Politics
ترکیہ کے صدارتی انتخابات میں کانٹے کی ٹکر

بسمہ تعالیٰ
ترکیہ کے صدارتی انتخابات میں کانٹے کی ٹکر
ترکیہ کے انتخابات میں طیب اردغان کی نازک صورت حال
از: ناظم الدین فاروقی
NPA DOC No : 0152
Dated: 14-05-2023
عوامی جہوریہ ترکیہ کی تاریخ کا سب سے اہم فیصلہ کن الیکشن آج منعقد ہو رہا ہے سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد استعماری طاقتوں نے عوامی انقلاب اور نئے ترکی کا نعرہ دے کر سیاسی‘ معاشی ‘ لسانی ‘ عظیم ثقافتی ‘ تہذیبی بنیادوں کو ڈھاکر انفرادی واجتماعی معاشرتی زندگی کو مغربی طرز پر استوار کی گئی ۔ برطانیہ اور دیگر یورپی اقوام نے ترکی پر اپنے 5سالہ مختصر تسلط کے بعد حکومت کی باگ ڈور اپنی پسندیدہ جنریل کال اتاترک کو 1923 میں سونپی تھی ۔
اتاترک نے 14 سال حکومت کی ان کا 1938 میں انتقال ہوگیا اس وقت تک ترکی مکمل طور پر یورپ کی غلامی میں چلا گیا تھا۔ کال اتاترک نے عوامی جمہوریہ ترکیہ کا ایک ایسا مضبوط دستور بنایا جہاں دوبارہ سے کبھی ترکیہ اسلام اور اسلامی تہذیب کے قریب نہ آسکے ۔اس وقت کے حالات کا اندازہ صرف ایک تاریخی واقعہ سے آسانی سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اسلام پسندوں اور دین کے علمبرداروں پر لامتناہی خوفناک اعتاب 80 سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہا۔ 1960 میں بابا عدنان مندریش انتخابات میں کامیاب ہو کر وزیرآعظم منتخب کئے گئے تھے ۔ جب انھوں نے مساجد سے دی جانے والی اذانوں پر جو پابندی کو برخواست کرتے ہوئے اسے بحال کردیا۔ اور دینی مدارس کو کھولنے کی اجازت دے دی تھی تو ملک کی الحاد پرست ملٹری اور حکومت نے باباعدنان مندریش اور ان کے 4 رفیق و وزرا کو موت کی دیتے ہوئے پھانسی پر چڑھادیا تھا۔
اتاترک کے تیار کردہ دستور کی گرفت اتنی سخت ہے کہ رجب طیب اردغان جو ترکیہ کو عالم اسلام و عرب کے قریب کرنے میں شہرت رکھتے ہیں 20 سالوں سے حاکم رہنے کے باوجود دستور میں کئی بنیادی اہم تبدیلیاں کرنے سے قاصر رہے۔ ترکی میں آج بھی عائلی قوانین غیر شرعی و غیر اسلامی ہیں ۔ چاہے وہ شادی بیاہ کا معاملہ ہو یا عورتوں کی وراثت کا معاملہ ہو یا پھر سرکاری کارپوریٹ کمپنیوں میں خاتون ملازماؤں کے اسکارف کے زیب تن کرنےکا معاملہ ہو شہریوں کے کئی بنیادی مذہبی حقوق کو بحال نہیں کیا جاسکا ۔کیا آپ تصور کرسکتے ہیں آج بھی مقامی معاشرہ اور بلدیہ اور کارپوریشن قدیم تاریخی مساجد کو بلڈوز کرنے کے لئے علاقائی سطح پر سرکاری قراردادیں منظور کرتے ہیں ۔ اذان پر پابندی لگانے کی کئی علاقوں میں کامیاب کوششیں ہوچکی ہیں ۔ قانون کے مطابق ترکی عورت اپنے شوہر سے نان و نفقہ کا مطالبہ نہیں کرسکتی۔ اس کی گزر بسر کے لئے اس کو خود کمانا لازمی ہے ۔ اگر وہ خود کفیل نہیں ہے تو شوہر کو حق حاصل ہے کہ اسے گھر سے بے دخل کردے یا نکال باہر کردے۔ زندگی میں حلال و حرام ‘ اجتماعی بدکاری ‘ شراب نوشی ‘ قمار بازی ‘ لیو ان ریلیشن شپ پر کوئی پابندی حاصل نہیں ہے۔ نظام تعلیم مکمل طور پر لا دینی و الحاد پرست ہے۔
ترکی کے اسلامی مفکر حال نجم الدین اربکان کی ابتدا سیاسی جدوجہد نے 1990 کے دہے میں اسلام پسند ترکیوں کے درمیان ایک نئی اسلامی روح پھونکی اور بحیثیت مسلمان کے دولۃ عثمانیہ کی عظیم شاندار ماضی کو دوبارہ بحال کرنے اور مسلم معاشرہ کے لئے اسلام کوواحد سیاسی ‘ ثقافتی ‘ معاشی حل کے طور پر پیش کیا ۔وہ 1997-1996 میں ایک سال کے لئے وزیر آعظم ترکی رہے ‘ بعد میں ترکی ملٹری دستوری کمیٹی نے انھیں معزول کردیا تھا۔استاذ نجم الدین اربکان کو حکومت اور اسلام دشمن سیاسی جماعتوں اور حکومت کے اعتاب کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی مرتبہ جیل کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں ۔ ان ہی کے افکار و نظریات کا حامل و تربیت یافتہ اور ایک نمائندہ کارکن ان کی پارٹی سے علیحدگی اختیار کرکے اپنی علیحدہ پارٹی A.K. Party کی بنیاد ڈالی۔ جوآئندہ چل کر ترکی کا عظیم مسلم قائد اور حکمران بن کر ابھرا۔ رجب طیب اردغان نے جمہوری نظام سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے آہستہ آہستہ اپنے اسلام پسند سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے اور دنیا کے سامنے ایک پُر زور طاقتور آواز بن کر ابھرنے کی کامیاب کوشش کی۔ کئی مرتبہ سخت ترین حالات سے نبرد آزما ہونا پڑا۔ جولائی 2016 میں خوفناک فوجی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا۔ ترکی کی عوام نے بڑے پیمانے پر احتجاج کرکے اس فوجی بغاوت کو ناکام بنادیا تھا ۔
رجب طیب اردغان کی عالم اسلام اور مجبور مظلوم مسلمانوں کے لئے بار بار بلند کئے جانے والی آواز نے عالمی استعماری طاقتوں کی نیند حرام کردی تھی ۔ عالم اسلام میں ان کے منفرد قائدانہ رول کو دیکھتے ہوئے عرب شیوخ اور حکمران بھی ہمیشہ ان سے ناراضگی کا شکار رہے ۔ امریکہ اور یورپی ممالک کی بڑی تعداد ہمیشہ اس بات کے لئے کوشاں رہی کہ کس طرح سے طیب اردغان کو کمزور کیا جائے اور ترکی معیشت کو بدترین معاشی انحطاط کی جانب ڈھکیلا جائے ۔2002 تک طیب اردغان نے IMF اور عالمی بینکوں کے قرضوں کو مکمل طور پر ادا کرچکے تھے ۔ ترکی کی معاشی ترقی کو دھکہ پہنچانے کے لئے کئی مرتبہ ترکی لیرا کی قیمت قدر گرائی جاتی رہی ‘ لیرا کو بار بار کمزور کیا جاتا رہا ہے ۔
طیب اردغان نے 30 لاکھ شامی مہاجرین کو بسنے کے ساتھ ترکی میں کام کرنے کی اجازت دی‘ پڑوسی ممالک شام میں جاری خانہ جنگی اور سیاسی دباؤ کو بڑی سیاسی غیر معمولی دانشمندی اور حکمت عملی کے ذریعے پُر امن حل تلاش کیا۔ شام ‘ ایران ‘ روس ‘ لیبیا ‘ خلیجی ممالک کے علاوہ یورپی ممالک کے ساتھ بار بار اختلافات ابھرتے رہے لیکن بڑے ہی صبر کے ساتھ الجھنے والے معاملات کو سلجھانے کی کامیاب کوشش کی تھیں۔
