Politics

تنظیم رابطہ عالم اسلامی میں ایک نئی روح پھونکنے کی ضرورت

Published

on

بسمہ تعالیٰ

NPA  DOC: 0077

Dated: 06-12-2020

تنظیم رابطہ عالم اسلامی میں ایک نئی روح پھونکنے کی ضرورت

ناظم الدین فاروقی

رابطہ عالم اسلامی  کے وزرائے خارجہ کی 47 کانفرنس نیامےنیجر میں 27 تا 29 نومبر2020  کومنعقد ہوئی ۔ اس کانفرنس کا افتتاح مسٹر محمد اسوفولو دصدر نیجر نے کیا ۔ OIC کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر العثمین نے مہمانوں کا استقبال کیا اور  OICکی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی ۔

محترمہ پرنس ریم الھاشمی وزیر امور خارجہ متحدہ عرب امارات نے اپنے ابتدائی تقریر میں اپنے ملک کے موقوف کو دہراتے ہوئے کہا کہ اسلام مذہب ہے رحم و صلہ رحمی کا اوراسلام دوسرے مذاہب کا ادب و احترام اور ان سے انسانی بنیادوں پر دوستانہ تعلقات کی ترغیب دیتاہے۔ اسلام ہمیں انتہا پسندی اور دہشت گردی سے روکتا ہے۔ امن اور ترقی ہمارا ایجنڈہ ہے۔ کسی بھی قسم کی مذہبی ‘ شدت پسندی کو عصر حاضر میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔ اپنے دانشمندان سیاسی و سفارتی فیصلوں اور تعلقات کی بنا ٔ پر امارات نے اپنا منفرد مقام بنایا ہے۔ جو لوگ ایسے انسانی ‘ قومی ‘ وطنی حقوق کے لئے جدوجہد کررہے ہیں ہم  اصولی طور پر ان کے ساتھ ہیں ۔ فلسطین کا مسئلہ بھی پُر امن طور پر حل ہونا چاہیئے اور ان کے جائز مطالبات کو اقوام متحدہ کے قراردادوں کی روشنی میں قبول کرنا چاہیئے ۔وغیرہ۔

رابطہ کے ممبران کے درمیانی حالیہ امارات کے اسرائیل سے کئے گئے سیاسی ‘ سفارتی ‘ عسکری ‘ صیانتی ‘ صاحتی معاہدات کے وجہہ اضطراب دیکھا گیا اور کئی ارکان نے امارات کے خود ساختہ عالم اسلام کے مفادات کو نقصان پہنچانے والے فیصلوں و پالیسیوں پر شدید افسوس و ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے دیکھا گیا ۔

رابطہ عالم اسلامی میں سعودیہ عربیہ کو ہمیشہ ایک قائد کی حیثیت حاصل رہی اور سعودی عربیہ نے طویل عرصہ تک رابطہ کے اراکین ممالک کے اقتصادی امور کو بہتر بنانے کے لئے کئی مرتبہ خطیر مالی امداد و Funding کرتے رہا۔ سعودیہ عربیہ کا عالم اسلام میں ہمیشہ ایک برادارانہ و ہمدردانہ سلوک رہا ۔ سعودیہ عربیہ کو افریقی و ایشیا ئی ممالک بڑی قدر کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں ۔ لیکن حالیہ عرصہ میں محمدبن سلمان کی پالیسیوں میں جو بنیادی تبدیلی رونما ہوئی اور ملک کی خارجہ پالیسی دنیا کے طاقتور ممالک کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ گئی ۔مندوبین میں یہ احساس دیکھا گیا ہے سعودیہ عربیہ کی غیر دانشمندانہ پالیسیوں کو عالم اسلام کے مفادات ‘عزت ‘ ناموس کو بھینٹ چڑھا کر نافذ کرنے کی کوشش کی جو سب کے لئے حیرت انگیز تھی ۔اَراکین رابطہ کو سعودیہ عربیہ سے ہرگز یہ توقع نہیں تھی کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کا دائمی دشمن صیھونی ملک اسرائیل کے ساتھ عجلت میں جو قریبی دوستانہ تعلقات ہموار کرلے گا ۔ عالم اسلام کو ایک جھٹکہ لگا اور صدمے کا شکار ہوئے ۔ سعودیہ عربیہ بار بار یہ اعلان کررہا ہے کہ سعودیہ کی فلسطینی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔سعودی عربیہ کی حالیہ خارجہ پالیسی سےقبلہ اول اور اس کی آزادی کے تمام سیاسی ‘ سفارتی بین الاقوامی کوششوں کو دھکہ پہنچا ۔لیکن سب اس سے واقف ہیں کہسعودیہ عربیہ نے مقبوضہ علاقوں میں محصورفلسطینی عوام کو انسانی بنیادوں پر جاری ماہانہ امداد کو امریکہ اور اسرائیل کے اشارے پر بند کردیا ۔ 27فلسطینی نمائندے جو سعودی عربیہ کے دورے پر تھے انھیں گرفتار کرکے ان پر سنگین الزامات لگا کر موت کی سزا دی جانے والی ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سعودیہ کو اسلام اور مسلمانوں کے مسائل سے اب کوئی دلچسپی نہیں رہی ۔اس کے علاوہ یغور اور روہنگیا مسلمانوں اور کشمیر کے سلسلہ میں سعودیہ عربیہ کی خاموشی اور سکوت پر ہر کسی نے دبے الفاظ سوال اٹھائے ۔

اس 47 ویں وزرا ٔ خارجہ کانفرنس میں جو اہم بات محسوس کی گئی وہ یہ ہے کہ سعودی و خلیجی ممالک کی پالیسیوں سے شدیداختلاف کرنے والے ممالک تونس‘ الجیریا‘ مراقش ‘ قطر ‘ ترکی ‘ ایران ‘ پاکستان ‘ ملیشیأ ‘ لیبیا نے مسلمانانِ عالم کے مسائل کے سلسلہ میں اپنا متحدہ موقف بڑے ہی واضح انداز میں ڈٹ کر پیش کیا ۔ پاکستان نےکشمیر کے مسئلہ کو اٹھانے اور اجلاس میں پیش کرنے میں سفارتی کامیابی حاصل کی ۔ وزرأ خارجہ کانفرنس کے ایجنڈے میں کشمیر کا مسئلہ شامل نہیں تھا۔ موثر لابنگ کے ذریعہ اس نقطہ کو شامل کرلیا گیا۔ خلیجی ممالک کی سرد مہری کے باوجود کشمیر میں ہونے والے مظالم و زیادتیوں اور دفعہ 370 کی تنسیخ کے خلاف متحدہ طور پر ایک آواز میں قرارداد منظور کی ۔اجلاس میں یہ صورت حال دیکھتے ہوئے سعودیہ عربیہ نے بھی اپنا موقوف نرم کیا اور قرارداد کی تائید کرنے پر مجبور ہوگیا۔ 

امارات کے تعاون سے 5 سےز یادہ مسلم ممالک میں بلا وجہہ فوجی آپریشن جاری ہیں ۔ مسلم ممالک سے امارات کا دور کا بھی تعلق نہیں وہاں بھی بد امنی اور سیول وار کے لئے بے تحاشہ پٹرول ڈالر کی دولت صرف کی جارہی ہے ۔کانفرنس کے شرکأ  کا احساس تھا کہ اسلام دشمن استعماری طاقتیں بعض خلیجی ممالک کو اپنے Proxy Warکے لئے استعمال کررہی ہیں ۔ جس سے مسلم ممالک کا شدید نقصان ہورہا ہے ۔ آسٹریلیا ‘ فرانس‘چین‘ برمأ‘  اسرائیل کے خلاف جو موقف سعودیہ عربیہ کو اختیار کرنا تھا اس سے قصداً اعراض کیا گیا۔ جس کی وجہہ سے مسلمانانِ عالم کو مایوسی کا شکار ہونا پڑا۔

ا س اجلاس کے بعد سے سعودیہ عربیہ کی پالیسی میں تبدیلیاں عیاں ہورہی ہیں۔سعودیہ عربیہ  ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنی پرانی مسلمان دوست پالیسی پر واپس لوٹ رہا ہے ۔ ٹرمپ کے داماد کشر نے قطر اور سعودیہ عربیہ کا دورہ کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان آپسی قدیم رشتوں کو فوری بحال کرنے کی خواہش ظاہر کی سعودیہ عربیہ ‘ ترکی ‘ پاکستان ‘ ایران ‘ قطر سے دوبارہ اپنے رشتے استوار کرنے میں کوشاں نظر آیا۔

اقوام متحدہ UNOکے بعد دنیا میں کوئی بڑی بین الاقوامی تنظیم ہے تو وہ رابطہ عالم اسلامی (Organization of Islamic Countries) OIC ہے۔ تمام 57 مسلم ممالک اس کے رکن ہیں اور روس ‘ تھائی لینڈ ‘ اقوام متحدہ و یورپی یونین کےمستقل نمائندے یہاں مندوبین کی حیثیت سےشرکت کرتے ہیں ۔ رابطہ عالم اسلامی کا قیام 1969 میں ہوا تھا اس کا صدر دفتر جدہ سعودیہ عربیہ میں ہے ۔مسلمانان عالم کو ہمیشہ ہی سے رابطہ سے بڑی امید یں وابستہ ہیں ۔ہر تین سال میں اجلاس ہوتا ہے ۔ ا س کے علاوہ سالانہ خصوصی میٹینگیں بھی منعقد کی جاتیں ہیں ۔

