوئی کاروائی نہیںکی جاتی۔ اس طرح کے واقعات پوری ملت کیلئے بار بار رسوائی کا سبب بن رہے ہیں۔

اسلامی دینی، دعوتی اور اصلاحی ،جماعتیں و گروپس بھی محدودیت کا شکار ہیں۔ ہر گھر تک انکی پہنچ فی الوقت ممکن بھی نہیں ہے۔ ملک کی یہ جماعتیں خواتین اور لڑکیوں میں اتنے فعال نہیںہیں، جتنا کہ انھیں ہونا چا ہیے تھا بلکہ بعض دینی حلقوں میں خواتین میں کسی بھی دینی کام کو ناپسندکیا جاتا ہے۔ بغیر کسی اجتہاد اور فقہی و مسلکی بڑی تبدیلی کے مومنانہ حکمت،دانائی کو بروئے کار لاتے ہوئے فوری طور پر ہماری خواتین کو مساجد سے جوڑنے کیلئے جنگی خطوط پر انتظام کرنے کا آغاز کردینا چاہیے۔ورنہ اس فتنہ کے دور میں ہمارے گھروں کو فسق و فجور سے نہیں بچایا جاسکتا ، اسلام بیزاری اور ارتداد کے سیلاب کو روکنے اور معاندانہ قوانین کامقابلہ کرنے کی طاقت ہم میں نہیںہے اور نہ ہی فوری طور پر کوئی اور راستہ اجتماعی متحدہ طورپر تلاش کرنے کی مسلم قیادت اور علماء میںدلچسپی نظرآتی ہے۔ اسکا واحد حل معمولی سے اختلاف کے ساتھ جو فوری خالص فقہی شرعی حل فقہا ‘ علماء و دانشور اسلامی اجتماعیت کے تحفظ کے لئے نکال سکتے ہیں تو وہ یہی ہیکہ ہماری کوشش یہ ہو کہ خواتین کو مساجد سے جوڑ دیا جائے اور فروعی فقہی مسلک میں دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے گنجائش نکالی جائے۔

1    نوازل الفقہ کسے کہتے ہیں ؟

کسی بھی المیہ (کارثہ ) مصائب و مشکلات اور حاکم الجائر اور ظلم و جور کے دور میں مسائل و مصائب کے تناظر میں جو فہم ادراک ‘ صالح فکر اور عمل صحیح کے ساتھ فقہہ مرتب کی جاتی ہے اسے’’ نوازل الفقہ ‘‘ کہتے ہیں۔

’’نوازل الفقہ‘‘ الکیان المجرم کے عہد اور ایسے ہی سنگین ‘ پُر خطر حالات میں امت کو تمام خطرات اور بدترین نقصان سے بچاتے ہوئے اسلام میں روکے رکھتے ہوئے ان کی انفرادی ‘عائلی ‘ اجتماعی مصیبتوں اور مظالم کی بد ترین زہر آلود فضاء میں تکاتل اجتماعی اور صبرو ثبات و صمود کے ساتھ انھیں مضبوط سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنانے کیلئے فقہا،صلحا و مفکرین فروعات کو نظر انداز کرتے ہوئے شرعی رہنمائی کرتے ہیں اور بعض معاملات میںجائز کے دائرہ کار کو کسی قدر وسعت اختیار کرتے ہوئے گنجائش فراہم کرتے ہیں۔ ہلاکت خیز ماحول میں فتح الباب کو اہم اور ضروری قرار دیتے ہیں۔ اس کیلئے وہ حق بجانب مختار اور مجاز بھی ہیں۔

اس سلسلے میں دینی طبقے میں صحیح شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور اس مسئلہ کو  آئمہ و فقہا ء ا حناف سے رجوع کرکے نظر ثانی کیلئے بار بار درخواست کرنی چا ہیے تاکہ وہ نوازل الفقہ کے مطابق خواتین کومساجد میں تراویح کی نماز یا دیگر نمازوں کو ادا کرنے کیلئے علیحدہ حصہ میں خاص و عام اجازت دینے کے لئے تیار ہو جائیں ۔

تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ خواتین کی مسجد میں نماز کی ادائیگی کو دنیا کے تمام علماء و فقہا ء کبار مباح قرار دیتے ہیں۔اور دوسری جانب بر صغیر کے ہمارے علمائے احناف غیر ضروری فروعی مسئلہ میں مسلکی سختی اپنائے ہوئے ہیں۔

2    نماز کی ادائیگی اور طریقہ کار میں اختلاف:

اس سے ہمیں 4اہم مقاصد حاصل ہوسکیں گے۔

۱۔  خواتین کی روحانی ارتقاء   ۲۔   دعوت و اصلاح

۳۔  اجتماعی ارتکاز            ۴۔    خواتین کا تحفظ اور بقاء

3۔       اس وقت عالم اسلام میں رائج مسالک میںنماز کی ادائیگی و طریقہ کار میںاور اوقات میں اختلاف اور فرق ہے۔ ابھی حرمین شریفین میں نماز تراویح کی20   رکعات گھٹا کر 8  رکعات کردی گئیں ہیں۔

اس پر علماء احناف زبردست اور شدید تنقید کررہے ہیں۔ مختلف مسالک کے فقہا اپنے اپنے طریقہ کی ’’ طریقۃ علی منہج النبوہ  ‘‘  قرار دیتے ہیں۔ خواتین کے مساجد میں نماز کی ادائیگی کے مسئلہ کو بھی امت اسلامیہ ہند کو درپیش چیالنجس کے مقابلہ کیلئے  ’’نوازل فقہ ‘‘کے تحت عزم، حکمت ودانش اورمومنانہ فراست و بصیرت کے ساتھ توسیع اختیار کرتے ہوئے بلا کسی تفریق  ِمسالک کے ، تمام بیت اللہ ،مساجد کے دروازے خواتین کیلئے اگر کھول دیں تو یہ ایک خوش آئند تبدیلی ہو سکتی ہے۔

خواتین کی مسجد میں نماز کی ادائیگی کا مسئلہ جنت و دوزخ کا نہیں ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ اگر ہوسکتا ہے توعام حالات میں افضل اور غیر افضل کا ہوگا۔ پھر ایمرجنسی حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اسے لازم و اجباری بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ 

3     عالم اسلام کے علماء سے مسئلہ کو رجوع کریں:

ہم اگر جامعہ ام القریٰ اور جامعہ مدینہ منورہ اور جامعہ ازہرکے اس سلسلے میں اختیار کردہ موقوف کو تسلیم نہیںبھی کرتے ہیں تو اس مسئلہ کو عالمی علماء کونسل سے رجوع کیا جائے۔ عالمی علماء کونسل جو ایک آزادصاحب ثقہ علمائے اکرام کا بااعتماد متحدہ وفاق ہے۔ یہ علمائے اکرام کا وفاق سعودی عربیہ کی شاہی حکومت کے زیر اثر نہیں ہے۔ اور نہ صرف ایک مسلک کے پابند ہیں ۔شرعی مسائل میں اپنی مدلل آزاد فکر رکھتے ہیں۔

علما ء کونسل میںتمام مسالک کے اکابر علماء جڑے ہوئے ہیں ۔ اس کے صدر شیخ ڈاکٹر علی محمد صلابی ہیں۔ جن کی 200 سے زیادہ ضخیم کتابیں عالم اسلام میں شہرت رکھتی ہیں۔ یہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ پنج وقتہ نمازیں، جمعہ اورتراویح کی باجماعت نمازوں میں مسجد کے مخصو ص حصے میں عورتوں کی شرکت مباح ہے۔عصر حاضرمیں اس پرپابندی عائد کرنے کااختیار کردہ مسلک مجہول اور ضعیف ہے۔