ترکی کے حالیہ زلزلے میں 2 لاکھ سے زیادہ شہری ہلاک ‘ کئی شہر و گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے ‘ زلزلنے کی وجہہ سے ساری قومی توجہات ان متاثرہ علاقوں کی طرف مبذول ہوگئی ۔ اور ترکی کے معاشی ترقی پر گہرے منفی اثرات پڑے ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ آئندہ دو سال تک قومی ترقی کی رفتار ایسی سست روی سے جاری رہے گی ۔ اردغان کے دور میں عراق سرحد پر پٹرول کے علاوہ اور اندرونی علاقوں میں سونے کے قیمتی ذخائر بھی دریافت کئے گئے ۔ ترکی میں یورپ کی سب سے طویل 14 کیلو میٹر کی طویل سرنگ تعمیر کی گئی اس کا گزشتہ ماہ افتتاح عمل میں لایا گیا‘ اس کے علاوہ ٹکنالوجی کے جہت پر ترکی نے کافی ترقی کی ہے ۔یورپ کے مصنوعات مارکٹ کا 60% حصہ ترکی نے حاصل کرلیا ہے۔
طیب اردغان کے صنعتی ‘ معاشی انقلاب کا جو خواب تھا وہ کساد بازاری کا شکار ہوتا رہا ۔ اور کئ عرب ممالک نے سرمایہ کاری کرتے ہوئے گرتی ہوئی معیشت کو بچانے میں مدد کی۔ سیاسی ‘ بین الاقوامی ‘ سفارتی ‘ داخلی و بیرونی سخت چیالنجس کے باوجود ترکی نے زبردست صنعتی اور اختراعی میدان میں ترقی کی ۔ جس کا کئی ممالک کو راست فائدہ ہوا ۔ Azerbaijanو ارمینیا کی جنگ میں ترکی کے ڈرونس نے ارمینیا کو شکست سے دوچار کردیا تھا ۔ اس طرح بحری ساز و سامان اور جدید ترین ٹکنالوجی میں دنیا میں اپنا منفرد مقام پیدا کیا۔ ترکی بے شمار ایسی کمپنیاں ہیں جنھوں نے امریکہ ‘ یورپ اور ایشیا افریقہ کے بازار میں اپنے وجود کا لوہا منواتے ہوئے چینی ‘ اسرائیلی ‘ روس ‘ امریکی ‘ یورپی کمپنیوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اشیائے خوردنی سپلائی کرنے والی کمپنی ٹریڈول Tradeol نے دنیا کی مشہور چینی کمپنی علی بابا کی 12 بلین ڈالر کی مارکٹ کو کراش کرتے ہوئے 14 بلین ڈالر کا ایک سال میں کاروبار کیا اور اب امریکی بازار میں یہ کمپنی داخل ہوچکی ہے ۔ ایسی کئی کمپنیاں ہیں جس کا ذکر یہاں ممکن نہیں ۔
یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ آج کے عام انتخابات میں طیب اردغان اپنی صدارتی کرسی بچا سکیں گے یا نہیں ؟ طیب اردغان کو خود ان کی پارٹی میں داخلی ناراضگیوں کے علاوہ اور مغربی ممالک کی طرف سے زبردست ہلاکت خیز چیالنجس کا سامنا ہے۔
طیب اردغان کو شکست دینے کے لئے 6 اپوزیشن پارٹیاں آپس میں متحد ہوگئیں ہیں ۔ وہ اتاترک کے سیاسی نظریات کے حامل الحاد پرست اشتراکی‘ اسلام دشمن پارٹیاں ہیں ‘ترقی پسند سیاسی جماعتوں کا خیال ہے کہ’’ مذہب ایک افیون ہے مذہب پرستی سے انفرادی اور عام سوسائٹی کی اجتماعی آزادی قدیم اصولوں کے محاصرہ میں جکڑ دی جاتی ہے اگر اردغان کو ووٹ دیا جائے اور ترکی پھر ایک مرتبہ مذہب پرستوں کے ہاتھوں میں بدترین زوال کا شکار ہوجائے گا ۔ لادینی ‘ غیر مذہبی ‘ اشتراکی آزاد مغربی طرز کی قومی سیاسی زندگی کو بحال کرنا ان کی متحدہ جدوجہد ہے ‘ وغیرہ‘‘۔
طیب اردغان گزشتہ تمام عام انتخابات میں اس لئے کامیاب ہو سکے تھے کہ ان کے سیاسی مخالفین آپس میں بٹے ہوئے اور تھے ۔ گزشتہ انتخابات کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ آزاد ‘ جدید اتاترک کے نظریات کے حامل تمام پارٹیوں کا مجموعی ووٹ کا 55% حاصل کیا تھا ۔ جب کہ طیب اردغان کو اور ان کی پارٹیA.K.Justice کو 45% ووٹ مل سکے تھے۔چونکہ اس وقت سیاسی جماعتیں آپس میں شدید اختلافات کا شکار تھیں ۔بار بار شکست سے دوچار ہوتی رہیں ۔ اس مرتبہ معاملہ قدرے مختلف ہے۔ لیکن اب صورت حال بالکل مختلف ہے اور حالات بدل چکے ہیں ۔ تمام آزاد اشترکی 5 پارٹیاں آپس میں متحدہ ہوچکی ہیں ۔ اردغان کے مخالف میں ایک امیدوار تھا جس نے کل ہی عظیم اتحاد کی تائید میں انتخابات میں حصہ لینے علیحدگی اختیار کرلی ہے ۔
75 سالہ امیدوار کمال اوغلوجو علوی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں کی تائید میں کرتے ہیں ایک مضبوط سیاسی مبادل لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں ۔ اگر عوام کا ذہن بدلتا ہے تو پھر طیب اردغان کا موجودہ انتخابات میں شکست سے دوچارہوجانا یقینی ہے ۔
امریکہ ‘ روس ‘ خلیجی ممالک اسرائیل جیسے ممالک ‘ داخلی اسلام دشمن طاقتیں اور یورپ کا میڈیا ایک ہی آواز بلند کر رہا ہے کہ اسلامی امپریلزم کے خاتمے کے لئے اردغان کو شکست دواور تمام بڑے ترکی میڈیا ہاؤس اس بات پر ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ کسی طرح سے انتخابات میں طیب اردغان کو بدترین شکست ہوجائے ۔
بعض سیاسی قائدین جیسے اکرم اغلو ‘ میئر استنبول نے برملا کہا ہے کہ انتخابات میں اردغان کامیاب ہو یا ناکام پھانسی کا پھندا ان کا انتظار کر رہا ہے اگر وہ انتخابات میں کامیاب بھی ہوجائیں تو ہم چاہیں گے ترکی کو تقسیم کرکے آزاد اشتراکی ترکی کو دوبارہ سے بحال کریں ۔اس میں کوئی شک نہیں طیب اردغان کو جو عوامی شہرت حاصل ہے ترکی میں کسی لیڈر کو نہیں ‘ یہی وجہہ ہے کہ دنیا میں کسی سیاسی انتخابی جلسے میں پہلی مرتبہ 1.8 ملین سامعین کا ٹھا ٹھا مارتا ہوا سمندر استنبول میں طیب اردغان کے آخری خطے میں دیکھا گیا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ نظر آنے والی زبردست عوامی تائید ووٹ میں تبدیل ہو کر طیب اردغان کو دوبارہ انتخابات میں پھر ایک مرتبہ کامیابی سے ہمکنار کرے ۔
اپوزیشن پارٹیوں اور طیب اردغان کی A.K. Party میں بمشکل 2% ووٹ کا فرق ہے ‘ ذرا سی تبدیلی سے کوئی بھی امیدوار صدارتی انتخابات میں کامیاب ہوسکتاہے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے اگر دونوں کو مساوی ووٹ ملتے ہیں تو پہلے ہی سے ترکی کے الیکشن کمیشن نے ایک اور الیکشن کی آئندہ تاریخ کا بھی اعلان کردیا ہے۔
انتخابات میں بدعنوانیوں کا خدشہ کم ہے کیوں کہ اب بھی وہاں پر ووٹ بائیلٹ پیپر کے ذریعہ ڈالا جاتا ہے۔ EVM کا استعمال الیکشن کو مشتبہ بنا سکتاہے اس لئے بائیلٹ پیپر کو ہی ترجیح دی جاتی ہے ۔ چند منٹوں کے انتظار کے بعدترکی عوام کا فیصلہ سامنے آجائے گا ۔
Total No of Words: 1,965
Release on : 14-05-2023
Politics
اسرائیل کی حماقت اور حماس کی حقیقت

بسمہ تعالیٰ
اسرائیل کی حماقت اور حماس کی حقیقت
از: ناظم الدین فاروقی
NPA DOC No : 170
Dated: 01-11-2023