رابطہ عالم اسلامی ایک کلچرل و سوشیل اور غیر سیاسی تنظیم ہے۔ اراکین رابطہ کے درمیان کئی تضادات و سیاسی ‘ سفارتی اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔ OIC کسی بھی مسلمانوں کے بین الاقوامی امور اور مسائل میں بہت محتاط رویہ اختیار کرتا ہے۔ ممبران میں کئی ممالک میں بادشاہت‘  کئی میں ڈکٹر شپ اور  بعض ممالک میں جمہوریت ہے ۔ اپنے اپنے قومی مفادات اور علاقائی صورت حال و چیالنجس کو ملحوظ رکھتے ہوئے رابطہ کی میٹنگیں اور کانفرنس میں حصہ لیتے ہیں ۔ یہ ہی وجہہ ہے کہ رابطہ عالم اسلامی بہت کم مسلمانوں کی ایک متحدہ آواز کے طور پر دنیا میں بلند مقام بنانے میں ناکام رہا ۔ رابطہ عالم اسلامی صرف قراردادوں اور تجاویز کی حد تک اپنے آپ کو محدود رکھتا ہے ۔ رابطہ کا شروع ہی  دن سے کوئی خاص  قراردادوں کے عملی نفاذ میں ناکام رہا۔

دنیا کے مختلف قطعوں میں مسلمان ظلم و بربریت کا شکار ہیں ۔ ان کی فریاد سُننے والا دنیا میں کوئی نہیں ہے ۔رابطہ ‘ نہ فلسطین ‘ نہ روہنگیا ‘ نہ یغور ‘ نہ صومالیہ ‘ افغانستان ‘ شام ‘ اعراق کے مسائل کو  حل کرسکا خود ممبر ممالک آپس میں گروپوں میں منقسم ہیں ۔ عرب لیگ کے 22ارکان بھی رابطہ کے ممبر ہیں ۔ ممبر اراکین کے درمیان جاری تنازعات اور ہنگاموں میں بھی رابطہ شروع سے لا تعلق  رہا ہے۔اس طرح کا ڈھیلا ڈھالا نظم نظم شاید عالمی طاقتوں کے دباؤ میں بنایا گیا ہے۔ کسی رکن کو ملک کی کوئی سہولت نہیں ۔ کوئی کسی کو جواب دہ نہیں ہے۔

اگر رابطہ مضبوط اور طاقتور ہوتا تو OIC مسلم بالخصوص عرب پڑوسی ممالک کے آپسی جنگوں یا اندرون ملک ہونے والی خانہ جنگیوں پربآسانی کنٹرول حاصل کرسکتا تھا ۔ رابطہ کو سیاسی امور سے علیحدہ رکھ کر بڑی نا انصافی کی گئی ۔ عالمی طاقتیں نہیں چاہتی تھیں کہ رابطہ OIC دنیا میں ایک طاقتور مسلم بلاک بن کر اُبھرے یا مسلم ممالک اپنے آپسی تنازعات خود حل کرلیں اور اختلافات کو بھلا کر ایک دوسرے سے تعاون ‘ صبر و تحمل کے ذریعے سب کو یکساں ترقی کے مواقع فراہم کریں ۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ رابطہ کو عالم اسلام کی ایک متحدہ آواز کا مضبوط پلیٹ فارم بنایا جاتا ۔ دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو میڈیا اور دشمنان کا پروپگنڈہ اور اسلامی فوبیا جاری ہےاسے روکنے میں 57 مسلم ممالک بُری طرح ناکا م ہوچکےہیں ۔ جب فرانس میں گستاخانہ کارٹون کا مسئلہ آیا اور صدر فرانس میکرون نے اسلام کے خلاف تحقیر آمیز بیانات دیئے تب بھی بڑے خلیجی و مشرقی وسطیٰ کے ممالک نے لب کشائی کی جرأت نہیں کی ۔ بلکہ الٹا مسلمانوں کو اپنی سونچ و فکر بدلنے کی خواہش کی ۔مسلم عوام کو اپنے طور پر چھوڑ دیا کہ وہ احتجاج کرتے رہیں ۔ اس سے اسلام دشمن عناصر کے حوصلے اور بلند ہوگئے۔

رابطہ عالم اسلامی کو ایک موثر طاقتور متحدہ پلیٹ فارم بنانا چاہیئے ۔ دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں چیالنجس کا مقابلہ کرنے کے لئے تمام ارکان ایک دوسرے کی مدد اور باہمی تعاون کی فضا بنانا چاہیئے ۔ جب تک رابطہ عالم اسلامی کو اپنے قومی مفادات سے اونچا اٹھ کر ممبران ملک ایک عظیم طاقت بنا سکتے ہیں ۔ بعض ممالک کو اندرونی معاملات میں بھی کئی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ OIC سے اپنی سفارت کاری و ڈپلومیسی کے ذریعہ اسلام و مسلم دشمن ممالک پر اثر انداز ہوسکتے ہیں ۔ غربت اور جہالت کا خاتمہ ممبران ممالک میں ڈیجیٹل انقلاب برپا کیا جائے اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لئےٹکنالوجی ‘ تعلیمی ‘ معاشی ترقی ‘ صنعتی Industry, Infrastructure, Innovation‘ زراعتی و صنعتی پیداوار کو بڑھایا جائے ۔ درآمدات و برآمدات پر تمام مسلم ملکوں کے لئے بڑا مبسوط پروگرام ترتیب دیا جائے اور ایک مشترکہ منہج بنایا جائے اور غریب بچھڑے ہوئے ممالک کو ترقی کی شاہراہ پر لانا تمام مالدار ممالک کی اخلاقی‘ ملّی ذمہ داری ہے۔ اگر یہ کام نہ کرسکیں ‘ حکمت و دانائی سے کام نہیں لیا گیا تو عالم اسلام پستی و زوال سے دوچار ہوجائے گا ۔ جن ممالک میں بادشاہت ہے ان حکمرانوں کو بلا وجہہ خائف نہیں ہونا چاہیئے ۔ مسلم ممالک اور مسلم اقلیتوں کے بقا و تحفظ اور ترقی کا ایک موثر ایجنڈہ تیار کرنا چاہیئے ۔ رابطہ عالم اسلامی میں نئی روح پھونکنے کی ضرورت ہے تا کہ درپیش چیالنجس کا مقابلہ کرنے قدرتی و انسانی وسائل ٹکنالوجی کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے ترقی کی منزلوں کو طئے کیا جانا چاہیئے ۔ 