 

4     حرم مکّہ شریف ہمارے لئے واضح دلیل و مثال ہے:

 اس موضوع پر گفتگو اور بحث کومضبوط دلائل کے ساتھ اسے مزید جامع بنایا جاسکتا ہے۔حرم مکی میں آج بھی معتمرین و حجاج اکرام مرد و خواتین چاہے کسی بھی مسلک اور فقہ کے ماننے والے ہوںمخلوط طواف کرتے ہیں اور فرض نمازوں یا تراویح کی نماز کے موقع پر پیچھے کی جانب علیحدہ علیحدہ حصوں میں نمازادا کرتے ہیں۔وہاں نبی کریم  ؑ کے عہد مبارکہ سے نماز میں جماعتوں کی ترتیب ایسی ہی ہوتی ہے۔

اگر ہم اوپر سے لئے گئے حرم شریف کی ویڈیو پر طائرانہ نظر ڈالیں تو تقریباً ہمیشہ ہی حجاج اکرام‘ معتمرین و نمازیوں میں 35 تا % 40 حجاب میں ملبوس خواتین نظر آئیں گی۔

 فرق اتنا ہی ہیکہ وہ مردوںکے شانہ بہ شانہ نہیں کھڑی ہوتیں بلکہ ان کی صفیں علیحدہ حصے میں قائم کی جاتی ہیں۔مسجد نبوی میں کچھ انتظامی تبدیلی کے ساتھ خواتین کا مسجد میںنمازادا کرنے کیلئے ایک مکمل حصہ خواتین کیلئے مختص کردیا گیا ہے۔ جہاں زائرین پنج وقتہ نمازوں میں شریک ہوتی ہیں اور نفل نماز یں بھی ادا کرتی ہیں۔ زمانے کی تبدیلی اور شدید ضرورت کے تحت مسلم خواتین اور لڑکیوں کو مساجد اور اسلام سے جوڑے رکھنااشد ضروری ہے۔

بلا کسی تفریق مسالک و مذاہب کے ایشیاء ، افریقہ ، یورپ اور امریکہ کے بیشتر بڑے شہروں میںمساجد میں خواتین کا علیحدہ علیحدہ انتظام آج بھی عام سی بات ہے۔

 

 

  1. A) عالم اسلام میں توسیع کے ساتھ یہی مسلک مساجد میں رائج ہے۔

(B      متشدد علماء احناف سے ہم یہ درخواست کرتے ہیں کہ غیرضروری مسلکی تشدد کو ختم کرتے ہوئے معتدل سہل، قابل قبول مؤقف اختیار کریں۔

عالمی علماء کونسل سے اس مسئلہ کو رجوع کریں جہاں  56مسلم ممالک کے علاوہ ساری دنیا کے علماء اس کے اراکین میں شامل ہیں۔

(C      تراویح میں خواتین کی شرکت کے عدم جواز یا جواز کو آپسی جھگڑے کا موضوع بنانے سے بہتر ہیکہ افہام و تفہیم اور ’’  نوازل فقہ ‘‘  کے تحت جو شرعی گنجائش ہے اس کا بھرپور استفادہ کیا جائے۔

5     مسلم پرسنل لاء بورڈ کا واضح دو ٹوک اسلامی  مؤقف

 چند سا ل پہلے پونے کے ایک مسلم بھائی نے سپریم کورٹ میں یہ مرافعہ داخل کیا تھا کہ مساجد میں مسلمان عورت مرد کی تفریق اور صنف نازک سے ناانصافی کرتے ہوئے انھیں مسجدوں میں داخلہ کی اجازت نہیںدیتے۔ اس مقدمہ میںمسلم پرسنل لاء بورڈ جو مسلمانان ہند کا ایک متحدہ پلیٹ فارم ہے۔ دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں یہ جواب داخل کیا تھا کہ اسلام میں خواتین کے مسجد میں آنے پر کوئی ممانعت اورپابندی نہیں ہے۔ یہ تحریری جواب بطور سند سپریم کورٹ آف انڈیا میں محفوظ ہوچکا ہے۔