کرۃ الارض پر فلسطینیوں کی نسل کشی کے لئے غزہ کو دور جدید کے جہنم میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ لہو کے آبشار ‘ شہدا کی بے گور و کفن لاشیں ‘ ہزاروں علاج کے لئے تڑپتے زخمی معذور ‘ بھوک و پیاس سے نڈھال عوام ‘ خوفناک بمباری اور توپوں کے گولوں سے بچنے کے لئے شمال سے جنوب اور جنوب سے مشرق و مغرب دوڑتے دوڑتے زندگی سے تھک چکے ہیں ۔لیکن پھر بھی دشمن سے لڑنے کا ولولہ ماند نہیں پڑا ہے۔عورتوں ‘ بیواؤں ‘ یتیم بچوں ‘ زخمی مریضوں کا کہرام مچا ہواہے ۔ ہر 7 منٹ میں ایک بچہ فوت ہورہاہے ‘ مرنے والوں میں 70% عورتیں اور بچے ہیں ‘ غزہ میں21 ویں صدی کا بدترین انسانی بحران پیدا ہوگیا ہے ۔ اموات کی تعداد کا کانٹا تیزی سے ہر7 منٹ میں ایک بچے کی موت کے ساتھ شہادت پانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہی کرتا جارہا ہے ۔ 12 ہزار سے زیادہ معصوم فلسطینی شہادت پا چکے ہیں ایک لاکھ سے زیادہ زخمی ہیں اور بار بار اسرائیلی فوج کی وارننگ کی وجہہ سے محلہ کا محلہ خالی کرکے جان بچانے کے لئے بھاگ رہے ہیں ۔ وزارت سیول سروس غزہ کے مطابق آدھے سے زیادہ آبادی یعنی تقریباً 12 لاکھ بے گھر ہو کر سڑکوں ‘ گلی ‘ کوچوں میں زیر سماں بے سہارا ہجوم ‘ بے آب و غذأ و دوأ سکتہ میں ہے ۔ جائیں تو کہا ں جائیں ؟ کھلی جیل میں اسرائیل وحشیانہ بمباری کے ذریعے معصوم فلسطینی ہونے کا بدترین انتقام لے رہاہے۔ قتل عام و غارت گیری کی بدترین تجربہ گاہ بنا کر ظلم و بربریت کی چکی میں پیسا جارہاہے ۔عالمی رائے کو بدلنے کے لئے پروپگنڈے کے ذر یعے دنیا میں مظلوم فلسطینیوں کو مجرم اور وحشی عرب کے طور پر بد نام کرنے امریکہ کے کئی بڑی میڈیا کمپنیوں جیسے ڈیجیٹل مارکٹنگ کمپنی Semrush وغیرہ کوتشہیر کا کنٹراکٹ دیا گیا ۔ اسکے ذریعہ فلسطینیوں کو وحشی ‘ بد معاش عرب کے طور پر ان کا تشویۃ ( بدنام) کرنے کے لئے کئی بلین ڈالر عالمی میڈیا وار پر اسرائیل خرچ کر رہا ہے دنیا میں اک سو بیس کروڑ 1.2 بلین (Billion) ناظرین تک غزہ کی جنگ کی فیک ‘جھوٹ پر مبنی ویڈیوز اور واقعات و معلومات پہنچائی جاچکی ہیں ۔ اسرائیل کے ایک آئی ٹی I.T ماہرمحقق کے مطابق 2 ملین سے زیادہArtificial Intelligence کے ذریعہ فیک نیوز تیار کرکے دنیا میں سوشل میڈیا پر گشت کروایا جارہا ہے ۔ ایک عربی چیانل نے کئی اس طرح کے فرضی قدیم ویڈیو کلیپنگس کو واشگاف کیا گیا ‘ حال ہی میں یہ بتلایا گیا ہے کہ امرحکہ کے ہزاروں فوجی ایر کرافٹ سے اسرائیل ایر پورٹ پہنچ رہے ہیں ۔ ان مناظر کو فیاکٹ چیک کے ذریعہ ٹسٹ کیا گیا تو پتہ چلا کہ یہ دوسال پرانی ویڈیو ہے ۔ ٹھیک اسی طرح 40 بچوں کے سر کاٹنے کی افواہ پھیلائی گئی اور ایک فیک ویڈیو میڈیا میں گشت کر وادیا گیا ۔جس کے ذریعے حقیقی واقعات پر پردہ ڈالتے ہوئے پوری دنیا میں اپنے معصومیت کے ڈنکے پیٹتے ہوئے نسل کشی کو ضروری اور اپنے دفاع کے حق میں لازمی اور وقت کی ضرورت قرار دے رہے ہیں۔
دنیا کا چاہے پرنٹ میڈیا ہو یا ڈیجیٹل‘ ان تمام بڑی کمپنیوں کے مالکین یہودی ہیں وہ اور زور و شور سے اسرائیلی ظالمانہ پالیسیوں کو خوبصورت بنا کر بھر پور ساتھ دے رہے ہیں لیکن یہودی مذہبی پیشواؤں‘ یہودی دانشوروں کی بڑی تعداد اب فلسطینیوں کی آزادی کے حق میں ایک طاقتور تحریک چلا رہے ہیں ۔
نیو یارک پوسٹ 29؍ اکٹوبر کے شمارے میں پہلے صفحہ پر سرخیوں میں خبر شائع کی گئی کہ دو ہزار اسرائیلی مشرقی وسطیٰ کے وحشیوں سے لڑنے کے لئے روانہ ہوئے ہیں ۔ اسی اخبار میں ایک گھریلو عورت کو اس کے لوّر (Lover) نے قتل کرکے اس کے جسم کے ٹکڑوں کو فریج میں رکھ دیا ‘ جس کی اطلاع پولیس کو ایک ماہ بعد ملی وحشی کون ہیں ؟ سالانہ 35 ہزار سے زیادہ معصوم لوگ امریکہ میں گن فائر میں ایسے ہی ہلاک کردیئے جاتے ہیں ۔ عرب دنیا میں کسی بھی مقام پر اس طرح آپسی فائرنگ کے ذریعہ بے جا قتل نہیں ہوتے ۔ پہلی مرتبہ یہ دیکھا گیا ہے کہ یہودی لابی میں خود غزہ پر حملو ں کے خلاف زبردست آپسی شدید اختلاف کا شکار ہوچکی ہے ۔ احتجاجی یہودی واشنگٹن میں کیپٹل ہلز پر ہلہ بول دیا ۔ ہفتہ 4؍ اکٹوبر 23 کو امریکہ کے 50 شہروں سے لاکھوں افراد احتجاجی جلوس کی شکل میں جمع ہو کر پورے امریکہ کو دھلا دیا ۔ منھا ٹن نیویارک کے اسٹیشن کو روز روز کے احتجاج کی وجہہ سے کئی مرتبہ بند کرنا پڑا ۔31؍ اکٹوبر 23 کو وزیر خارجہ امریکہ انٹونی بلنکن (Antony Blinken) کی پریس کانفرنس میں صحافیوں کی بدترین مخالفت اور اہانت کا سامنا کرنا پڑا ۔ صحافیوں کی اکثریت نے اپنے ہاتھوں کو خون سے رنگ کر زبردست پریس کانفرنس کے خلاف احتجاج کیا۔
اسرائیل کے ایک مشہور صحافی Hila Weiss Berg کا ایک مضمون بعنوان اسرائیل کی حماقتیں اور حماس کی حقیقتیں’’Israel Fantasies & Hamas Realties ‘‘ کے عنوان سے ایک مشہور روزنامہ میں شائع ہوا ہے۔ جس کے مطالعہ سے اسرائیل کے اعلیٰ ملٹری قیادت کی صحیح طور پر سونچ و فکر کا اندازہ ہوتا ہے جس کا اقتباس قارئین کے استفادہ کے لئے یہاں درج ہے :
’’Dr. Micshetin مشیر اعلیٰ برائے فلسطینی امور IDF (اسرائیلی ڈیفنس فورس ) کے انٹلیجنس (مخابرات ) میں لفٹنٹ کرنل کے عہدہ پر رہ چکے ہیں انہوں نے 1948 کے نکبہ پر اپنی پی ایچ ڈیP.hd کی تھی‘ ہلز ویس برگ Hils Weis Bergجنھوں نے ایک خصوصی انٹرویو میں بعض حقائق پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے بہت ساری چونکا دینے والی باتیں کہی ہیں ۔
فلسطینیوں کا مسئلہ اتنا آسان نہیں جتنا ہمارے سیاست دان تصور کرتے ہیں ۔ اسرائیل کی انٹلیجنس کی سب سے بڑی تاریخی غلطی یہ تھی کہ وہ حماس اور اس کی قیادت کو الفتح و حزب تحریک فلسطین جیسے گروپوں کی طرح سمجھتی رہی جب تک حماس کے تصورات ‘ خیالات ‘ نکتہ نظر اور فکر ان سے بالکل مختلف ہے ۔ وہ ہمارا ایسا دشمن ہے جس کو ایک زاویہ نگاہ سے سمجھنا اور اس کے مطابق ایک مفروضہ بنا لینا سوائے ہمار ی بے بصیرتی اور اندھے پن کے کچھ نہیں ہے ۔ حماس جہاں دہشت گرد ہے وہی وہ ایک سیاسی ‘ سماجی ‘ فلاحی اور نتائج سے بھر پور مہیمات چلانے میں مہارت رکھنے والی تحریک ہے ۔ حماس میں عقلی بنیادیں Pragmatism کوٹ کوٹ کر بھرا ہواہے۔ موجودہ فدائی کوششوں کو اپنی تاریخ سے جوڑ کر کام کرنے کی ان میں بھر پور صلاحیت پائی جاتی ہے ‘ ان کی قیادت مذہبی قیادت نہیں ہے لیکن وہ بہت کٹر مذہبی ہیں ۔