                                          Total No of Words: 1,816

Release on : 06-12-2020      

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Politics

اسرائیل کی حماقت اور حماس کی حقیقت

Published

on

بسمہ تعالیٰ

اسرائیل کی حماقت اور حماس کی حقیقت

         از:  ناظم الدین فاروقی

NPA  DOC No : 170

Dated: 01-11-2023

کرۃ الارض پر فلسطینیوں کی نسل کشی کے لئے غزہ کو دور جدید کے جہنم میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ لہو کے آبشار ‘ شہدا کی بے گور و کفن لاشیں ‘ ہزاروں علاج کے لئے تڑپتے زخمی  معذور ‘ بھوک و پیاس سے نڈھال عوام ‘ خوفناک بمباری اور توپوں کے گولوں سے بچنے کے لئے شمال سے جنوب  اور جنوب سے مشرق و مغرب  دوڑتے دوڑتے  زندگی  سے تھک چکے ہیں ۔لیکن پھر بھی دشمن سے لڑنے کا ولولہ ماند نہیں پڑا ہے۔عورتوں ‘  بیواؤں ‘ یتیم بچوں ‘ زخمی مریضوں کا کہرام مچا ہواہے ۔ ہر 7 منٹ میں ایک بچہ فوت ہورہاہے ‘ مرنے والوں میں 70% عورتیں اور بچے ہیں ‘ غزہ میں21 ویں صدی کا بدترین انسانی بحران پیدا ہوگیا ہے ۔ اموات کی تعداد کا کانٹا تیزی سے ہر7 منٹ میں ایک بچے کی موت کے ساتھ شہادت پانے والوں کی تعداد  میں اضافہ ہی کرتا جارہا ہے ۔ 12 ہزار سے زیادہ معصوم فلسطینی شہادت  پا چکے ہیں ایک لاکھ سے زیادہ زخمی ہیں  اور بار بار اسرائیلی فوج  کی وارننگ کی وجہہ سے محلہ کا محلہ خالی کرکے جان بچانے کے لئے بھاگ رہے ہیں ۔ وزارت سیول سروس غزہ کے مطابق آدھے سے زیادہ آبادی یعنی تقریباً 12 لاکھ بے گھر ہو کر سڑکوں ‘ گلی ‘ کوچوں میں زیر سماں بے سہارا ہجوم ‘ بے آب و غذأ و دوأ سکتہ میں ہے ۔ جائیں تو کہا ں جائیں ؟ کھلی جیل میں اسرائیل وحشیانہ بمباری کے ذریعے معصوم فلسطینی ہونے کا  بدترین انتقام لے رہاہے۔ قتل عام و غارت گیری  کی بدترین تجربہ گاہ بنا کر ظلم و بربریت  کی چکی میں پیسا جارہاہے ۔عالمی رائے کو بدلنے کے لئے پروپگنڈے کے ذر یعے دنیا میں مظلوم فلسطینیوں کو مجرم اور وحشی عرب کے طور پر بد نام کرنے امریکہ کے کئی بڑی میڈیا کمپنیوں جیسے ڈیجیٹل  مارکٹنگ  کمپنی Semrush  وغیرہ کوتشہیر  کا کنٹراکٹ دیا گیا ۔ اسکے ذریعہ  فلسطینیوں  کو وحشی ‘ بد معاش عرب  کے طور پر ان کا تشویۃ ( بدنام) کرنے کے لئے کئی بلین ڈالر عالمی میڈیا وار پر اسرائیل خرچ  کر رہا ہے دنیا میں اک سو بیس کروڑ  1.2 بلین (Billion)  ناظرین تک غزہ کی جنگ کی فیک ‘جھوٹ پر مبنی ویڈیوز اور واقعات و معلومات  پہنچائی جاچکی ہیں ۔ اسرائیل کے ایک آئی ٹی I.T  ماہرمحقق کے مطابق 2 ملین سے زیادہArtificial Intelligence   کے ذریعہ فیک نیوز  تیار کرکے دنیا میں سوشل میڈیا پر گشت کروایا جارہا ہے ۔ ایک عربی چیانل نے کئی اس طرح کے فرضی قدیم ویڈیو کلیپنگس  کو واشگاف  کیا گیا ‘ حال ہی میں یہ بتلایا گیا ہے کہ امرحکہ کے ہزاروں فوجی ایر کرافٹ سے اسرائیل ایر پورٹ  پہنچ رہے ہیں ۔ ان مناظر کو فیاکٹ چیک کے ذریعہ ٹسٹ کیا گیا تو پتہ چلا کہ یہ دوسال پرانی ویڈیو ہے ۔ ٹھیک اسی طرح 40 بچوں کے سر کاٹنے کی افواہ پھیلائی  گئی  اور ایک فیک ویڈیو  میڈیا میں گشت کر وادیا گیا ۔جس کے ذریعے حقیقی واقعات پر پردہ ڈالتے ہوئے پوری دنیا میں اپنے معصومیت کے ڈنکے پیٹتے ہوئے نسل کشی کو ضروری اور اپنے دفاع کے حق میں  لازمی اور وقت کی ضرورت قرار دے رہے ہیں۔

دنیا کا چاہے پرنٹ میڈیا ہو  یا ڈیجیٹل‘ ان تمام بڑی کمپنیوں  کے مالکین یہودی ہیں  وہ اور زور و شور سے اسرائیلی ظالمانہ پالیسیوں کو خوبصورت بنا کر بھر پور ساتھ دے رہے ہیں لیکن یہودی مذہبی پیشواؤں‘   یہودی دانشوروں کی بڑی تعداد اب فلسطینیوں کی آزادی  کے حق میں ایک طاقتور تحریک چلا رہے ہیں ۔ 

نیو یارک پوسٹ 29؍ اکٹوبر کے شمارے میں پہلے صفحہ پر سرخیوں میں خبر شائع کی گئی کہ دو ہزار اسرائیلی مشرقی وسطیٰ کے وحشیوں سے لڑنے کے لئے روانہ ہوئے ہیں ۔ اسی اخبار میں ایک گھریلو عورت کو اس کے لوّر (Lover)  نے قتل کرکے اس کے جسم کے ٹکڑوں کو فریج میں رکھ دیا ‘ جس کی اطلاع پولیس  کو ایک ماہ بعد ملی وحشی کون ہیں ؟ سالانہ 35  ہزار سے زیادہ معصوم لوگ امریکہ میں گن فائر میں ایسے ہی ہلاک کردیئے جاتے ہیں ۔ عرب دنیا میں کسی بھی مقام پر اس طرح آپسی فائرنگ  کے ذریعہ  بے جا قتل نہیں ہوتے ۔ پہلی مرتبہ یہ دیکھا گیا ہے کہ یہودی  لابی میں خود غزہ پر حملو ں کے خلاف زبردست آپسی شدید اختلاف  کا شکار ہوچکی ہے ۔ احتجاجی یہودی  واشنگٹن میں کیپٹل ہلز پر ہلہ بول دیا ۔ ہفتہ 4؍ اکٹوبر 23 کو امریکہ کے  50 شہروں سے لاکھوں افراد احتجاجی جلوس  کی شکل میں جمع ہو کر پورے امریکہ کو دھلا دیا ۔ منھا ٹن نیویارک کے اسٹیشن کو  روز روز کے احتجاج کی وجہہ سے کئی مرتبہ بند کرنا پڑا ۔31؍ اکٹوبر 23 کو وزیر خارجہ امریکہ انٹونی بلنکن (Antony Blinken) کی پریس کانفرنس میں صحافیوں کی بدترین مخالفت  اور اہانت کا سامنا کرنا پڑا ۔ صحافیوں  کی اکثریت نے اپنے ہاتھوں کو خون سے رنگ کر زبردست پریس کانفرنس  کے خلاف احتجاج کیا۔ 

اسرائیل کے ایک مشہور صحافی Hila Weiss Berg کا ایک مضمون بعنوان اسرائیل کی حماقتیں اور حماس کی حقیقتیں’’Israel Fantasies & Hamas Realties ‘‘ کے عنوان سے ایک مشہور روزنامہ میں  شائع ہوا ہے۔ جس کے مطالعہ سے اسرائیل کے اعلیٰ ملٹری قیادت کی صحیح طور پر سونچ و فکر کا اندازہ ہوتا ہے  جس کا اقتباس قارئین کے استفادہ کے لئے یہاں درج ہے :

’’Dr. Micshetin مشیر اعلیٰ برائے فلسطینی امور IDF (اسرائیلی ڈیفنس فورس ) کے  انٹلیجنس (مخابرات ) میں لفٹنٹ  کرنل کے عہدہ پر رہ چکے ہیں  انہوں  نے 1948 کے نکبہ پر اپنی پی ایچ ڈیP.hd کی تھی‘ ہلز ویس برگ Hils Weis Bergجنھوں نے ایک خصوصی انٹرویو  میں بعض حقائق  پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے بہت ساری چونکا  دینے والی باتیں کہی ہیں ۔ 

فلسطینیوں کا مسئلہ اتنا آسان نہیں جتنا ہمارے سیاست دان تصور کرتے ہیں ۔ اسرائیل کی انٹلیجنس  کی سب سے بڑی تاریخی غلطی  یہ تھی کہ وہ حماس اور اس کی قیادت کو الفتح و حزب تحریک فلسطین جیسے گروپوں  کی طرح سمجھتی رہی جب تک حماس کے تصورات ‘ خیالات ‘ نکتہ نظر اور فکر ان سے بالکل مختلف ہے ۔ وہ ہمارا ایسا دشمن ہے جس کو ایک زاویہ نگاہ سے سمجھنا اور اس کے مطابق ایک مفروضہ بنا لینا سوائے ہمار ی بے  بصیرتی  اور اندھے پن کے کچھ نہیں ہے ۔ حماس  جہاں دہشت گرد  ہے وہی وہ ایک سیاسی ‘ سماجی ‘ فلاحی اور نتائج سے بھر پور مہیمات چلانے میں مہارت  رکھنے والی تحریک ہے ۔ حماس میں عقلی بنیادیں  Pragmatism کوٹ کوٹ کر بھرا ہواہے۔ موجودہ فدائی کوششوں کو اپنی تاریخ سے جوڑ کر کام کرنے کی  ان میں بھر پور صلاحیت پائی جاتی ہے ‘ ان کی قیادت مذہبی قیادت نہیں ہے لیکن وہ  بہت کٹر مذہبی ہیں ۔ 

موجودہ صدر غزہ  یحیی سنوار کو ہم نے 22 سال اسرائیلی جیل میں قید میں رکھا ۔ اس دوران اسیری میں  اس نے یونیورسٹی سے نہ صرف دو پی ایچ ڈی تکمیل کرلئے بلکہ حماس نے سنوار کی رہائی کے لئے ہمارے ایک فوجی کرنل  Giled Shelit  کا اغوا کرلیا تھا جنھیں چھڑانے کے لئے ہمیس حماس کے ساتھ ڈیل میں بہت کچھ کھونا پڑا تھا ۔ یحییٰ سنوار کے ساتھ  ایک نہیں دو نہیں ایک ہزار فلسطینی قدیوں کو رہا کرنا پڑا۔  اتنی خطرناک شرائط کو بھی ہمیں ماننا پڑا ۔یہ کہنا مشکل ہوتا ہے کہ حماس کب کیا سیاسی ‘ سفارتی ‘ معاشی ‘ عسکری ‘ عالمی اعلام ترک چلے گا ‘ ہمارے سنچری کے تمام 75 سالہ تجربات  کو ایک دن میں حماس نے خاک میں ملا دیا ۔ 