خواتین کے مسجد میں نماز کی ادائیگی کے مسئلے میںاس دانشمندانہ اجتماعی جواب کے بعد تو اب یہ مسئلہ ختم ہوجانا چاہیے تھا۔!!جو ہمارے قدیم عظیم دینی جامعات ہیں یا ان کے یہاں بڑے فقہاء اسلام ہیں ،  ان سب کی ذمہ داری ہیکہ زمانے کی تبدیلی ، حالات کی سنگینی و صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے مقلد و غیر مقلد کے مسئلہ کو برف دان میں ڈالتے ہوئے بعض فقہاء کی فروعی و ذیلی باتوں میںبروقت تبدیلی لائیں اور پوری ذمہ داری کے ساتھ فتح الباب برائے خیر خدمت انجام دیں تو یہ امت کے حق میںبہت بڑا اہم فیصلہ ہوگا۔

تاریخ گواہ ہے پر آشوب حالات میںہمارے بڑے بڑے آئمہ اکرام ،  فقہائے عظام نے چیالنجس کا مقابلہ کرنے سے نہ کبھی پہلو تہی کی اور نہ ہی ضد اور مکابرہ میں فرار کا راستہ اختیار کیا بلکہ انھوں نے اس کاقرآن و سنت کی روشنی میں بہتر ین حل امت اسلامیہ کے سامنے پیش کیا۔

اختصار کے ساتھ اس سلسلے میں سنجیدہ غور و فکر کیلئے آخر میںچند ضروری حسب ذیل نکات پیش ہیں۔

۱۔ خواتین کوجمعہ ،پنج وقہ نمازوں اور تراویح کی نماز کی عالم اسلام میں اورخاص کر سعودی عرب میں مکمل اجازت ہے۔ آئمہ ،علماء کبار حرمین شریفین جامعات کے اساتذہ اور شیخ المشائخین’’ کرسی استاذ دکتور‘‘ ( جن کے ماتحت اسکالرس اپنی پی ایچ ڈی تکمیل کرتے ہیں۔)بھی اسے جائز قراردیتے ہیں۔

۲۔ تمام فقہا و مسالک میں صرف شدت پسند، علمائے احناف اسے مکروہ تحریمی قرار دیتے ہیں۔ جبکہ شوافع ، حنابلہ، اہل حدیث اورتمام اعتدال پسند فقہا اور علماء اکرام اسے جائز قرار دیتے ہیں۔

۳۔عالمی علماء کونسل بھی خواتین کے فرض، جمعہ اور تراویح کی باجماعت نماز میں شرکت کو جائز و مباح قرار دیتے ہیں۔

 

۴۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی مجلس شریعہ نے بھی اسے مباح قرار دیا ہے۔

۵۔ خواتین اسلام کی روحانی ارتقاء کیلئے اسطرح کے فوری عصری اقدامات لازمی قرار پاتے ہیں۔

چاہے وہ علماء اکرام ومولویان ہوں ‘اسلامی جماعتوںکے ذمہ داریا کارکن ہر کوئی خندہ پیشانی سے آپسی اُخوت اکرام مسلم کے ساتھ پیارو محبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایمان و احتساب کہ میزان پر مؤثر ، مدلل و زن داربات کو تسلیم کرلیں۔

اس میںامت اسلامیہ کے سواد اعظم کا مفادپنہاں ہے۔ مصالح العباد ہمیشہ مقدم ہے۔ کسی بھی مصالحہ فرد ،خاندان ، جماعت میںمسلک یا خصوصی گروہ پرملت کا مفاد ہمیشہ مقدم ہے ۔