موجودہ صدر غزہ یحیی سنوار کو ہم نے 22 سال اسرائیلی جیل میں قید میں رکھا ۔ اس دوران اسیری میں اس نے یونیورسٹی سے نہ صرف دو پی ایچ ڈی تکمیل کرلئے بلکہ حماس نے سنوار کی رہائی کے لئے ہمارے ایک فوجی کرنل Giled Shelit کا اغوا کرلیا تھا جنھیں چھڑانے کے لئے ہمیس حماس کے ساتھ ڈیل میں بہت کچھ کھونا پڑا تھا ۔ یحییٰ سنوار کے ساتھ ایک نہیں دو نہیں ایک ہزار فلسطینی قدیوں کو رہا کرنا پڑا۔ اتنی خطرناک شرائط کو بھی ہمیں ماننا پڑا ۔یہ کہنا مشکل ہوتا ہے کہ حماس کب کیا سیاسی ‘ سفارتی ‘ معاشی ‘ عسکری ‘ عالمی اعلام ترک چلے گا ‘ ہمارے سنچری کے تمام 75 سالہ تجربات کو ایک دن میں حماس نے خاک میں ملا دیا ۔
ڈاکٹر مچٹن کا کہنا ہے ایک جانب یحییٰ سنوار اسرائیل کے وزیر آعظم کو خط لکھتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے روزگار کے لئے چک پوائنٹس پر نرمی کرتے ہوئے ورک پرمٹ دیئے جائیں ۔دوسری جانب وہ ان بے روزگاروں کو ہماری سرزمین پر روزانہ محنت مزدوری کے نام پر ہمارے علاقوں میں گھسا کر ان سے ہماری جاسوسی کے ذریعے مخبری کرواتا رہا ۔
ہم یہ سمجھتے رہے کہ 22 سال قید و بند کی سزا کاٹنے کے بعد اب اس کی زندگی میں سوائے اپنی زندان کی آپ بیتی لکھنے کے کیا کام باقی رہ جائے گا اور اس نے ہماری سزاؤں (تعذیب ) سے بہت کچھ سبق حاصل کرلیا ہوگا ۔ اس کی سوسائٹی میں لوگ اس سے خوف بھی کھائیں گے ۔اس کے اہل خانہ اسے گھر کے کسی کونے میں بٹھادیں گے لیکن ہمارے یہ مفروضے سب لغو ثابت ہو گئے ‘ہم سنوار کے افکار و نظریات کو صحیح طور پر سمجھ نہیں سکے۔ سراسر دھوکہ کھا گئے۔ ہمارے جیلوں سے رہا ہونے والے بڑے بڑے سور ماؤں کی کمر ٹوٹ جاتی ہیں اور ہمیشہ کے لئے وہ ہم سےدشمنی کا راستہ بھول جاتے ہیں ۔ وہ تو رہا ہو کر نہ صرف بڑا قائد بن گیا بلکہ پوری حکومت کی باگ ڈور اس نے سنبھالی ۔( اس پر جان نچھاور کرنے والوں کی ایک فوج تیار کرلی )۔
ہمارے زندگی کے اَپروچ میں اور سنوار کے اپروچ میں بہت بڑا فرق ہے ۔ذرا سونچئے ہم لوگ بڑے بڑے فوج اور حکومت کے عہدوں پر رہ کر وظیفہ پر سبکدوش ہوجاتے ہیں اور پھر ایک دن مرجاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ہماری زندگی کا اور کیا نکتہ نگاہ ہے ۔لیکن سنوار کے اور حماس کی قیادت کے پاس نہ موت کا خوف ہے اور نہ ہی ان کی موت کے بعد ان کی تحریک ختم ہونے والی ہے ۔ ان لوگوں نے بچے بچے کہ دل اور دماغ میں اپنے ارض مقدس کی آزادی کی جو روح پھونک دی وہ ایسا لگتا ہے کہ کبھی ختم نہیں ہونے والی ہے ۔
اس تجزیہ میں ڈاکٹر مشیٹنن نے مضمون نگار صحافی کے ذریعے یہ بھی وارننگ دی کہ اگر دو قومی نظریہ قبول کرلیا جائے تو سمجھ جاؤ کہ پڑوس میں ایک نیا بوسنیا تیار ہوگیا ہے اور اگر فلسطینی نوجوانوں کو ہماری شہریت دی جائے گی تو وہ اکثریت میں آجائیں گے اور سوشل ڈیموکریٹک اسٹیٹ کے بہانے حکومت ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گی ۔ ان کی مغربی پٹی اور نہ ہی غزہ کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں مملکت کا درجہ دینے کو بین الاقوامی دباؤ کے تحت قبول کرنا اپنے لئے( اسرائیل) خودکشی کرنا ثابت ہوگا ۔ بجلی ‘ پانی ‘ فینانس ‘ دفاع ‘ صیانت سب کچھ ہمارے ہاتھ میں ہونے کے باوجود آج جس انداز سے ہم پر حملہ آور ہوئے ہیں وہ ہمارے لئے تاریخ کا ایک سبق ہے ۔ ہم ہمیشہ یہ سمجھتے رہے کہ نفق( ٹنل) کے ذریعہ یہ دہشت گرد ہمارے علاقے میں گھسنے کی کوشش کریں گے ہماری ہمیشہ نگاہیں صرفٹ ٹنلس پر ہی جمی رہیں تو انھوں نے اپنی عظیم ذہانت سے کام لیتے ہوئے فضا میں اڑنے اور کھلے عام سرحد پار کرنے کا ایک بڑا کام کرڈالا۔75 سال کی جتنی ہماری اعلیٰ ترین فوجی ‘ سیاسی ‘ سفارتی ‘ تجارتی کوششیں انھیں کمزور کرنے کی تھیں وہ سب اچانک خاک میں مل گئیں تھیں وہ اب مکمل طور پر بولنے کی ضرورت ہے۔ وغیرہ۔‘‘ (بحوالہ جیروسلم پوسٹ29؍ اکٹوبر 23)
ڈاکٹر مسٹن غزہ سے متعلق بہت ہی ذہین تصور کئے جاتے تھے وہ کئی جنگوں میں شریک رہ چکے ہیں وہ IDF کے انٹلیجنس ڈپارٹمنٹ کے لفٹنٹ کرنل ہونے کے باوجود اہم باتوں کااخفأ کیا ہے ۔ اپنے انٹرویو ں میں بھی عیاری سے کام لیتے ہوئے بہت ساری باتوں پر پردہ ڈال دیا۔ شیخ احمد یسینٰ کی قیادت میں اسلامی تحریک کی پہلی انتقاضہ 8؍ ڈسمبر 1987 اور دوسری تحریک انتقاضہ 2000 اور 2004 میں شیح یسین و یاسر عرفات کی شہادت اور 2006 میں حماس کی UNO کی زیر نگرانی پہلے عام انتخابات میں 132 پارلیمانی نشستوں میں 74 نشستوں پر اور الفتح PIO کو 45 نشستیں حاصل ہوئیں تھیں ‘ حماس ایک عالمی سطح پر معترفہ سیاسی پارٹی ہے ‘ دہشت گردی کا اس پر لیبل لگا کر اسے بدنام کرنے کی کوشش عالمی طاقتوں کی جانب سے جاری ہے ۔ اس عظیم الشان کامیابی کے بعد سے پھر فلسطینیوں کے دیئے گئے ووٹ کے حق کو 17 سال سے دوبارہ نہیں دیا جارہا ہے اور مغربی پٹی و غزہ میں حسب معمول ہر 5 سال کو عام انتخابات کروانے کے بجائے نہتے خالی ہاتھ غزہ کے شہریوں پر پہلے 4 جنگیں اور اب 5 ویں جنگ مسلط کرتے ہوئے گزشتہ 24 دنوں کے دوران 16 ہزار ٹن بم عام معصوم زندہ آبادی پر گراکر ہلاک کیا جارہا ہے ۔
صیہونی دانشور کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ فلسطین کی آزادی اور فلسطینیوں کے اسلام بیتُ المقدس سے دائمی تعلق کو چھپاتے ہوئے ایک خود ساختہ تشریحات اور کھوکھلے تجزیات پیش کرتے ہوئے دنیا کا اپنے مطابق ذہن بنانے میں بڑی حد تک کامیاب ہورہے ہیں ۔
حماس کو جتنی کامیابیاں ہوتی ہیں اس سے کئی گنا زیادہ ہر روز ایک نئے چیالنجس اور داخلی عرب اسرائیل لابی کی مضر سرگرمیوں کا سامنا درپیش ہے ۔
حماس کے گزشتہ 20 سالوں میں کئی سو تربیت یافتہ قائدین کو چن چن کر اسرائیل نے دنیا میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر شہید کرڈالا۔ حماس کی آج کی اجتماعی قیادت طوفان الاقصیٰ کے ذریعہ دنیا کو حیرت زدہ کردیا ‘ دشمن کو یہ احساس ہوچکا ہے کہ حماس کے یحییٰ سنوار جیسے 50 قائدین کو بھی شہید کردیا جائے تو حماس کی سرگرمیوں اور کارکردگی میں کوئی ذرہ برابر فرق نہیں آئے گا بلکہ اعلیٰ تعلیمی یافتہ و اسلامی تربیت سے ہمکنار دوسری اور تیسری صف بالکل تیار ہے ۔قربانیوں ‘ شہادت کو وہ اپنے لئے باعثِ شہادت سمجھتے ہیں اور مقتل غزہ کو ’’مجزرہ مشرف‘‘ کہتے ہیں ۔ دشمن اسی سے خوف زدہ ہے کہ پوری قوم کو شوق شہادت سے سرشار کردیا گیا ہے ۔ موت کو تبسم کے ساتھ چوم کر شہادت کے لئے ایک دوسرے سے بازی لے جانے کا جذبہ دن بہ دن بالاہی ہوتا جارہا ہے ۔