ڈاکٹر مچٹن کا کہنا ہے ایک جانب یحییٰ سنوار اسرائیل کے وزیر آعظم کو خط لکھتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے روزگار کے لئے چک پوائنٹس  پر نرمی کرتے ہوئے ورک پرمٹ دیئے جائیں ۔دوسری جانب وہ ان بے روزگاروں کو ہماری سرزمین پر روزانہ محنت مزدوری کے نام پر ہمارے علاقوں میں  گھسا کر ان سے ہماری  جاسوسی کے ذریعے مخبری کرواتا رہا ۔ 

ہم یہ سمجھتے رہے کہ 22 سال قید و بند  کی سزا کاٹنے کے بعد اب اس کی زندگی میں سوائے اپنی زندان کی آپ بیتی لکھنے کے کیا کام باقی رہ جائے گا اور اس نے ہماری سزاؤں (تعذیب ) سے بہت کچھ سبق حاصل کرلیا ہوگا ۔ اس کی سوسائٹی میں  لوگ اس سے خوف  بھی کھائیں گے ۔اس کے اہل خانہ اسے گھر کے کسی کونے میں بٹھادیں گے لیکن ہمارے یہ مفروضے سب لغو ثابت ہو گئے ‘ہم سنوار کے افکار و نظریات  کو صحیح طور پر سمجھ نہیں سکے۔ سراسر دھوکہ کھا گئے۔ ہمارے جیلوں سے رہا ہونے والے بڑے بڑے سور ماؤں کی کمر ٹوٹ جاتی ہیں اور ہمیشہ کے لئے وہ  ہم سےدشمنی کا راستہ بھول جاتے ہیں ۔ وہ تو رہا ہو کر  نہ صرف  بڑا قائد بن گیا بلکہ پوری حکومت کی باگ ڈور  اس نے سنبھالی ۔( اس پر جان نچھاور کرنے والوں کی ایک فوج تیار کرلی )۔

ہمارے زندگی کے اَپروچ میں اور سنوار کے اپروچ میں بہت بڑا فرق ہے ۔ذرا سونچئے ہم لوگ بڑے بڑے فوج اور حکومت کے عہدوں پر رہ کر وظیفہ  پر سبکدوش ہوجاتے ہیں اور پھر ایک  دن مرجاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ہماری زندگی کا اور کیا نکتہ نگاہ ہے ۔لیکن سنوار  کے اور حماس کی قیادت کے پاس نہ موت کا خوف ہے اور نہ ہی ان کی موت کے بعد ان کی تحریک ختم ہونے والی ہے ۔ ان لوگوں نے بچے بچے  کہ دل اور دماغ میں اپنے ارض مقدس  کی آزادی کی جو روح پھونک  دی وہ ایسا لگتا ہے کہ کبھی ختم نہیں ہونے والی ہے ۔ 

اس تجزیہ  میں ڈاکٹر مشیٹنن نے مضمون نگار صحافی کے ذریعے یہ بھی وارننگ دی کہ اگر دو قومی نظریہ قبول کرلیا جائے تو سمجھ جاؤ کہ پڑوس میں ایک نیا بوسنیا تیار ہوگیا ہے اور اگر فلسطینی نوجوانوں کو ہماری شہریت دی جائے گی تو وہ اکثریت میں آجائیں گے اور سوشل ڈیموکریٹک اسٹیٹ کے بہانے حکومت  ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گی ۔ ان کی مغربی پٹی اور نہ ہی غزہ کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں مملکت کا درجہ  دینے کو بین الاقوامی دباؤ کے تحت قبول کرنا  اپنے لئے( اسرائیل) خودکشی کرنا ثابت ہوگا ۔ بجلی ‘ پانی ‘ فینانس ‘ دفاع ‘ صیانت  سب کچھ ہمارے ہاتھ میں ہونے کے باوجود آج  جس انداز سے ہم پر حملہ آور ہوئے ہیں وہ ہمارے لئے  تاریخ کا ایک سبق ہے ۔ ہم ہمیشہ یہ سمجھتے رہے کہ نفق( ٹنل) کے ذریعہ یہ دہشت گرد ہمارے علاقے میں گھسنے کی کوشش کریں گے ہماری ہمیشہ نگاہیں صرفٹ ٹنلس  پر ہی جمی رہیں تو انھوں نے اپنی عظیم ذہانت سے کام لیتے ہوئے فضا میں اڑنے اور کھلے عام سرحد پار کرنے کا ایک بڑا کام کرڈالا۔75 سال کی جتنی ہماری اعلیٰ ترین فوجی ‘ سیاسی ‘ سفارتی ‘ تجارتی کوششیں انھیں کمزور کرنے کی تھیں وہ سب اچانک خاک میں مل گئیں  تھیں وہ اب مکمل طور پر بولنے کی ضرورت ہے۔ وغیرہ۔‘‘                                              (بحوالہ  جیروسلم پوسٹ29؍ اکٹوبر 23)

ڈاکٹر   مسٹن غزہ سے متعلق بہت ہی ذہین تصور کئے جاتے تھے وہ کئی جنگوں میں شریک رہ چکے ہیں وہ IDF  کے انٹلیجنس ڈپارٹمنٹ کے لفٹنٹ  کرنل ہونے کے باوجود  اہم باتوں کااخفأ کیا ہے ۔ اپنے انٹرویو ں میں بھی عیاری سے کام لیتے ہوئے بہت ساری باتوں پر پردہ ڈال دیا۔ شیخ احمد یسینٰ  کی قیادت میں اسلامی تحریک  کی پہلی انتقاضہ  8؍ ڈسمبر 1987 اور دوسری تحریک انتقاضہ 2000 اور 2004 میں شیح یسین  و یاسر عرفات کی شہادت  اور 2006 میں حماس کی UNO کی زیر نگرانی پہلے عام انتخابات  میں 132 پارلیمانی نشستوں میں 74 نشستوں پر  اور الفتح PIO کو 45 نشستیں حاصل ہوئیں تھیں ‘ حماس ایک عالمی سطح پر معترفہ سیاسی پارٹی ہے ‘ دہشت گردی کا اس پر لیبل لگا کر اسے بدنام کرنے کی کوشش عالمی طاقتوں کی جانب سے جاری ہے ۔ اس عظیم الشان کامیابی کے بعد سے پھر فلسطینیوں کے دیئے گئے ووٹ  کے حق کو 17 سال سے دوبارہ  نہیں دیا جارہا ہے اور مغربی پٹی و غزہ میں حسب معمول ہر 5 سال کو عام انتخابات کروانے کے بجائے نہتے خالی ہاتھ غزہ کے شہریوں پر پہلے 4 جنگیں اور اب 5 ویں جنگ مسلط کرتے ہوئے گزشتہ 24 دنوں کے دوران 16 ہزار ٹن  بم عام معصوم زندہ آبادی پر گراکر ہلاک کیا جارہا ہے ۔

صیہونی دانشور کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ فلسطین  کی آزادی اور فلسطینیوں کے اسلام بیتُ المقدس سے دائمی تعلق کو  چھپاتے ہوئے ایک خود ساختہ  تشریحات  اور کھوکھلے تجزیات پیش کرتے ہوئے دنیا کا اپنے مطابق ذہن بنانے میں بڑی حد تک کامیاب ہورہے ہیں ۔ 

حماس  کو جتنی کامیابیاں ہوتی ہیں اس سے کئی گنا زیادہ ہر روز ایک نئے چیالنجس  اور داخلی عرب اسرائیل لابی کی مضر سرگرمیوں کا سامنا درپیش ہے ۔ 

حماس کے گزشتہ 20 سالوں  میں کئی سو تربیت یافتہ قائدین کو چن چن کر اسرائیل نے دنیا میں ڈھونڈ ڈھونڈ  کر شہید کرڈالا۔ حماس کی آج کی اجتماعی قیادت طوفان الاقصیٰ  کے ذریعہ دنیا کو حیرت زدہ کردیا ‘ دشمن کو یہ احساس ہوچکا ہے کہ حماس کے یحییٰ سنوار  جیسے 50 قائدین کو بھی شہید کردیا جائے تو حماس کی سرگرمیوں اور کارکردگی میں کوئی ذرہ برابر فرق نہیں آئے گا بلکہ اعلیٰ تعلیمی یافتہ و اسلامی تربیت سے ہمکنار دوسری  اور تیسری صف بالکل تیار ہے ۔قربانیوں ‘ شہادت کو وہ اپنے لئے باعثِ شہادت سمجھتے ہیں اور مقتل غزہ کو ’’مجزرہ مشرف‘‘ کہتے ہیں ۔ دشمن اسی سے خوف زدہ ہے کہ پوری قوم کو شوق شہادت سے سرشار کردیا گیا ہے ۔ موت کو تبسم کے ساتھ چوم کر شہادت کے لئے ایک دوسرے سے بازی لے جانے کا جذبہ دن بہ دن بالاہی ہوتا جارہا ہے ۔