 سنجیدہ جائزہ کے بعدموجودہ حالات میںخواتین کو پنچ وقتہ نمازوں ‘ جمعہ اور تراویح کی نماز میں شرائط وپابندی شریعت کے ساتھ شرکت کی عام اجازت ہی اسکا واحد حل ہوسکتا ہے۔

اگر اس فروعی مسئلہ میں فقہاء ‘ علماء اکرام توسیع کا راستہ اختیار کریں تو انشاء اللہ اس کے بہت جلدحوصلہ افزاء نتائج حاصل ہوںگے اور یہ آئندہ نسلوں کے لئے عظیم شرعی‘دینی اسلامی خدمت ہوگی۔                       

                                       وما علینا الا البلاغ

 

 

باب دوم

 

 

     

مولانا محمد رضی الدین ندوی

  

تراویح کی نماز میں

 مساجدمیں خواتین کی شرکت کا مسئلہ

’’دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں دو برس قبل 2023 میں مجلس شرعیہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ایک سمینار میں عورتوںکی تراویح کی نماز اورمسجد میں تراویح کی نماز میں شرکت کا مسئلہ زیر بحث تھا۔ جس میں مسجد میںعورتوں کی تراویح کی نماز کو مباح قرار دیاگیا۔ اس سلسلے میں مولانا محمد رضی الدین ندوی کا بڑا ہی اہم تشفی بخش جواب سوشیل میڈیا اور روز نامہ ’’خبریں ‘‘کے پورٹل پر جاری کیا گیاجس میں مسجدوں میں نماز تروایح میںخواتین کی شرکت کا مطلوبہ رویہ کیا ہے۔؟ کے عنوان سے جاری کیا گیا جیسے علماء اکرام ،مساجد کمیٹیوں او ر عامۃ المسلمین کے استفادہ کیلئے یہاں پیش کیا جارہا ہے۔‘‘

ابھی رمضان المبارک شروع ہونے میں چنددن باقی ہیں،ابھی سے بہت سی خواتین اور مرد حضرات کی طرف سے یہ سوال کیا جارہا ہے کہ کیا خواتین کسی خاتون کی امامت میں نماز تراویح پڑھ سکتی ہے۔؟ اور کیا خواتین نماز تراویح میں شرکت کیلئے مسجد جاسکتی ہیں۔؟ ان سوالات کے پیچھے تنازعات کی خبریں ہیں۔ کچھ لوگ خواتین کو باجماعت نماز تراویح سے جبراً روک رہے ہیں۔ بعض مقامات پر خواتین کئی برس سے باجماعت تراویح پڑھ رہی تھیں، لیکن اب انھیں روکا جارہا ہے۔ ایک صاحب نے لکھا ہے کہ کچھ خواتین تراویح کی نما ز مسجد میں اداکرنا چاہتی ہیں۔ اس کیلئے مسجد کمیٹی سے گزارش کی گئی تو کمیٹی نے مان بھی لیا۔مگر کچھ لوگ اسے غلط سمجھتے ہیں اور مخالفت کررہے ہیں۔ اس صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے ۔؟   خاموش رہیں یا پولیس میں شکایت کرکے پروٹیکشن لیکر خواتین کومسجد میں تراویح کی نماز پڑھنے کی سہولت فراہم کریں۔ ؟میں نے انھیں منع کیا کہ معاملے کو پولیس تک لیجانے سے  اجتناب کرنا چا ہیے اور تنازعہ سے بچتے ہوئے خواتین کیلئے الگ کہیں تراویح کا انتظام کردینا چاہیے۔مناسب معلوم ہوتا ہیکہ اس مسئلے کی کچھ شرعی وضاحت کردی جائے ۔

اس سے قبل اس پہلو کی طرف توجہ مبذول کروانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ الحمد اللہ خواتین اور لڑکیوں میں دینی بیداری آئی ہے اور ان میں دین کی تمام تعلیمات پر عمل کرنے کا جذبہ پیدا ہورہاہے۔وہ قرآن کی مجلس منعقد کررہی ہیں ۔ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کررہی ہیں اور اپنے روحانی ارتقاء کو بھی بڑھارہی ہیں۔ان کے اس جذبہ کی قدر کرنی چا ہیے ۔ اور انھیں ہر ممکن سہولیات فراہم کرنی چا ہیے۔