حماس کی بے پناہ عصری صلاحیتوں کے اسرائیل کی اعلیٰ ترین قیادت بھی معترف ہو چکی ہے ۔ سل فون بگ Pegasus جو دنیا کے کسی بھی شخص اور شہری کی بات چیت کو غیر محسوس طریقہ سے ہائیکنگ کرتا ہے وہ ایک اسرائیلی کمپنی ہے ‘ اس سے جاسوسی کے ہگ کے فروخت کے ذریعہI.T اسرائیلی کمپنی نے کئی بلین ڈالر کمالئے ۔ حتیٰ کہ ہندوستان نے بھی بہت بھاری قیمت میں اس کو خریدا اور اس کا بی جے پی اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کر رہی ہے ۔ جس کی حال ہی میں ہندوستان کے کئی ممبران پارلیمنٹ نے حکومت سے شکایت بھی کی۔ اسرائیل کو بہت گھمنڈ تھا کہ ہم ساری دنیا کی مخبری و جاسوسی کی قدرت رکھتے ہیں ۔ 7؍ اکٹوبر کے حملے سے پہلے حماس کے I.T سائنس دانوں نے Pegasus کو فیل کرتے ہوئے اپنا جدید ترین بگ بنا کر اسرائیلی ملٹری کی خفیہ معلومات حاصل کرلیں ۔ حتیٰ کہ دنیا کے خفیہ معلومات کا سب سے محفوظ بڑا مرکز مانے جانے والا موساد کا سنسر راکٹ حملے میں تباہ کرتے ہوئے وہاں کی تمام خفیہ معلومات کے کمپیوٹرس اٹھالئے گئے‘Pegasus کی بدترین ناکامی کے بعد اسرائیل نے اس کمپنی کو اب بلیک لسٹ کردیا ‘ اس ذلت آمیز شکست اور ہائی ٹک ہونے والے تکبّر کو حماس نے ملیا میٹ کردیا اس علاقے میں اپنی جنگی حکمت عملی وٹکنالوجی کی سوپر میسی تو حماس نے منوانے کے لئے دنیا کو مجبور کردیا ۔
اب دنیا کے بڑے بڑے طاقتوں کے ملٹری ریسرچWar Colleges حماس پر ریسرچ کرنے میں لگ گئے ہیں ۔ جس طرح دنیا کے دونوں سوپر پاورس افغانستان میں آخرکار شکست فاش ہوئی ٹھیک آج نہیں تو آئندہ چند سالوں میں فلسطینیوں کی نئی نسل جو ماں کے گودوں میں ہے ضرور غلامی سے آزادی حاصل کرکے ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت دے گی۔
Total No of Words: 2,603
Release on : 01-11-2023
Politics
طوفان الاقصیٰ کی جنگ خطرناک مرحلے میں داخل

بسمہ تعالیٰ
طوفان الاقصیٰ کی جنگ خطرناک مرحلے میں داخل
از: ناظم الدین فاروقی
NPA DOC No : 0167
Dated: 15-10-2023
آزادی فلسطین و مسجد الاقصٰی کی جدوجہد ایک خوفناک رُخ اختیار کرچکی ہے ۔7؍ اکٹوبر 23 طوفان القدس نے اسرائیل میں ناقابل تلافی نقصان کے ساتھ نفسیاتی جنگ میں فلسطینیوں نے زبردست برتری حاصل کی ۔ انٹلیجنس اور مخابرات میں دنیا کا استاد مانا جانے والا اسرائیل اور اس کی تمام خفیہ ایجنسیوں کو مقام بریگیڈ نے حماس بریگیڈ نے راکھ چٹادی ۔ آئی ٹی کے تمام سوپر
Space Command اور آئرن ڈوم(قبۃ الحدید) کو بھی اپنی مہارت سے حماس کے مجاہدین نے ناکارہ کردیئے ۔ دنیا سکتہ میں ہے ‘ عالمی طاقتیں افغانستان کی طویل جنگ آزادی میں شکست فاش کے بعد صرف دو سالوں میں ایک اور دوسرا جھٹکہ سوپر ملٹری پاور کےجنریلوں کے ہوش اُڑا دیئے ۔
اسرائیل کے جرنیل اس بات کو لے کر سر پیٹ رہے ہیں جہاں جس علاقے پر بمباری کی جارہی ہے چند منٹوں بعد میں سے آئرن ڈوم(قبۃ الحدید) کو ناکام کرتے ہوئے ابھی بھی ہلاکت خیز راکٹ داغے جارہے ہیں ۔گزشتہ ایک ہفتے تقریباً 15 سو معصوم فلسطینی اسرائیلی بمباری میں ہلاک ہوچکے ہیں ۔UNO کے 9 ملازمین کے علاوہ پریس کے لوگ بھی ہلاک ہوئے ہیں ‘ دوسری جانب مصر نے غزہ کی رَفأ سرحدی گیٹ کو مقفل کردیا ہے ۔ اسرائیل 3 مرتبہ اس پر بمباری کرچکا ہے ‘ اب اسرائیل نے اقوام متحدہ سے کہا ہے کہ ایک ملین پناہ گزین کا مصر کے صحرأ میں انتظام کرلیں ہم شہر خالی کروانے والے ہیں ۔بحری ‘ برّی ‘ فضائی حملے کے لئے3 لاکھ کو اسرائیل کے فوجی لشکر کی بھاری ٹینکس کے ذریعہ غزہ پر چڑھائی کرواکر سرحد کے اس پار مصر کے صحرا سینا میں ڈھکیل دینے کا اعلان کیا ہے لیکن حماس کی حساس جنگی حکمت عملی اور زمینی سرنگوں سے سب خوفزدہ ہیں ۔اطلاع کے مطابق 14؍ اکٹوبر 23 کو ہفتے کے دن کئی لاکھ اسرائیلی فوج غزہ شہر میں داخل ہوگئی ہے ۔ 17 سالوں کے درمیان ابھی تک غزہ پر 5 جنگیں مسلط کی گئیں۔
غزہ سے راکٹوں کے حملے اور مجاہدین کی کاروائیوں میں15000 سے زیادہ اسرائیلی اور 1500 سے زیادہ طوفان القدس کے کارکن شہید ہوگئے ۔بعض کیبوٹس میں اب بھی لڑائی جاری ہے ۔1987 سے ہی اسرائیل حماس کے تیور اور کاروائیوں سے پریشان ہے ‘ یہ اسلامی فلسطینی تنظیم اگر متحرک ہوجائے تو اسرائیل کے لئے بہت بڑا نقصان ہوگا۔ عجلت میں یاسر عرفات سے کئی معاہدے کرلئے تا کہ حماس کا صفایا کیا جائے اسرائیل بار بار حماس کے صفائے کا اعلان کرچکا ہے ۔ 37 سال کا عرصہ ہوگیا یہ اسلامی تنظیم کا خاتمہ اسرائیل اور عالمی طاقتوں کے بس کی بات نہیں رہی ۔
حماس کے حملے پر دنیا میں ہنگامہ کھڑا کیا جارہا ہے ۔اگر خون آلود فلسطین کے تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ نکبہ 1948 سے اب تک 5 لاکھ فلسطینیوں کو ہلاک اور 2 ملین فلسطینیوں کو ملک بدر کردیا گیا تھا ۔ اس دوران ایک ملین سے زیادہ فلسطینیوں کو گرفتار کرکے طویل مدت کے لئے جیل میں مقید کردیا گیا ۔2022 سے اب تک 11540 جن میں نصف بچے ‘ عورتیں اور معصوم فلسطینی شامل ہیں ہلاک کردیا گیا ۔ بیت المقدس کے اطراف صرف قدیم شہر یروشلم میں 250 قدیم عمارتوں کو منہدم کرکے 258 عمارتیں تعمیر کی گئیں۔2021 میں فلسطینی علاقوں 70 مقامات کو منہدم کرتے ہوئے 71900 یہودی مستوطنین Settler کو بسایا گیا۔ 19 مساجد شہید کردیئے گئے ‘ 10 ہزار لوگوں کو زمینوں سے بے دخل کیا گیا۔ اس کے علاوہ مسجد اقصیٰ میں روزانہ مصلیوں بالخصوص خواتین ‘ عورتوں ‘ بچوں کو زودو کوب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ اسرائیل نے بیت المقدس کے نیچے دو بڑی سرنگیں بنالی ہیں ۔ جس کے اندر دھماکہ کرکے وہ کبھی بھی بیت المقدس کو شہید کرنے کی تیاری کی جاچکی ہے۔