حماس کی بے پناہ عصری صلاحیتوں کے اسرائیل  کی اعلیٰ ترین  قیادت بھی معترف ہو چکی ہے ۔ سل فون بگ  Pegasus جو دنیا کے کسی بھی شخص اور شہری کی بات چیت کو غیر محسوس طریقہ سے ہائیکنگ کرتا ہے وہ ایک اسرائیلی کمپنی ہے ‘ اس سے جاسوسی کے ہگ کے فروخت کے ذریعہI.T اسرائیلی کمپنی نے کئی بلین ڈالر کمالئے ۔ حتیٰ کہ ہندوستان نے بھی بہت بھاری قیمت میں اس کو خریدا اور اس کا  بی جے پی  اپنے مخالفین کے خلاف استعمال  کر رہی ہے  ۔ جس کی حال ہی میں  ہندوستان کے کئی ممبران پارلیمنٹ نے حکومت سے شکایت بھی کی۔ اسرائیل کو بہت گھمنڈ تھا کہ ہم ساری دنیا کی مخبری و جاسوسی کی قدرت رکھتے ہیں ۔ 7؍ اکٹوبر  کے حملے سے پہلے حماس کے I.T سائنس دانوں  نے Pegasus کو فیل کرتے ہوئے اپنا جدید ترین بگ بنا کر اسرائیلی ملٹری کی خفیہ معلومات  حاصل کرلیں ۔ حتیٰ کہ دنیا کے خفیہ  معلومات  کا سب سے محفوظ بڑا مرکز مانے جانے والا موساد کا سنسر  راکٹ حملے میں تباہ کرتے ہوئے وہاں کی تمام خفیہ معلومات کے کمپیوٹرس  اٹھالئے گئے‘Pegasus  کی بدترین ناکامی کے بعد اسرائیل نے اس کمپنی کو اب بلیک لسٹ کردیا ‘ اس ذلت آمیز شکست  اور ہائی ٹک ہونے والے تکبّر  کو حماس نے ملیا میٹ کردیا اس علاقے میں  اپنی جنگی حکمت عملی  وٹکنالوجی کی سوپر میسی تو حماس نے منوانے کے لئے دنیا کو مجبور کردیا ۔

اب دنیا کے بڑے بڑے طاقتوں کے ملٹری ریسرچWar Colleges  حماس پر ریسرچ کرنے میں لگ گئے ہیں ۔ جس طرح دنیا کے دونوں سوپر پاورس افغانستان میں آخرکار شکست فاش ہوئی  ٹھیک آج نہیں تو آئندہ چند سالوں میں فلسطینیوں کی نئی نسل جو ماں کے گودوں میں ہے ضرور غلامی سے آزادی حاصل کرکے ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت دے گی۔

Total No of Words: 2,603

  Release on : 01-11-2023

Continue Reading

Politics

طوفان الاقصیٰ کی جنگ خطرناک مرحلے میں داخل

Published

on

بسمہ تعالیٰ

طوفان الاقصیٰ کی جنگ خطرناک مرحلے میں داخل

         از:  ناظم الدین فاروقی

NPA  DOC No : 0167

Dated: 15-10-2023

آزادی فلسطین و مسجد الاقصٰی کی جدوجہد ایک خوفناک رُخ اختیار کرچکی ہے ۔7؍ اکٹوبر 23 طوفان القدس نے اسرائیل میں ناقابل تلافی نقصان کے ساتھ نفسیاتی جنگ میں فلسطینیوں نے زبردست برتری حاصل کی ۔ انٹلیجنس  اور مخابرات  میں دنیا کا استاد مانا جانے والا اسرائیل اور اس کی تمام خفیہ ایجنسیوں کو مقام بریگیڈ نے حماس بریگیڈ نے راکھ چٹادی ۔ آئی ٹی کے تمام سوپر

Space Command اور آئرن ڈوم(قبۃ الحدید) کو بھی اپنی مہارت سے حماس کے مجاہدین نے ناکارہ کردیئے ۔ دنیا سکتہ میں ہے ‘ عالمی طاقتیں  افغانستان کی طویل جنگ آزادی میں شکست فاش کے بعد صرف دو سالوں میں ایک اور دوسرا جھٹکہ سوپر ملٹری پاور کےجنریلوں کے ہوش اُڑا دیئے ۔

اسرائیل کے جرنیل  اس بات کو لے کر سر پیٹ رہے ہیں جہاں جس علاقے پر بمباری کی جارہی ہے چند منٹوں بعد میں سے آئرن ڈوم(قبۃ الحدید) کو ناکام کرتے ہوئے ابھی بھی ہلاکت خیز راکٹ داغے جارہے ہیں ۔گزشتہ  ایک ہفتے  تقریباً 15 سو معصوم فلسطینی اسرائیلی بمباری میں ہلاک ہوچکے ہیں ۔UNO کے 9 ملازمین کے علاوہ پریس کے لوگ بھی ہلاک ہوئے ہیں ‘ دوسری جانب مصر نے غزہ کی رَفأ   سرحدی گیٹ کو مقفل کردیا ہے ۔ اسرائیل 3 مرتبہ اس پر بمباری کرچکا ہے ‘ اب اسرائیل نے اقوام متحدہ سے کہا ہے کہ ایک ملین پناہ گزین کا مصر کے صحرأ  میں انتظام کرلیں ہم شہر خالی کروانے والے ہیں ۔بحری ‘ برّی ‘ فضائی حملے کے لئے3 لاکھ کو اسرائیل  کے فوجی لشکر کی بھاری ٹینکس کے ذریعہ غزہ پر چڑھائی  کرواکر سرحد کے اس پار مصر کے صحرا سینا میں ڈھکیل  دینے کا اعلان کیا ہے  لیکن حماس کی حساس جنگی حکمت عملی اور زمینی سرنگوں سے سب خوفزدہ ہیں ۔اطلاع کے مطابق 14؍ اکٹوبر 23 کو ہفتے کے دن کئی لاکھ اسرائیلی فوج غزہ شہر میں داخل ہوگئی ہے ۔ 17 سالوں کے درمیان ابھی تک غزہ پر 5 جنگیں مسلط کی گئیں۔

غزہ سے راکٹوں کے حملے اور مجاہدین کی کاروائیوں میں15000 سے زیادہ اسرائیلی اور 1500 سے زیادہ طوفان القدس کے کارکن شہید ہوگئے ۔بعض کیبوٹس میں اب بھی لڑائی جاری ہے ۔1987 سے ہی اسرائیل حماس کے تیور اور کاروائیوں سے پریشان ہے ‘ یہ اسلامی فلسطینی تنظیم اگر متحرک  ہوجائے تو اسرائیل کے لئے بہت بڑا نقصان ہوگا۔ عجلت میں یاسر عرفات سے کئی معاہدے کرلئے تا کہ حماس کا صفایا کیا جائے  اسرائیل بار بار حماس کے صفائے کا اعلان کرچکا ہے ۔ 37 سال کا عرصہ ہوگیا یہ اسلامی تنظیم کا خاتمہ اسرائیل اور عالمی طاقتوں کے بس کی بات نہیں رہی ۔

حماس کے حملے پر دنیا میں ہنگامہ کھڑا کیا جارہا ہے ۔اگر خون آلود فلسطین کے تاریخ کے اوراق  پلٹ کر دیکھیں  تو پتہ چلے گا کہ نکبہ 1948 سے اب تک 5 لاکھ فلسطینیوں  کو ہلاک اور 2 ملین فلسطینیوں کو ملک بدر کردیا گیا تھا ۔ اس دوران ایک ملین سے زیادہ فلسطینیوں کو گرفتار کرکے طویل مدت کے لئے جیل میں مقید کردیا گیا ۔2022 سے اب تک 11540  جن میں نصف  بچے ‘ عورتیں  اور معصوم فلسطینی شامل ہیں ہلاک کردیا گیا ۔ بیت المقدس  کے اطراف صرف قدیم شہر یروشلم میں 250 قدیم عمارتوں کو منہدم کرکے 258 عمارتیں تعمیر کی گئیں۔2021 میں فلسطینی علاقوں 70 مقامات کو منہدم کرتے ہوئے 71900 یہودی مستوطنین Settler کو بسایا گیا۔ 19 مساجد شہید کردیئے گئے ‘ 10 ہزار لوگوں کو زمینوں سے بے دخل کیا گیا۔ اس کے علاوہ مسجد اقصیٰ میں روزانہ مصلیوں بالخصوص خواتین ‘ عورتوں ‘ بچوں کو زودو کوب  کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ اسرائیل نے بیت المقدس کے نیچے دو بڑی سرنگیں بنالی ہیں ۔ جس کے اندر دھماکہ کرکے وہ کبھی بھی بیت المقدس کو شہید کرنے  کی تیاری کی جاچکی ہے۔