فقہاء احناف کہتے ہیں کہ عورتوں کی جماعت، خواہ اس کی امامت کوئی عورت ہی کیوںنہ کرے فرائض اور نوافل دونوں میں مکروہ تحریمی ہے۔ (الدرالمختار : 1/565)

 اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ امام کا مقتدیوں سے آگے رہنا واجب ہے ۔ چونکہ عورت وسط صف میں کھڑی ہوتی ہے، اس لئے ترک واجب لازم آتا ہے۔

یہی رائے مالکیہ کی بھی ہیکہ ان کے نزدیک کسی عورت کا عورتوں کی جماعت کی امامت کرنا درست نہیں ہے۔البتہ شوافع اور حنابلہ کے نزدیک عورت دوسری عورتوں کی امامت کرسکتی ہے۔ کتب احادیث سے ثابت ہیکہ امہات المؤمنین حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ ؓ  عورتوں کی جماعت کی امامت کرتی تھیں۔ وہ صف سے آگے کھڑی ہونے کے بجائے اس کے وسط میں کھڑی ہوتی تھیں ۔

 (مصنف ابی شبیہ ،89/2/88   روایت نمبر4989، 4991 ۔۔۔۔ یہی فتویٰ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے بھی منقول ہے۔

(مصنف عبدالرزاق 3/ 140 روایت نمبر  :  5083)

  اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت نماز میں عورتوںکی امامت کرسکتی ہے۔ حضرت اُم سلمہؓ کے عمل کی نقل کرنے والی حضرت اُم حسنؓ صحابیہ ہیں۔اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ عمل منسوخ ہوگیا تھا۔ اسی طرح فقہ حنفی میں عورتوں کے نماز ادا کرنے کیلئے مسجد جانے کو مکروہ  تحریمی کہا گیا ہے۔ جبکہ دوسرے فقہاء جائز قرار دیتے ہیں۔ دو برس قبل مجلس تحقیقات شرعیہ ، دارالعلوم ،ندوۃ العلماء لکھنؤ کے فقہی سمینار میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا تھا ، غور و خوض کے بعد خواتین کی مسجد میں نماز کی ادائیگی کو مباح قرار دیا گیا تھا۔ فقہی اختلافات کو تنازعہ کا موضوع نہیں ہونا چا ہیے۔ مسالک کے اختلاف میںمعتدل رویہ، یہ ہیکہ ہر شخص آزاد ہے، جس مسلک پر چاہے عمل کرے، لیکن اسے دوسروں پر اپنے پسندیدہ مسلک کوتھوپنے کی اجازت نہیں ہے، تمام فقہا نے مسالک کے اختلاف کو حق و باطل اور جائز و نا جائز کا پیمانہ نہیں بنایا ہے۔ بلکہ صرف افضل اور غیر افضل کی بات کہی ہے۔ کسی مسلک کا فقہ یہ نہیں کہتا کہ وہ دوسرا مسلک باطل اور ناجائز ہے۔ اس بناء پر اس معاملے میں شدت پسندی کا مظاہرہ کرنے سے بچنا چاہیے ۔ معتدل رویہ یہی ہیکہ اگر مسجد وں میںتراویح کی نماز ہورہی ہے اور وہاں عورتوں کا انتظام ہو تو وہ اس میں شرکت کر سکتی ہیں۔ لیکن اگر گھروں میںتراویح کی نماز ہورہی ہو اورکوئی خاتون حافظہ قرآن ہو، اسے قرآن کا خاصہ حصہ یادہو تو، وہ قرآن سناسکتی ہے اور اس کی امامت میں عورتیں نماز پڑھ سکتی ہیں۔ حافظہ قرآن نہ ہو تو بھی عام حالات میں بعض فقہاکے نزدیک ایک عورت دوسری عورتوں کی امامت کرسکتی ہے۔ اس لئے اس سے روکنا مناسب نہیں ہے۔