وزیر آعظم اسرائیل بنجامن نتن یاہو اور فلیڈ مارشل اسرائیل نے 8؍ اکٹوبر 23 کو انتقام کی وارننگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ حماس نے غزہ میں اپنے لئے جہنم کے داہنےکھول لئے ہیں ہمارے لئے یہ حملے 9/11 ٹوین ٹاور کے حملوں سے زیادہ خطرناک ہیں۔ہمارا پہلا کام ہوگا حماس کو صفہ ہستی سے مٹادیں اور غزہ کے دہشت گردانہ کاروائیوں کا ہمیشہ کے لئے صفایا کردیں ۔ امریکہ ‘ یورپ یہ استعماری طاقتوں کا توسیع شدہ ایجنڈہ ہے کہ سفید قوم کی عرب علاقے میں سرپرستی قائم رکھی جائے ‘ حتٰی کہ ایشیا کے کئی اسرائیل دوست ممالک نے اسرائیل کے انتقامی کاروائیوں کی مکمل تائید کی ہے ۔غزہ پر کارپیٹ بمبنگ شروع کردی گئی ‘ گزشتہ 8 دنوں کے دوران 6 ہزار عمارتوں کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کردیا اور 2000 سے زیادہ عام معصوم شہری ہلاک ہوگئے ۔ شہادت پانے والوں میں حماس کی قیادت کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔
اسرائیل اپنی فوج اور انٹلیجنس کی ناکامی کا بدلہ وحشی بمباری سے لیتے ہوئے 8 ہزار سے زیادہ مکانات اور اپارٹمنٹس کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کرچکاہے ۔ فاسفورس بم استعمال کئے جارہے ہیں ۔ فاسفورس روشنی و بدبو کے ساتھ 800 ڈگری کی تپش پر جلا کر راکھ کردیتے ہیں ۔ جب کہ پانی 100 ڈگری شلسیس پر کھول جاتا ہے ۔ کسی بھی انسانی جسم پر لگ جائے تو پورے جسم کو سکنڈوں میں کوئلہ بنا دیتے ہیں ۔ اس آتشی تپش کی اتنی دیرپا صلاحیت ہوتی ہے کہ پانی ڈالنے سے بھی نہیں بجھتی ہے‘ آکسیجن ملتے ہی شعلہ پوش ہوتی ہے ۔
اگر ہم حماس اور عز الدین قسام بریگیڈ کے اسرائیل پر اچانک حملے کی وجوہات کا تجزیہ کریں تو اس کے کئے عوامل ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ایک تو سعودی عربیہ اور اسرائیل کے آپسی امن معاہدے اور سفارتی تعلقات 75 سالوں میں پہلی مرتبہ بحال کرنے کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں ۔ اسرائیل جیسے ظالم ملک کے ساتھ عرب ممالک نے احتیاط سے کام لینے کے بجائے بڑی عجلت سے کام لیا اور فلسطینی قیادت کو اعتماد میں لئے بغیر ایک کے بعد ایک عرب و مسلم ملک اسرائیل سے معاہدات کر رہے تھے ۔ جس سے صاف طور پر یہ مطلب ظاہر ہورہا تھا کہ مسئلہ فلسطین کو عربوں و مسلمانوں کے درمیان اب کوئی خاص اہمیت حاصل نہ رہی‘ ہماری ملکی قومی مفادات کو اہمیت دیتے ہوئے فلسطینی کاز کو ہمیشہ کے لئے دفن کرنے کے لئے راضی ہوگئے ۔
دوسرا سب سے بڑا فلسطینی کاز کو اس وقت دھکہ لگا اور اس میں اسرائیل کی اصل نیت کھل کر سامنے آگئی جب اسرائیلی وزیر آعظم نتن یاہو نے 22 ؍ ستمبر 23 کو اقوام متحدہ میں تقریر کرتے وقت اسرائیل کا ایک نقشہ بڑی چالاکی سے دنیا کو بتلایا ۔ جس میں فلسطین ہی غائب کردیا گیا ہے۔ عرب سے دوستی اور تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے بڑی آسانی سے فلسطینی وجود کو ہی ختم کرنے کے منصوبے کو اس نے آشکار کردیا تھا۔ تیسرا سبب ترکی جیسا فلسطین و بیت المقدس کی آزادی کا کا سب سے بڑا ہمنوا اور مددگار بھی اچانک اپنی فلسطینی پالیسی بدل چکا تھا ‘ مصلحتوں کا شکار ہو کر طیب اردغان نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی لب و لہجہ میں کافی نرمی اختیار کرلی تھی ۔ انتخابات سے پہلے اسرائیل کی دہشت گردی و مظالم اور غیر انسانی سلو ک پر وہ زبردست تنقیدیں کیا کرتے تھے۔اب سب بند ہوچکے تھے ۔تمام عرب و مسلم ممالک اپنے اپنے مفادات اور امریکی و بین الاقوامی دباؤ کے تحت نارمل سفارتی تعلقات کے رجحان کو تقویت پہنچا رہے تھے ۔
جیسے ہی 7؍ اکٹوبر 23 کو حماس کا طوفان الاقصیٰ کا آپریشن ہوا پہلے24 گھنٹے میں اسرائیل کی تائید میں بیانات آنے لگے بعض عرب حکمرانوں نے تائیدی بیان دے دیا تھا لیکن جب عرب و مسلم عوام کا شدید دباؤ بڑھنے لگا تو تیسرے دن سے پھر فلسطینیوں کے حق میں فضا بننے لگی ۔ یو اے ای کے شیخ محمد زاید النیہان نے پہلے اسرائیل کے تائید میں بیان دیا پھر بیان بدل دیا ۔سعودی عربیہ نے بھی کھل کر فلسطینیوں کی تائید کی ‘ ایک عرصے کے بعد حرم شریف میں فلسطینیوں کے لئے خصوصی دعائیں کی گئیں ۔دراصل عالم مسلم قیادت سہ رخی چال چل رہی ہے ایک جانب اسرائیل کو خوش کیا جارہا ہے دوسری جانب مسلم عوام کے جذبات کا خیال رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ‘ تیسری جانب فلسطینیوں کو یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ہم تمہارے کاز میں شامل ہیں ۔بڑے عرب مسلم ممالک امریکہ اور اسرائیل کو ناراض نہیں کرنا چاہتے ‘ امریکہ کے وزیر خارجہ فارن سکریٹری بلنکن جو یہودی ہے عرب قائدین سے ملاقات کرنے میں مصروف ہیں ۔
اسرائیل کی تائید کے لئے امریکہ نے اقوام متحدہ میں ووٹنگ کی کوشش کی تو کویت نے جم کر مخالفت کی اس کی وجہہ سے بین الاقوامی سطح پر فضا بنی اس اعتبار سے 15 ووٹ اسرائیل کے خلاف اور صرف امریکہ کا ایک ووٹ تائید میں حاصل ہوا ۔ اسی طرح EU یورپین یونین بھی حماس اسرائیل کے معاملہ میں شدید اختلافات کا شکار ہوگیا ۔ امریکہ کے سینٹ ممبرس کی بڑی تعداد فلسطینیوں کے حق میں ہے ۔ ایران نے بھی بہت محتاط رویہ اپنایا ہوا ہے ۔ ایران نے تائید تو کی لیکن ساتھ ہی ساتھ کسی بھی قسم سے حملوں میں مدد کرنے کے الزام کا انکار کیا۔ پھر امریکہ اور یورپ نے بھی یہ کہا کہ حماس کے حملوں میں ایران اور حزب اللہ شامل نہیں ہے ۔ ایران کی ہمیشہ زبانی تائید حاصل رہی۔ ایران کے صدر ابراھم رئیسی نے عرب ممالک سے اپیل کرتے ہوئے پر زور طریقہ پر کہا کہ فلسطین کے تحفظ کے لئے تمام عرب ممالک ایک متحدہ فرنٹ تشکیل دیں ‘ یہ تجویز بر وقت پیش کی گئی ۔ یقیناً اگر ایران کی تجویز پر غور و فکر کرنے سے غفلت برتی جائے گی تو ہوسکتا ہے اسرائیل اپنے شدید وحشی ظالمانہ منصوبوں کو روبہ عمل لائے۔ نتن یاہو اپنی حکومت کی ساکھ بچانے کے لئے کسی بھی جانب اس تباہی و بربادی کو لے جاسکتا ہے ‘ اس کے دور میں ہوئی ذلت اور عسکری ہائی جک کے جھٹکے سے وہ اور فوجی قیادت ابھی سنبھلنے نہیں پائی ہے ۔آئرن ڈوم(قبۃ الحدید) کے جام کرنے کے ساتھ 4 ملٹری ٹاور کو تباہ و برباد کرتے ہوئے بڑی اہم اسرائیلی فوجی سربراہوں کا اغوا ٔ اور 15 یہودیوں کی ہلاکت کے جھٹکے ‘ رسوائی و ذلت سے سنبھل نہیں پائیں۔
غزہ شہرخود 1967 کی جنگوں سے متاثر پناہ گزینوں کی وجہہ سے مجبوراً وجود میں آگیا تھا ۔ موجودہ غزہ کے شہری سابقہ تین نسلوں سے اسرائیل کے ہاتھ تباہ و برباد اور ہلاک ہوتے آئے ہیں ۔ اگر اس نازک موقع پر عالم اسلام ذرا سی بھی غفلت کرے گا اور اپنے رسوخ‘ سفارتی تعلقات و سیاسی دباؤ کو استعمال نہیں کرے گا تو یقیناً فلسطینیوں کے لئے یہ وقت تباہی و ہمیشہ کے لئے بربادی کا ہوگا ۔