وزیر آعظم  اسرائیل بنجامن نتن یاہو  اور فلیڈ مارشل اسرائیل نے 8؍ اکٹوبر 23 کو انتقام کی وارننگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ حماس نے غزہ میں اپنے لئے جہنم کے داہنےکھول لئے ہیں ہمارے لئے یہ حملے 9/11 ٹوین ٹاور کے حملوں سے زیادہ خطرناک ہیں۔ہمارا پہلا کام ہوگا حماس کو صفہ ہستی سے مٹادیں اور غزہ کے دہشت گردانہ کاروائیوں کا ہمیشہ کے لئے صفایا کردیں ۔ امریکہ ‘ یورپ  یہ استعماری طاقتوں کا توسیع شدہ ایجنڈہ ہے کہ سفید قوم کی عرب علاقے میں سرپرستی قائم رکھی جائے ‘ حتٰی کہ ایشیا کے کئی اسرائیل دوست ممالک نے اسرائیل کے انتقامی کاروائیوں کی مکمل تائید کی ہے  ۔غزہ پر کارپیٹ بمبنگ  شروع کردی گئی ‘ گزشتہ 8 دنوں کے دوران 6 ہزار عمارتوں کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کردیا اور 2000 سے زیادہ عام معصوم شہری ہلاک ہوگئے ۔  شہادت پانے والوں میں حماس کی قیادت کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔

اسرائیل اپنی فوج اور  انٹلیجنس کی ناکامی کا بدلہ وحشی بمباری سے  لیتے ہوئے 8 ہزار سے زیادہ مکانات اور اپارٹمنٹس  کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کرچکاہے ۔ فاسفورس بم استعمال کئے جارہے ہیں ۔ فاسفورس روشنی و بدبو کے ساتھ 800 ڈگری کی تپش پر جلا کر راکھ کردیتے ہیں ۔ جب کہ  پانی 100 ڈگری شلسیس پر  کھول جاتا ہے ۔ کسی بھی انسانی جسم پر لگ جائے تو پورے جسم کو سکنڈوں میں کوئلہ بنا دیتے ہیں ۔ اس آتشی  تپش  کی اتنی دیرپا صلاحیت ہوتی ہے کہ پانی ڈالنے سے بھی نہیں بجھتی ہے‘ آکسیجن  ملتے ہی شعلہ پوش  ہوتی ہے ۔

اگر ہم حماس اور عز الدین قسام بریگیڈ کے اسرائیل پر  اچانک حملے کی وجوہات  کا تجزیہ کریں تو اس کے کئے عوامل ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ایک تو سعودی عربیہ اور اسرائیل کے آپسی امن معاہدے اور سفارتی تعلقات 75 سالوں میں پہلی مرتبہ بحال کرنے کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں ۔ اسرائیل جیسے ظالم ملک کے ساتھ عرب ممالک نے احتیاط سے کام لینے کے بجائے بڑی عجلت سے کام لیا  اور  فلسطینی قیادت کو اعتماد میں لئے بغیر  ایک کے بعد ایک عرب و مسلم ملک  اسرائیل سے معاہدات کر رہے تھے ۔ جس سے صاف طور پر یہ مطلب ظاہر ہورہا تھا کہ مسئلہ فلسطین کو عربوں و مسلمانوں  کے درمیان اب کوئی خاص اہمیت حاصل نہ رہی‘ ہماری ملکی قومی مفادات کو اہمیت دیتے ہوئے فلسطینی کاز کو ہمیشہ کے لئے دفن کرنے کے لئے راضی ہوگئے ۔

دوسرا سب سے بڑا فلسطینی کاز کو اس وقت دھکہ لگا اور اس میں اسرائیل کی اصل نیت کھل کر سامنے آگئی جب اسرائیلی وزیر آعظم  نتن یاہو نے 22 ؍ ستمبر 23 کو اقوام متحدہ میں تقریر  کرتے وقت اسرائیل کا ایک نقشہ بڑی چالاکی سے دنیا کو بتلایا ۔ جس میں فلسطین ہی غائب کردیا گیا  ہے۔ عرب سے دوستی اور تعلقات  کا ذکر کرتے ہوئے بڑی آسانی  سے فلسطینی وجود کو ہی ختم کرنے کے منصوبے کو اس نے آشکار کردیا  تھا۔ تیسرا سبب ترکی  جیسا  فلسطین و بیت المقدس کی آزادی کا  کا سب سے بڑا ہمنوا اور مددگار بھی اچانک اپنی فلسطینی پالیسی بدل چکا تھا ‘ مصلحتوں کا شکار ہو کر طیب اردغان نے اسرائیل کے ساتھ  اپنے سفارتی لب و لہجہ میں کافی نرمی اختیار کرلی تھی ۔ انتخابات  سے پہلے اسرائیل کی دہشت گردی و مظالم اور غیر انسانی سلو ک پر  وہ زبردست تنقیدیں کیا کرتے تھے۔اب سب بند ہوچکے تھے ۔تمام عرب و مسلم ممالک اپنے اپنے مفادات اور امریکی و بین الاقوامی دباؤ کے تحت نارمل سفارتی تعلقات کے رجحان کو تقویت پہنچا رہے تھے ۔

جیسے ہی 7؍ اکٹوبر 23 کو حماس کا طوفان الاقصیٰ کا آپریشن ہوا پہلے24 گھنٹے  میں اسرائیل کی تائید میں بیانات  آنے لگے بعض عرب حکمرانوں  نے تائیدی بیان دے دیا تھا  لیکن جب عرب و  مسلم عوام کا شدید دباؤ بڑھنے لگا تو  تیسرے  دن سے پھر فلسطینیوں کے حق میں فضا بننے لگی ۔ یو اے ای کے  شیخ محمد زاید النیہان  نے پہلے اسرائیل کے تائید میں بیان دیا پھر بیان بدل دیا ۔سعودی  عربیہ نے بھی کھل کر فلسطینیوں کی تائید کی ‘ ایک عرصے کے بعد حرم شریف  میں فلسطینیوں کے لئے خصوصی دعائیں کی گئیں ۔دراصل عالم مسلم قیادت  سہ رخی چال چل رہی  ہے ایک جانب اسرائیل کو خوش کیا جارہا ہے  دوسری جانب مسلم عوام کے جذبات کا خیال  رکھنے  کی کوشش کی جارہی ہے ‘ تیسری جانب فلسطینیوں کو یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ہم تمہارے کاز میں شامل ہیں ۔بڑے عرب مسلم ممالک امریکہ اور اسرائیل کو ناراض نہیں کرنا چاہتے ‘ امریکہ کے وزیر خارجہ فارن سکریٹری بلنکن جو یہودی ہے عرب قائدین سے ملاقات کرنے میں  مصروف ہیں ۔

اسرائیل کی تائید کے لئے امریکہ نے اقوام متحدہ میں ووٹنگ  کی کوشش کی تو کویت نے جم کر مخالفت کی اس  کی وجہہ سے بین الاقوامی سطح پر فضا بنی  اس اعتبار سے 15 ووٹ اسرائیل کے خلاف اور صرف امریکہ کا ایک ووٹ تائید میں حاصل ہوا ۔ اسی طرح EU یورپین یونین بھی حماس اسرائیل کے معاملہ میں شدید اختلافات  کا شکار ہوگیا ۔ امریکہ کے سینٹ ممبرس کی بڑی تعداد فلسطینیوں کے حق میں ہے ۔ ایران نے بھی بہت محتاط رویہ اپنایا ہوا ہے ۔ ایران نے تائید تو کی لیکن ساتھ ہی ساتھ کسی بھی قسم سے حملوں میں مدد کرنے  کے الزام کا انکار کیا۔ پھر امریکہ اور یورپ نے بھی یہ کہا کہ حماس کے حملوں میں ایران اور حزب اللہ شامل نہیں ہے ۔ ایران کی ہمیشہ زبانی تائید حاصل رہی۔ ایران کے صدر  ابراھم رئیسی نے عرب ممالک سے اپیل کرتے ہوئے پر زور  طریقہ پر کہا کہ فلسطین کے تحفظ کے لئے تمام عرب ممالک ایک متحدہ فرنٹ تشکیل دیں ‘ یہ تجویز بر وقت پیش کی گئی ۔ یقیناً اگر ایران کی تجویز پر غور و فکر کرنے سے غفلت برتی جائے گی تو ہوسکتا ہے اسرائیل اپنے شدید وحشی ظالمانہ منصوبوں کو روبہ عمل  لائے۔ نتن یاہو اپنی حکومت کی ساکھ بچانے کے لئے  کسی بھی جانب اس تباہی و بربادی کو لے جاسکتا ہے ‘  اس کے دور میں  ہوئی ذلت اور عسکری ہائی جک کے  جھٹکے سے وہ اور فوجی قیادت ابھی سنبھلنے نہیں پائی ہے ۔آئرن ڈوم(قبۃ الحدید) کے جام کرنے کے ساتھ 4 ملٹری ٹاور کو تباہ و برباد کرتے ہوئے بڑی اہم اسرائیلی فوجی سربراہوں کا اغوا ٔ اور 15 یہودیوں کی ہلاکت کے جھٹکے ‘ رسوائی و ذلت سے  سنبھل نہیں پائیں۔