’’ بشکریہ سوشل میڈیا پورٹل روزنامہ خبریں‘‘

 

تعلیق نمبر   1

یہ مسئلہ افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کانہیں ہے ، جہاں حنفی مسلک کے شدت پسند فقہا نے اپنی اپنی گرفت امت پربنائی ہوئی ہے کہ ذرہ برابر کسی نے فقہ حنفی کی روایات سے ہٹنے کی کوشش کی تو زبردست تنازعہ کھڑا ہوجاتا ہے۔اور جنگ و جدال و فتنہ و فساد کا ماحول گرم ہوجاتا ہے۔ یہ اسلام کے معتدل مزاج کے خلاف روش ہے۔ اب وقت آچکا ہیکہ حنفی فقھاء اپنے رویہ پرنظر ثانی کرتے ہوئے ہندوستان کے حالات کے تناظر میں توسیع اختیارکریں۔

تعلیق نمبر2

خلافت عثمانیہ کے دورمیں تقریبا کم و بیش 500سال تک ترکی مسلک حنفی کا عالمی مرکز تھا۔ مفتی اعظم ،چیف جسٹس آف ترکی میں ہمیشہ حنفی ہی ہوا کرتے تھے۔ حنفی مفتی اعظم کی جانب سے دئیے گئے مشوروں اور فیصلوں کوسلطان عبد الحمید ثانی کے دور میں جب انھیںیکجا کرکے مجلات کی شکل میں شائع کیا گیا توانکی تعداد 90جلدوں پر مشتمل تھیں جو سلطان کی نگرانی میںتیار ہوئیں۔

اس وقت عالم عرب میں حنابلی، مالکی ،شوافع آبادیوں کی اچھی خاصی تعداد تھی۔باب عالی پیالیس استنبول میں مستقل مقرر مفتی اعظم ، ظفر اللہ کے پاس یہ شکایت وصول ہوا کرتی تھی کہ حنفی سلطان ، دوسرے مسالک کے سلسلے میں عدل و انصاف سے کام نہیں لے رہے ہیں۔ عرب عوام اسطرح کی مسلکی ،مذہبی پالیسی سے بیزار ہیں۔ ایسے عظیم اسلامی ملک میںبھی احناف نے حالات کو دیکھتے ہوئے فروعی تبدیلی لاتے ہوے خواتین کیلئے تمام مساجد میں خصوصی گنجائش فراہم کی جو آج تک جاری ہے۔

کئی صدیوں تکمسلک احناف کے شیخ الاسلام ترکی ہی میں ہوتے رہے۔ عالمی سطح کے حنفی مسلک کے امام شیخ محمودآفندی کا 23 جون2022 کو 91 سال کی عمر میں استنبول ترکی میں انتقال ہوا۔ ہندوستان کے مشہور حنفی فقیہ   العصرنے بھی ان کے ہاتھ پر بیعت کی ہے ۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردغان بھی ان سے بیعت لی ہے ۔

مسلکی ،فروعی Issues اسلام کے محکمات میں شامل نہیں ہیں۔َ جہاں شرعی طور پر اختلاف کی گنجائش ہے وہیں اسے ترک کرنے کی بھی اجازت حاصل ہوتی ہے۔ فلسطین سے لیکر ملیشیاء ، انڈونیشیا تک ان تمام ممالک کے مساجد میں خواتین کیلئے علیحدہ گوشہ مختص کیا جاتا ہے۔ اس فعل خیر کو ہمارے ممالک بھی اپنانے میں کوئی گناہ و شرعی جرم نہیں قرار پاتا۔

                                واللہ اعلم بالثواب

ختم شد ہ

Continue Reading

Trending