مسئلہ الاقصیٰ اور ارض فلسطین کا مسئلہ 56 مسلم ممالک مل کر 75 سالوں میں حل نہیں کرواسکے بلکہ ہمیشہ فلسطینیوں کو سوائے ایمرجنسی امداد کے ایسے ہی تباہ ہونے کے لئے چھوڑ دیا کرتے ہیں اگر 56 ممالک UNO میں متحدہ موقف اختیا رکرتے ہوتے تو ارض فلسطین اور الاقصیٰ ابھی تک آزاد ہوجاتا ۔ سیاسی و سفارتی سطح پر مضبوطی سے اس عالم اسلام کے مسئلہ کو پُر امن طریقے سے حل کرنے کی نہ کسی مسلم ملک میں ہمت و جرات پائی جاتی ہے اور نہ نیت صحیح ہے آپسی اختلافات ‘ تضادات اور لڑائیاں ‘ خانہ جنگی عالمی طاقتوں نے مسلسل حملے اور تسلط نے پڑوسی ممالک کو ہمیشہ کے لئے کمزور کردیا ۔
تمام عرب و مسلم حکومتوں کا یہی حال ہے ۔ اسرائیل کی کوششوں کو اس وقت کامیابی حاصل ہوئی جب بڑے مسلم حکومتوں کا یہ ذہن تیار کردیا گیا کہ یہ مسئلہ تو فلسطینوں کا اپنا داخلی مسئلہ ہے کیوں اپنے آپ کو اس میں جھونک کر بے وقوف بنیں اور اپنی ترقی کو داؤ پر لگائیں ۔ہر ملک پھر اپنی فوج کی کمزور صورت حال سے واقف ہیں ۔
Total No of Words: 1,985
Release on : 15-10-2023
Politics
سیاسی کریک ڈاؤن اور میڈیا کو دبانا: بھارت کے 2024 کے عام انتخابات سے پہلے بی جے پی کی حکمت عملی

بسمہ تعالیٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از: ناظم الدین فاروقی
NPA DOC No : 0166
Dated: 08-10-2023
ہندوستانی پارلیمنٹ کے عام انتخابات 24 کی تیاریوں کا آغاز ہوچکا ہے ۔ سیاسی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں ۔ 18 ویں لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی تیسری مرتبہ ایک طاقتور اکثریتی سیاسی پارٹی کی حیثیت سے اُبھرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ اپنی برتری اور بقأ کے لئے ہر سیاسی پارٹی کو پُر امن جدوجہد کا پورا حق ہے ۔ لیکن حکومت کی طاقت کو اپوزیشن اور پچھڑے ہوئے طبقات و اقلیتوں کے خلاف استعمال کرنا سیاہ جابرانہ سیاست کا ایک قبحہ پہلو ہے ۔ جیسے جیسےالیکشن قریب آرہا ہے ۔ED اور NIA کی حزب مخالف سیکولر میڈیا ‘ سیاسی قانونی دانشوروں و جہد کاروں کے خلاف کاروائیاں تیز تر کردی ہیں ۔ گزشتہ بھی ایسا ہی ہوتا رہا مدھیہ پردیش ‘ کرناٹک ‘ راجستھان ‘ ہماچل پردیش ‘ چھتیس گڑھ ‘ مہاراشٹرا میں اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کی بڑی تعداد ED کے خوف سے پریشان ہو کر پیسہ کی لالچ میں NDA یا بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی ۔ جن میں سیاسی قد آور شخصیتوں پر ED کے مقدمات کی تلوار لٹک رہی تھی یا پھر اپنی مضبوط سیاسی قیادت کو داؤ پر لگا کر بی جے پی کی سرکردہ سرکاریں شمولیت کو غنیمت سمجھا۔ یہ ہی حال میڈیا کا کر رکھا ہے ۔ جو صحافی اور میڈیا چیانل دائیں بازو کی پالیسیوں سے عدم اتفاق کرتے ہیں یا گودی میڈیا کی بیانڈ باجہ پارٹی میں شامل ہونے سے گریز کر رہے ہیں ان کی بدترین درگت بنائی جارہی ہے ۔
3 اور 4؍ اکٹوبر کو سیکولر میڈیا ‘ کمپنیوں و صحافیوں کے کم از کم 100 مقامات پر چھاپے مارے گئے آزاد ‘ سچ گو صحافیوں کو نشانہ بنا کر انھیں کمزور کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔
عام آدمی پارٹی نے دہلی انتخابات 20 کے موقع پر بی جے پی سے مفاہمت کرکے کامیابی حاصل کی تھی ۔ اس وقت مشرقی دہلی کے مسلم مخالف فسادات میں سخت دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 54 سے زیادہ لوگ ہلاک اور 12 سو دوکانات و مکانات جلا کر خاکستر کردیئے گئے تھے ۔ پھر بھی مسلمانوں کی کسی بھی قسم کی ہمدردی سے محض اس لئے احتراز کیا تھا کہ بڑے صاحب اور وزیر داخلہ ناراص نہ ہوجائیں ۔پولیس کا معاملہ حکومت دہلی کے تحت نہیں ہے لہٰذا مجھے ان فسادات اور ہلاکتوں سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے ۔ اس میں عام آدمی پارٹی کے مسلم ایم ایل ایز اور کاؤنسلرس بھی گرفتار کرلے گئے تھے ۔وقت گزر گیا۔اس سال کے ابتدا میں 153 اوقافی جائیدادوں کو حکومت نے واپس حاصل کرلیا یہ سب کس کے کہنے پر ہوتا رہا ہے ۔
اب جب کہ عام آدمی کے وزیر منیش سسوڈیا Manish Sisodia اور سنجے سنگھ Sanjay Singh یم پی کو ED نے گرفتار کرلیا ہے تو اروند کجریوال کو نریندر مودی اور بی جے پی کا کرپشن و بد عنوانیاں نظر آرہی ہیں۔
ملک کے سیاسی حالات تیزی سے کروٹ لے رہے ہیں ۔ کسی بھی وقت بی جے پی کا خاموش ساتھ دینے والی بعض جماعتوں پر کراک ڈاؤن ہورہا ہے ۔ عام آدمی پارٹی کی ناراضگی وقتی ہے یا پھر بغیر کسی سیاسی مفاہمت کے ڈٹ کر بی جے پی کے زیادتیوں کا مقابلہ کریں گے ۔ سپریم کورٹ نے سنجے سنگھ کی گرفتاری پر پھٹکار لگائی ہے ۔ کجریوال کی INDIA سے وفاداری دیر پا ہوگی کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔
ابھی سنجے سنگھ کا قصہ ختم نہیں ہوا تھا 12 سے زیادہ یوٹیوب چیانلس کے دفاتر و مالکین پر مختلف سنگین الزامات کے تحت دھاوے کئے گئے ۔نیوز کلک کے بعض ڈائرکٹرس اور نیوز کاسٹر ابھی شار شرما کو بھی زیر حراست لیا گیا تھا ‘ پوچھ تاچھ کے بعد انھیں رات دیر گئے چھوڑ دیا گیا ۔ نیوز کلک پر الزام ہے کہ وہ امریکہ میں موجود چینی نواز انڈین بزنس من سے 56 کروڑ روپیہ وصول ہوا تھا۔
پریس کلب اور پریس گلڈ اور دوسرے صحافیوں کے تنظیموں نے ED و پولیس کی گرفتاریوں کے خلاف جم کر احتجاج کیا اور 12 مشہور جرنلسٹوں نے چیف جسٹس آف انڈیا مسٹر چندجوڑ کو خط لکھ کر اپیل کی کہ قبل اس کے دیر ہوجائے فوری پریس کی آزادی کے تحفظ کے لئے اقدامات کریں ۔ورنہ ملک Dictatorial Democracy میں تبدیل ہوجائے گا اور جمہوریت کا ایک اہم ستون پریس کی آزادی کا گلا گھونٹ کر اسے ختمم کردیا جائے گا ۔ اس تکلیف کا احساس امریکی صدر جوبائیڈن نے G20 ستمبر کی میٹنگ میں شرکت کے بعد ۔۔۔گئے تو ان سے رہا نہیں گیا بلکہ اشارۃ ً کہا دیا کہ وہاس پریس کو آزادی حاصل نہیں ۔