غزہ شہرخود 1967 کی جنگوں سے متاثر پناہ گزینوں کی وجہہ سے مجبوراً وجود میں آگیا تھا ۔ موجودہ غزہ کے شہری  سابقہ تین نسلوں سے اسرائیل کے ہاتھ تباہ و برباد اور ہلاک ہوتے آئے ہیں ۔ اگر اس نازک موقع پر عالم اسلام ذرا سی بھی غفلت کرے گا اور اپنے رسوخ‘  سفارتی تعلقات و سیاسی دباؤ کو استعمال نہیں کرے گا تو یقیناً فلسطینیوں کے لئے یہ وقت  تباہی و ہمیشہ کے لئے بربادی کا ہوگا ۔

مسئلہ الاقصیٰ  اور ارض فلسطین کا مسئلہ 56 مسلم ممالک مل کر 75 سالوں میں حل نہیں کرواسکے بلکہ ہمیشہ فلسطینیوں کو سوائے ایمرجنسی امداد کے ایسے ہی تباہ ہونے کے لئے چھوڑ دیا کرتے ہیں اگر 56 ممالک UNO میں متحدہ موقف اختیا رکرتے ہوتے تو ارض فلسطین اور الاقصیٰ  ابھی تک آزاد ہوجاتا ۔ سیاسی و سفارتی سطح پر مضبوطی سے اس عالم اسلام کے مسئلہ کو پُر امن طریقے سے حل کرنے کی نہ کسی مسلم ملک میں ہمت و جرات پائی جاتی ہے اور نہ نیت صحیح ہے آپسی اختلافات ‘ تضادات  اور لڑائیاں ‘ خانہ جنگی عالمی طاقتوں نے مسلسل حملے اور تسلط نے پڑوسی ممالک کو ہمیشہ کے لئے کمزور کردیا ۔

تمام عرب و مسلم حکومتوں کا یہی حال ہے ۔ اسرائیل کی کوششوں کو اس وقت کامیابی حاصل ہوئی جب بڑے مسلم حکومتوں  کا یہ ذہن تیار  کردیا گیا کہ یہ مسئلہ تو فلسطینوں کا اپنا داخلی مسئلہ ہے کیوں اپنے آپ کو اس میں جھونک کر بے وقوف  بنیں اور اپنی ترقی کو داؤ پر لگائیں ۔ہر ملک پھر اپنی فوج کی کمزور صورت حال سے واقف ہیں ۔ 

Total No of Words: 1,985

  Release on : 15-10-2023

Continue Reading

Politics

سیاسی کریک ڈاؤن اور میڈیا کو دبانا: بھارت کے 2024 کے عام انتخابات سے پہلے بی جے پی کی حکمت عملی

Published

on

بسمہ تعالیٰ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

         از:  ناظم الدین فاروقی

NPA  DOC No : 0166

Dated: 08-10-2023

ہندوستانی پارلیمنٹ کے عام انتخابات  24 کی تیاریوں کا آغاز ہوچکا ہے ۔ سیاسی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں ۔ 18 ویں لوک سبھا  الیکشن میں بی جے پی تیسری مرتبہ ایک طاقتور اکثریتی سیاسی پارٹی کی حیثیت  سے اُبھرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ اپنی برتری اور بقأ کے لئے ہر سیاسی پارٹی کو پُر امن جدوجہد کا پورا حق ہے ۔ لیکن حکومت کی طاقت کو اپوزیشن اور پچھڑے  ہوئے طبقات  و اقلیتوں کے خلاف استعمال کرنا سیاہ جابرانہ سیاست کا ایک قبحہ پہلو ہے ۔ جیسے جیسےالیکشن قریب آرہا ہے ۔ED  اور NIA  کی حزب مخالف  سیکولر میڈیا ‘ سیاسی قانونی دانشوروں و جہد کاروں کے خلاف کاروائیاں تیز تر کردی ہیں ۔ گزشتہ بھی ایسا ہی ہوتا رہا مدھیہ پردیش ‘ کرناٹک ‘ راجستھان ‘ ہماچل پردیش ‘ چھتیس گڑھ ‘ مہاراشٹرا میں اپوزیشن  کے ارکان اسمبلی کی بڑی تعداد  ED کے خوف سے پریشان ہو کر پیسہ کی لالچ میں NDA یا بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی ۔ جن میں سیاسی قد آور شخصیتوں پر ED کے مقدمات  کی تلوار لٹک رہی تھی یا پھر  اپنی مضبوط سیاسی قیادت کو داؤ پر لگا کر بی جے پی کی سرکردہ سرکاریں شمولیت  کو غنیمت سمجھا۔ یہ ہی حال میڈیا کا کر رکھا ہے ۔ جو صحافی اور میڈیا چیانل دائیں بازو کی پالیسیوں سے عدم اتفاق کرتے ہیں یا گودی میڈیا کی بیانڈ باجہ پارٹی میں شامل ہونے سے گریز کر رہے ہیں ان کی بدترین درگت بنائی جارہی ہے ۔ 

3 اور 4؍ اکٹوبر کو سیکولر میڈیا ‘ کمپنیوں و صحافیوں کے کم از کم 100 مقامات پر چھاپے مارے گئے آزاد ‘ سچ گو صحافیوں کو نشانہ بنا کر انھیں کمزور کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔

عام آدمی پارٹی نے دہلی انتخابات 20 کے موقع پر بی جے پی سے مفاہمت کرکے کامیابی حاصل کی تھی ۔ اس وقت مشرقی دہلی کے مسلم مخالف فسادات میں سخت دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 54 سے زیادہ لوگ ہلاک اور 12 سو دوکانات و مکانات جلا کر خاکستر کردیئے گئے تھے ۔ پھر بھی مسلمانوں کی کسی بھی قسم کی ہمدردی سے محض اس لئے احتراز  کیا تھا کہ بڑے صاحب اور وزیر داخلہ ناراص نہ ہوجائیں ۔پولیس کا معاملہ حکومت  دہلی کے تحت نہیں ہے لہٰذا  مجھے ان فسادات اور ہلاکتوں سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے ۔ اس میں عام آدمی پارٹی  کے مسلم ایم ایل ایز اور کاؤنسلرس  بھی گرفتار کرلے گئے تھے ۔وقت گزر گیا۔اس سال کے ابتدا میں 153 اوقافی جائیدادوں کو حکومت نے واپس حاصل کرلیا یہ سب کس کے کہنے پر ہوتا رہا ہے ۔

اب جب کہ عام آدمی کے وزیر  منیش سسوڈیا Manish Sisodia  اور سنجے سنگھ Sanjay Singh  یم پی کو ED نے گرفتار کرلیا ہے تو اروند کجریوال  کو نریندر مودی اور بی جے پی کا کرپشن و بد عنوانیاں نظر آرہی ہیں۔

ملک کے سیاسی حالات تیزی سے کروٹ لے رہے ہیں ۔ کسی بھی وقت بی جے پی کا خاموش ساتھ دینے والی بعض جماعتوں پر کراک ڈاؤن ہورہا ہے ۔ عام آدمی پارٹی کی ناراضگی وقتی ہے یا پھر بغیر کسی سیاسی مفاہمت کے ڈٹ کر بی جے پی کے زیادتیوں کا مقابلہ کریں گے ۔ سپریم کورٹ نے سنجے سنگھ کی گرفتاری پر پھٹکار لگائی ہے ۔ کجریوال  کی INDIA سے وفاداری دیر پا ہوگی کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔

ابھی سنجے سنگھ کا قصہ ختم نہیں ہوا تھا 12 سے زیادہ یوٹیوب چیانلس کے دفاتر و مالکین پر مختلف سنگین الزامات کے تحت دھاوے کئے گئے ۔نیوز کلک کے بعض ڈائرکٹرس اور نیوز کاسٹر  ابھی شار شرما کو بھی زیر حراست لیا گیا تھا ‘ پوچھ تاچھ کے بعد انھیں رات دیر گئے چھوڑ دیا گیا ۔ نیوز کلک پر الزام ہے کہ وہ امریکہ میں موجود چینی نواز انڈین بزنس من سے 56 کروڑ روپیہ وصول ہوا تھا۔

پریس کلب اور پریس گلڈ اور دوسرے صحافیوں کے تنظیموں  نے ED و پولیس کی گرفتاریوں کے خلاف جم کر احتجاج کیا اور 12 مشہور جرنلسٹوں نے چیف جسٹس  آف انڈیا مسٹر چندجوڑ کو خط لکھ کر اپیل کی کہ قبل اس کے دیر ہوجائے فوری پریس کی آزادی کے تحفظ کے لئے  اقدامات کریں ۔ورنہ ملک Dictatorial Democracy  میں تبدیل ہوجائے گا اور جمہوریت کا ایک اہم ستون پریس کی آزادی  کا گلا گھونٹ کر اسے ختمم کردیا جائے گا ۔ اس تکلیف کا احساس امریکی صدر جوبائیڈن نے G20 ستمبر کی میٹنگ میں شرکت کے بعد ۔۔۔گئے تو ان سے رہا نہیں گیا بلکہ اشارۃ ً کہا دیا کہ وہاس پریس کو آزادی حاصل نہیں ۔

180 ممالک کے عالمی پریس فرینڈم کے انڈیکس  میں ہندوستان کا رینک گزشتہ سال  150 تھا اس سال 23 میں 11 گریڈ گرکر 161 تک پہنچ گیا ۔ نہ صرف یہ بلکہ سیاسی Indicator  24 گریڈ ‘ معاشیات میں 6 گریڈ ‘ قانون سازی باڈیوں میں 14 گریڈ ‘ سوشل Indication   16 گریڈ اور صیانتی 9 گریڈ گرچکے ہیں ۔ افغانستان ‘ پاکستان ‘ بھوٹان ‘ سری لنکا  میں پریس کی آزادی ہندوستان سے بہتر ہے ۔ 

16؍ اکٹوبر کو کشمیر کی ایک پریس فوٹو گرافر سنا ارشاد میٹو ایر پورٹ پر امریکہ جانے سے روک دیا گیا ۔ ثنا کو امریکہ میں جرنلٹس  شعبہ میں دیئے جانے والے اعلیٰ ترین انعام حاصل کرنے جارہی تھی ۔ امریکہ نے تشویش کا  اظہار  کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی پریس کو آزادی ملنی چاہیئے ۔ اس طرح جرنلسٹوں  پر سفر کی پابندی پریس کی آزادی کو ختم کردے گی ۔

سیول سوسائٹی  اقلیتوں اور دلتوں کے جتنے دانشورو جہد کار ہیں یا پھر انھیں تعاون دینے والے ادارے ہوں حکومت ایک ایک کرکے ہر ہفتے ملک کے مخصوص شہروں اور علاقوں میں مسلسل کراک ڈاؤن کر رہی ہے ۔ حراست میں لے گئے افراد اور رپورٹرس ‘ نیوز کاسٹر سے عجیب و غریب ناقابل فہم سوالات کئے جارہے ہیں ۔ ابھشار شرما سے یہ تک پوچھ ڈالا کہ 3 سال قبل کیا شاہین باغ گئے تھے یا جعفر آباد دہلی 20 کے فسادات کے موقع پر وہ علاقے کا دورہ کیا تھا ۔

پریس ‘ میڈیا ‘ وکلا ٔ براداری اور آزاد خیال مخالف ہندوتوا فکر کے تمام دانشوروں کو بی جے پی حکومت اپنا دشمن تصور کرتی ہے۔ اقلیتوں کے کسی بھی احتجاجی پروگرام ‘ دھرنے اور جلوسوں کو خوف کے مارے اپنے لئے نیوکلئیر بم اور                                 Mass Heads of Mass Distruction تصور کرنے لگی ہے ۔ اطلاعات کے مطابق NRC, CAA  کے خلاف ملک کے دوسرے مقامات پر جو جو افراد شریک تھے ان پر بھی کراک ڈاؤن  کی تیاری ہورہی ہیں ۔ ٹوئٹر  ‘ فیس بک ‘ یو ٹیوب  کو دن بھر نوٹس  وصول ہوتے رہتے ہیں ۔ اور جہاں محسوس کرلیا گیا کہ خیرہ تبصرہ اور تجزیہ میں مودی ‘ بی جے پی کے خلفا کسی بھی قسم کا مواد ہے اس کا بند ہونا یا مقدمے کا دائر ہونا ضروری ہے ۔

منی پور کے فسادات سے ملک کا مستقبل  کی اجڑنے والی تصویر کا بہتر اندازہ لگایا جاسکتاہے ۔لوٹ کھسوٹ  ‘ لوٹ مار ‘ قتل و غارت گیری  کا ایک مخصوص اپنا انتہا دہشت گرد ہندوتوا حزب و گروپوں  کو حاصل ہے ۔ سوسائٹی کے تمام آزاد طبقات  حصوں اور زندگی کے مختلف میدان میں خدمات انجام دینے والوں سے بی جے پی بہت خوف کھاتی ہے ۔ آر ایس ایس کے ایک دانشور روی اروراRavi Arrora  نے ویدا اور جدید چیالنجس  کو ملحوظ رکھتے ہوئے عصر حاضر میں ہندو سوسائٹی کو درپیش 5 بڑی جنگوں کا اپنی ضخیم کتاب میں تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔ وہ مسلمانوں ‘ کمینسٹوں ونکسلس  کو Dividing Forces  قرار دیتا ہے ۔ کتاب پڑھنے والا ہر غیر مسلم ہندوستانی یہ خیالات میں چلا جاتا ہے کہ وہ حالت جنگ میں ہے اور ہر سمت دشمنوں سے گھیرے ہوئے ہیں اور ان پر جو جنگ مسلط کی گئی ہے اس میں لڑ کر دشمن کو کچل کر فنا کردینا ہے ۔ اس نئی مہا بھارت کی جنگ میں لیل  والنہار ہمیں ہمارے دشمنوں سے جنگ کرنا ہے وغیرہ ۔

تقاریر ‘ گودی میڈیا اور نام نہاد ہندوتوا کے دانشوروں کی تحریری اور کتابیں نفرت اور زہر سے بھری پڑی ہیں ۔ یہ وجہ ہے کہ ایک ہندوتوا کا ملک گیر سطح پر ایسا سیاسی ماحول بنادیا گیا ہے کہ اس میں اعلیٰ ذات ہندوؤں کے ہاتھوں دلت اور پچھڑے ہوئے طبقات  کا بھر پور استحصال ہو ۔

بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار Nitish Kumar  نے طبقات اور مختلف ذاتوں کا سروے جاری کردیا جس کی توقع بی جے پی کو ہرگز نہیں تھی ۔ اس سروے سے اندازہ ہوتا ہے کہ 2% اعلیٰ ذات برہمنوں کو 17% ریژرویشن  حاصل ہے ۔ جب کہ دوسری ذاتیں  اور مسلمان 12 تا 20% پر بھی انہیں کوئی تحفظات حاصل نہیں ہے ۔

اڑیسہ کے چیف منسٹر  نوئین پٹنائک Naveen Patnaik  اور کرناٹک چیف منسٹر سدارامیا  Siddaramaiah  نے بھی طبقاتی سروے کا اعلان کیا ہے ۔ جس سے ووٹروں میں ایک عام سیاسی بیداری پیدا ہوگی اور ہر طبقہ اپنے حقوق اور سیاست و ملازمتوں و حکومتی مراعات  میں تحفظات پر دباؤ ڈالے گا ۔ اس کا اثر لازمی طور پر 18 ویں لوک سبھا الیکشن پر پڑ سکتا ہے اور ممکن ہے کہ بی جے پی  گزشتہ انتخابات کی طرح بہتر نتائج حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہوجائے ۔

زور زبردستی ‘ ظلم و تشدد کے ذریعے شہریوں کو اپنی سیاسی وفاداریوں میں طویل عرصے تک محصور رکھنا اس میڈیاو ڈیجیٹل کی دنیا میں مشکل ہے ۔ بد عنوانیوں ‘ بوتھ منیجمنٹ ‘ کرپشن ‘ توڑ جوڑ ‘ خرید و فروخت ‘ ڈرا دھمکا کرMLA اور MP’s  کو تائید میں لے کر حکومتیں تشکیل دینا تو آسان ہوسکتا ہے لیکن اس کی برقراری اور سیاسی استحکام نا ممکن ہوجاتا ہے ۔

آئندہ چند ماہ میں ہونے والے 5 ریاستوں کے ریاستی انتخابات بڑی اہمیت رکھتے ہیں ان ریاستوں راجستھان ‘ مدھیہ پردیش ‘ چھتیس گڑھ ‘ تلنگانہ میں بی جے پی کی سیاسی صورت حال بہت کمزور نظر آرہی ہے ۔

دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی قیادت  ریاستوں میں انتخابی کامیابی کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے  یا پھر ہمیشہ کی طرح ووٹ کا پیاٹرن تبدیل کرنے کے لئے کوئی چونکہ دینے والا حیرت انگیز حادثہ اور دھماکہ خیز صورت حال پیدا کردی جائے ۔ ستیہ پال ملک سابق گورنر جموں و کشمیر کے مطابق پلوامہ میں معصوم درجنوں فوجیوں کی ہلاکت عین انتخابات  سے قبل مشکوک ہے ۔

INDIA جب تک مضبوط میدان میں اپنی سیاسی سرگرمیوں کو ووٹروں سے نہیں جوڑتی ‘ اس وقت تک INDIA کا بی جے پی کو شکست دینا بہت مشکل اور نا ممکن قرار پاتا ہے ۔

Total No of Words: 1,766

  Release on : 08-10-2023

Continue Reading

Trending