180 ممالک کے عالمی پریس فرینڈم کے انڈیکس میں ہندوستان کا رینک گزشتہ سال 150 تھا اس سال 23 میں 11 گریڈ گرکر 161 تک پہنچ گیا ۔ نہ صرف یہ بلکہ سیاسی Indicator 24 گریڈ ‘ معاشیات میں 6 گریڈ ‘ قانون سازی باڈیوں میں 14 گریڈ ‘ سوشل Indication 16 گریڈ اور صیانتی 9 گریڈ گرچکے ہیں ۔ افغانستان ‘ پاکستان ‘ بھوٹان ‘ سری لنکا میں پریس کی آزادی ہندوستان سے بہتر ہے ۔
16؍ اکٹوبر کو کشمیر کی ایک پریس فوٹو گرافر سنا ارشاد میٹو ایر پورٹ پر امریکہ جانے سے روک دیا گیا ۔ ثنا کو امریکہ میں جرنلٹس شعبہ میں دیئے جانے والے اعلیٰ ترین انعام حاصل کرنے جارہی تھی ۔ امریکہ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی پریس کو آزادی ملنی چاہیئے ۔ اس طرح جرنلسٹوں پر سفر کی پابندی پریس کی آزادی کو ختم کردے گی ۔
سیول سوسائٹی اقلیتوں اور دلتوں کے جتنے دانشورو جہد کار ہیں یا پھر انھیں تعاون دینے والے ادارے ہوں حکومت ایک ایک کرکے ہر ہفتے ملک کے مخصوص شہروں اور علاقوں میں مسلسل کراک ڈاؤن کر رہی ہے ۔ حراست میں لے گئے افراد اور رپورٹرس ‘ نیوز کاسٹر سے عجیب و غریب ناقابل فہم سوالات کئے جارہے ہیں ۔ ابھشار شرما سے یہ تک پوچھ ڈالا کہ 3 سال قبل کیا شاہین باغ گئے تھے یا جعفر آباد دہلی 20 کے فسادات کے موقع پر وہ علاقے کا دورہ کیا تھا ۔
پریس ‘ میڈیا ‘ وکلا ٔ براداری اور آزاد خیال مخالف ہندوتوا فکر کے تمام دانشوروں کو بی جے پی حکومت اپنا دشمن تصور کرتی ہے۔ اقلیتوں کے کسی بھی احتجاجی پروگرام ‘ دھرنے اور جلوسوں کو خوف کے مارے اپنے لئے نیوکلئیر بم اور Mass Heads of Mass Distruction تصور کرنے لگی ہے ۔ اطلاعات کے مطابق NRC, CAA کے خلاف ملک کے دوسرے مقامات پر جو جو افراد شریک تھے ان پر بھی کراک ڈاؤن کی تیاری ہورہی ہیں ۔ ٹوئٹر ‘ فیس بک ‘ یو ٹیوب کو دن بھر نوٹس وصول ہوتے رہتے ہیں ۔ اور جہاں محسوس کرلیا گیا کہ خیرہ تبصرہ اور تجزیہ میں مودی ‘ بی جے پی کے خلفا کسی بھی قسم کا مواد ہے اس کا بند ہونا یا مقدمے کا دائر ہونا ضروری ہے ۔
منی پور کے فسادات سے ملک کا مستقبل کی اجڑنے والی تصویر کا بہتر اندازہ لگایا جاسکتاہے ۔لوٹ کھسوٹ ‘ لوٹ مار ‘ قتل و غارت گیری کا ایک مخصوص اپنا انتہا دہشت گرد ہندوتوا حزب و گروپوں کو حاصل ہے ۔ سوسائٹی کے تمام آزاد طبقات حصوں اور زندگی کے مختلف میدان میں خدمات انجام دینے والوں سے بی جے پی بہت خوف کھاتی ہے ۔ آر ایس ایس کے ایک دانشور روی اروراRavi Arrora نے ویدا اور جدید چیالنجس کو ملحوظ رکھتے ہوئے عصر حاضر میں ہندو سوسائٹی کو درپیش 5 بڑی جنگوں کا اپنی ضخیم کتاب میں تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔ وہ مسلمانوں ‘ کمینسٹوں ونکسلس کو Dividing Forces قرار دیتا ہے ۔ کتاب پڑھنے والا ہر غیر مسلم ہندوستانی یہ خیالات میں چلا جاتا ہے کہ وہ حالت جنگ میں ہے اور ہر سمت دشمنوں سے گھیرے ہوئے ہیں اور ان پر جو جنگ مسلط کی گئی ہے اس میں لڑ کر دشمن کو کچل کر فنا کردینا ہے ۔ اس نئی مہا بھارت کی جنگ میں لیل والنہار ہمیں ہمارے دشمنوں سے جنگ کرنا ہے وغیرہ ۔
تقاریر ‘ گودی میڈیا اور نام نہاد ہندوتوا کے دانشوروں کی تحریری اور کتابیں نفرت اور زہر سے بھری پڑی ہیں ۔ یہ وجہ ہے کہ ایک ہندوتوا کا ملک گیر سطح پر ایسا سیاسی ماحول بنادیا گیا ہے کہ اس میں اعلیٰ ذات ہندوؤں کے ہاتھوں دلت اور پچھڑے ہوئے طبقات کا بھر پور استحصال ہو ۔
بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار Nitish Kumar نے طبقات اور مختلف ذاتوں کا سروے جاری کردیا جس کی توقع بی جے پی کو ہرگز نہیں تھی ۔ اس سروے سے اندازہ ہوتا ہے کہ 2% اعلیٰ ذات برہمنوں کو 17% ریژرویشن حاصل ہے ۔ جب کہ دوسری ذاتیں اور مسلمان 12 تا 20% پر بھی انہیں کوئی تحفظات حاصل نہیں ہے ۔
اڑیسہ کے چیف منسٹر نوئین پٹنائک Naveen Patnaik اور کرناٹک چیف منسٹر سدارامیا Siddaramaiah نے بھی طبقاتی سروے کا اعلان کیا ہے ۔ جس سے ووٹروں میں ایک عام سیاسی بیداری پیدا ہوگی اور ہر طبقہ اپنے حقوق اور سیاست و ملازمتوں و حکومتی مراعات میں تحفظات پر دباؤ ڈالے گا ۔ اس کا اثر لازمی طور پر 18 ویں لوک سبھا الیکشن پر پڑ سکتا ہے اور ممکن ہے کہ بی جے پی گزشتہ انتخابات کی طرح بہتر نتائج حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہوجائے ۔
زور زبردستی ‘ ظلم و تشدد کے ذریعے شہریوں کو اپنی سیاسی وفاداریوں میں طویل عرصے تک محصور رکھنا اس میڈیاو ڈیجیٹل کی دنیا میں مشکل ہے ۔ بد عنوانیوں ‘ بوتھ منیجمنٹ ‘ کرپشن ‘ توڑ جوڑ ‘ خرید و فروخت ‘ ڈرا دھمکا کرMLA اور MP’s کو تائید میں لے کر حکومتیں تشکیل دینا تو آسان ہوسکتا ہے لیکن اس کی برقراری اور سیاسی استحکام نا ممکن ہوجاتا ہے ۔
آئندہ چند ماہ میں ہونے والے 5 ریاستوں کے ریاستی انتخابات بڑی اہمیت رکھتے ہیں ان ریاستوں راجستھان ‘ مدھیہ پردیش ‘ چھتیس گڑھ ‘ تلنگانہ میں بی جے پی کی سیاسی صورت حال بہت کمزور نظر آرہی ہے ۔
دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی قیادت ریاستوں میں انتخابی کامیابی کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے یا پھر ہمیشہ کی طرح ووٹ کا پیاٹرن تبدیل کرنے کے لئے کوئی چونکہ دینے والا حیرت انگیز حادثہ اور دھماکہ خیز صورت حال پیدا کردی جائے ۔ ستیہ پال ملک سابق گورنر جموں و کشمیر کے مطابق پلوامہ میں معصوم درجنوں فوجیوں کی ہلاکت عین انتخابات سے قبل مشکوک ہے ۔
INDIA جب تک مضبوط میدان میں اپنی سیاسی سرگرمیوں کو ووٹروں سے نہیں جوڑتی ‘ اس وقت تک INDIA کا بی جے پی کو شکست دینا بہت مشکل اور نا ممکن قرار پاتا ہے ۔
Total No of Words: 1,766
Release on : 08-10-2023
-
Social Issues7 months ago
مدرسہ کو۔۔۔مدرسہ قیادت سے شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔!
-
Social Issues7 months ago
مسئلہ نکاح مسیار
-
Social Issues7 months ago
عدل و انصاف کا قتل!
-
Politics7 months ago
سیاسی کریک ڈاؤن اور میڈیا کو دبانا: بھارت کے 2024 کے عام انتخابات سے پہلے بی جے پی کی حکمت عملی
-
Social Issues7 months ago
مسئلہ فلسطین کا سفارتی و سیاسی حل نکالنے میں ہماری عدم دلچسپی!!
-
Politics7 months ago
اسرائیل کی حماقت اور حماس کی حقیقت
-
Blog7 months ago
مسجد اقصیٰ کا تحفظ خطرے میں!!
-
Blog7 months ago
ملک میں بے روزگاری کا بھیانک سُلگتا ہوا مسئلہ